صحافت کے اصول ،مزاج و مقاصد

حضرت مولانا سیدمحمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ
سابق صدرآل انڈیامسلم پرسنل لاءبورڈ
عصر حاضر میں وسائل نشر و اعلام اور ذرائع ابلاغ کو جو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔موجودہ صحافت نہایت ہمہ گیر اور مؤثر ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ، آج اس سے وہ کام لیے جا رہے ہیں جو بمبار طیاروں اور دور مار میزائیلوں سے نہیں لیے جا سکتے، اہل خلوت و اہل سیاست کے ذہن بنانا،ان کی رایوں کو تیار کرنا ، حکومتوں کی ساکھ گرانا یا بڑھانا،تدابیر سجھانا، حوصلہ افزائی یا ہمت شکنی کرنا یہ سب کام آج کی صحافت انجام دے رہی ہے،اچھے کردار کی مالک شخصیتوں کو صحافتی شعبدہ بازی کے ذریعے ذلیل و رسوا بنانا،اور قاتل و ظالم لوگوں کو ملک و قوم کا مخلص خادم اور غمگسار ثابت کر دینا،کسی کی کرسی متزلزل کر دینا،کسی کی کرسی مضبوط بنا دینا موجودہ صحافت کا وطیرہ بن گیا ہے۔ آج کا انسان صرف وہی سنتا اور مانتا ہے جو صحافت ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، ویڈیو ، فلم ،اور پمفلٹ اس کو دکھاتے یا سناتے ہیں کیونکہ دنیا کو، اور اپنے قریب و بعید کے انسانوں اور ان کے معاملات کو جاننے کے صرف یہی ذرائع ہیں اور یہ ذرائع خاص ہاتھوں میں ہیں اور خاص ذہنوں کے پابند ہیں جو اپنے مخصوص مقاصد رکھتے ہیں، وہ ان مقاصد کے لیے دروغ گوئی، ملمع سازی، الٹ پھیر ، اور سخن سازی کے ہر طرح کے طریقے اختیار کر لیتے ہیںاور یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے کہ ایک بالکل معمولی خبر بار بار بڑی اہم صورت بنا کر پیش کی جائے ،تو سیکڑوں افراد بے ساختہ یقین کرنے لگیں گے،اور اب مسئلہ سینکڑوں کا نہیں رہا۔معیاری روزنامے روزانہ کئی کئی لاکھ نسخوں کی تعداد میں نکلنے لگے ہیں،ایسے اخبارات میں کوئی بھی خبر چھ ،سات لاکھ آدمی بیک وقت پڑھتے اور یقین کر لیتے ہیں،بعض حکیمانہ کتابوں میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بار چند شاطر افراد نے ایک شخص سے بکرا چھیننے کا پلان بنایا جو اسے رسی میں باندھے لیے چلا جا رہا تھا۔انہوں نے طے کیا کہ ان میں سے ہر ایک اس بکرے والے کے پاس سے باری باری گزرے اور کوئی ایسی بات کہے جس سے یہ اندازہ ہو کہ وہ بکرا نہیں کتا ہے ۔چنانچہ پروگرام کے تحت پہلا چور آیا اور اس نے کہا کہ جناب اپ کا کتا بڑی اچھی نسل کا معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا آیا اور بولا: جناب والا! آپ کے کتے کی آنکھیں بڑی چمکدار معلوم ہوتی ہیں۔تیسرا آیا اور بولا: آپ کے اس کتے کی کیا قیمت ہوگی؟ اسی طرح چوتھا اور پانچواں بھی آیا ، اور کوئی نہ کوئی ایسا لفظ ضرور کہا جس سے معلوم ہو کہ یہ کتا ہے بکرا نہیں۔چنانچہ اس شخص نے وہم اور آسیب سمجھ کر بکرے کو چھوڑ دیا،کہ وہ غالباً دھوکے میں کتے کو بکرا سمجھ کر لے جا رہا ہے ، وہ یہ سمجھا کہ مجھ پر جنون کا اثر یا شیطانی سایہ پڑ گیا ہے تبھی تو مجھے کتا بکرا نظر آرہا ہے ۔موجود حالات میں بھی صحافت کا اور ریڈیو کا یہی اصول اور شعار ہے کہ وہ غیر اہم اور بے بنیاد بات کو بھی اتنی طاقت سے اچھالتے ہیں کہ وہ اہم ترین اور بالکل صحیح اور نتیجہ خیز بات معلوم ہونے لگتی ہے ،اور اسی طرح اس کے برعکس بھی کرتے ہیں ،اور بہت سی باتوں کو ان کے صحیح حال میں بھی نہیں پیش کرتے ہیں تاکہ ان کا غلط اس میں چھپ سکے ۔
با وجودیکہ یہودیت آج دنیا میں بہت قلیل تعداد میں پائی جاتی ہے ،اس کے باوجود وہ عالمی صحافت اور ذرائع ابلاغ پر پوری طرح قابض ہیں ۔ دنیا کے تمام ملکوں خصوصاً عالم اسلام میں وہ بارودی سرنگوں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں ۔ حقائق کو مسخ کر کے اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں یہودی صحافت کو خاص ملکہ حاصل ہے ۔ وہ جس واقعہ کو جس رنگ میں پیش کرنا چاہتے ہیں پیش کرتے ہیں ، پوری دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، اور اگر کہیں اتفاق سے کسی یہودی کے تلوؤں میں کانٹا بھی چبھ جائے تو اسے صفحہ اول میں جلی سرخیوں میں شائع کرتے ہیں ۔ کوئی بھی مسلم حکمران ، یا امیر جب کوئی ایسا اقدام کرتا ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کو تقویت پہنچتی ہو تو اس کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ، اور بنیاد پرستی ، تاریک خیالی ، ظلم و بربریت کا الزام لگاتے ہیں ،اور دنیا کے سامنے اسے اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ گویا یہی پوری انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ، البتہ ان سیاست دانوں اور حکمرانوں کی مدح سرائی میں ضرور زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں جو ان کے خونی ہاتھوں کا کھلونا بنے رہتے ہیں ، اور ان کے ناپاک عزائم کی تکمیل اور صہیونی منصوبوں کی تنفیز کے لئے آلہ کار بنے رہتے ہیں ۔عصر حاضر میں ہر اسلام پسند کو رجعت پسند ،اصول پرست ، دقیانوس ، تشدد پسند ، دہشت گرد ، فنڈا منٹلسٹ ، انسانی حقوق کو پامال کرنے والا ، جیسے القابات سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
خود امریکہ کے اندر یہودی بہت معمولی تعداد میں ہیں ، مگر وہاں کی بھی سیاست کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھوں میں ہے امریکہ کی خارجہ پالیسی انہیں کے اشارہ ابرو پر طے پاتی ہے ، وہ جس کو پسند کرتے ہیں اس کے لیے ایسی صحافتی و مالی تقویت کا ذریعہ بنتے ہیں کہ وہ کرسئ صدارت تک پہنچنے کا آسان راستہ پالیتا ہے ، اور جسے نا پسند کرتے ہیں اس کی خوبیاں صلاحیتیں ، اور فائدہ مندی کچھ کام نہیں دیتی ، اور وہ کرسی حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے ، اور یہی وہ داخلی محرک ہے جو امریکہ کو اسرائیل کی پشت پناہی اور حمایت پر مجبور کرتا ہے ، حالانکہ امریکہ کی غالب آبادی عیسائیت اور سیاہ فاموں اور مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔
اور اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں ، اول یہ کہ وہ پڑھنے لکھنے ، تحقیق و مطالعہ اور بحث و نظر میں کافی جاں فشانی اور عرق ریزی سے کام لیتے ہیں، اور کسی بھی خاص موضوع سے متعلق تحقیق کے نقطئہ انتہاء ، تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ، تاکہ وہ جو بھی رائے پیش کریں اس میں ایک وزن ہو ، انہی وجوہات کی بنا پر جب وہ کسی نظریے اور فکر کو علمی حلقے میں پیش کرتے ہیں تو ان کے علمی رعب سے متاثر ہو کر ان کی رائے کو لوگ وزنی سمجھنے لگتے ہیں، اس سلسلے میں انسانی نفسیات کا سمجھنا مفید ہے سامع یا قاری کی صلاحیت فہم اور لیاقت صلاحیت اخذ اور پسند و ناپسند کی نفسیت کو سامنے رکھنا مفید ہوتا ہے یورپ اور امریکہ کی تعلیم و ثقافت میں صحافت و ذرائع ابلاغ کو انہی اصولوں پر مرتب کیا گیا ہے اور چونکہ وہاں کے ہر ذرائع ابلاغ پر یہودی غالب ہیں لہذا اس کا فائدہ وہی اٹھا سکتے ہیں اور اٹھا رہے ہیں ذرائع ابلاغ کے کلیدی منصوبوں پر یہودی طویل پلاننگ اور سخت فکر و تدبر سے پہنچے ہیں اور پہنچ جانے کے بعد اب ذہنوں کی کنجی ان کے ہاتھوں میں ہے، مغربی صحافت کا یہ حال ہے کہ اس وقت وہاں کا ہر اخبار تقریبا ڈیڑھ دو لاکھ کی تعداد میں چھپتا ہے اور ہر نسخے کو پڑھنے والے بھی دو تین افراد ہوتے ہیں اس طرح ایک اخبار سے کم از کم تین چار لاکھ افراد متاثر ہوتے ہیں اور یہ اخبارات عموما کئی درجن صفحات پر مشتمل ہوتے ہیں اور تعطیل کے روز یہ صفحات 100 ڈیڑھ سو صفحات تک متجاوز ہو جاتے ہیں اس کے باوجود ان کی قیمت وہی عام قیمت ہوتی ہے کیونکہ ان اخبارات کا یہ خسارہ دراصل اشتہارات سے پورا ہو جاتا ہے اور اخبار حقیقت میں اس کے بغیر اپنے مصارف کو پورا نہیں کر پاتا یہ بات دنیاوی اور غیر دینی اخبارات کو زیادہ حاصل ہے پابند اخلاق و اقدار کو کم حاصل ہے لیکن پابندی اخلاق و اقدار اخبارات کی سرپرستی اصلاح پسند ادارے اور نیک مقاصد کے حامل سرمایہ دار کر سکتے ہیں اس طرح دنیا میں خیر کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
روز ناموں کے صفحات کی یہ بڑی تعداد اسی لیے ہوتی ہے کہ ان میں ہر قسم کی معلومات شامل ہوتی ہے اس کے الگ الگ صفحات اور ابواب ہوتے ہیں تاکہ جس کو جس موضوع سے دلچسپی ہو اس کا مطالعہ کرے مثلا سیاسی اقتصادی تجارتی ثقافتی ادبی تاریخی تنقیدی سماجی اور اشتہاری وغیرہ ایک موضوع کو پڑھ کر ایک ادمی چھوڑ دیتا ہے اور دوسرا شخص اسی اخبار سے دوسرے موضوع سے فائدہ اٹھاتا ہے، اسلامی صحافت عصر حاضر میں وسیع پیمانے پر نہیں چل رہی ہے مغربی صحافت کے مقابلے میں تو بہت پیچھے ہے لیکن ادھر کچھ دنوں سے اسلامی صحافت میں بلاد عربیہ میں اچھی ترقی کی ہے عربی ممالک جو دولت مند ہیں ان کے اہل خیر کی سرپرستی اسلامی صحافت کو خاصی ملنے لگی ہے، اسی سے ان کو تقویت پہنچی یہ صحافت کہیں کہیں مغربی صحافت کے معیار کو چھونے لگی ہے اور وہ عصر انداز بھی خاصہ ہونے لگی ہے اج عالم اسلام خصوصا عالم عربی سے سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں رسائی لو جرائد نکل رہے ہیں ان میں سے متعدد جو اپنے ظاہری محاسن اور رنگ و جمال کے ساتھ ساتھ معنوی خوبیوں میں بھی ممتاز ہوتے ہیں ان پر چونکو کسی بھی مغربی پرچے کے بالمقابل پیش کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ اسلامی صحافت درحقیقت امت اسلامی کی یکجہتی یگا نگت اور اتحاد کے لیے مہمیز کا کام کرنے لگی ہے، آج ملت اسلامیہ کے بہت سے نوجوان عموما اس نقطہ نظر سے عالمی تبدیلیوں اور بین اقوامی حوادث کو دیکھنے لگے ہیں جس کی جانب نئی نسل کو متوجہ کرنا ضروری ہوتا ہے اسلامی صحافت اس عمل کو انجام دے رہی ہے ان کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز یکسر بدلتا جا رہا ہے، اور وہ آہستہ آہستہ مغربی زبان میں گفتگو کرنے کے بجائے عزت نفس اور خودداری کی زبان میں گفتگو کرنے لگے ہیں، دین سے شغف بڑھ رہا ہے، ہر طرف اسلامی لہر اسلامی بیداری اسلامی انقلاب اسلام پسندی اسلام کی واپسی کے نعروں کی جو صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہیں وہ بھی اسلامی صحافت کی ہی کوششوں کا ثمرہ ہے۔
اسلام پسندوں کے غلغلہ سے مغربی اور یورپی حکمرانوں خصوصا وہائٹ ہاؤس کے مکینوں کی نیند حرام ہونے لگی ہے، چنانچہ تاریخ میں پہلی مرتبہ یہودیت اور عیسائیت ایک پلیٹ فارم سے اسلام پر حملہ آور ہو رہی ہیں ، بہت سے اسلامی ملکوں میں اسلامی حدود اور شرعی قوانین کے نفاذ کی بات کہی جا رہی ہے یہ سب کچھ اسلامی صحافت کی دین ہے اسلامی صحافت کے حرکت میں انے کی وجہ سے ہمیں اصل حقائق سے واقفیت بھی ہوتی ہے ورنہ کیسے معلوم ہوتا کہ عراق، فلسطین، بورما، فلپائن، الجزائر، صومال، روسیی، جمہوریاوں، خصوصا بوسنیا، اور آزر بائیجان، وغیرہ میں کیا ہو رہا ہے؟
مغربی ذرائع ابلاغ ان تمام خونچکان مظالم اور دہشت و بربریت پر پردہ ڈالتے رہتے ہیں، جو مغربی بھیڑیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے اوپر ڈھائے جاتے ہیں ، مگر اج اسلامی صحافت ان کے جھوٹ کا پول کھول دیتی ہے حقیقت یہ ہے کہ ان رسائل و اخبارات نے ملت اسلامیہ کو ایک رسی سے منسلک کر دیا ہے مگر پھر بھی اسلامی صحافت کے اندر ابھی بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے اور اسے وسیع پیمانہ پر لانے کی ضرورت ہے، اس ضمن میں اسلامی صحافت میں ایک عنصر خراب رول انجام دے رہا ہے، یہ عنصر صرف نفع بٹورنے اور مالی فائدہ حاصل کرنے کو مقصود بنائے ہوئے ہے اور سنسنی خیزی کو اس کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے ، اس کو اس کی مطلق پرواہ نہیں کہ شریف اور باوقار لوگ بدنام ہو جائیں اور اسلام کے فرزندوں کی ذلت و رسوائی کا سامان ہو ان کو تو اپنی سنسنی خیزی سے رائی کا پربت اور پربت کا رائی بنانا ہے تاکہ ان کا اخبار فروخت ہو اور عوام اس کی سنسنی خیزی سے متاثر ہو کر اس پر ٹوٹ پڑے اور خوب بھی کہہ یہ اسلامی صحافت نہیں ہے یہ نام نہاد مسلم صحافت ہے جو افسوس ہے کہ کامیاب چل رہی ہے ہمارے سامنے سب سے اہم مسئلہ جدید صحافت کے مزاج جو میلانات و مقاصد اور اس کے ظاہر کے پیچھے جو باطن ہے اس کا سمجھنا ہے ورنہ ہم فائدہ اٹھانے کے بجائے نقصان اٹھائیں گے اور پوری قوم کو بھی نقصان سے دوچار کریں گے صحافت کیا ہے؟ اس کے اصول و طریقے اور موثر ڈھنگ کیا ہیں؟ اس کے راست بازی اور عیاری کیا ہے؟ اور پڑھنے والوں پر اس کا اثر کن کن راستوں سے ہوتا ہے؟ ان سب کا علم ضروری ہے صحافت کے مختلف میدان عمل ہوتے ہیں مثلا سیاسی میدان اس میں ایڈیٹر یا مقالہ نگار عموما کسی سیاسی رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں اور بہت سے اپنی بات کہتے ہیں اگر کسی سیاسی جماعت سے منسلک ہیں تو اس کی حریف جماعت کے خلاف نئے نئے شو سے چھوڑتے رہتے ہیں اس طرح کے صحافت عام طور پر روزنامہ سحر روزہ اور ہفتہ وار پرچوں کے ذریعے چلتی ہے دوسرا میدان ثقافتی ہے جس میں مقصد معلومات بہم پہنچانا ، خبر ہے اور ثقافتی امور سے واقف کرانا ہوتا ہے یہ ایک طرح سے تربیتی وہ ادبی کام ہے یہ صحافت عام طور پر ہفت روزہ اور 15 روزہ اور ماہانہ سطح پر کی جاتی ہے تیسرا میدان اسلامی اخلاقی وہ دینی ہے اس میں اصلاح حال اور اخلاق و دین کی طرف مائل کرنا اور غلط راستوں سے ہٹانا اچھے راستوں کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے یہ صحافت بھی عموما ہفت روزہ اور ماہانہ ہوتی ہے اور یہ دعوتی و تربیتی کام ہے چوتھا میدان کسب معاش اور نفع اندوزی کا ہے اس میں صحافت کو اپنے ذاتی معاش کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یہ چبھتے ہوئے موضوع کو اختیار کرتی ہے، اور جاذب نظر اور نفس انسانی کو متوجہ کرنے والے موضوعات اور اس لوگوں کو اختیار کرتی ہے اقتصادی صحافت یہ پانچواں میدان ہے اس میں مال انتفا اور مالک ترقی کے مقصد سے باتوں کو مرتب کیا جاتا ہے اور مضامین کو ڈھالا جاتا ہے اس میں خیر و شر سچ جھوٹ اخلاص و عیاری کے درمیان فرق نہیں کیا جاتا بس جس طرح نفع ہو وہ کیا جاتا ہے بہرحال صحافت کا جو بھی میدان ہو اس میں مدیر یا صاحب قلم ایک مخصوص ذہنی مقصد کو لے کے چلتا ہے اور تمام مضامین اور مقالوں کو اسی کے تحت رنگ کر پیش کرتا ہے اور قاری رفتہ رفتہ غیر محسوس طریقے سے اس کے افکار و تصورات کا ہم نوا بن جاتا ہے لہذا سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم صحافت کے اصول و مزاج کو سمجھیں اور ان حدود کا تعین کریں جن میں رہ کر ہمیں کام کرنا ہے نیز اپنے ا اندر اتنی استعداد بھی پیدا کریں کہ اپنی فکر کو تعلیم یافتہ طبقہ کے سامنے طاقتور اور ٹھوس انداز میں پیش کر سکیں۔
Comments are closed.