فلسطین کا مسئلہ حرم قدسی سے جڑا ہوا ہے اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت تمام مسلمانوں کا ملی و دینی فریضہ ہے

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مفتی یوسف تاؤلی اور مولانا عطاء الرحمن کا خطاب

بنگلور: 30/نومبر (پریس ریلیز) مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی محمد یوسف تاؤلی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ کے فضائل و مناقب اور مختلف پہلوؤں و خصوصیات کا تذکرہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں متعدد دفعہ بیان کی گئی ہیں۔ مسجد اقصیٰ، مسجد حرام اور مسجد نبویؐ کے بعد مذہب اسلام کی سب سے زیادہ مقدس مسجد ہے۔ اسی مسجد میں ہمارے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس پیغمبروں کی سرزمین، ان کی آخری آرام گاہ، سرور کائنات ؐے سفر معراج کی پہلی منزل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ طلوعِ اسلام کے بعد بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہئ اول قرار پایا۔ جس کی طرف ہمارے ہادی ورہبر حضرت محمدرسول اللہ ؐ اپنا رخ اقدس کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس لئے تاریخی و مذہبی حیثیت سے بیت المقدس اسلام کے عظیم الشان تاریخی آثار و باقیات اور روایات کا اہم جز وہے، یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کسی بھی وقت اور کسی بھی حال میں اس سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔ مولانا نے فرمایا کہ ارض فلسطین وہ مبارک سرزمین ہے جس کے ذرے ذرے پر چودہ صدیوں کی اسلامی تاریخ کے نقوش ثبت ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ غاصب اسرائیلی حکومت اور ظالم صیہونی درندے اسی مسجد اقصیٰ کو شہید اور اسکی حرمت کو پامال کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ قبلتین یعنی مکہ مکرمہ اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت تمام مسلمانوں کا ملی و دینی فریضہ ہے، لہٰذا جس طرح ہم مکہ مکرمہ کے تحفظ کیلئے متفکر ہوتے ہیں اور ہونا بھی چاہیے، اسی طرح مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی کاندھوں پر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قرآن مجید میں یہود ونصاری سے دوستیاں کرنے کی اللہ تبارک و تعالیٰ ممانعت فرمائی ہے۔وہ مسلمانوں کے دوست ہرگز نہیں ہوسکتے کیونکہ انہیں دین اسلام سے بغض و عداوت ہے۔ افسوس کہ آج اس قوم سے بعض اسلامی ممالک دوستی کا ہاتھ ملا رہے ہیں اور یہی وجہ ہیکہ آج یہ حالات پیش آرہے ہیں۔مولانا نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہم اپنے اسلاف بالخصوص بیت المقدس کو فتح کرنے والے ہمارے بزرگوں کی روایات پر عمل پیرا ہوکر مسجد اقصیٰ اور ارضِ فلسطین کی آزادی کیلئے کوششیں کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد امت مسلمہ کا دینی و اجتماعی فریضہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیت المقدس کی بازیابی کے لیے پوری مسلم امہ اپنے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔
مرکز تحفظ اسلام ہند کے”تحفظ القدس کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے امارت شرعیہ شمال مشرقی ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب مدظلہ نے فرمایااسرائیل گزشتہ 73 /برس سے وقتاً فوقتاً فلسطینیوں پر حملے کرتا آ رہا ہے، جس میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور لاکھوں نقل مکانی پر مجبور کیے گئے۔ مولانا نے فرمایا کہ سن 1882ء میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی قائم کی گئی اور گزرتے سالوں میں فلسطینی سرزمین پر دنیا کے مختلف ممالک اور کونوں سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا جانے لگا اور اس عمل میں جنگ عظیم اول کے بعد تیزی دیکھی گئی۔ جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک اور خطوں پر کنٹرول حاصل کیا اور فلسطین انگریزوں کے حصے میں آیا۔ برطانوی کابینہ کے یہودی ارکان نے 1915 میں تجویز پیش کی کہ فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کا ملک بنایا جائے، جس کے بعد امریکا اور برطانیہ میں صیہونی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں تیز ہوئیں اور 1922ء میں اس وقت کے عالمی ادارے لیگ آف نیشن نے بھی فلسطینی سرزمین پر صیہونی ریاست کی منظوری دی۔ مولانا نے فرمایا کہ جنگ عظیم دوم کے آغاز میں ہی برطانوی حکومت نے یورپ کے مختلف ممالک سے یہودیوں کو فلسطینی سرزمین پر منتقل کرنا شروع کیا، جس کے خلاف فلسطینیوں نے اس وقت بھی مظاہرے کیے لیکن ان مظاہروں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد اقوامِ متحدہ وجود میں آیا جہاں سے مسئلہ فلسطین پر امریکی کردار غالب ہو گیا۔ برطانوی حکومت نے 1936ء میں فلسطینی سرزمین کو تقسیم کرنے کے لیے پیل کمیشن کا قیام کیا، جس نے تاریخی طور پر عربوں کی سرزمین پر صیہونی ریاست کو قائم کرنے کی تجویز دی، جس کے بعد دنیا بھر کے یہودی اپنی پہلی ریاست کے قیام کے لیے متحرک ہوگئے اور انہیں امریکا سمیت اس وقت کی دیگر بڑی ریاستوں کی حمایت حاصل رہی۔ برطانیہ فروری 1947 میں مسئلہ فلسطین اقوامِ متحدہ لے گیا جہاں اس کے لئے سپیشل کمیٹی بنائی گئی۔ جہاں اسرائیل کاقیام عمل میں لانا طے پایا۔ مولانا نے فرمایا کہ صیہونیوں کی جانب سے ریاست کے قیام سے قبل ہی شروع کی گئی دہشت گردی کے چند ماہ بعد 15/ مئی 1948 کو اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ اور سوویت یونین کی حمایت سے آزاد اسرائیل ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اسرائیل تو ایک الگ مملکت بن گیا جو ایک غاصب ملک ہے لیکن فلسطینیوں کی الگ ریاست پر اتفاق کو مسلسل کٹھائی میں ڈال کر نوبت موجودہ غزہ تک پہنچائی گئی۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے اور یہ جنگ جو مسلسل گزشتہ 75 سالوں سے جاری ہے،یہ آزادی کی جنگ ہے۔ اور فلسطینی مسلمان پورے عزم و حوصلے، ثابت قدمی، استقامت کے ساتھ قربانیوں کی پرواہ کیے بغیر آزادی کی راستے پرگامزن ہیں۔ چاہے مشکلات کتنی ہی سخت کیوں نہ ہوجائیں فلسطینی قوم اپنی آزادی کے حق سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ وہ صہیونی ریاست کیوجود کے خاتمے تک اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔ کیونکہ فلسطین کا مسئلہ صرف زمین کا نہیں بلکہ حرم قدسی مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین بیت المقدس سے جڑا ہوا ہے جو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت اس مقدس شہر کو غصب کر لینے اور ہضم کر جانے اور شہر کے اسلامی آثار کو محو کر دینے کی گوناگوں صیہونی سازشیں چل رہی ہیں۔ اس شہر کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ پورا بیت المقدس پورے فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ مسلمان ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ دشمنوں کی ناپاک سازشیں عملی جامہ پہنیں، وہ ان سازشوں کا مقابلہ کریں گے۔ ایسے حالات میں پوری امت مسلمہ کو متحد ہوکر اہل فلسطین کا ساتھ دینا چاہیے اور چونکہ یہ زمین اسلامی سرزمین ہے جو اس وقت دشمنان اسلام کے قبضے میں ہے، اسے بازیاب کرایا جانا چاہئے۔قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دارالعلوم دیوبندکے محدیث حضرت مفتی محمد یوسف تاؤلی صاحب اورامارت شرعیہ شمال مشرقی ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

Comments are closed.