Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد۔جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کو کیمیکل سے دھونا
سوال:- قرآن مجید کے جو اوراق بوسیدہ ہوگئے ہوں ، ان کا کیا حکم ہے ؟ فی زمانہ ایسے کیمیکلز بھی آگئے ہیں ، جن کے ذریعے چھپے ہوئے حروف کو دھویا جاسکتا ہے ، تو کیا قرآن مجید کو دفن کرنے کے بجائے کیمیکل کے ذریعے اس کے حروف کو دھویا جاسکتا ہے ؟ ( محمد بلال احمد، کریم نگر)
جواب : – قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کے لئے فقہاء نے مختلف صورتیں لکھی ہیں : ایک صورت اسے نذر آتش کردینے کی ہے ؛ لیکن اس میں ایک پہلو بے احترامی کا بھی ہے ، اس لئے زیادہ تر اہل علم نے اس سے منع کیا ہے ، دوسری صورت کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر پاک جگہ میں دفن کرنے کی ہے ، اسے بہتر قرار دیا گیا ہے ، تیسری صورت حروف کو دھودینے کی لکھی گئی ہے : إذا صار المصحف خلقا ینبغی أن یلف في خرقۃ طاہرۃ یدفن في مکان طاہر أو یحرق أو یغسل (سراجیہ:۷۱) کیمیکل سے دھونا بھی دھونے ہی کی ایک صورت ہے ، اس لئے اس طریقہ پر بھی دھونے میں مضائقہ نظر نہیں آتا ، بلکہ یہ صورت زیادہ قرین احتیاط معلوم ہوتی ہے ، دھونے کی شکل یہ ہونی چاہئے کہ اس سیال مادہ کو کسی برتن میں جمع کرکے پاک مٹی پر بہا دیا جائے ؛ تاکہ وہ اچھی طرح جذب ہوجائے اور بہتر ہے کہ ایسی جگہ بہایا جائے جو لوگوں کی عام گذر گاہ نہ ہو ۔

کمرکا نچلا حصہ سُن کر دینا ناقض وضو ہے
سوال :- آج کل علاج کی بعض صورتوں میں جسم کو سُن کر دیا جاتا ہے، تو اگر کمر میں انجکشن لگایا جائے جس سے کمر کے نیچے کا حصہ سُن ہو جائے تو کیا اس کی وجہ سے وضوٹوٹ جائے گا ؟ (محمد صالح، ملے پلی)
جواب :- نیند کو ناقص وضو قراردیا گیا ہے ؛ کیونکہ اس صورت میں انسان کی اپنے اعضاء پر گرفت باقی نہیں رہتی اور اعضاء جسم ڈھیلے پڑ جاتے ہیں خود حدیث میں اس کا ذکر موجود ہے ، (ابوداؤد:۱؍۲۷)اسی بنیاد پر فقہاء نے بیہوشی کو بھی ناقض وضو قرار دیا ہے ، (ہدایہ:۱؍۲۵)اگر کمر کے نیچے کاحصہ سُن ہو جائے تو اس میں بھی یہی کیفیت پائی جاتی ہے اور خروج ریح کا کوئی احساس نہیں ہوتا ؛ اس لئے یہ صورت بھی ناقض وضوہے ۔

قبروں اور حمامات وغیرہ کے پاس نماز
سوال:- اکثر مساجد میں قبریں ہوتی ہیں ، بیت الخلاء ہوتے ہیں ، غسل خانہ بھی ہوتا ہے ، شارع عام پر جمعہ و عیدین کی نماز جہاں کوڑا کباڑ بھی ہوتا ہے ، ادا کی جاتی ہے ، اگر ان چیزوں کا خیال کرتے ہوئے نماز ادا کی جائے تو فرض یا واجب نماز ادا ہوگی یا نہیں ؟( محمد وسیم، حیدرگورڈہ)
جواب:- اس طرح تو نماز پڑھنا منع کیا گیا ہے کہ نمازی کے سامنے قبر ہو ؛ کیوںکہ اس سے غیر اﷲ کی عبادت سے اشتباہ پیدا ہوتا ہے ، اسی طرح قبر کے اوپر بھی نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ، کیوںکہ یہ قبر کے احترام کے خلاف ہے ؛ اس لئے مسجد میں قبر نہیں بنانی چاہئے اور ایسے حصہ میں بھی قبر بنانے سے بچنا چاہئے ، جس میں امکانی طورپر مسجد کی توسیع ہوسکتی ہے ، عام طورپر مسجدوں میں جو قبریں ہیں ، وہ شروع میں حدود مسجد سے باہر تھیں ، بعد میں توسیع کے درمیان مسجد کے اندر آگئیں ، ایسی قبروں پر بہ طور پردہ کے نمازی کی طرف سے ایک باریک دیوار سترہ کے بقدر اٹھادینی چاہئے ، بہر حال ! ایسی مسجدوں میں بھی نماز ہوجاتی ہے ؛ البتہ قبر سے متعلق مذکورہ احکام کو پیش نظر رکھنا چاہئے ، اگر کبھی نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے بیت الخلاء ، حمامات کے قریب یا شارع عام پر نماز پڑھنی پڑے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے پاکی کا خیال رکھیں اور جائے نماز یا کسی صاف ستھری چیز کو بچھاکر نماز ادا کریں ، غرض کہ پاکی کی رعایت کے ساتھ ان مواقع پر بھی نماز ادا ہوجاتی ہے ، چاہے فرض ہو یانفل۔

کیا بیوی شوہر کا نام لے سکتی ہے؟
سوال:-بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے یا نہیں ؟( تبسم جہاں، فلک نما)
جواب:- اگر شوہر کا نام اس کے تعارف کے لیے غائبانہ میں لیا جائے مثلافلا ں شخص کا خط آیا ہے یا فلاں شخص نے یہ بات کہی ہے، تو اس میں حرج نہیں ،البتہ اگر شوہر کومخاطب کرناہو تو اس کو نام لے کر پکار نا چوں کہ خلاف احترام محسوس ہوتاہے اس لیے فقہاء نے اس کو مکروہ قراردیاہے اور یہ کچھ شوہرہی کے ساتھ مخصوص نہیں،بلکہ اپنے دوسرے بزرگوں کو بھی نام سے مخاطب کرنے سے اجتناب کرناچاہئے : یکرہ أن یدعوا الرجل أباہ والمرأۃ زوجہا باسمہ، کذا فی السراجیۃ (ہندیہ: ۱؍۳۶۲)

غیر ساتر ملبوسات کی فروخت
سوال:- آج کل فیشن کے طور پر ایسے ملبوسات پہنے جاتے ہیں جن سے خواتین کا پورا بدن ڈھکتا ہی نہیں ہے ، کیا ایسی ملبوسات کو فروخت کرنا درست ہوگا ؟ ( عنایت علی، چھتہ بازار)
جواب:- خواتین کے لئے پردہ کے اعتبار سے تین درجات ہیں : اجنبی اور غیر محرم رشتہ داروں سے پردہ ، محرم رشتہ داروں اور شوہرسے پردہ ، اس طرح کے ملبوسات کا غیر محرم کے سامنے استعمال کرنا تو جائز نہیں ، لیکن بعض ملبوسات جن میں آستین پوری نہیں ہوتی محرم کے سامنے استعمال کرنے کی گنجائش ہے ، اور شوہر کے ساتھ تو خلوت میں ہر طرح کا لباس استعمال کیا جا سکتا ہے ، لہذا چونکہ فروخت کنندہ ایسے مقصد یا تلقین کے ساتھ نہیں فروخت کرتا کہ غیر محرموں کے سامنے بے حجابی روا رکھتے ہوئے ان کا استعمال کیا جائے اور فی الجملہ بعض حالات میں خواتین کے لئے ان کے استعمال کی گنجائش ہے ، اس لئے اس کا اس طرح کے ملبوسات فروخت کرنا جائز ہوگا ، البتہ نادرست ارادہ سے خریدکرنے والے اور خرید کر استعمال کرنے والے گنہگار ہوں گے ۔(الاشباہ والنظائر: ۱؍۹۷)

فینانس کمپنی کے لیے جگہ کرایہ پر دینا
سوال:- اکثر لوگ فینانس پر گاڑی خریدنا چاہتے ہیں، نقد معاملہ کم ہی لوگ کرتے ہیں ، تو ایسے فینانس فراہم کرنے والے بینک ، ساہوکار ، یا کمپنی کے لیے جگہ فراہم کی جاتی ہے ، گویا یہاں ان کا ذیلی دفتر قائم ہوجاتا ہے ، یہ دفتر والے گاہک کو سود پر قرض دیتے ہیں ، وہ رقم شو روم کے مالک کو نقد دی جاتی ہے ، اس پورے عمل میں سودی کام کرنے والوں کی مدد ہوتی ہے ، کیا یہ کاروبار جائز ہوگا ؟(محتشم خان، حمایت نگر)
جواب:- سود کا جس طرح خود لینا یا شدید ضرورت کے بغیر دینا حرام ہے ، اسی طرح سودی معاملات میں تعاون کرنا بھی جائز نہیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام لوگوں پر لعنت فرمائی ہے ، جو سودی کاروبار کو لکھنے ، اور اس پر گواہ بننے یا اس میں واسطہ بننے کے اعتبار سے معاون ہوں ۔ (ترمذی، حدیث نمبر: ۱۲۰۶) ایسے سودی قرض فراہم کرنے والے اداروں کو اپنے شوروم میں جگہ فراہم کرنا ایک سودی معاملہ میں تعاون کرنا ہے ، اس لیے یہ صورت جائز نہیں ۔

بے روزگار شخص کے لئے سودی قرض لینا
سوال:- میں نہ ہنر مند ہوں نہ میرے پاس کوئی مالی ذریعہ ہے اور نہ ہی کسی سے قرض کی امید ہے ، مجھے ایک جگہ سے فینانس پر رقم مل سکتی ہے ، کیا میں اسے لے کر تجارت کر سکتا ہوں؟ جب کہ میں کوئی سخت کام کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا اور ملازمت میں سخت کام بھی کرنے پڑتے ہیں ۔ ( عفیف احمد، مہدی پٹنم)
جواب:- اگر آپ کے پاس کوئی روزگار نہیں اور نہ کسی ایسے ہنر سے آپ واقف ہیں جس سے ملازمت ملنے کا امکان ہو ، تو کراہتِ خاطر کے ساتھ سودی قرض لینے کی گنجائش ہے ، فقہاء نے بہت ضرورت مند شخص کے لئے اس کی اجازت دی ہے : و یجوز الاستقراض بالربح للمحتاج (الاشباہ والنظائر: ۱۴۹) چوں کہ ضرورت ہر شخص کے حالات اور صلاحیت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے ؛ اس لئے اس سلسلہ میں خود اپنا جائزہ بھی لینا چاہئے کہ کیا اس کے لئے بظاہر اس کے بغیر روزگار کی کوئی اور صورت نہیں ، نیز جو علماء علاقہ میں واقع ہوں ، ان کے سامنے اپنے حالات رکھ کر مشورہ کرنا چاہئے اور ان کے مشورہ پر عمل کرنا چاہئے ۔

فاتر العقل کی بیوی کیا کرے؟
سوال:-کوئی شخص شادی کے چند سال بعد پاگل ہو جائے ، ایسی صورت میں اس کی بیوی کو کیا کرنا چاہئے ؟ وہ خلع لے لے یا شوہر سے طلاق حاصل کر لے ؟ پھر کیا پاگل شخص کی طلاق شرعا قابل قبول ہے ؟( محمد کلیم اللہ، چادر گھاٹ)
جواب:- طلاق واقع ہونے کے لئے ضروری ہے کہ شوہر کا دماغی توازن درست ہو ، اگر شوہر مستقل پاگل ہوگیا اور ہر وقت جنون کی کیفیت میں رہتا ہے ، تو اس کی طلاق واقع نہیں ہوگی ، اگر وقفہ کے ساتھ جنون کا دورہ پڑتا ہے ، تو افاقہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوگی اور حالتِ جنون کی طلاق واقع نہیں ہوگی؛اس لئے اگر اس صورتِ حال سے دوچار عورت شوہر سے علاحدگی چاہتی ہو ، تو اسے چاہئے کہ قاضی شریعت اور جہاں قاضی شریعت نہ ہو اور شرعی پنجایت ہو تو شرعی پنجایت سے رجوع کرے پھر جب قاضی یا شرعی پنجایت تحقیق کے بعد فسخ نکاح کا فیصلہ کردے ، تو اب اس کے لئے دوسرا نکاح کرنا درست ہوگا ، پاگل پن اُن اسباب میں سے ہے جن کی وجہ سے شرعا عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کر سکتی ہے ۔ (فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۵۲۶)

شوہر و بیوی میں سے ایک قادیانی ہو تو اولاد کا حکم
سوال: – شوہر و بیوی میں اگر کوئی ایک قادیانی ہو تو (الف) کس کو اولاد کی پرورش کا حق حاصل ہوگا ؟(ب) کیا اولاد صحیح النسب ہوگی یا مجروح النسب ہوگی ؟(ج)کیا اس کی بنا پر کفو کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے ؟ (فضل حق اشاعتی، آرام گھر)
جواب:- (الف) بچوں کے حق پرورش کے سلسلہ میں شریعت نے بنیادی طور پر بچہ کے مفاد کو پیش نظر رکھا ہے ، دنیوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی ؛ اسی لئے اگر والدین میں سے ایک مسلمان ہو ، اور دوسرا کافر تو بچہ کی پرورش کا حق مسلمان کو حاصل ہوگا ، قادیانی ظاہر ہے کہ دائرہ اسلام سے باہر ہیں ، وہ نہ صرف کافر ہیں ؛ بلکہ اکثر اپنے کفریہ خیالات کے سرگرم مبلغ بھی ہوتے ہیں ؛ اس لئے شوہر و بیوی میں سے جو مسلمان ہو ،اس کو پرورش کرنے کا حق حاصل ہوگا نہ کہ قادیانی کو ۔
(ب) اگر قادیانی ہونے کی حالت میں دونوںکا نکاح ہوا تھا اور بعد کو دونوں میں سے ایک کو ہدایت حاصل ہوگئی اور اس نے یہ سمجھا کہ دوسرے فریق سے ابھی اس کا نکاح ختم نہیں ہوا ہے ، یا مسلمان ہونے کی حالت میں دوسرے سے یہ سمجھ کر نکاح کیا کہ وہ مسلمان ہیں اور ان سے نکاح درست ہے تو اس صورت میں پیدا ہونے والے بچے صحیح النسب سمجھے جائیںگے ؛ کیوںکہ قادیانیت کو غلط باور کرانے اور کلمہ طیبہ پڑھنے کی وجہ سے بجا طور پر اس سلسلہ میں غلط فہمی ہوسکتی ہے اور ایسی صورتوں میں جہاں نکاح کا شبہ پایا جائے اور ا س کے لئے کوئی بنیاد موجود ہو تو نسب کو درست مانا جاتا ہے ؛ کیوںکہ جہاں تک ممکن ہوسکے شریعت میں نسب کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
(ج) اگر بیوی مسلمان ہو اور خدا نہ خواستہ بہ ظاہر قادیانی سے اس کا نکاح کردیا گیا تو اس کا تعلق کفاء ت کے مسئلہ سے نہیں ہے ؛ کیوںکہ کفو کا مسئلہ تو دو مسلمانوں کے درمیان نکاح کی صورت میں ہے ، قادیانی تو مسلمان ہی نہیں ہے ؛ البتہ اگر کسی لڑکے کا والد قادیانی ہو اور لڑکی کے والد مسلمان ہوں تو اس صورت میں کفائت کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے ؛ کیوںکہ اگر لڑکا خود مسلمان ہو اور لڑکی کے والد بھی مسلمان ہوں تو بعض فقہاء نے ایسے لڑکے کو اس لڑکی کا کفو نہیں مانا ہے ؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ ایسی چیزوں کو کفو کی بنیاد نہ بنایا جائے ورنہ اس سے غیر مسلموں کے ایمان لانے اور کفر سے توبہ کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوگی ۔ وباللہ التوفیق

Comments are closed.