’پیٹ اینیمل ‘ سے ’وائلڈاینیمل ‘تک کا سفر

 

 ڈاکٹر سلیم خان

رنبیر کپور کی فلم ’اینیمل‘باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے مگرکانگریس کی  رکن پارلیمان رنجیت رنجن  نے اس پر تشویش کااظہار کرتے ہوے کہا میری بیٹی وقفے پر سینما گھر سے روتے ہوئے بھاگ گئی۔ رنجیت رنجن کے مطابق  فلم میں بہت زیادہ تشدد اور خواتین سے متعلق نازیبا مناظر دکھائے گئے، مجھے اس طرح کے مناظر فلموں میں بالکل بھی پسند نہیں ہیں لیکن پکچر میں اس کردار کا دفاع کیا گیا۔اسی طرح کا تبصرہ ہندوستان ٹائمس میں بھی  کیا گیا کہ’’ اس میں ’تشدد اپنے عروج پر ہے۔ خون ہی خون نظر آتا ہے۔ ہر طرف خون کی ہولی ہے۔ یہ وحشت اور شیطانیت سے بھرپور ہے۔ وانگا کی اس فلم اینیمل میں رنبیر کپور کو شیطانی، خوفناک اور ہیجان زدہ اوتار میں پیش کیا گیا ہے۔اس کے بعد سوال کیا گیا’کیا ہم اس سے محبت کرتے ہیں؟  اور پھر چونکانے والا جواب’ جی بالکل!‘ اس فلم میں پردۂ سیمیں پر جو کچھ دکھایا گیا اس سے بھیانک مناظر سکھدیو سنگھ گوگامیڑی کے قتل کی سی سی ٹی فوٹیج  میں ہیں ۔ فوٹیج  میں دو قاتل’ جن میں سے ایک فوجی ہے )گوگامیڑی کے علاوہ  اپنے ساتھی کو بھی دن دہاڑے گولیوں سے بھون دیتا ہیں۔سکھدیو سنگھ کی موت  کے بعد سے راجستھان بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے ۔ اسپتال کے باہر  بھیڑ کو قابو میں رکھنے کے لیے  ایکشن فورس  تعینات کرنا پڑا۔ ذات پات کی عصبیت میں لوگ بھول گئے کہ وہ ایک گینگسٹر تھا اور گینگ وار میں مارا گیا۔

گوگومیڑی کے قتل پر ریاست گیر بند ، شہر ی  بسوں کی  آمدو رفت کا روکنا اور پرائیویٹ اسکولوں کا  بند دہشت کی نشاندہی کرتا رہا۔ مشتعل ہجوم نے اُدے پور میں کلکٹریٹ پر  بھی پتھراؤ کیا۔ سکھدیو سنگھ  کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا ہونی چاہیے مگر اس کے لیے عوامی مظاہرہ اور پوری  ریاست کو بند کردینا کیا معنیٰ ؟  اس تنازع میں ایک طرف تو بی جے پی نواز لوگ اشوک گہلوت کو قتل کا  ذمہ دار قرار دے کر کانگریس کے خلاف گھیرا بندی کررہے ہیں دوسری جانب’شری راشٹریہ راجپوت کرنی سینا‘ کی حریف ’شری راجپوت کرنی سینا‘  کے صدر مہیپال سنگھ مکرانہ نے اعلان کردیا ہے کہ وہ راجستھان میں نئے وزیر اعلیٰ کو اس وقت تک حلف نہیں اٹھانے دیں گے جب تک سکھ دیو سنگھ گوگامیڑی کے قاتلوں کا انکاؤنٹر نہیں ہو جاتا۔‘‘ ان کے تین مطالبات میں این آئی اے سے تحقیقات، ملزمین کا انکاؤنٹر اور گوگامیڑی کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کے معاملے کی ہائی کورٹ کے جج سے تفتیش شامل ہے۔موخرالذکر دو مطالبات تو بجا ہیں مگر علی الاعلان انکاونٹر کا مطالبہ کسی بھی مہذب سماج کے ماتھے کا کلنک ہے۔ یہ مودی سرکار کےہاتھوں کی کمائی ہے کہ لوگ ایسے مطالبات کرنے لگے ہیں لیکن اس میں حیرت کی کیا بات؟ افراد اور اقوام جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں ۔ پہلو خان کے ہجومی قتل  پر خوشیاں منانے والوں کو سکھدیو کی ہلاکت پر ماتم کرنے کا حق نہیں ہے۔

کرنی سینا کے قیام میں راجپوت اور جاٹ  سماج کی دشمنی کا بڑ دخل ہے اور وہ  سکھدیو سنگھ  کے قتل کا ایک سبب بھی  ہوسکتا ہے۔ 2006 میں  راجستھان کے سب سے بدنام راجپوت غنڈے آنند پال سنگھ  نےغیر قانونی شراب کا کاروبار اپنے قبضےمیں لینےکی خاطر  جیون رام گودارہ  اور ہرپھول رام کو ڈڈوانہ میں قتل کردیا ۔ یہ اتفاق ہے کہ سکھدیو کے قتل کی ذمہ داری روہت گودارہ نے لی ہے اور وہ اسے انتقام کی کارروائی بتا رہا ہے۔   اس کے خلاف جب جاٹوں نے احتجاج کیا تو انہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت مل گئی اور پولیس نے آنند پال سے تعلق رکھنے والے ہر جاٹ کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔  اس دھر پکڑ کے خلاف  23 ستمبر 2006 کو شری کرنی سینا قائم کی گئی۔ اس کے گیارہ اغراض و مقاصد میں راجپوت اتحاد کے علاوہ ان کے خلاف سیاسی اور سماجی تعصب کا خاتمہ نیز راجپوتوں اور ان کی اہم شخصیات کو غلط انداز میں پیش کیے جانے کی مخالفت جیسی چیزیں شامل تھیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ راجستھان کے راجپوت  عام طور پر بی جے پی کے ساتھ  اور جاٹ کانگریس کے حامی رہے ہیں۔ 2018 کے اندر بی جے پی کی شکست کے بعد آنندپال کا انکاونٹر ہوا اور اس نے راجپوت سماج کی ناراضگی میں اضافہ کیا۔ 

کرنی سینا نے 2008 میں میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے  جودھا اکبر کی مخالفت کی ۔ اسی سال برہمنوں پر ہونے والے لاٹھی چارج کی مخالفت میں جئے پور بند کا اعلان کیا ۔2012 میں جب بی جے پی رکن اسمبلی راجندر راٹھور کی جعلی انکاونٹر معاملے میں  سی بی آئی کے ذریعہ گرفتاری ہوئی تو کرنی سینا نے پھر بند کا اعلان کیا۔ کانگریس نے ریزرویشن کی بات کی تو اس کے اجلاس  کو درہم برہم کرنے کی دھمکی دی گئی ۔ وہ لوگ راجستھانی زبان کو دستوری درجہ دینے  اور دہلی کے کشمیری گیٹ پر مہارانا پرتاپ کا مجسمہ لگوانے کے لیے بھی تحریک چلاچکے ہیں۔  2017  کے اندر  جے پور میں جب  فلم پدماوت کی شوٹنگ کے دوران   سیٹ پر توڑ پھوڑ کروانے کے بعد سکھدیو سنگھ    نے  سنجے لیلا بھنسالی کو تھپڑ مارکر پورے ملک میں شہرت کمائی تھی ۔ سال 2020 میں فلم اداکارہ کنگنا رناوت اور شیوسینا رہنما سنجے راوت کے درمیان لفظوں کی جنگ کے دوران سکھ دیو سنگھ گوگامیڑی نے کنگنا رناوت کی حمایت میں کی حمایت میں کئی مقامات پر مظاہرے کروائے۔

شری کرنی سینا کی تاسیس لوکیندر سنگھ کلوی نے کی تھی جن کا امسال  مارچ میں  انتقال ہوگیا۔ فی الحال یہ تنظیم تین حصوں  میں منقسم ہے۔ ایک کی قیادت  لوکیندر کے بیٹے بھوانی سنگھ کلوی کے پاس ہے۔ دوسرے کے قائد مہیپال سنگھ  مکرانہ ہیں جو سکھدیو سنگھ کی موت پر بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں اور تیسرے  دھڑے کی قیادت سکھدیو سنگھ گوگامیڑی  کے ہاتھوں میں تھی ۔ انہیں کلوی نے   2015 میں ریاستی صدر کے عہدے سے ہٹا دیا تو انہوں نے راشٹریہ کرنی سینا بنائی ۔ لوکیندر سنگھ کلوی کے والد کلیان سنگھ وزیر اعظم چندر شیکھر کی حکومت میں وزیر تھے ۔ لوکیندر خود کوئی اہم سیاسی کامیابی نہیں حاصل کرسکے۔ 1993 میں انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر پارلیمانی انتخاب لڑا مگر ہار گئے1998 میں وہ بی جے پی کے ٹکٹ پر بھی نہیں جیت سکے۔ایک سال بعد پارٹی کو چھوڑ کر نام نہاد اعلیٰ ذات کے لوگوں کی خاطر ریزرویشن کی تحریک شروع کردی۔2004 میں وہ  بی جے پی کے اندر لوٹ آئے اور انتخاب لڑا مگر ناکام رہے۔2009 میں کا نگریس کا ٹکٹ لینے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی ۔ سکھ دیو سنگھ گوگامیڑی   نےبھی  بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر دو بار الیکشن لڑے، تاہم جیت نہیں  سکے۔ اس سال ان کی دوسری بیوی نے آزاد امیدوار کا فارم بھرکرواپس لے لیا۔

لوکیندر اور سکھدیو کی سیاسی زندگی کا اگر عتیق احمد  سے موازنہ کیا جائے تو وہ بونے نظر آتے ہیں۔عتیق احمد نے 1989، 1991 اور 1993 کے انتخابات میں آزاد  امیدوار کی حیثیت سے الہ آباد ویسٹ اسمبلی سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ 1996 میں سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر اس سیٹ سے الیکشن لڑا اور پھرجیت گئے۔سال 1999 میں وہ اپنا دل میں شامل ہوئے اور پرتاپ گڑھ سیٹ ہار گئے۔ انہوں نے 2002 کے اسمبلی انتخابات میں اپنا دل کے ٹکٹ پر الہ آباد ویسٹ سیٹ سے دوبارہ کامیابی حاصل کی ۔ 2004 میں وہ پھول پور لوک سبھا حلقہ سے سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر  جیت گئے۔ اس کے بعد 2005 میں  انہیں راجوپال  قتل میں نامزد کیا گیا اور وہ  2012 اور 2014  میں الیکشن  اپنا دل و ایس پی کے ٹکٹ پر  ہار گئے۔امسال 15 اپریل کو عدالت میں حاضر کرنے کے لیے یوپی پولیس انہیں سابرمتی جیل سے  پریاگ راج لائی ۔   پولیس کے تحفظ میں  انہیں  طبی معائنہ کے لیے میڈیکل کالج لایا گیا  اور ان کو  بھائی  اشرف  سمیت  تین افراد نے انتہائی قریب سے گولی مارکر ہلاک کردیا ۔اس معاملے پر ایڈوکیٹ وشال تیواری کی جانب سے داخل کی گئی درخواست  پر عدالت عظمیٰ  میں سماعت نے یوگی حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ  پولیس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عتیق احمد کے قتل میں (جن کی  ایوان پارلیمان میں تعزیت کی گئی )  وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھاور یوپی پولیس بے قصور ہے تو سکھدیو سنگھ کے قتل میں  کارگزار وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت اورراجستھان پولیس کیونکر قصور وار ہوگئے؟  بی جے پی کے حامیوں کو اس سوال کا جواب تو دینا ہی ہوگا۔

ملک کے اندر سیاستدانوں نے  جس طرح تشدد کو فروغ دیا اس سے عوام  کے اندر اینیمل جیسی فلموں کے ذوق میں اضافہ ہوا ۔  سوشل میڈیا پر فلم میں خواتین کی منظر کشی اور ان کیخلاف کی جانے والی باتوں کے ساتھ سیکس کے مناظر، برہنگی  اور تشدد کے لیے  اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن شائقین اس پر نوٹ نچھاور کرتے ر ہے۔ اس سے پریشان ہوکرپارتھ پنٹر نامی صحافی نے لکھا کہ ’جو ہدایت کار تخلیقی طور پر باصلاحیت نہیں ہوتے کہ وہ کوئی سٹوری تخلیق کریں، جذبات کی عکاسی کریں وہ بہت زیادہ تشدد اور سیکس پر انحصار کرتے ہیں۔‘ اس کے ساتھ انہوں نے عامر خان کے ایک پرانے انٹرویو کا  کلپ منسلک کردیا جس  میں وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کبھی کبھی اس طرح سے کامیاب تو ہو جائیں گے لیکن یہ درست نہیں ہے، یہ سماج کے لیے اچھا نہیں ہے۔یہ ہم لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم فلموں میں کوئی ایسی چیز نہ دکھائیں جس سے دیکھنے والوں پر برا اثر ہو۔‘ یہ مشورہ  سیاست دانوں  کے لیے بھی ہے اور جب وہ  تشدد کے فروغ کی سیاست کرنے لگتے ہیں تو سکھددیو سنگھ اور عتیق احمد جیسوں کے  کھلے قتل کا جواز پیدا ہوجاتا  ہے۔ اس طرح  انسانی سماج مہذب جانور (پیٹ اینیمل)سے وحشی درندہ(وائلڈاینیمل)  بن جاتا ہے۔

 

Comments are closed.