پہلےنوٹ بندی پھر ہونٹ بندی اوراب ووٹ بندی

ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی کی یہ تیسری مدتِ کار ہے ۔ اس دوران وہ مسلسل ارتقاء پذیر رہے ہیں یعنی آئے تو تھے ’چائے والا ‘بن کرپہلی مدت کے ختم ہوتے ہوتے ’چوکیدار‘ بن گئے اور بالآخر ’غیر حیاتیاتی ‘ چولا اوڑھ کر رخصت ہونے جارہے ہیں۔ چائے والے وزیر اعظم نے ’نوٹ بندی ‘ نافذ کرکے اپنے سرمایہ داردوستوں کی خوب چوکیداری کی ۔ نوٹ بندی کے دوران عام لوگ بنکوں کی قطار میں اس قدر پریشان ہوئے کہ کچھ لوگ تودارِ فانی سے کوچ بھی کرگئے مگر کسی بھی چوراہے پر پھانسی پر چڑھ جانے کا چیلنج کرنے والے مودی جی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ مودی جی کے جاری کردہ دوہزار کے نوٹ کا رنگ چھوڑ کر بازار سے غائب ہوجانا’نوٹ بندی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیر اعظم کے خلاف جب ’چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ لگنے لگا تو انہوں نے ’ہونٹ بندی‘ لگوائی ۔ پہلے تو اڈانی و امبانی جیسے لوگوں کے ذریعہ این ڈی ٹی وی اور نیوز 18پر اپنا تسلط قائم کیا پھر سنجیو شرما وپونیہ پرسون جیسے نہ جانے کتنے یو ٹیوب چینل کو بند کرکے اپنے خلاف بولنے والوں کو ہونٹ بند رکھنے کی دھمکی دے ڈالی۔ ان دونوں حربوں کی ناکامی کے بعد جب ’خون میں دوڑنے والا سیندور ‘ بھی مذاق بن گیا تو اب بہار کے اندر ’ووٹ بندی ‘ کا تجربہ کیا جارہا ہے۔
بہار کے اندر بی جے پی کے برے حال کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس نے ریاستی ورکنگ کمیٹی کی ایک اہم اجلاس میں شرکت کے لیے مودی یا شاہ کے بجائے راج ناتھ سنگھ کو روانہ کیا ۔ وزیر دفاع فی الحال پارٹی کے ’فائر فائٹر‘ ہیں ۔ مودی اور شاہ کو جہاں جانے سے ڈر لگتا ہے مثلاً کشمیر کی وادی تو وہاں پارٹی کا دفاع کرنے کے لیے راجناتھ سنگھ کو بھیج دیا جاتا ہے اس لیےکہ ’موشا‘ جوڑی ناکامی کی ذمہ داری لینے سے بچنا چاہتی ہے۔ اس لیے راجناتھ سنگھ کو بہار بھیجنا بذاتِ خود بی جے پی کے اعترافِ شکست کا اشارہ ہے۔ راجناتھ بھی سوچتے ہیں جو ملے لے لو کم ازکم اس بہانے خبروں میں تو رہتے ہیں ورنہ تو موجودہ سرکار نے میڈیا میں ایک غیر اعلانیہ ایڈوائزری جاری کرکے گودی میڈیا مودی وشاہ کے علاوہ کسی بھی رہنما کو اہمیت دینے پرپابندی لگارکھی ہے۔ مرکز کے علاوہ بہار کے ریاستی شاخ میں بھی زبردست من مٹاو ہے۔ اس کا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب بی جے پی کے معمر رہنما اور سابق مرکزی وزیر اشونی کمار چوبے کے لیے اسٹیج پر کرسی تک نہیں رکھی گئی۔ 72؍ سالہ رہنما کے لیےجو 2005 سے 2014 تک ریاستی حکومت میں وزیر رہا ہو اور 2024 تک مرکزی وزارت پر فائز ہوچکا ہو کسی جونیر نے کرسی خالی نہیں کی ۔ بالآخروہ رسوا ہوکر شہہ نشین سے نیچے آئے اور کچھ دیر بیٹھ کر درمیان سے رخصت ہوگئے ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی کے اندر لوگوں کے دل کس قدر پھٹے ہوئے ہیں؟
سن 2000میں انتخابی نتائج سے پہلے اس وقت کےمرکزی وزیر اشوِنی چوبے نے کہا تھا کہ اگر این ڈی اے کی حکومت بنی تو ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ پسماندہ یا اعلی ذات کو کمان تھما دی جائے۔اس طرح نتائج سے قبل اشونی چوبے نے کہہ دیا تھا کہ نتیش کمار دہلی میں بھی فٹ ہوجائیں گے، تاہم اس فیصلے کا انحصار خود انہیں پر ہے کہ وہ کسی کو ذمہ داری دیتے ہیں یا نہیں؟ الیکشن کے بعد این ڈی اے کی سرکار بنی مگر نتیش کمار دہلی نہیں گئے۔ آگے چل کر انہوں نے بی جے پی سے کنارہ کشی اختیار کرکے جے ڈی یو کےساتھ مہا گٹھ بندھن کی حکومت بنائی اور انڈیا محاذ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا مگر قومی انتخاب سے قبل پھر سے این ڈی اے میں لوٹ گئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے ۔ان کو دہلی بھیج کر خود وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھنے والے اشونی چوبے کا بھی یہی حال ہوا کہ اب و ہ مر کزی وزیر نہیں ہیں تو ان کو اسٹیج پر ایک کرسی دینے کی بھی زحمت نہیں کی گئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو سنگھ کی اسی خودغرضانہ روایت سے ڈر لگتا ہے کہ کل کو وہ اقتدار سے محروم ہوجائیں گے تو سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی کی طرح ان کو بھی کوئی نہیں پوچھے گا۔ زیڈ پلس سیکیورٹی اگر جاری بھی رہی تو ٹیلی پرومپٹر کی سہولت کے چھن جانے سے ان کی چونچ ازخود بند ہوجائے گی ۔
بہار بی جے پی نے مذکورہ بالا میٹنگ میں ریاست کے اندر پارٹی کے مستقبل کی سمت طے کرنے کے لیے ورکنگ کمیٹی میں شامل 1200 سے زیادہ سرکردہرہنماوں نے حصہ لیا اوراہم مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے بعد آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے حکمت عملی تیار کی ۔ میٹنگ میں بہار کی ترقی اور مرکزی حکومت کی کامیابیوں کو اجاگر کرنے کی ایک سیاسی تجویز پیش کی گئی۔ راجناتھ سنگھ نے ان حصولیابیوں کو گھر گھر تک پہنچانے کی تلقین کی لیکن سوال یہ ہے کامیابی و ترقی ہے کہاں؟ عوام کو جب وہ نظر نہیں آئیں گی تو وہ کس طرح اس جعلی بیانیہ پر یقین کریں گے؟ پارٹی کو پتہ ہے کہ یہ کاٹھ کی ہانڈی اس بار نہیں چڑھ سکے گی اس لیے ریاستی صدر دلیپ جیسوال نے یہ شوشا چھوڑ دیا کہ ،’’لالو پرساد یادو نے جوبابا صاحب کی توہین کی ہے، وہ ناقابل قبول ہے۔ ہماری ورکنگ کمیٹی نے اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے‘‘۔ بی جے پی کے اس الزام کی ہوا تو اس کی حلیف جماعت جنتا دل یونائیٹڈ کے رکن اسمبلی گوپال منڈل نے یہ کہہ کر نکال دی کہ لالو پرساد یادو کو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی توہین کے تنازعہ میں بلا وجہ گھسیٹا جا رہا ہے۔ وہ ان کی توہین کر ہی نہیں سکتے۔
گوپال منڈل نے اپنے موقف کی تائید میں کہا کہ لالو یادو نے پچھڑوں کو جگایا، انہیں آواز دی، مہادلت اور ہریجنوں کے درمیان وہ اپنے بال کٹواتے تھے۔ وہ امبیڈکر کی توہین نہیں کر سکتے۔ اس تنازعہ کی وضاحت کرتے ہوئے وہ بولے ان کی یادداشت تھوڑی کمزور ہو گئی ہے۔ جب تحفہ دیا جا رہا تھا تب وہ پاؤں پر پاؤں رکھ کر بیٹھے تھے۔ ہم لوگ بھی ایسے بیٹھتے ہیں، نہیں تو پاؤں پھول جائیں گے۔ اب وہ بوڑھے ہو گئے ہیں۔اس بیان سے ظاہر ہے کہ بی جے پی بات کا بتنگڑ بنانے کی کوشش کررہی ہےلیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاستوں پر دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ اور اقلیتوں پر بڑھتا ہوا ظلم و ستم ایک حقیقت ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2018 اور 2021 کے درمیان درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لوگوں پر ظلم کے واقعات میں تقریبا 10 فیصد اضافہ ہوا ۔ اس قسم کے بے شمار واقعات ذرائع ابلاغ میں چھائے رہے مثلاً اترپردیش میں کتھا واچک مکٹ منی یادو کا چوٹی کانڈ اور مدھیہ پردیش میں قبائلی پر پیشاب وغیرہ ۔ ان کی ویڈیو بناکر فخر کے ساتھ پھیلائی گئی۔
اس طرح کے واقعات پر کارروائی کرنے کے لیے قومی شیڈول کاسٹ کمیشن بنایا گیا ہے۔ کمیشن میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی 6 لاکھ سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں، لیکن ان میں سے کےصرف ساڑھے سات ہزار معاملوں کی ہی سماعت ہوسکی اوراس سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ایسے میں پیدا ہوتا ہے کہ آخر شیڈول کاسٹ کمیشن کیوں بنایا گیا ہےاور اس کے اندربڑی تعداد میں ممبران کے عہدے خالی کیوں ہیں؟ چراغ پاسوان کو آگے کرکے بہار کے دلتوں اور بے حد پسماندہ طبقات کو جھانسے میں لے کر انتخاب جیتنے کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کو ان سوالات کا جواب دینا ہوگا ورنہ بار بار عوام کو جھانسے دینا مشکل ہوجائے گا ۔ وقف بل کی مخالفت میں پٹنہ کے اندر مسلمانوں کے زبردست مظاہرے نے بی جے پی کے ہوش اڑا دئیے کیونکہ انڈیا محاذ کے کئی اہم رہنما وہاں موجود تھے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی جب بھی پریشان ہوتی ہے تو ہندوتوا کا چولا اوڑھ کر ہندو مسلمان کرنے لگتی ہے۔ اس نے تیجسوی یادو کے وقف اجلاس میں شرکت پرطنز کرتے ہوئےانہیں مولانا کہہ کر مخاطب کیا تو وہ کوئی مدافعانہ دلیل دینے کے بجائے صاف بولے’ مولانا کے معنی وِدوان (عالم ) نا ہوتے ہیں ؟ ‘ اس لیے انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ فخر ہے۔ اب تیجسوی پر اعتراض کرنے والے زعفرانیوں ۶؍ جولائی کو اسی گاندھی میدان پر سناتن مہا کمبھ کا اعلان کرکے اپنے پاکھنڈ کا ڈنکا بجا دیا ۔ اس میلے کا افتتاح گورنر عارف محمد خان کریں گے ۔ پریاگ راج کمبھ میں مسلمانوں کو آنے سے منع کرنے والے سنگھی بھول گئے کہ عارف محمد خان نام کے سہی مسلمان تو ہیں۔ اس تصدیق کے لیے پتلون کھولنے کی بھی ضرورت نہیں ۔اس مہاکمبھ میں دھریندر شاستری جیسے نوٹنکی سنت کے ساتھ یوگی ادیتیہ ناتھ کو بلانا اس کمزوری کی چغلی کھاتاہے کہ مودی وشاہ انتخابی مہم سے کنی کاٹ رہے ہیں نیز بہار بی جے پی شدید قحط الرجال سےجوجھ رہی ہے جو اسے لے ڈوبے گا ۔
Comments are closed.