اولو الالباب کون ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں ؟(1)

 

محمد قمر الزماں ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ

9506600725

 

اس وقت امت مسلمہ ترجیحات طے کرنے میں بری طرح ناکام ہے(الا ماشاء اللہ ، جس پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم ہے، وہ ان مشکل حالات میں بھی ترجیحات طے کرکے اپنی مفوضہ ذمے داریوں کو ادا کرنے میں مشغول ہیں)، عوام الناس اور ہمہ شما کو تو جانے دیجئے ، بہت سے عبقری،جدید و قدیم علم کے ماہر اور سنگم اور ذی استعداد عالم اسلام ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اپنی پہچان اور شناخت رکھنے والے ،اس وقت غیر ضروری اور بلا فائدہ کی بحثوں میں اپنا وقت ضائع اور برباد کر رہے ہیں، اور جن کے بارے میں قرآن مجید نے یہ کہہ دیا کہ،، تلک امة قد خلت لھا ماکسبت و علیھا مااکتسبت ،، ان لوگوں کے ایمان و نجات اور کفر و ایمان کا فیصلہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، مشاجرات صحابہ کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا واضح موقف موجود ہے، اس کے باوجود صحابہ کرام کو فاسق و فاجر اور ظالم و منافق ثابت کرنے میں تلے ہوئے ہیں ۔ جبکہ انہیں من جانب اللہ رضی اللہ عنہ و رضوا عنہ کا پروانہ مل گیا ہے۔

وقت کے تقاضوں سے غفلت برتنا اور موجودہ حالات اور چیلنجوں کا مقابلہ نا کرنا، امت مسلمہ کو ساحل سمندر تک لے جانے کی بجائے منجدھار میں پھنسا دینا اور دوسری لا یعنی اور غیر ضروری کاموں میں مشغول رہنا یہ وہ جرم ہے ، جس پر ہم سب کا مواخذہ ہوگا ۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کا سزا مرگ مفاجات

قرآن مجید میں اولو الالباب کی ترکیب تقریباً سولہ مقامات پر ہے ، غور کرنے اور عبرت کا مقام ہے کہ ہم نے کبھی غور کیوں نہیں کیا کہ اولو الالباب کون ہیں ،ان کی صفات کیا ہیں؟ اور ہم کو اس زمرہ میں اور طبقہ میں شامل ہونے کے لیے خدا سے دعا و التجا کی کتنی ضرورت ہے ؟ ۔ تاکہ ہمارا بھی شمار ان پاکیزہ ہستیوں اور نیک صفات لوگوں میں ہو جائے ،جنہیں قرآن نے اولو الالباب کہا ہے ۔ آج ہم اس اصطلاحی لفظ اولو الالباب کی تشریح کرتے ہیں ، اس دعا کیساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس فہرست میں شامل فرما دے اور پوری امت مسلمہ لا یعنی چیزوں اور غیر ضروری بحثوں سے ہٹ کر خدائی تخلیق میں تدبر و تفکر کرکے اپنی آخرت کامیاب کر لے اور رضا الٰہی حاصل کرکے باغ و بہشت کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے

۔ م۔ ق ۔ن

قرآن مجید میں درجنوں مقامات پر اولو الالباب کا لفظ آیا ہے اور الگ الگ مقام پر مفسرین نے اس لفظ کی تشریح و تفسیر کی ہے، اور اس کے مفہوم و مراد کو اچھی طرح سے واضح کیا ہے کہ اولو الالباب یہ کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں ؟

آج کی مجلس میں ہم اس لفظ کی تشریح و تفسیر قرآن و حدیث نیز جمہور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں کریں گے ۔

لفظی معنی

اولو: جمع ہے ذُو یا ذو کی، یعنی والے، مالک۔

الالباب: لبّ کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں خالص عقل، اصل شعور، باطنی بصیرت۔ لب کے اصل معنی تو مغز کے ہیں اور ہر چیز کا مغز اس کا خلاصہ ہوتا ہے ،اور اسی سے اس کی خاصیت و فوائد معلوم ہوتے ہیں ، اسی لئے انسانی عقل کو لب کہا گیا ہے ،کیونکہ عقل ہی انسان کا اصلی جوہر ہے ۔

لہٰذا اولو الالباب کے لفظی معنی ہوئے: عقل والے ۔

> "وہ لوگ جو خالص عقل، بصیرت اور گہرے شعور والے ہیں۔”

قرآن مجید میں اولو الالباب کی ترکیب تقریباً 16/ سے زیادہ مقامات پر آئی ہے۔ یہ عموماً ان لوگوں کی صفات بیان کرنے کے لیے آتا ہے جو:

اللہ کی نشانیاں غور و فکر سے دیکھتے ہیں۔

عبرت پکڑتے ہیں۔

نصیحت کو قبول کرتے ہیں۔

ظاہری سطحی سوچ سے آگے بڑھ کر حقیقت تک پہنچتے ہیں۔

یاد رہے کہ عقل اور بے عقلی کا حقیقی پیمانہ اس سے مختلف ہے ،جو انسانوں نے بطور خود بنا رکھا ہے ، یہاں عقل والا وہ ہے جو اللہ کی یاد میں جئے ،جو کائنات

کے تخلیقی منصوبہ میں کام کرنے والی خدائی معنویت کو پالے ۔ اس کے برعکس بے عقل وہ ہے جو اپنے دل و دماغ کو دوسری دوسری اور غیر ضروری اور لایعنی چیزوں میں اٹکائے ،جو دنیا میں اس طرح زندگی گزارے جیسے کہ اس کو مالک کائنات کے تخلیقی منصوبہ کی خبر ہی نہیں ہے ۔ (تذکیر القرآن)۔

غرض عقلمند وہ نہیں ہے جو دنیا کے اسباب و وسائل زیادہ سے زیادہ حاصل کرلے اور سونے چاندی کا خزانہ اپنے پاس جمع کرلے ،بلکہ عقلمند وہ ہے ،جس کا دل کبھی یاد خدا سے غافل نہ ہو ،اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے سوتے اللہ ہی کی یاد سے اس کا دل آباد ہو ، وہ دنیا کی چیزوں اور زمین و آسمان پر فکر و تدبر کی نگاہ ڈالے تو وہ بھی اسی نقطئہ نظر سے کہ مخلوق سے اس کے خالق کو ،اور موجود سے اس کے موجد کو پہچانا جاسکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس آیت میں اس فقہی مسئلہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ محض ذکر کے لیے پاکی شرط نہیں ہے ،جس آدمی کو غسل کی حاجت ہو ،وہ قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرسکتا ،لیکن دوسرے اذکار اور دعاؤں کے پڑھنے میں کچھ حرج نہیں ۔ (مستفاد آسان تفسیر جلد اول تفسیر سورہ آل عمران از مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی)

مفسرین نے اولو الالباب کے ضمن میں یہ بھی لکھا کہ قرآن کے نزدیک اولو الالباب صرف وہ لوگ ہیں، جو اس کائنات کے نظام پر غور کرکے خدا کی ذکر اور آخرت کی فکر تک رہنمائی حاصل کریں، جن کو یہ چیز حاصل نہیں ہوئی وہ اگر چہ زمین و آسمان کی تمام مسافت ناپ ڈالے اور چاند 🌙 و مریخ تک سفر کر آئے لیکن وہ اولو الالباب نہیں ہیں ،ان کے سروں پر کھوپڑیاں تو ہیں لیکن ان کے اندر مغز نہیں ہے ،اگر ان کے اندر مغز ہوتا تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ انہیں سب کچھ نظر آجاتا اور یہ تل کی اوٹ میں چھپا ہوا پہاڑ نظر نہ آتا ۔ (مستفاد تدبر قرآن جلد 2/ صفحہ 228)

تفسیر طبری میں امام طبری کہتے ہیں:

> "اولو الالباب سے مراد وہ لوگ ہیں جو عقلِ سلیم رکھتے ہیں اور اس عقل کو حق کی پہچان میں استعمال کرتے ہیں۔”

یعنی ہر شخص کے پاس عقل تو ہے، مگر لبّ یعنی خالص اور صاف عقل وہ ہے جو خواہشات، تعصب اور جہالت سے پاک ہو۔

تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں:

> "اولو الالباب ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عقل کو نفس کی غلامی سے آزاد رکھا، اور غور و فکر کے ذریعے حق تک پہنچتے ہیں۔”

تفسیر قرطبی میں لکھا ہے:

> "لبّ اصل عقل کو کہتے ہیں، جیسے کسی چیز کا مغز۔ تو اولو الالباب وہ ہیں جو ظاہری سطح پر اٹکے نہیں رہتے ،بلکہ چیزوں کی حقیقت تک پہنچتے ہیں۔”

تفسیر ابن کثیر میں کئی مقامات پر ہے:

> "اولو الالباب وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات میں غور کرتے ہیں، دنیا کی حقیقت کو جانتے ہیں، اور ان کی عقل انہیں رب کی طرف جھکنے پر آمادہ کرتی ہے۔”

صفاتِ اولو الالباب

قرآن میں مختلف مقامات پر ان کی عملی صفات بھی بتائی گئی ہیں:

وہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے ہیں۔ (آل عمران: 191)

زمین و آسمان کی تخلیق میں غور کرتے ہیں۔ (آل عمران: 190)

نصیحت قبول کرتے ہیں۔ (الزمر: 9)

سب سے زیادہ ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ (ص: 43)

دنیا کی حقیقت کو پہچان کر اس کی فریب کاری سے بچتے ہیں۔ (الرعد: 19)

خلاصہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اولو الالباب:

> وہ لوگ ہیں جو صرف عقل رکھنے والے نہیں بلکہ خالص، غیر آلُودہ اور سلیم الفکر عقل کو استعمال کرکے:

اللہ کی آیات میں غور کرتے ہیں۔

حق اور باطل میں فرق کرتے ہیں۔

عبرت و نصیحت کو قبول کرتے ہیں۔

اپنی عقل کو خواہشاتِ نفس کے تابع نہیں کرتے۔

 

نوٹ / مضمون کا اگلا حصہ کسی اور دن ملاحظہ فرمائیں

Comments are closed.