مصنوعی بارش

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے حکومت، عدالت، سماجی خدمت گار سبھی فکر مند ہیں، اس آلودگی میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، سپریم کورٹ نے از خود اس کا نوٹس لیا ہے اور تمام سرکاروں کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا ہے کہ اس موضوع پر سیاسی لڑائی نہیں ہو سکتی، عدالت نے پنجاب، ہریانہ اتر پردیش اور راجستھان کو اس بات کو یقینی بنانے کو کہا ہے کہ فصلوں کی باقیات کھیت میں نہیں جلائی جائیں گی، اس معاملہ میں عدالت نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم فضائی آلودگی کے سبب لوگوں کو مرنے نہیں دے سکتے۔
عدالت کے تبصرے، ہدایت اور حکم کے باوجود فضاء میں جو کثافت اور آلودگی پھیلی ہوئی ہے، وہ اس کے حکم سے دور تو ہو نہیں سکتی، اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے، حکومتی سطح پر بھی اور عوامی سطح پر بھی، اس لیے کہ گندگیاں عوام کے ذریعہ ہی پھیلتی ہیں، اور سرکاری کارندے جب وقت پر صفائی کا کام نہیں انجام دیتے تو وہ فضائی آلودگی کا سبب بن جاتے ہیں، او ربڑھتے بڑھتے انسانی زندگی اور صحت کو متاثر کرتے ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ فضائی آلودگی کو مصنوعی بارش کے ذریعہ ختم تو نہیں،البتہ کم کیا جا سکتا ہے، اس عمل کو انگریزی میں کلاؤڈ سیڈنگ Cloud Seedingاور ہندی میں کترم بارش کہتے ہیں،عالمی سطح پر سائنس دانوں کے ذہن میں 1940میں یہ خیال پہلی بار آیا تھا،1956میں امریکی کیمیاداں کو AIRCRAFTING AND PERCEPTION پر کام کرتے ہوئے اس کا احساس ہوا کہ اگر فضا میں موجود بادلوں میں فریزنگ کے عمل کو تیز کر دیاجائے تو مصنوعی بارش کرائی جا سکتی ہے، چنانچہ اس نے اس پر تجزبہ کیا اور پہلی بار 1946میں یہ تجربہ کامیابی سے ہم کنار ہو ا، اس ایجاد کا سہرا دو سائنس داں ونسٹ شیفر اور برنارڈ ووینگو کو جاتا ہے، آج دنیا کے پچاس سے زائد ملک مصنوعی بارش سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، جن میں سر فہرست امریکہ، چین، مالی، تھائی لینڈ، روس، آسٹریلیا، جاپان، متحدہ عرب امارات، فرانس، جرمنی ہیں، یہ اطلاع عالمی موسم تنظیم 2017کی رپورٹ سے ماخوذ ہے۔
مصنوعی بارش ایک سائنسی طریقہ سے کرایا جاتا ہے، اس میں ہوائی جہاز کے ذریعہ بادلوں کے بیچ ہوا میں سلور آیوڈین، خشک برف اور کلورائڈ چھوڑے جاتے ہیں، جس سے بادلوں میں غیر معمولی نمی پیدا ہوجاتی ہے اور بارش ہونے لگتی ہے، یہ بارش موسمی بارش سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات دیر تک باقی رہتے ہیں، البتہ اس عمل سے بارش کروانے کے لیے بادلوں کا وجود ضروری ہے، بادل اگر نہیں ہے تو مصنوعی بارش کی کوشش ناکام ہوجاتی ہے، سائنس داں مصنوعی بادل بنانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں، مصنوعی بارش کا بڑا انحصار ہوا کے رخ پر ہوتا ہے، اگر تیز ہوا چھڑکاؤ کیے گیے بادل کو اڑالے جائے تو مطلوبہ زمین پر بارش برسانے کا کام انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔
دہلی حکومت نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے مصنوعی بارش کرانے کا فیصلہ کیا ہے، اگر یہ بارش صرف دہلی اور این سی آر کے علاقہ میں کرائی جائے گی تو تیرہ کروڑ روپے کاخرچ آئے گا اور مرکزی حکومت کے ساتھ عدالت کی اجازت بھی ضروری ہوگی، با خبر ذرائع کے مطابق یوگی حکومت نے کانپور کے سائنس دانوں کو اس سمت میں پہل کرنے کو کہا ہے۔
مصنوعی بارش قدرت کا عطیہ نہیں ہے، اس لیے یہ قدرتی انداز میں ہونے والی بارش کے مقابل نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے بر عکس اس کو مصنوعی بنانے کا بڑا نقصان انسانی زندگی اور صحت پر پڑتا ہے جو کسی بھی طرح فضائی آلودگی کے نقصانات سے کم نہیں ہے، اس عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کلیشم کلورائیڈ،آکسائڈ، المونیم آکسائڈ اور زنک کااستعمال ہوتا ہے، ان میں سب سے زیادہ خطرناک سلور آیوڈائیڈ ہے، جو ایڈز، ملیریا اور کینسر کے مرض میں انسان کو مبتلا کر سکتا ہے، یہ کیمیکل ہاضمہ کے نظام بھی خراب کرتا ہے، گردوں اور پھیپھڑوں میں اس کی وجہ سے زخم ہو سکتا ہے، جلد پر سیاہ دھبے بھی پڑ سکتے ہیں، معدے اور پیٹ میں انتہائی انفیکشن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، یہ کیمیکل ہماری فصلوں میں سرایت کرکے اسے بھی زہریلا بنا دیتے ہیں، اسی لیے کئی سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ماحولیات کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اس عمل سے سمندر کی سطح آب اور اوزون پر بھی بُرا اثر پڑے گا۔اس کے بر عکس قدرتی بارش سے ایسا کوئی نقصان نہیں ہوتا، بلکہ تمام چرند پرنداور فصلوں کو اس سے فائدہ پہونچتا ہے، بے اختیار اللہ رب العزت کی یہ بات یاد آتی ہے، فبای آلاء ربکما تکذبان، رب کی کن کن نشانیوں کو جھٹلاؤ گے۔

Comments are closed.