کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی۔۔۔۔۔

شہلا کلیم

اس بار جشن ریختہ میں شرکت کا موقع ملا۔ بلکہ موقع کیا ملا قصدا موقع بنایا گیا کہ سالہا سال سے ہر سال جو جشن ریختہ کے موقع پر دانشوری دیکھنے سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے اسکا خود چل کے معائنہ کیا جائے۔(اور اس کے بعد دانشوری کی جائے🥲) زمینی سطح پر ریختہ کی سرگرمیوں پر تو ایک مدت سے نظر ہے سو خیال گزرا کہ "ریختہ” کے جشن سے بھی محظوظ ہوا جائے۔ اسی تجربے اور مشاہدے کی بنا پر یہ کہہ لینے دیجیے کہ اتنے بڑے پیمانے پر انتظام و اہتمام اور حسنِ انصرام کی ایسی شاندار مثال قائم کرنے والا محبین اردو میں ابھی کوئی پیدا نہیں ہوا۔
اب اگر آپ اس تمہید سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ چونکہ ریختہ نے ہمیشہ اردو رسم الخط سے سوتیلا سلوک روا رکھا لہذا ریختہ کے کسی بھی مثبت پہلو پر بات کرنے والا اردو رسم الخط کا مخالف اور اردو رسم الخط کے تئیں ریختہ کے اس سوتیلے رویے بلکہ ظلم کا حامی ہے؛ تو پھر آپ کے لیے ہمارے ذہن میں انتہائی ناقابل اشاعت الفاظِ غلیظہ کلبلا رہے ہیں۔۔۔
یقین جانیے اس تعلق سے کسی بھی قسم کی کوئی امید وابستہ نہ رکھنے کے باوجود جشن کے پہلے پڑاؤ سے ہی انتہائی غیر ارادی طور پر ہماری نظریں اردو رسم الخط تلاشتی رہیں اور دل خون ہوتا رہا۔ اور اگر بھولے بھٹکے کہیں اکا دکا حروف نظر آ بھی جاتے تو ایسی قلت پر مزید دل پیٹنے کو جی چاہتا۔
اس مرتبہ میر کا تین سو سالہ جشن، ریختہ کی بنیادی تھیم رہا اور دیوناگری رسم الخط میں میر کے اشعار لکھ کر راہیں مزین کر دی گئیں۔ سوال جائز ہے اور لازم بھی کہ کیا بگڑ جاتا جو اگر رومن اور دیوناگری کے ساتھ اردو رسم الخط کو بھی شامل کر لیا جاتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ وقت سوالات سے بہت آگے نکل چکا ہے۔
اور جب جب کوئی ہنگام کی بجائے اقدام کی بات کرتا ہے تو ہمارے دانشور فرماتے ہیں کہ یہ تو بلکل ویسا ہوا جیسے انڈے پر تنقید کرنے کیلیے پہلے خود انڈہ پیدا کرکے دکھانا ہوگا۔ یہاں ایک کہانی یاد آ رہی ہے لیکن اس سے پہلے اس طبقے پر بات کر لیں جنہوں نے واقعی انڈہ پیدا کر لیا۔ آپ سے کہا گیا کہ خدائی خلقت پہ غور کریں۔ لیکن آپ کی سہولت پسندی اور آپ کی قدامت پسندی آپ سے کچھ نہ کرا سکی اور آپ کو انڈہ پیدا کرنے کے خوف تک محدود رکھا۔ آپ کی ہر شے اور ہر خیال کی طرح یہ خیال بھی اغیار لے اڑے۔ انہوں نے ایک معمولی انڈے کی خلقت پہ غور کیا اور بظاہر حقیر ، غیر ضروری لگنے والے معاملے کو بھی چیلنجنگ مسئلہ بنا کر تن من دھن سے جٹ گئے سائنسی لیبارٹریاں قائم کیں اور جب انڈہ پیدا نہ کر سکتے تھے تو اسے invent کر لیا۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ اکیسویں صدی میں انڈہ صرف "پیدا” کیا جا رہا ہے تو آپ کو اپنا علم اپدیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آپ کا نظریہ خود بخود اپدیٹ ہو جائےگا۔ بات ساری اس پروفیشنلزم یُگ میں زندگی کے ہر شعبے میں survival of the fittest کی ہے!
اگر کسی ادارے کے مقابل کوئی ادارہ قائم کرنا انڈہ پیدا کرنے جیسا ہی ہے تو پھر آپ کو وہ کہانی سناتے ہیں کہ یہ انڈا پیدا کرنا کیوں ضروری ہے۔
فریقین کے بیچ عرصے سے جنگ جاری تھی۔ ان میں ایک فرقہ وہ تھا جو در مع الدھر کیف ما دار کا قائل تھا۔ اور جدید تقاضوں کے تحت اپنے اسلحے اپڈیٹ کیا کرتا تھا۔
دوسرا وہ سہولت اور قدامت پسند فرقہ تھا جس کے نزدیک competency کا مطلب انڈہ پیدا کرنے جیسا عمل تھا۔ سو وہ تمام تر سہولتوں ، صلاحیتوں سر و سامانی کے باوجود بم اور بارود کے مقابل پتھر ، تیر، تلوار پر اکتفا کرتے رہے۔ لہذا اس جنگ کے نتیجے سے آپ تمام واقف ہیں۔
لیکن یقین جانیے وجہ صرف انڈہ پیدا کرنے کا خوف ہرگز نہیں ہے۔ اصل وجہ جاننے کیلیے آپ کو اس قسم کے دانشوران کا مختصرا پس منظر جاننا ہوگا۔
کسی بھی بازار میں جب جدید تقاضوں کے تحت کوئی نیا شو روم یا مال وغیرہ قائم کرنے کی بات چھڑتی ہے تو یہ بات سب سے زیادہ بے چینی کا باعث کس کیلیے بنتی ہے؟ اب آپ کہیں گے یقینا بازار میں پہلے سے موجود جمے جمائے بالمقابل کیلیے۔ ہر گز نہیں! وہ بڑا تاجر ہے بھئی۔ اسے نقصان بلا شبہ ہوگا لیکن وہ تجارت میں collaboration کے اصول جانتا ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ نقصان چھوٹے چھوٹے بنیوں کو پہنچتا ہے۔ اور آپ کے شعبے کے یہ چھوٹے بنیے یہی دانشور ہیں جو آپ کے اذہان کو دیمک کی طرح چاٹتے رہے ہیں۔
بہر حال یہ تو انتہائی فضول مثال کے چند جواز تھے۔ اب ہم بنیادی وجوہات کی طرف آتے ہیں کہ ہنگام کے بجائے اقدام کی ضرورت کیوں ہے۔
سر فہرست وہی وجہ ہے جو صرف جشن ریختہ کے ساتھ ہی سر اٹھاتی ہے۔ رسم الخط کسی بھی زبان کی روح ہے اور روح کے بغیر جسم لاش ہے۔ لہذا اردو رسم الخط کے ساتھ ریختہ کا یہ عمل ہم صرف سلوک یا رویے میں نہیں بلکہ ظلم میں شمار کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ ریختہ محض ایک تجارتی شعبہ ہے۔ اردو زبان و ادب کا علمبردار یا اردو رسم الخط کا محافظ نہیں چنانچہ بےجا امیدیں وابستہ کرنے کی حماقت بھی نہ کی جائے۔
پس ایک بنیادی وجہ یہی ہے کہ غیر کی تعمیر کو حسرت سے دیکھنے اور آپ کی لامکانی کو پناہ نہ ملنے کی صورت میں دوسرے کو لعن طعن کرنے کے بجائے خود اپنا گھر بنانے اور بچانے پہ توجہ دیں!
ہمارا معیار اس قدر سطحی ہو چکا ہے کہ ہر مسئلے میں ہم صرف سطح پر تیرتی پھرتی چیزیں ہی دیکھ پا رہے ہیں۔ یا پھر ہماری سہولت پسندی ، قدامت پسندی، آرام طلبی اور بنیا گری ہمیں گہرائی میں جھانکنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ رسم الخط کے نوحے پر ہر انکھ چھلک پڑی کیونکہ اس کا ماتم بیچ بازار میں منایا جا رہا تھا۔ لیکن کتنے ہیں جو درون خانہ ریختہ کے ذریعے آپ کے تخلیقی ذہنوں پر کیے جانے والے استحصال سے واقف ہیں۔ یا اگر واقف ہیں بھی تو اس پر بات کتنے کرتے ہیں؟
کتنے ہی ایسے قابل لوگوں سے میں ذاتی طور پہ واقف ہوں جن کی ذہانت کی اجرت سنجیو صراف جیسے تاجر کی ساری دولت بھی ادا نہیں کر سکتی۔ لیکن کس کس صورت ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے یہ جاننے کیلیے ایسے ہی ایک جانکار سے ہوئی گفتگو کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو:
"بہت معمولی پیسوں پر ہم لوگوں سے مختلف اہم پروجیکٹس پر کام کرایا ہے۔ اور اب دیکھ رہے ہیں کہ وہ سب دوسروں کے نام سے چھپ رہا ہے۔ہمارے پاس تو کوی آپشن نہیں تھا۔ مجبوری میں کر رہے تھے۔لیکن اخیر اخیر میں کچھ ایسی سچویشن بن گیی تھی کہ چھوڑ دیا تھا۔
اور بھی بہت طریقے ایجاد کر رکھے ہیں ان لوگوں نے استحصال کے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے اپنے دوست اور قریبی لوگ سرمایہ دار کے مفادات کے تحفظ میں جی جان سے لگے ہوے ہیں۔ہمارے ایک تقریباً پندرہ برس پرانے دوست ہیں ریختہ میں
وہ ہم سے اے فور سایز میں چودہ کے فونٹ میں پروف پڑھواتے تھے پندرہ روپے میں۔ اور اسی کمپنی کا ایک ہندو بندہ ہمیں اٹھارہ کے فونٹ میں دیتا تھا پچاس روپے۔”
جی! یہی بنیا گری آپ کی راہ کی رکاوٹ ہے اور یہی دانشور بنیے آپ کے تخلیق کاروں کو کھاتے رہیں گے۔
بات یہ ہے کہ آپ کو غلامی کی لت لگ گئی ہے۔ آپ ریوڑ بننے میں ہی خوش ہیں جس کا جی چاہے آپ کو ہانکتا ہوا کہیں بھی لے جائے۔ رہبری آپ کی رگوں میں اب دوڑتی ہی نہیں۔
ظاہر ہے یہ تحریر امبانی اڈانی کی اولاد تو ہرگز نہیں پڑھ رہی ہوگی۔ اور نہ ہی اردو سے نابلد افراد کے ہاتھ میں یہ تحریر ہوگی۔ امیر کبیر باپ کے وارثین ؛ اگر بگڑے ہوئے ہیں تو عیاشی میں اور اگر لائق فائق ہیں تو باپ کا بزنس سںبھالنے میں فی الوقت مصروف عمل ہوں گے۔
رہ گئے محبین اردو یا پھر وہ مڈل کلاس افراد جنہوں نے تعلیم سے لے کر کسبِ معاش تک کیلیے اردو کا انتخاب کیا۔ اگر وہ بزرگ ہیں تو یعنی عہد شباب سے گزر کر وہاں تک پہنچے ہیں اور اس عہد کے تمام مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور اگر نوجوان ہیں تو یعنی اس پڑاؤ سے گزر رہے ہیں۔ اب بھلا بتائیں اکیسویں صدی میں survival کرنا کہ جہاں ضروریاتِ زندگی نے اچھے اچھوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہو ایسے میں اردو کی انگلی تھامے عہد شباب کے تمام مسائل سے جوجھتا ہوا بے روزگار، مڈل کلاس نوجوان ریختہ کا رخ نہ کرے تو کیا کرے۔ اور جب ادارے کو بھی یقین ہو کہ وہ اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے تو پھر وہ مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے میں حق بجانب ہے۔ جب کسی بھی قسم کا کوئی مقابل ہی سامنے نہیں تو وہ کیوں نرم روی اختیار کرے۔ رہ گئے اردو والوں کے مسائل، مجبوریاں اور بے روزگاری وغیرہ تو اسکے لیے مزید گہرائی میں اترنا ہوگا۔
لیکن آپ کو کیا آپ اپنی دانشوری کا انڈہ فرائی کیجیے!

~شہلا کلیم

Comments are closed.