یہ جنگ تم ہار گئے ’یاہو‘ …

ودود ساجد
آدھے سے زیادہ غزہ کو زمین دوز کرنے اور مغربی کنارے کے متعدد شہروں کو چاروں طرف سے گھیرنے کے باوجود اسرائیل یہ جنگ ہار گیا ہے۔ اس ظالمانہ اور یکطرفہ جنگ میں اسرائیل کا سب سے بڑا معاون امریکہ بھی اب اس جنگ سے خوف کھا رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا تازہ بیان یہ ہے کہ اپنی بلا امتیاز بمباری کے سبب اسرائیل عالمی حمایت کھوتا جارہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ خود کو صہیونی بھی قرار دے چکے ہیں۔ امریکہ کے اخبارات لکھ رہے ہیں کہ خود بائیڈن بھی عالمی اور مقامی حمایت کھوتے جارہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کے خلاف نہ صرف اسرائیل میں بلکہ پوری دنیا میں مظاہرے ہورہے ہیں۔اسرائیلی میڈیا کے ایک سروے کے مطابق 75فیصد اسرائیلی شہریوں کا مطالبہ ہے کہ نتن یاہو کو مستعفی ہوجانا چاہئے۔
اسرائیل کی اپوزیشن جماعتوں کو بھی نتن یاہو کی ہلاکت خیز پالیسیوں سے اتفاق نہیں ہے۔ اسرائیل کا میڈیا مجموعی طور پر نتن یاہو کے خلاف لکھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہاں کے مشہور اخبار ’ہارٹز‘ میں تو مسلسل فلسطینیوں کے حق میں بھی مضامین شائع ہورہے ہیں۔ اسرائیل کے جو شہری ابھی تک حماس کے قبضہ میں ہیں ان کے اہل خانہ میں نتن یاہو کے خلاف غم وغصہ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ اسرائیل کے بہت سے شہریوں نے پرتگال جیسے ممالک میں پناہ گزینی کی درخواستیں دیدی ہیں۔ وقتی جنگ بندی کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیل کے فوجی ہر روز مارے جارہے ہیں اور اس کے قیمتی ٹینک تباہ کئے جارہے ہیں۔۔
فرانس کے وزیر اعظم نے انکشاف کیا ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے چار ہزار فرانسیسی فوجی غزہ میں جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ فرانس کو ان دوہری شہریت رکھنے والے فوجیوں کے ان جنگی جرائم میں حصہ لینے کی سخت الفاظ میں مذمت کرنی چاہئے۔
یہ پہلو بہت تکلیف دہ ہے کہ 8 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل کے ظالمانہ حملوں میں 20 ہزار فلسطینی شہید اور پچاس ہزار سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور عورتوں کی ہے۔ اقوام متحدہ اور آزاد اداروں کے ذرائع کے مطابق 18 لاکھ فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی چلنے والے سینکڑوں اسکول اور ہسپتال تباہ ہوگئے ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کی فورسز نے فالوجا قبرستان پر بھی بمباری کرکے قبروں اور کتبوں کو مسمار کردیا ہے۔۔ جابر فوجی اتنی درندگی پر اتر آئے ہیں کہ کمال عدوان ہسپتال کے باہر جس ٹینٹ میں مریض اور بے گھر لوگ بیٹھے تھے اس پر بلڈوزر چلاکر 20 لوگوں کو شہید کردیا ہے۔۔
1948سے 2023 تک کے 75برس کا سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ اسرائیل کی جابر فورسز اس سے کئی گنا تعداد میں بے قصور اور نہتے فلسطینیوں کو شہید کرچکی ہیں۔ دربدری کے نتیجہ میں 20 لاکھ فلسطینی مصر‘ اردن‘ شام ‘ سعودی عرب اور ترکی سمیت دنیا کے مختلف ممالک کو ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس سے بھی پہلے کے 28 برسوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ 1920سے 1948 تک برطانوی قابض فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والی کشمکش میں 20 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے تھے۔ اس کے بعد مصر اور اردن کے ساتھ ہونے والی اسرائیل کی جنگوں میں بھی کئی ہزار عرب شہری جاں بحق ہوئے تھے۔
اسرائیل کی فورسز کے طریقہ کار کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ سفاک اسرائیلی فورسز ہی ہیں۔ ان کا ظلم دیکھ کر کوئی حساس انسان نہیں کہہ سکتا کہ انہیں انسانوں سے نپٹنے کیلئے تربیت دی گئی ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع گالانت نے تو کہا بھی ہے کہ ’ہمیں انسان نما جانوروں‘ کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کے نوجوانوں‘ بوڑھوں‘ جوان عورتوں اور معصوم بچوں پر ظلم ڈھانے کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے اوردنیا کے مختلف ملکوں کوان کے متحرک طبقات کو کچلنے کیلئے اپنے تجربات سے مستفید کیا۔
اس جنگ میں اسرائیل کی طرف سے سفاکی کے وہ تمام طریقے اختیار کئے جارہے ہیں جو وہ اپنے وجود کے اولین ایام سے اختیار کرتا آرہا ہے۔ لیکن اس جنگ کی نئی بات یہ ہے کہ اسے فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے پہلی بار ایسی خوفناک صورتحال کا سامنا ہے جس کا اس نے کبھی تصور تک نہیں کیا تھا۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اسرائیل کو 7 اکتوبر جیسی اچوک اور اچانک کارروائی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو وہ ہرگز اس سے بچنے کے انتظام سے غافل نہ رہتا۔ دنیا میں اسی نے پہلی بار 2011 میں ’آئرن ڈوم‘ سسٹم حاصل کیا۔ یہ سسٹم مزاحمت کاروں کی طرف سے آنے والے کسی بھی فضائی خطرہ سے 15-20 سیکنڈ پہلے آگاہ کرتا ہے اور کسی بھی راکٹ یا میزائل کو فضا میں ہی جاکر مارگرادیتا ہے۔
اس کے علاوہ اسرائیل کے تمام سرحدی علاقوں میں دوربین کیمروں اور انٹلی جنس ٹاوروں کی بڑے پیمانے پر تنصیب کی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے یہ تمام انتظام دھرے رہ گئے۔ اب یہی صورتحال زمینی جنگ کی ہے۔ اسرائیل کی فورسز اپنے جنگی سازوسامان کے ساتھ اندرون غزہ گھس تو گئی ہیں لیکن ہر طرح کے حفاظتی انتظام سے لیس فوجیوں اور ٹینکوں کو مزاحمت کاروں کے اچوک اور اچانک حملوں کا سامنا ہے۔ فضائی بمباری میں گرائی گئی عمارتوں کے ملبہ سے اچانک آتشی ہتھیاروں کے ساتھ فلسطینی مزاحمت کار رونما ہوتے ہیں اور فوجیوں اور ٹینکوں کو نشانہ بناکر غائب ہوجاتے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اب تک 500 فوجی اور کمانڈر مارے گئے ہیں اور 5 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے 200 مہنگے ٹینک بھی تباہ کئے جاچکے ہیں۔ ان میں سب سے معتبر اور خطرناک ٹینک ’میرکافا‘ بھی ہے جس کے ایک ٹینک کی قیمت 35 لاکھ ڈالر ہے۔
اسرائیل اور حماس کا جنگی طاقت میں کوئی موازنہ نہیں ہے۔ اول الذکر مکمل ایک ملک ہے جس کو ساری ترقی یافتہ دنیا کی اخلاقی ‘ مادی اور عسکری مدد حاصل ہے۔ دوسری طرف زیر زمین ایک مزاحمتی تنظیم ہے جس پر ساری دنیا کے دروازے بند ہیں۔ سیاسی محاذ پر اہل غزہ کی بھاری حمایت کے باوجود غزہ پر حماس کے اقتدار کو دنیا نے تسلیم نہیں کیا۔ ایسے میں مقابلہ جو بھی ہورہا ہے اسے برابر کی دو طاقتوں کا مقابلہ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اسرائیلی فورسز کو جس قسم کی مزاحمت کا سامنا ہے وہ بالکل انوکھی‘ نئی اور غیر متوقع ہے۔ اس میں خطرناک ہتھیاروں کا دخل کم جوش وجذبات اور حمیت وغیرت کا دخل زیادہ ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے 8 اکتوبر 2023 کو حماس کے خلاف جنگی کارروائی یہی کہہ کر شروع کی تھی کہ وہ جلد ہی حماس کا صفایہ کردیں گے۔ لیکن انہی کے حلیفوں اور خاص طور پر امریکہ اور فرانس نے انہیں بتایا کہ حماس کو اتنی جلدی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ مرحوم یاسر عرفات کی قیادت والی پی ایل او کی سابق تجربہ کار خاتون لیڈر حنان عشراوی نے بھی کہا کہ حماس کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایک مہینے سے زائد کی جنگ کے بعد جب اسرائیل کو اندازہ ہوگیا کہ خوفناک جنگی کارروائیوں سے اسرائیل کے یرغمال شہریوں کو واپس حاصل نہیں کیا جاسکتا تو اس نے عارضی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی۔ 100 سے زائد شہریوں کو اس نے اس معاہدہ کے تحت حاصل کرنے کے بعد پھر خوفناک بمباری کرکے غزہ کو تباہ کردیا لیکن حماس نے واضح کردیا کہ باقی یرغمال اسرائیلی اسی وقت رہا کئے جائیں گے جب مکمل جنگ بندی ہوجائے گی۔ حماس کے ترجمانوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائیل اپنی کارروائیوں سے ایک بھی یرغمال کو رہا نہیں کراسکتا۔
اگر بلا امتیاز بمباری اور تباہ کاری میں ہزاروں معصوم بچوں اور عورتوں کا بہنے والاخون بھی اہل غزہ کے حوصلہ کو متزلزل نہیں کرسکا تو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ انہیں اپنی سیاسی اور عسکری قیادت پر کتنا اعتماد ہے۔ غزہ میں اتنی تباہ کاری کے باوجود ابھی تک حماس کی سیاسی یا عسکری قیادت تک اسرائیلی فورسز کی رسائی نہیں ہوئی ہے۔ اس کا بھی کوئی سراغ نہیں لگ سکا ہے کہ باقی 100سے زائد یرغمال اسرائیلی کہاں رکھے گئے ہیں۔ 70دنوں سے زیادہ کی جنگ میں اسرائیل کی حصولیابی کچھ بھی نہیں۔ اس کے برخلاف اس کا نقصان بہت زیادہ ہے۔ فلسطینی شہیدوں کی تعداد اسرائیل کے جانی نقصان سے دس گنا ہے لیکن اولین سطور میں فلسطینیوں کے خون کی ارزانی کے جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں ان کی روشنی میں اہل فلسطین کا ایسا نقصان تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
اس قضیہ کا سب سے اہم عنصر عرب دنیا ہے۔ اسرائیل نے کئی عرب ملکوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرلئے ہیں۔ باقی ملکوں سے اس کی بات چیت جاری تھی۔ پہلی بار خود سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے انکشاف کیا تھا کہ دونوں ملک ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسرائیل سے مراسم کی استواری میں مسئلہ فلسطین کا حل انتہائی اہم ہے۔ لیکن حماس کی 7 اکتوبر کی کارروائی نے ان کوششوں پر ’بریک‘ لگا دیا۔ متعدد تجزیاتی رپورٹس کہتی ہیں کہ عرب ملکوں کے حکمراں اب بھی اسی پہلو پر غور کر رہے ہیں کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد ان کے مراسم اسرائیل سے کس سطح کے ہوں گے اور ریاست فلسطین کے خدوخال کیا ہوں گے۔ لیکن بعض رپورٹس ایسی بھی ہیں کہ اسرائیل کی روز افزوں ظالمانہ کارروائیوں کے سبب عرب ملکوں کے خیالات میں تبدیلی بھی آرہی ہے۔ تیونس‘ ترکی‘مراقش‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین میں عوامی بے چینی ہے۔
تیونس میں واقع ’عرب بارومیٹر‘ نامی تنظیم نے سروے کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اکثر عرب ملکوں کے عوام اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں اور ان کے درمیان ایران جیسے ملک کی قبولیت بڑھ رہی ہے جس نے حماس کی کارروائیوں کی تائید کی ہے۔ اس تنظیم کے تحقیق کاروں میخائل روبنس‘ میری کلیئر روشے‘ امانی اے جمال‘ سلمہ الشامی اور مارک ٹیسلر کی تیار کردہ رپورٹوں سے کئی انکشافات اور اعداد و شمار حاصل ہوئے ہیں۔ مثلاً بمباری میں غزہ کے 100سے زیادہ تاریخی ثقافتی مقامات تباہ ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ 45 فیصد رہائشی یونٹس برباد ہوگئی ہیں۔ عرب ملکوں میں ان انکشافات سے سخت بے چینی اور اضطراب ہے۔
میں نے اپنے پچھلے مضامین میں بتایا تھا کہ اسرائیل میں دوسرے ملکوں سے لاکر بسائے گئے ’نوآباد کاروں‘ میں اکثریت شرپسندوں کی ہے جو فلسطینی علاقوں کی سرحدوں پر بسائے گئے ہیں۔ یہ مسلسل اہل فلسطین سے جارحانہ چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ اب امریکہ سمیت کئی ممالک نے ان کے خلاف بھی نتن یاہو کو متنبہ کیا ہے۔ فرانس اور یوروپ کے دوسرے کئی ملکوں نے نوآبادکار یہودیوں پر اپنے یہاں سفر کرنے پر پابندی لگادی ہے۔ امریکہ نے بھی نتن یاہو سے کہا ہے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ ’ہارٹز‘ اخبار نے تو 17نومبر 2023 کو ایک اداریہ لکھ کر نتن یاہو حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ’جنگی جنون میں مبتلا نوآباد کار یہودیوں کو بالجبر روکئے‘۔ اس اداریہ میں فلسطینیوں کا دفاع بھی کیا گیا ہے۔
ادھر یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ اب فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے خلاف بھی فضا بن رہی ہے۔ 90 فیصد فلسطینیوں نے ایک سروے میں حصہ لے کر کہا ہے کہ محمود عباس کو استعفی دیدینا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ جب بھی ختم ہوگی ‘ فلسطین کے مستقبل میں رنگ بھرنے کیلئے ایک طرف جہاں محمود عباس کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوگی وہیں کوئی بھی فیصلہ حماس کو ساتھ لئے بغیر نہیں کیا جاسکے گا۔ حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہانیہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ حماس کے بغیر فلسطین کے مستقبل کا خواب محض وہم اور دھوکہ ہے۔
الجزیرہ اور اسرائیل کے کئی کالم نگاروں کا تجزیہ ہے کہ اسرائیل کے دو دوست ممالک ‘ مصر اور اردن کبھی نہیں چاہیں گے کہ حماس کا خاتمہ ہوجائے۔کیونکہ ان کیلئے اسرائیل کو قابو میں رکھنے کیلئے حماس کا وجود ضروری ہے۔ اکثر عرب اور مسلم ملکوں اور مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی والے ملکوں میں اسرائیل کی مصنوعات کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ بھی جاری ہے۔ باب المندب میں ’حوثیوں‘ نے ایسے کسی بھی پانی کے جہاز کو قبضہ میں لینے کا اعلان کیا ہے جو اسرائیل کی طرف جارہا ہو۔ اس نے ایسے کئی جہازوں کو روک بھی رکھا ہے۔ یہ تمام ایسے نکات ہیں جن کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذکرنا غلط نہ ہوگا کہ نتیجہ کچھ بھی ہو اسرائیل یہ جنگ ‘ ختم ہونے سے پہلے ہی ہار گیا ہے۔۔۔۔۔
Comments are closed.