وہی ہوا جس کا یقین تھا

 

عماد عاقب مظفر پوری

 

پہلے سے ہی مجھے یقین تھا کہ راشٹریہ جنتا دل مجلس کو اپنے اتحاد مہاگٹھ بندھن میں شامل نہیں کرے گا ، اس کے بہت سارے اسباب ہیں ،

 

1- اسد الدین اویسی صاحب نے لالو پرساد کی بڑی بیٹی میسا بھارتی کے خلاف مئی دو ہزار چوبیس کے لوک سبھا انتخابات میں پاٹلی پترا سے اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا ، مجلس کے امیدوار محمد فاروق رضا نے صرف 4010 ووٹ حاصل کیے ۔ اور آٹھویں نمبر پر رہے ، اس سے سب کو اندازہ ہوگیا کہ بہار میں مجلس کی طاقت کیا ہے

لالو کی بڑی بیٹی میسا بھارتی نے دو ہزار چوبیس کے لوک سبھا الیکشن میں پاٹلی پتر سے 612147 ووٹ حاصل کیے ، اور انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار اور اپنے منہ بولے چچا رام کرپال یادو کو 85174 ووٹوں سے شکست دی ، رام کرپال یادو دو ہزار چودہ تک لالو پرساد کے گھر کے ایک فرد اور چھوٹے بھائی کی طرح تھے ، دو ہزار چودہ کے لوک سبھا انتخابات سے قبل وہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوگئے ، دو ہزار چودہ اور انیس میں بھی ان دونوں کا اس سیٹ پر مقابلہ ہوا دو ہزار چودہ میں 40322 ووٹوں سے اور دو ہزار انیس میں 39321 ووٹوں سے میسا بھارتی رام کرپال یادو سے ہارگئی تھیں ،

2- اسد الدین اویسی صاحب ہمیشہ لالو پرشاد اور ان کی پارٹی سے بدلہ لینے کی باتیں کرتے ہیں ،

3- دو ہزار بیس کے اسمبلی انتخابات اور دو ہزار چوبیس کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے راشٹریہ جنتا دل کو مجلس کے اثر کا اندازہ بخوبی ہے

5- سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین سے اگر راشٹریہ جنتادل اتحاد کرلے تو اس پر فرقہ پرستوں سے اتحاد کرنے کا الزام لگے گا جس کی وجہ سے اس کے ہندو ووٹ اس سے دور جاسکتے ہیں ۔

 

6- ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ راشٹریہ جنتادل مجلس اتحاد المسلمین کو کتنی سیٹ دے اور کون سی سیٹیں دے ، مجلس سیمانچل کی وہ چاروں نشستیں بہادر گنج ، کوچا دھامن ،بائسی اور جوکی ہاٹ ضرور مانگے گی جہاں سے اس کے امیدوار دو ہزار بیس میں کامیاب ہوئے تھے اور ڈیڑھ سال کے بعد ہی دو ہزار بائیس میں راشٹریہ جنتا دل میں شامل ہوگئے تھے ۔ وہ چاروں موجودہ ایم ایل اے کسی بھی حال میں خاموش بیٹھنے والے نہیں ہیں ، اگر انہیں راشٹریہ جنتادل سے ٹکٹ نہ ملے تو وہ بطور آزاد الیکشن لڑیں گے ، اسی طرح ڈھاکہ مشرقی چمپارن کی سیٹ مجلس ضرور مانگے گی تاکہ وہ اپنے راجپوت لیڈر رنجیت رانا کو وہاں سے الیکشن لڑا سکے ، اور انہیں کامیاب کرا کے اپنی یہ امیج قائم کرے کہ مجلس اتحاد المسلمین صرف مسلمانوں کی پارٹی نہیں ہے ، بلکہ ہندؤوں کی بھی پارٹی ہے ، اور سیمانچل کی مذکورہ چاروں سیٹیں مسلم اکثریتی ہیں ، جب کہ ڈھاکہ میں بتیس تینتیس فیصد مسلمان ہیں اور آزادی کے بعد سے اب تک کئی بار یہاں سے مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ۔

 

*اویسی صاحب کو مشورہ*

اسد الدین اویسی صاحب کو چاہیے کہ وہ تلنگانہ کی طرح بہار میں بھی دو ہزار پچیس میں صرف چند سیٹوں پر ہی الیکشن لڑیں اور کم ازکم وہ پانچ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کریں جہاں سے وہ دو ہزار بیس میں کامیاب ہوئے تھے ، اور پھر اپنے بہار کے ممبران اسمبلی کو اسی طرح جوڑ کر رکھیں جس طرح تلنگانہ کے اپنے ممبران اسمبلی کو جوڑ کر رکھتے ہیں ،

 

 

*اویسی صاحب کا غصہ مسلمانوں کے لیے زہر قاتل*

اگر غصے میں اسد الدین اویسی صاحب ستر یا اسی سیٹوں پر بہار اسمبلی کا الیکشن لڑتے ہیں ، تو یہ ان کی حماقت ہوگی ، اور یہ مسلمانوں کے لیے زہر قاتل ہوگا ،

سوال یہ ہے کہ اسد الدین اویسی صاحب بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں یا راشٹریہ جنتا دل کو ؟ اگر وہ اپنی طاقت سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑتے ہیں تو یہ پیغام جائے گا کہ اسد الدین اویسی صاحب بھارتیہ جنتا پارٹی کو کمزور کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں ، دو ہزار بیس کے اسمبلی انتخابات اور دو ہزار چوبیس کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے انہیں اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا ہوگا ، انہیں تلنگانہ کی طرح دانشمندانہ سیاست کرتے ہوئے صرف ان چند سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہیے جہاں ان کا اثر زیادہ ہے ،

 

*فیصل رحمانی صاحب نے 29/ جون والے پروگرام میں سیاسی لیڈران کو بلاکر غلط نہیں کیا*

چونکہ راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس وغیرہ پارٹیوں نے وقف بل کی مخالفت کی تھی ، اس لیے امیر امارت شرعیہ فیصل رحمانی صاحب نے ان پارٹیوں کے بڑے اور چھوٹے لیڈران کو 29/ جون 2025 کو گاندھی میدان میں منعقد ہونے والے” وقف بچاؤ ، دستور بچاؤ” والے کانفرنس میں بلایا تھا ، اور اس میں انہوں نے کوئی غلط نہیں کیا ،

البتہ اسٹیج کا انتظام صحیح نہیں تھا ، اسٹیج پر صرف چند بڑے لیڈران کو ہی رکھنا تھا ،

اس کانفرنس کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں مسلم لاء بوڑڈ کے ذمے داران نہیں تھے ، بلکہ مجھے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی ندوی صاحب نے بتایا کہ انہیں نہ دعوت دی گئی اور نہ اس پیغام کا شکریہ ادا کیا گیا جو انہوں نے پٹنہ والے پروگرام کے حق میں جاری کیا تھا ،

امارت شرعیہ یا کسی بھی مسلم تنظیموں کی طرف سے ہونے والے پروگرام میں راشٹریہ جنتا دل وغیرہ پارٹیوں کے لیڈران شریک تو ہوسکتے ہیں ، مگر وہ اپنی سیاست امارت شرعیہ یا کسی مسلم تنظیم کے دباؤ میں نہیں کرتے ، امارت شرعیہ کے کہنے سے مجلس اتحاد المسلمین کو دس پندرہ کیا ایک سیٹ بھی شاید نہ ملے ، البتہ انڈیا اتحاد اختر الایمان صاحب کے خلاف امیدوار نہ کھڑا کرنے پر غور کرسکتا ہے ،

 

*آج کا اصل مسئلہ کیا ہے*

موجودہ حالات میں مسلم پارٹیوں یا زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کے کامیاب ہونے کا مسئلہ ہے ہی نہیں ، مسئلہ یہ ہے کہ کیسے اس بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کیا جائے جس نے دستور ہند کو بالائے طاق رکھ دیا ہے ، اور آئے دن کسانوں ،

اور مسلمانوں کے خلاف نئے نئے قوانین بناتی ہے ،

بہار کے مسلمان سیاسی طور سے بڑے ہوشمند ہیں اور وہ دو ہزار بیس کی طرح ہی اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیں گے ، اور اگر یادؤوں نے راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ دغا نہیں کی تو آئندہ حکومت راشٹریہ جنتا دل کی ہی ہوگی ،

Comments are closed.