امیر شریعت سادس حضرت مولا نظام الدین ؒکا تعلق دارالعلوم ندوۃ العلماء سے بڑا گہرا تھا:عبدالواحد ندوی

مولانا نظام الدین فاؤنڈیشن پھلواری شریف میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلبا ء وفدکے ساتھ ایک علمی و ثقافتی مجلس
پٹنہ(پریس ریلیز) دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ عالم اسلام کا ایک مؤقر ادارہ ہے،ذمہ داران ندوہ طلباء کی تعلیم، تربیت،ذہنی،فکر ی نشونما اورشعور کو بیدار کرنے اور ایک باخبر عالم دین بنانے کیلئے مختلف جہات سے کوششیں کرتے رہتے ہیں، انہی کوششوں میں سے ایک کوشش یہ بھی ہے کہ طلباء ندوہ ایک استاد کی نگرانی میں ہندوستان کے تاریخی شہروں اور وہاں موجود تاریخی آثار،ملی اداروں،مدرسوں،خانقاہوں و تنظیموں کو بھی دیکھیں اور علمی و روحانی شخصیتوں کی صحبت سے بھی استفادہ کریں؛چنانچہ طلباء دارالعلوم ندوۃ العلماء کا ایک وفد ندوۃ العلماء کے مؤقر استاد حضرت مولانا مفتی ظفر عالم ندوی کی قیادت میں 18/دسمبر کو المعہدالعالی امارت شرعیہ پھلواری شریف میں موجود ہے،گذشتہ19/دسمبر کومولانا عبدالواحد ندوی کی دعوت پر مولانا نظام الدین فاؤنڈیشن میں اس وفد کے ساتھ ایک علمی و ثقافتی مجلس حضرت مولانا ظفر عالم ندوی کی صدارت میں رکھی گئی،مولانا عبدالواحد ندوی نے وفد کا استقبال کیااوردلی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ میرے والدگرامی حضرت مولانا نظام الدین رحمہ اللہ کے دل میں دارالعلوم ندوۃ العلماء بسا تھا،حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ والد صاحب پر بہت اعتماد کرتے تھے،آپ ہی نے والد صاحب کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کا جنرل سکریٹری بنایااور ندوہ کی شوریٰ و مجلس انتظامی میں رکھا،ندوہ کے ناظم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ اور والد گرامی کی سوچ،فکر،مزاج اور کام کے طریقے میں بڑی یکسانیت تھی،دونوں بزرگ ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے تھے،دارالعلوم ندوۃ العلماء اور امارت شرعیہ کے اہم مسئلہ میں دونوں باہم مشورہ کرتے،اسی تعلق و محبت کی وجہ کر امارت شرعیہ اور ندوہ گھر کا ایک آنگن تھا،کثرت کے ساتھ آنا جانا ہوتا تھا،آپ حضرات کا یہاں آنا اسی تعلق و محبت کو زندہ کرتا ہے اورآج خوشگوار یادیں تازہ ہو رہی ہیں،المعہدالعالی کے سکریٹری مو لانا عبدالباسط ندوی نے امارت شرعیہ، دارالعلوم ندوۃ العلماء اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کے تعلق اور ان کی زندگی کے اہم گوشوں کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا،دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاد اور اس وفد کے قائد مو لانا ظفر عالم ندوی نے حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ،حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور حضرت مولانا سید نظام الدینؒ کے ابتدائی دور کا تذکرہ کیا اور کئی تاریخی واقعہ کو بیان فرماتے ہوئے امارت شرعیہ کی اہمیت و افادیت اور اس کی انفرادیت کو بتایا،امیرشریعت ثامن حضرت مولاناسید محمد ولی رحمانی ؒکی قائدانہ صلاحیت و فکری بلندی کاتذکرہ ہوا،وفد کی رہنمائی اور پروگرام کی ترتیب بنانے والے ندوہ کے مخلص مولانا معین الرشید ندوی نے فرمایا کہ ندوہ کے ذمہ داروں نے طلباء کی ذہنی و فکری تربیت کیلئے طلباء کے لئے علمی و ثقافتی سفر کا پروگرام بنایا ہے جو اپنے مقصد میں بہت کامیاب نظر آرہا ہے،دوسرے مدارس کو بھی اس نظام کو اپنے یہاں شامل کرنا چاہیے،آج اس محفل میں شرکت سے عالم ربانی حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یادیں تازہ ہو گئیں،بلاشبہ آپ کا تعلق نہ صرف ندوہ بلکہ حسنی خاندان سے بڑا والہانہ تھا،مولانا عبدالواحد صاحب ندوی اس تعلق کو زندہ رکھے ہوئے ہیں،یہ ان کی لائق مندی ہے،علمی گفتگو کے بعد تھوڑی دیر حضرت مولانا نظام الدین صاحب ؒ کی شعرو شاعر ی سے محفل گلزار رہی اور رات کے پرتکلف کھانے اور گرما گرم چائے پریہ یاد گار مجلس اپنے اختتام کو پہونچی،اس محفل کو کامیاب بنا نے میں،مولوی ابو الکلام نظامی،قاری ارشاد،ثنا ء اللہ صاحبان وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔
Comments are closed.