مجھے ہے حکم اذاں 8

مولانا محسن علی
صدر جمعیۃ علماء گوونڈی
تنقید کا شوق پورا کرنے کے لئے مُردوں کو بھی نہیں بخشتے حالانکہ اس فرعونی سوال کا جواب علمہا عند ربی فی کتاب اور حدیث میں اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ وَكُفُّوا عَنْ مَسَاوِيهِمْ میں بتلایا جا چکا، پہلوں پر تنقید اس طرح کی جانی چاہئے جیسے کہ آدم کے بیٹے پر قتل کی وجہ سے ہوئی کہ اس قتل کام کی ابتدا جو نفسانی خواہش کی شاخسانہ تھی، جو کوئی اس کی پیروی کرے گا اس سے پہلے والے کے عذاب میں اضافہ ہوتا رہے گا مگر جو قتل قصاص کے لئے ہوگا وہ حسن لغیرہ ہوگا اور عدل کے قیام کی وجہ سے عرش کے سایہ میں ہوگا، یا پھر کوئی علمی غلطی اجتہاد کی وجہ سے ہوتی ہے جو ثواب سے خالی نہیں مگر اپنے علمی مقام کو بھی ذرا دیکھ لیں کہ کہیں سورج پر تھوکنے کے چکر میں اپنے منہ پر ہی پلٹ کر نا آگرے،
کچھ لوگوں کے یہاں تنقید ایسا پسندیدہ مشغلہ ہے جیسے عام محفلوں میں غیبت ہوتی ہے مگر زندوں سے بد گُمانی اور غیبت کے بعد معافی مانگ سکتے ہیں مگر مردوں کے لئے استغفار ہی کرنا ہوگا پتہ نہیں وہ معاف کرے گے یا نہیں، اب رہ گئی بات کہ پھر دوسرے گمراہ ہو رہے ہیں تو ان کو کس طرح ھدایت پر لایا جائے اگر مسئلہ نصوص کا ہے تو ہمارا کام آسان ہے اور اجتہادی ہے تو نیت کو چھیڑے بغیر دلائل کا ذکر کافی ہے لست علیھم بمصیطر، مودودی صاحب جیسے تمام متجددین اور انکے متبعین خود تو دوسروں کو تنقید کی نوک پر رکھتے ہیں مگر جب ان پر پلٹ وار ہوتا ہے تو ایسا ہا واویلا مچاتے ہیں کہ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، انکی تنقید سے جتنے زندوں کے دل چھلنی ہوتے ہیں اتنا ہی قدیم علمی روایات کو نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے اور انداز بھی مضحکہ اڑانے جیسا ہوتا، کبھی یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ خیر القرون بھی قرآن کی ان اصطلاحات کو نہیں جان سکے وہ ہم نکال لائے یا پھر حدیث کو تخت مشق بناتے ہیں، پتہ نہیں کس طرح کا معاشرہ دارالسلام سے چاہتے تھے جب کہ ووٹ ہی اخیر میں مانگنے پڑ رہے ہیں یا مغرب میں ہی جائے امان کی نصیب ہوتی ہے، پھر ایک شکایت علماء کی تند خوئی سے ہے کہ بداخلاقی سے پیش آتے ہیں تو حضورِ والا جب وہ منکر کو روکنے نکلے ہیں تو ہاتھ اور زبان کا استعمال ممکن نا ہو تو دل میں برا جاننے کا درجہ ہے تو اس درجہ کو زبان اور ہاتھ تک بڑھاتے جائیں اخلاق کا اندازہ ہو جائے گا، چور ڈاکووں سے کس طرح کے اخلاق روا رکھے جائے یہ جگ ظاہر ہے اسی کو کہتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، اور حدیث میں نماز کے لئے بچوں پر ڈنڈے کی مار کو جائز قرار دیا اسی طرح گھر میں کوڑا لٹکانے کا کہا گیا، یہ سب انکی محبت میں انکی اصلاح کے لئے ہے اس سے برا انکو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہے گویا یہ اپنے اسماعیل کی قربانی ہے، قرآن کہتا ہے و انذر عشیرتک الاقربین اب یہ انظار حسبِ طبائع ہوگا فرعون جیسوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ہوگا اور کچھ کے لئے حضرت عمر کا کوڑے ضروری ہے!
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
Comments are closed.