شہید شیخ بخاری عرف شیخ بھکاری انصاریؒ جنہیں دنیا فراموش کرچکی ہے
ولادت : 2 اکتوبر1811 ء ٭ شہادت : 8جنوری1885ء

محمد عارف انصاری
را بطہ : 9572908382
انگریزوں سے ملک کو آزاد کروانے کے لیے پہلی جنگ آزادی ہند1857 ء کے لیے ماحول سازی کرنے اور میدان جنگ میں اپنی بہادری کے جوہر دکھانے والوں میں ثا نی ٹیپو سلطان شہیدشیخ بخاری عرف شیخ بھکاری انصاری کا نام بہت ہی اہم ہے۔ ان کی پیدائش (ورثاءکے مطابق)2 اکتوبر 1811 ءکو چھوٹا ناگپور،بہار (اب جھارکھنڈ) کے مکہ ہوپٹے میں ایک مومن (انصاری) بنکر خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام شیخ لعل بہادر تھا۔ان کے آباء و اجداد نے شیر شاہ سوری کی روپوشی کے زمانے میں چھوٹا ناگپور کی پہاڑیوں میں آباد ہوکر اپنے آبائی پیشہ پارچہ بافی کو فروغ دیا ۔ قبائلیوں کے درمیان لباس پوشی رائج کی ، انہیں پارچہ بافی سے وابستہ کران کے معاش کا ذریعہ پیدا کیا۔ ان کے بچوں کی تعلیم کے مواقع پیدا کیے۔ان خدمات سے مانوس وممنون ہوکر وہ اِنہیں شیخ جی کہنے لگے۔ (ماخوذاز : شہید شیخ بھکاری حیات و خدمات)
شیخ نے ورثے ملی ہمت و بہادری کے زور پر بڑکا گڑھ ہٹیا کے را جہ ٹھاکر وشوناتھ شاہ دیو کے دربار میں بہت جلد دیوان اور سپہ سالار اعلی کے عہدے حاصل کرلیے تھے۔وہی ٹھاکر شاہ دیو جنگ آزادی اول1857ءمیں ان کے مربی ثابت ہوئے۔ان کے اہم انقلابی ساتھیوں میں پانڈے گنپت رائے (بھونرو) ، جئے منگل پانڈے، نادر علی خان ، ٹکیت امراؤ سنگھ اورگھاسی سنگھ وغیرہم تھے۔ شیخ نے عوام کے اندر تعلیمی شعور پیدا کیا، روزگار کے مسائل حل کئے اوربعض زمینی اصلاحات بھی کیں۔ چھوٹا ناگپور خطے پرقبضہ کے فرنگیوں کے بڑھتے ناپاک عزائم دیکھ انہیں اس علاقے سے کیا ملک سے نکال باہر کرنے کی کوشش میں پوری طاقت لگادی۔ اگر پٹھوریہ کے پر گنیت جگت پال سنگھ نے غداری نہ کی ہوتی تو وہ شہید ٹیپو سلطان کاخواب پورا کرتے ہوئے انگریزوں کواُنہی دنوں ہندُستان چھوڑنے پر مجبور کر دیتے۔
1857ءکے قریب جب پورے شمالی ہند میں پہلی جنگ آزادی ہند کی آواز گونجنے لگی تو شیخ نے بھی اپنی مہم تیز تر کردی۔ انہوں نے چائباسہ، دمکا اور ہزاری باغ کے آزادی کے متوالوں کو منظم کیا۔ چھوٹے زمینداروں اور جاگیرداروں کو فرنگیوں کے تسلط کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے انگریزوں کی مخالفت میں اپنے ساتھ کیا ۔ بابوکنورسنگھ ، جھانسی کی رانی لکشمی بائی و دیگر انقلابیوں سے مراسم پیدا کیے۔بیگم حضرت محل اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک سے روابط پیدا کرنے کی کوششیں کیں تاکہ ملک گیر پیمانے پرانگریزوں کے خلاف جدوجہد جاری رہے۔ جدید طرز کی اسلحہ سازی اور جنگلوں وپہاڑوں کی مناسبت سے گوریلہ جنگی تربیت کا نظم کیا۔ سدھو، کانہو جو ہزاری باغ جیل میں انگریزوں کے قیدی تھے انہیں فرار ہونے کا موقع فراہم کرایا۔
شیخ کی اِن کوششوں سے انگریز بُری طرح خائف ہوگئے اور انہیں اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگے۔جنرل میکڈونالڈ کے لفظوں میں:
"Among the rebels, sheik Bhikhari is the most
Notorious and dangerous mutineer.”
یعنی ”باغیوں میں شیخ بھکاری نامی اورسب سے زیادہ خطرناک باغی ہے“۔
انگریزوں نے انہیں ہر ایک قیمت پر ختم کردینے کی ٹھان لی لیکن یہ کام آسان نہیں تھا۔ اس لیے ’پھوٹ ڈالوا ور حکومت کروکے اپنے آزمودہ حربہ کے تحت بعض دیسی راجاؤں، زمینداروں اور جاگیرداروں پر شیخ کے خلاف ڈورے ڈال کر رانچی کے تین بڑے زمینداروں بل بھدر سنگھ، پِتامبر شاہی اورجگت پال سنگھ کی وفاداریاں اپنے لیے مخصوص کرا لیں۔
جنگ آزادی1857ءکے پیش نظر تک شیخ نے چھوٹا ناگپور و دیگر علاقوں کو خاصا منظم کرلیا تھا۔ اس لیے جب عام بغاوت کا غلغلہ ہوا تو چائباسہ ، دمکا، سنتھال پرگنہ، ہزاری باغ اور رام گڑھ کے مجاہدین آزادی نے بھی علم بغاوت بلند کردیا۔ اس دوران تقریباً 45 انگریز رانچی میں مارے گئے۔ کمشنر چھوٹا ناگپورڈالٹن گنج، پٹھوریا کے راستے بگودر نکل بھاگا، چترا کے راجہ نے غداری کی اور انگریزوں کو اپنے یہاں پناہ دی۔اسی طرح ضلع پلاموں میں لفٹننٹ گراہم کو شکست دیکر وہاں قبضہ کرلیا گیا۔ علاقہ انگریزوں سے تھوڑی مدت کے لیے پاک ہوگیا تو اوائل 1857ءمیں ڈورنڈا، رانچی میں ٹھاکر وشو ناتھ شاہ دیوکی تاجپوشی اور جشن آزادی کا پورے جوش خروش سے اہتمام کیا گیا۔چھوٹا ناگپور کے آزاد ہوجانے سے انگریزوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ اس طرح بنگال اور اڑیسہ کی شاہ راہ ان کے لیے مسدود ہوگئی اور گرینڈ ٹرنک روڈ ان کے ہاتھ سے نکل جانا اےک بڑے خطرے کی بات تھی۔
جنرل میکڈونالڈ اور کرنل ڈالٹن کو کلکتہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے تازہ کمک پہنچائی۔ ادھر آستین کے سانپ مقامی غداروں نے بھی ان کی مدد شروع کی۔ادھر شیخ بھکاری اور ٹکیت امراؤں سنگھ اپنے علاقے کی گھیرا بندی میں لگ گئے تاکہ ملی ہوئی آزادی انگریز چھن نہ لیں۔اس لئے انہوں نے سڑکوں اور گھاٹوں کو جگہ جگہ کاٹ ڈالا۔ اسی درمیان پٹھوریہ کے راجہ جگت پال سنگھ نے سازش کی اورانگریزی فوج کے جنرل میک ڈونالڈ سے سازباز کرکے ٹکیت امراؤ سنگھ کے ساتھ انہیں 6جنوری1857ءکوانگریزوں کے ہاتھوںدھوکے سے گرفتار کروادیا۔ انگریزوں نے7 جنوری1858ءکو ایک نام نہاد عدالت میں مقدمہ چلا کر ان دونوں جاں نثاران وطن کو سزا ئے موت سناتے ہوئے8 جنوری 1858ءکوپھانسی دینے کی تاریخ مقرر کردی ۔مگر عوامی مخالفت کے خوف سے انہیں پھانسی گاہ تک لے جانے کی ہمت نہ کرسکے اورپہلے ہی گولی مار کر شہید کردیا ۔ ان کی لا شیں وادی چٹوپالی میں برگد کے ایک درخت پر لٹکا دیں۔بعد میں مقامی لوگ شیخ کی لاش اتار کر لے گئے اور ”اور مانجھی“ بلاک کے تحت ”کھدیا“ گاؤں کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا جہاں آج بھی ان کا مزارموجود ہے۔
Comments are closed.