بھارت کو  جوڑنے کی مہم کا  آغاز نو

 

ڈاکٹر سلیم خان

کمنڈل سے بھارت توڑو کا مقابلہ کرنے کے لیے راہل گاندھی منڈل تھام کر بھارت جوڑو یاترا شروع کرنے جارہے ہیں۔ اس سے قبل ایسا ہی ایک پیدل  سفر کنیا کماری   سے شروع کیا گیا تو  نتیجہ یہ نکلا کہ جنوبی ہندوستان بی جے پی مکت(سے پاک)  ہوگیا۔ اس کے آغاز پر بی جے پی نےراہل گاندھی  کے ٹی شرٹ کا  مذاق  بنا کر  یہ خبر اڑائی گئی کہ  یہ برانڈڈکپڑے پہن کر بھارت کو جوڑنے چلے ہیں۔ بس پھر کیا تھا یار دوستوں نے وزیر اعظم کے لباس ، ان کی عینک ، گھڑی اور نہ جانےکیا کیا گنوادیا ؟ اس نا کامی کے بعد  یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ راہل گاندھی نے سوامی وویکانند کی توہین کی ہے۔ اس کی تردید میں بھی ویڈیو آگئی تو آئی ٹی سیل چاروں خانے چت ہوگیا۔   اس وقت تک بھارت جوڑو یاترا کیرالہ پہنچ چکی تھی  تو کہا گیا کہ  وہاں تو ہم ہیں نہیں جب وہ  کرناٹک میں داخل ہوگی تو دال آٹے کا بھاو پتہ چل جائے گا۔ کرناٹک میں راہل گاندھی کی  ایسی پذیرائی ہوئی کہ مودی جی کو بالآخر بجرنگ بلی کے شرن( پناہ) میں جانا پڑا مگر وہ  نوٹنکی بھی ان  کے کسی کام نہیں آئی۔ ریاستی انتخاب میں  بی جے پی کا بوریا بستر گول ہوگیا اورجنوب کی واحد ریاست ہاتھوں سے نکل گئی۔

بی جے پی نے  اس نقصان کی بھرپائی کے لیے  تلنگانہ میں قسمت آزمائی  کی کیونکہ  اس  کو اپنے ذرائع سے پتہ  چلا کہ  عوام کے اندر کے سی آر کے خلاف ناراضی کی لہر چل رہی ہے۔  اس سے استفادے کی خاطر مودی جی  نےپسماندہ وزیر اعلیٰ کا شوشہ چھوڑا۔ ایک طرف تو وزیر اعظم کہتے ہیں ملک میں صرف غریب اور امیر کی ذات ہے ۔ ان دونوں کے درمیان جاری کشمکش  میں اڈانی اور امبانی جیسے امیر لوگ سرکار کے ساتھ ہیں ۔ ان کو خوش کرنے کے لیے مودی حکومت ہزاروں کروڈ روپیوں کا قرض معاف کردیتی ہے اور غریبوں   کو ساتھ رکھنے کے لیے  انہیں پانچ کلو اناج پر ٹرخا دیتی ہے۔ مودی جی یہ بھی کہتے ہیں کہ  ملک میں چار طبقات  کسان ، خواتین، طلباء اور نوجوان ہیں لیکن جب محسوس ہوتا ہے کہ ان نعروں سے بات نہیں بن رہی ہے تو ذات پات کی سیاست شروع ہو جاتی  ہے۔

 اس سے بھی بات نہیں  بنی تو  فرقہ پرستی کو ہوا دینے کے لیے  حیدرآباد کا نام بدل کر بھاگیہ (تقدیر) نگر رکھنے کا فتنہ چھوڑنے کی خاطر یوگی ادیتیہ ناتھ کو بھیجا گیا لیکن اس کے باوجود بی جے پی کی قسمت نہیں کھلی اورکرناٹک کے بعد تلنگانہ میں بھی  بی آر ایس کی موٹرکا پہیہ  پنچرکرکے کانگریس اقتدار میں آگئی   ۔ آندھرا پردیش ، تمل ناڈو، کیرالہ اور کرناٹک  میں تو بی جے پی پہلے ہی ندارد تھی، اب جو تلنگانہ میں امید جاگی تھی اس پر بھی پانی پھر گیا۔ بھارت جوڑو یاترا مغرب سے نکل کر مشرق کی جانب بھی جاسکتی تھی لیکن اگر ایسا ہوتا تو وہ رام مندر کے افتتاح سے قبل اتر پردیش سے گزر جاتی ۔ اس کا اصل مقصد تو رام مندر کے افتتاح سے شمالی ہند میں جو ماحول  سازی  کی جائے گی اس کے اثرات کو زائل کرنا ہے اس لیے اسے مشرقی ہندوستان شروع کیا جارہا ہے تاکہ وہ اس کے بعد بہار اور اترپردیش میں داخل ہو۔ اس طرح بی جے پی کے زہر کا تریاق نکالا جا سکے۔  یہ حربہ کس قدر کارگر  ثابت ہوگا اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا۔

  جنوبی ہند کی طرح مشرقی ہندوستان میں بھی  بی جے پی کی کوئی خاص پکڑ نہیں ہے ۔  شمال مشرق  میں صرف آسام ایک ایسا  قابلِ ذکر  صوبہ ہے جہاں بی جے  پی برسرِ اقتدار ہے۔ اس  کے علاوہ نہ  وہ مغربی بنگال  میں ہے  اور نہ بہار میں  ۔ اس کو نہ تو  جھارکھنڈ میں کامیابی مل سکی ہے اور نہ اڑیشہ  میں ۔ بعید نہیں کہ بھارت جوڑو یاتراکی دوسری قسط  کے طفیل آسام پھر سے  کانگریس کی جھولی میں آجائے ۔ راہل گاندھی کی عوامی مقبولیت سے قطع نظر  حزب اختلاف کا اتحاد میں بھی  وہ سب کے چہیتے ہیں ۔پٹنہ کے پہلے اجلاس میں  اس کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب    لالو یادو نے انہیں  شادی کرنے کا مشورہ دے کر حزب اختلاف کا دولہا کہہ کر   اپنے مخصوص  انداز میں  وزارتِ عظمی کےان کی  امیدواری  کا   لطیف اشارہ کردیا تھا  ۔  ممتا بنرجی نے بنگلورو میں متحدہ محاذ کے لیے  ’انڈیا‘ نام تجویز کرنے پر راہل کی کھل کر  تعریف کی۔  ممبئی میں اڈانی کی دھجیاں اڑا کر راہل گاندھی چھا گئے۔

 اس اتحاد کو قائم رکھنے میں بھی راہل  کا ظرف  اور قبلِ قدرکردار رہاہے ۔ مدھیہ پردیش  میں کمل ناتھ نے جب  اکھلیش وکھلیش  کو ہٹاو والا تبصرہ کرکے  ناچاقی پیدا کردی تو راہل گاندھی کے ایک فون نے سارا مسئلہ حل  کردیا۔  اس کے بعد اکھلیش نے کہا بڑے رہنما کا فون آیا تھا  اور  وہ باب اب بند ہوگیا ہے۔ نتیش کے ناراض ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تب بھی راہل گاندھی کے فون نے انہیں راضی کرلیا ۔  اسی  لیے بی جے پی  کو یقین تھا  کہ کانگریس نے انہیں صدر  نہ بھی بنایا  تو’انڈیا‘ محاذ کا کنونیر لازماً راہل گاندھی کو بنایا جائے گا اور اس طرح وہ وزیر اعظم کے  امیدوار  نامزد  ہو جائیں گے ۔ بی جے پی آج بھی  گاندھی خاندان سے خوفزدہ  ہے مگر  اس کے باوجود  چاہتا ہے کہ راہل گاندھی وزیر اعظم کے دعویدار بنیں۔  اس کی وجہ یہ ہے راہل کو بدنام کرنا ان لوگوں کے لیے آسان ہے۔ وہ لوگ راہل شبیہ خراب کرنے پر بے شمار سرمایہ اور وقت صرف  کرچکی ہے ۔ شاہ جی اور ان کی فوج  آئندہ انتخاب کو مودی بنام راہل بنانا چاہتی تھی  لیکن ’انڈیا‘ محاذ میں کھڑگے کا نام پیش کرکے ممتا نے بی جے پی کا وہ  ہتھیار چھین لیا۔   اس طرح بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے راہل گاندھی کی بدنامی پرجو کروڈوں روپئے صرف کیے تھے ان پر عین استعمال سے قبل  یکلخت پانی پھِر گیا ۔

پہلی بھارت جوڑو یاترا کے بعد راہل گاندھی یہ ثابت کرچکے ہیں کہ بی جے پی کا بڑا سے بڑا رہنما الٹا لٹک جائے تب بھی اتناطویل پیدل سفر نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ اتنے دنوں تک سڑکوں پر عوام کے ساتھ ایسی زبردست رابطہ مہم نہیں چلاسکتے ۔ سیکیورٹی کے بغیر عوام سے گھل مل نہیں سکتے اور جموں کشمیر میں جانے کا تو تصور بھی نہیں کر سکتے ۔  راہل گاندھی کے ذریعہ کھولی جانے والی محبت کی دوکان ان سے نفرت کرنے والے گودی میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی اور اس نے نہ صرف کانگریس بلکہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں   کے اندر زبردست خود اعتمادی پیدا کردی تھی ۔ بی جے پی مخالف رائے دہندگان کے اوپر اس نے زبردست اثرات ڈالے تھے۔ وہ لوگ جو کسی بھی جانب والوں میں سے ہیں ان کی بڑی تعداد کو راہل گاندھی کی مہم نے پر امید کردیا تھا۔کانگریس کی مرکزی انتظامیہ نے انہیں وجوہات کے سبب  پھر سے راہل گاندھی نیا پیدل مارچ نکالنے کی درخواست کی ہے۔ انتخاب سے اوپر اٹھ کر اسے ایک نظریاتی جنگ سمجھنے والے راہل گاندھی کے لیے  وزیر اعظم  کا امیدوار بنانا یا نہیں بناناکسی اہمیت کا حامل نہیں ہے ۔

کانگریس ورکنگ کمیٹی نے اپنے مرکزی دفتر  میں ملک کے موجودہ حالات اور لوک سبھا انتخاب کے لیے پارٹی کی تیاریوں پر تبادلہ خیال  کرکے  اہم  اقدامات  اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا اور امید ظاہر کی گئی کہ  آگے  محنت رنگ لائے گی۔ سی ڈبلیو سی میں کھڑگے نے 19 دسمبر 2023 کو انڈیا اتحاد کی چوتھی میٹنگ کے بارے میں بتایا تھا  کہ  ہم خیال ساتھیوں سے اشتراک  و تعاون سے بیش از بیش  سیٹوں پر جیت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ کانگریس کے صدر نے پارٹی کے 138ویں یوم تاسیس پر 28 دسمبر کو آر ایس ایس گڑھ ناگپور میں  عظیم الشان ریلی کا اعلان   کیا جو ایک حوصلہ مند فیصلہ ہے ۔ کھڑگے  نے   ’ڈونیٹ فار دیش‘ نامی  کراؤڈ فنڈنگ کی مہم پربھی اطمینان جتایااور  اس مہم کے بارے میں تنظیم سے لوگوں کو مطلع کرانے کی اپیل کی۔ملک ارجن کھڑگے  نےاپنی گفتگو کے اختتام پر  کہا  گزشتہ کئی مہینوں سے پارٹی کے سبھی رہنما و کارکنان ایک آواز میں لگاتار ان کے سامنے راہل گاندھی کی  مشرق سے مغرب کی طرف ’بھارت جوڑو یاترا‘ کرنے کی گزارش کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

 ’بھارت جوڑو یاترا 2.0‘جنوری کے دوسرے ہفتہ میں  شمال مشرق سے شروع ہوکر پیدل   اور بس  کے ذریعہ   50 دنوں میں گجرات تک جائے گی۔ حزب اختلاف  نے جنوبی ہندوستان کو بی جے پی سے پاک کر چکا ہے مگر شمالی اور مغربی ہندوستان میں بی جے پی کا مکمل غلبہ  حاصل ہے لیکن وہ اب اپنے عروج پر ہے یعنی جتنی نشستیں اس کو مل چکی  ہیں  اس میں مزید اضافے کی گنجائش نہیں ہے۔ اب اگر  راہل کی پیدل مہم ان علاقوں میں اپنا تھوڑا بھی  اثر دِکھاتی ہے تو اس سے بی جے پی کا نقصان  ہی  ہوگا۔  اس طرح ماہِ جنوری کے نصف  سے  ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی رام مندر کی آڑ میں  نفرت کی بنیاد پر اپنی بلا واسطہ انتخابی مہم چلارہے ہوں گے وہیں دوسری  جانب اس کے متوازی شمالی ہندوستان کے اندر محبت کے حوالے سے ایک مخالف  یاترا  راہل گاندھی کی قیادت چل رہی ہوگی ۔ ان دونوں کے بیچ عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ محبت پر نفرت کو ترجیح دیتے ہیں یا نفرت کے خلاف محبت کو کامیاب کرتے ہیں۔

Comments are closed.