جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

 

ڈاکٹر سلیم خان

بھارتیہ جنتا پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ اول تو اس کو اپنی  غلطی کا احساس نہیں ہوتا اور جب ہوتا ہے تو اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے یعنی ’چڑیا کھیت چگ چکی ہوتی ہے‘۔ اس کی وجہ یہ  ہے کہ زعفرانی ذہنیت کے حاملین کرنےکےبعد سوچتے ہیں۔ ان کو  تاخیر سے سہی  جب اپنی  غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہ  اصلاح کا غلط طریقہ اختیار کرکے معاملہ کو اور بھی زیادہ  پیچیدہ کردیتے ہیں ۔ ایوانِ پارلیمان کے سرمائی اجلاس میں یہی ہوا ۔ پہلے توان لوگوں نے حفاظت میں کوتاہی کی جس کے سبب دو نوجوان اندر کود گئے۔ اس غلطی کی جانب سے توجہ ہٹانے لیے دھڑا دھڑا حزب اختلاف کے146 ارکان کو معطل کردیا ۔ اس کے سبب ہونے والی بدنامی سے بچنے کے لیے ممکری پربے وجہ ہنگامہ کیا۔ نائب صدر نے رائی کا پہاڑ بنایا اور وزیر اعظم و صدر مملکت کودھنکڑ کے دکھ میں شریک کیا۔  اس سے بات نہیں بنی تو ذات پات کارنگ دے کراسے جاٹوں کی جانب موڈ دیا مگر ساکشی اور پونیا عین وقت پر اس  وہ سازش  ناکام کردیا۔  معطلی کے خلاف انڈیا محاذ نے متحد ہوکر جنتر منتر پر زبردست احتجاج کیا توسرکار کی چولیں ہل گئیں۔ عقل آئی تو کانگریس کے صدر کو خط لکھ کرمن مٹاو کی کوشش کی دیا لیکن اب تک کافی دیر ہوچکی تھی اور جھاکڑ  کی حالت پر یہ شعر صادق آنےلگا تھا؎

کی میرے قتل کے بعد اس نے وفا سے توبہ                       ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

راجیہ سبھا  میں 40؍ سے زائد اپوزیشن  اراکین کو معطل کرنے کے بعد  چیئر مین جگدیپ دھنکر نے ایوان میں اپوزیشن لیڈر ملک ارجن کھڑگے کو خط لکھا تو اس میں بھی  ایوان کے تعطل کی خاطر الٹاحزب اختلاف کو ہی ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ انہوں نے اپنے خط میں الزام لگایا  کہ سرمائی اجلاس کے دوران ایوان  کی کارروائی بہتر طریقے سے چلانے کی ہر ممکن کوشش میں انہیں  حزب اختلاف  اور خاص طور پراس کے رہنما  کی جانب سےخاطر خواہ  تعاون نہیں ملا ۔ دھنکڑ نے اس  خط میں  دعویٰ کیا کہ انہوں نے کھڑگے سے ملاقات کی کئی کوششیں کیں لیکن وہ  میٹنگ کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ سے ایوان میں تعطل برقرا رہا۔جگدیپ دھنکڑکے مطابق  انہوں نے کانگریس صدر سے ملاقات اور پھر باقاعدہ میٹنگ کی ۳؍ سے ۴؍ مرتبہ درخواست کی تاکہ ایوان کا تعطل ختم کیا جاسکے لیکن کھڑگے نے اسے قابل اعتناء نہیں سمجھا جس کی وجہ سے انہیں اتنے اراکین کو معطل کرنا پڑا ۔ یہ عجب تماشا ہے کہ اپنی آئینی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام ہونے والا شخص دوسروں کو خود کی کوتاہی کے لیے ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔

نائب صدر جگدیپ دھنکڑ کی اس  چوری اور سینہ زوری کو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کہتے ہیں ۔ ایک معمولی سی بات پر حزب اختلاف کو پانی پی پی کر کوسنے والے صدرِ اجلاس   اب  دوسروں پر پارلیمانی روایات کا پاس ولحاظ  نہیں رکھنے کا الزام لگا  رہے ہیں ۔ وہ اپنی  نامعقول سخت کارروائی کے لیے مقہور ارکان  کو موردِ الزام ٹھہرا رہے  ہیں ۔ اب وہ  گہار لگارہے ہیں کہ اگر اپوزیشن لیڈر تعاون کے لئے تیار ہو جائیں تو راجیہ سبھا کی کارروائی چلانے میں انہیں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ نائب صدر نے کہا کہ ایوان میں خلل جان بوجھ کر اور منصوبہ بند حکمت عملی کےتحت ڈالا گیا تھامگر وہ اس کی نشاندہی کرکے انہیں  شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن جب بات کرنے کا موقع ملے گاتو بتائیں گے۔ راجیہ سبھا کے چیئرمین نے کہا کہ اگر کانگریس لیڈر کا یہ دعویٰ کہ ’ہم بات چیت اور گفت و شنید پر پختہ یقین رکھتے ہیں‘ حقیقت میں پورا ہوتا تو وہ مطمئن ہوتے۔ نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر کا بے بنیاد الزام  ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی جانب سے چیئر مین سے ایسی درخواستیں کی جارہی تھیں جنہیں پارلیمنٹ کے اصول و ضوابط کے مطابق   کام کرنے والا کوئی بھی فرد قبول نہیں کرسکتا  انہیں افسوس ہے کہ یہ پارلیمانی جمہوریت کیلئے مناسب نہیں ہے۔ اسی افسوس نے انہیں یہ خط لکھنے پر مجبور کیا ۔

پارلیمنٹ پر حملے کے باوجود ایک مرتبہ بھی وزیر اعظم  کا ایوان میں پھٹکنے کی زحمت گوارہ  نہیں کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی کے نزدیک اس کی کیا اہمیت ہے؟ سرکار کوسبکی سے بچانے کے لیےدھنکڑ یا برلا نے اس  سانحہ پر بحث کی اجازت  تک نہیں دی ۔ وزیر داخلہ نےایوان میں  اس پر بیان نہیں دیا۔ اس کے بعد یہ مگر مچھ کے آنسو کس کام کے ؟نائب صدر  جگدیپ دھنکر نے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے  کانگریس کے سربراہ ملک ارجن کھرگے کو نہ صرف خط لکھا بلکہ اراکین پارلیمان کی معطلی پر بات چیت کے لیے اپنی رہائش گاہ پر مدعو  بھی کردیا۔ کھرگے نے  اس کے جواب میں   خط لکھ کر دہلی سے باہر ہونے کی وجہ بتاکر میٹنگ میں شرکت سے معذوری ظاہر کردی۔ اس کے ساتھ  کھرگے نے جگدیپ دھنکڑ کو یاددلایا کہ اسپیکر ایوان کے نگہبان ہوتا ہے  اور انہیں پارلیمنٹ کے وقار کو برقرار رکھنے ، پارلیمانی مراعات کے تحفظ اور بحث، مباحثےو جوابات کے ذریعے اپنی حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کے عوامی حق کے تحفظ کے لیے سب سے آگے ہونا چاہیے۔انہوں نے مزید لکھا کہ ’ تاریخ جب  بغیر بحث کے بل منظور کرنے اور حکومت سے احتساب کا مطالبہ نہ کرنے پر پریزائیڈنگ افسر کے کردار کو یاد کرے گی تو یہ افسوسناک باب ہوگا‘۔ اس جواب کو پڑھنے کے بعد بھی اگر دھنکڑ اپنے رویہ کی اصلاح  نہیں کرتے تو انہیں آئینی عہدےپر فائز رہنے کا قانونی جواز تو ہے لیکن اخلاقی حق نہیں ہے ۔

ایوانِ پارلیمانِ داخلے کے مقصد کو اندر جانے سے محروم رہنے والے  مہاراشٹرکے امول شندے  اورہریانہ کی  نیلم  آزاد نامی خاتون کے بیرونِ  پارلیمنٹ   پیلے اور سرخ دھوئیں والے کنستروں کا استعمال کرتے ہوئے آمریت کیخلاف نعرے  سےظاہر ہوتاہے ۔ للت جھا نے مبینہ طور پر نیلم اور شندے کی پارلیمنٹ کے باہر احتجاج  کی  ویڈیو بنائی اور پھر اپنے سیل فون کے ساتھ فرار ہوگیا ۔ پولیس کے مطابق اس سازش کا  ماسٹر مائنڈ للت جھا واقعہ کے بعد  دہلی سے سیدھا راجستھان کے ناگور بھاگ گیا تھا۔ وہاں وہ مہیش نامی شخص کے ٹھکانے پر پہنچا۔ مہیش کو 13 دسمبر کو دہلی پارلیمنٹ ہاؤس بھی آنا تھا۔ مہیش کو اس سازش کا پورا علم تھا۔  دہلی سےبس کے ذریعہ  ناگور پہنچ کراس نے وہیں  ہوٹل میں شب بسر کی۔ آگے چل کر جب اسے معلوم ہوا کہ پولیس انہیں  تلاش کر رہی ہے تو مہیش کے ساتھ دہلی آکر اس نے  خودسپردگی کر دی۔تفتیش کے دوران جن  دو تنظیموں کے نام  سامنے آئے ہیں، ان کی  تحقیقات جاری ہیں۔ پولیس کا خیال ہے انہوں نے پہلے سے ہی تیاری کر رکھی تھی اس لیے و ہ  پوچھ گچھ  میں یکساں  جواب دے ر ہے ہیں۔ ویسے  یہ بھی تو ہوسکتا  ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ سچ سچ بول رہے ہیں اور سچائی  تومختلف نہیں ہوتی ۔

  یہ نوجوان  بنیادی طور پر ایوانِ پارلیمان میں ملک کو درپیش بے روزگاری،  افراط زر، کسانوں کے مسائل  اور منی پور میں تشدد جیسے بنیادی  مسائل  پر بحث و مباحثہ  کروانا چاہتے تھے لیکن اقتدار کے نشے میں مست سرکار چونکہ  ان کو نظر انداز کررہی تھی اس لیے انہیں مجبوراً  یہ انتہائی   قدم اٹھانا پڑا۔ ایوانِ پارلیمان  کے باہر گرفتار ہونے والی نیلم آزاد گرفتاری   کے وقت کہہ رہی تھیں کہ عوام پر ظلم ہو رہا ہے۔ حکومت ہماری بات نہیں سنتی۔ آواز اٹھانے والوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے ’ڈکٹیٹر شپ نہیں چلے گی‘ جیسے نعرے بھی لگائے ۔ حکومت تو چاہتی تھی کہ ان حملہ آوروں کا تعلق اسامہ بن لادن  یا کم ازکم داعش سے نکل آئے مگر وہ  سب تو  ’بھگت سنگھ فین کلب‘ نامی ایک سوشل میڈیا گروپ سے متعلق نکل آئے۔ اس لیے   سرکاری ارمانوں پر پانی پھرِ گیا اور اس کے اہلکار اوٹ پٹانگ الزامات لگا کر حیلہ بہانہ تلاش کرنے میں جٹ گئے۔   وزیر اعظم نے حسبِ روایت چپیّ سادھ لی۔ لوگ توقع کررہے تھے کہ کم ازکم وہ  کل کوگلوان   کی درا ندازی کے بعد والے بیان کو دوہرا کرکہہ دیں  طرح  کہہ دیں ’کوئی  نہ آیا  ، نہ آسکتا ہے اور نہ آئے گا‘۔   ۲۲؍ سال پرانے حملے کو یاد کرنے والے وزیر اعظم کی ایون   میں پراسرار خاموشی اختیار کرلینا قابلِ مذمت اور شرمناک ہے۔ فی الحال پارلیمان کے اندر ار باہر   صدائے احتجاج بلند کرنے سارے مواقع ختم کردئیے گئے ہیں اس لیے ایسے انوکھے اقدام سے سوئی ہوئی  قوم کو بیدارکرنے کی یہ کامیاب کوشش ہوگئی۔  فی الحال  احتجاج کے دروازے کس طرح بند کیے جاچکے  ہیں  اس کی سب سےبڑی مثال خواتین کا احتجاج  ہے ایسے میں ان مظاہرین پر یہ مصرع صادق آتا ہے   ’جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا‘۔ یہ مظاہرہ قوم کے  آستین  کے لہوکی پکار ہے۔ اس کی  روشنی ضرور پھیلے گی  اور مودی کے چراغ کو بجھاکر دم لےگی ان شاء اللہ۔

 

 

Comments are closed.