جمعہ نامہ: ہم اس لہو کا قصاص لیں گے

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے: ’’عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے اُمید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے‘‘۔قتل کے بعد  قصاص کی  موت کو قرآن حکیم میں  زندگی سے تعبیر کیا گیا ہےکیونکہ قاتل صرف ایک شخص کو نہیں بلکہ سب   کی جان کےمحافظ قانون کا سرقلم  کرتا ہے۔ حکمتِ قصاص  کے مخاطب   حاملینِ عقل و دانش ہیں  مگر عصرِ حاضر میں  مغرب   سے مرعوب و مغلوب  دانشور جسمانی سزاؤں کی خلاف  ورزی کرتے ہیں۔ اس  گروہ کےخیال   میں جذباتی بےاعتدالی، عقلی عدم توازن اور ذہنی انتشارو الجھاؤ کے سبب  جرائم  صادر ہوتے ہیں اور یہ حالتِ  بیماری ہے اس لیے مجرمین سزا کے بجائے علاج و اصلاح  کے مستحق ہیں لیکن حقیقت میں  مقتول  کے بعد یہ قاتل  کے قتل سے  چونکہ دیگر قاتلوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اس لیے سزا معاشرے کے لیے زندگی کی ضمانت بن جاتی   ہے ورنہ ایک مجرم  کی ذہنی  خرابی سماج  میں وباء کی مانند پھیل کر  قتل، ڈکیتی، چوری اور زنا وغیرہ جیسے خطرناک جرائم کا سبب بن جاتی ہے۔  اس لیے مفسد کی  سزا  گویا معاشرے کو ٹیکہ لگا کر فتنہ و فساد سے  محفوظ کرنے جیسا احتیاط  ہے۔

انسانی معاشرہ ایک جسم کی مانند ہے۔اس میں  مختلف اعضاء و جوارح آپس میں منسلک اور باہم منحصر ہیں۔   کوئی ڈاکٹر اگرجسم کسی فاسد عضو پر رحم کھاکر اسے الگ نہ کرے تو  مریض کا پورا جسم  بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے  قاتل کا قصاص    فرد کے حوالے سے سنگدلی محسوس ہو  تب بھی معاشرے کے تئیں رحم دلی ہے۔ ارشادِ قرآنی ہے :’’ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا ‘‘۔معاشرے کے اندرامن و آشتی کے فروغ دینے  اور  قتل و غارتگری پر نکیل کسنے کے لیے حکمِ قصاص پر عملدر آمد لازمی ہے۔آگے یہ بھی فرمایا گیا کہ:’’ اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں، ‘‘۔  یہی وجہ ہے کہ فی الحال دنیا ظلم و طغیان سے بھر گئی ہے۔

جموں کشمیر میں گذشتہ جمعے 22 دسمبر 2023 کو ضلع راجوری  کے اندرمسلح عسکریت پسندوں نے فوج کی  دو گاڑیوں پر گھات لگا کر حملہ کیا ۔اس میں چار فوجی ہلاک اور تین زخمی ہوگئے۔  دوسرے دن   ان تین مقامی نوجوانوں کی لاشیں فوجی کیمپ کے قریب پائی گئیں جنھیں فوج نے جھڑپ کے فوراً بعد حراست میں لے لیا تھا۔ اس واقعہ کی ایک مختصر ویڈیو بھی وائرل ہوگئی جس میں فوجی اہلکار تینوں نوجوانوں کو لاٹھیوں سے پیٹتے ہوئے اور ان کے زخموں پر مرچ چھڑکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس پرسابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے لکھا کہ : ’ایسے حالات میں کون ویڈیو بنائے گا، ظاہر ہے اس ویڈیو کو جان بوجھ کر لیک کیا گیا تاکہ لوگوں تک ایک سخت پیغام پہنچایا جائے۔‘ یعنی خوفزدہ کیا جائے۔اس کے بعد حکام  کو غلطی کا احساس ہوا تو  تحقیقات کا حکم دےکر علاقہ میں  افواہوں کو روکنے کے لیے موبائل فون اور انٹرنیٹ کو معطل کردیا گیا۔ انتظامیہ نے اس بار ہلاک  شدگان  کے لواحقین کو تیس لاکھ  نقد معاوضہ، دس مرلہ زمین اور خاندان کےایک  فرد کوسرکاری  نوکری دینے  کا اعلان کیا  بلکہ دس لاکھ کا چیک دے بھی دیا۔ یہ ایک طرح سے خون بہا دینے کی کوشش ہے لیکن اسلام میں یہ مواملہ یکطرفہ نہیں ہوتا بلکہ  مقتولین کے اہل خانہ کی  رضامندی  لازمی ہے۔

فرمانِ خداوندی ہے:’’ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو توا س عورت ہی سے قصاص لیا جائے ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے دردناک سزا ہے‘‘۔ فوج کی اس زیادتی  کے بعد وزیر دفاع نے راجوری جاکر متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور انہیں انصاف کا یقین دلایا نیز اسپتال میں زیر علاج لوگوں سے بھی ملے  یہ اچھی بات ہے مگر بعد میں فوجیوں کی تنبیہ کرنے کے بجائے کہا کہ ہر فوجی ان کے خاندان کا فرد ہے ۔ یہ خاندانی رشتہ انصاف کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے ۔ فرمان خداوندی ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔ وزیر دفاع کے دورے پر یہ آیت ہو بہو صادق آتی ہے۔ یہ آفاقی حقیقت ہے کہ  عدل کے بغیر  امن کی ضمانت ممکن نہیں  ہے ۔

Comments are closed.