گم شدہ جیوری کی ایک رپورٹ

 

٭اشعرنجمی

کل بالآخر اردو کے ادبی معاشرے کا غصہ پھوٹ پڑا اور خورشید اکرم نے ساہتیہ اکیڈمی (اردو) کے کنوینر چندر بھان خیال صاحب سے ان ہی کی ٹائم لائن پر ایک سوال کر ڈالا۔ جی ہاں سوال جو ایٹم سے بھی خطرناک ہوتا ہے، جس سے حکمران وقت ڈرتا ہے اور ریاست کانپتی ہے۔ خورشید اکرم نے جب یہ سوال خیال صاحب کی ایک فیس بک پوسٹ پر پوچھا تو انھوں نے دراصل پورے ادبی معاشرے کی یا کم از کم باضمیر اردو معاشرے کی جانب سے فرض کفایہ ادا کیا تھا۔ مصلحتوں اور احساس کمتری کے برف سے ٹھٹھری زبان کو انھوں نے حرارت دی اور وہ سوال پوچھا جو گزشتہ کئی دنوں سے سب کی زبان پر تھا۔ خورشید اکرم نے بڑے عزت و احترام سے ساہتیہ اکیڈمی کے کنوینر چندر بھان خیال صاحب سے سوال کیا کہ گزشتہ دنوں جو ساہتیہ اکیڈمی(اردو) دیا گیا ، اس کے ارکان جیوری کا تعارف کرادیں اور بتائیں کہ وہ کس ادبی حیثیت کے مالک ہیں اور اتنے بڑے فیصلے کے لیے اکادمی کی نظر ان پر، کن بنیادوں پر پڑی؟ یہاں واضح رہے کہ خورشید اکرم نے یہ نہیں پوچھاتھا کہ فلاں شخص کوایوارڈ کیوں دیا گیا، بلکہ انھوں نے اس ایوارڈ کو دینے والے ارکان جیوری کی صوابدید پر سوال اٹھایا جو بالکل جائز تھا ۔ جیوری ممبران میں تین لوگ تھے۔ کرشن کمار طور، ڈاکٹر مہتاب عالم اور ڈاکٹر محمد طیب علی۔ کرشن کمار طور صاحب کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ ہمارے بزرگ شاعر ہیں ، ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ ہیں اور ایک ’سرسبز‘ نامی رسالہ شاید دھرم شالہ (ہماچل پردیش) سے نکالتے ہیں جو صرف شاعری کے لیے وقف ہے۔ واضح رہے کہ اس سال گیارہ نامزد سبھی کتابیں نثر کی ہی تھیں، ان میں ایک بھی شاعری کی نہیں تھی۔ خیر، ہمارے دوسرے معزز جیوری ڈاکٹر مہتاب عالم صاحب تھے جن کے بارے میں اردو معاشرے کی اکثریت کو پتہ نہیں ہے۔ کچھ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ محترم ڈاکٹر صاحب ایک صحافی ہیں، کچھ کتابیں لکھی ہیں اور کچھ مقامی سطح پر یعنی روٹری کلب، گرلس ڈگری کالج ، حج کمیٹی ایوارڈ، بیسٹ رپورٹنگ ایوارڈ وغیرہ سے نوازے گئے ہیں۔ تیسرے معزز رکن جیوری ڈاکٹر محمد طبیب علی صاحب ہیں جو چنئی کے ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر اور صدر شعبہ ہیں۔

لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ خورشید اکر م کا سوال یہ نہیں تھا کہ جیوری کون ہیں؟ بلکہ ان کا سوال ایک بار پھر دیکھتے ہیں، انھوں نے پوچھا تھا، ’’اتنے بڑے فیصلے کے لیے اکادمی کی نظران پر، کن بنیادوں پر پڑی؟‘‘ یعنی خورشید یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں بلکہ پورا اردو کا ادبی معاشرہ پوچھ رہا ہے کہ تعلیم، تصنیفات ، عہدہ اور ایوارڈ سے قطع نظر ان میں کون سی ایسی امتیازی خصوصیت ہے جس کی بنیاد پر انھوں نے اس سال کے نامزد مصنفین شارب ردولوی، پروفیسر عتیق اللہ، ذکیہ مشہدی، شموئل احمد ، خالد جاوید، غضنفر، جاوید صدیقی، محسن خان، شبیر احمد اور مرحوم نصیر احمد خان کی تصنیفات پر صادقہ نواب سحر کے ناول کو فوقیت بخشی اور ان کے حق میں اپنا فیصلہ دیا؟ یہ سوال ضروری ہے چونکہ ساہتیہ اکیڈمی کوئی نجی ادارہ نہیں بلکہ ایک باوقار سرکاری ادارہ ہے ، اس لیے معاشرے کو سوال کرنے کا حق حاصل ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پرائیوٹ ادارے تک مثلاً انٹرنیشنل بُکر پرائز، نوبل پرائز حتیٰ کہ ’جے سی بی پرائز‘ تک کی جیوری انعام یافتہ کتاب پر اپنا ایک کلیدی موقف رکھتی ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ ان کے نزدیک دوسری کتابوں کے مقابلے میں منتخبہ کتاب کا نقطۂ امتیاز کیا تھا۔ لیکن جب چندر بھان خیال صاحب سے یہ سوال کیا گیا تو وہ خورشید اکرم پر بھڑک اٹھے اور کہا کہ ہندوستان بڑا ملک ہے، یہاں صرف بیس ادیب نہیں ہیں، ضروری نہیں کہ آپ سب کو جانتے ہوں وغیرہ۔ سوال کا یہ جواب انتہائی افسوس ناک تھا۔ ان کے جواب سے عام لوگوں کو تو یہی محسوس ہوا کہ خیال صاحب جمہوری قدروں پر کوئی خاص ایمان نہیں رکھتے، اگر رکھتے تو سوال کنندہ کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے معقول جواب دیتے۔ حتیٰ کہ خیال صاحب نے خورشید اکرم کو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ اپنے تخلیقی کاموں میں اچھے لگتے ہیں۔ گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ تخلیق کاروں کو نا انصافی اور ظلم پر آواز نہیں اٹھانی چاہیے، انھیں صرف کاغذ کے کیڑے بن کر کتابوں کے اندر مرجانا چاہیے؟ یعنی خیال صاحب کہہ رہے ہیں کہ ایک تخلیق کار کو صرف کاغذی شیر ہونا چاہیے اور عملی زندگی میں اسے ایک نکھٹو، سمجھوتہ پسند اور بغیر ریڑھ کا انسان ہونا چاہیے ؟ یعنی خیال صاحب کے خیال میں ایک تخلیق کار کو اپنے لکھے پر جینے کا حق حاصل نہیں ہے؟ وہ سوال نہیں کرسکتا، بطور خاص حاکم وقت پر سوال اٹھاتے وقت اسے اپنی اوقات یاد رکھنی چاہیے، اس کی زبان کانپنی شروع ہوجانی چاہیے، اس کے پاؤں لڑکھڑانے لگیں اور اس کے وجود پر دہشت کا لرزہ طاری ہوجانا چاہیے؟ خیال صاحب کہتے ہیں کہ ہندوستان بڑا ملک ہے (شکریہ ہمیں آپ کے بتانے پر علم ہوا) اور یہاں صرف بیس ادیب نہیں رہتے۔ بالکل درست کہا ، لیکن ساتھ ہی یہاں کوئی ایک سرکاری عہدیدار بھی ان بیس لوگوں کی اہلیت کا فیصلہ نہیں سنا سکتا۔ کیا وجہ ہے کہ خیال صاحب نے انھیں ’بیس لوگوں‘ میں سے گیارہ لوگوں کی تصنیفات کو ایوارڈ دینے کے لیے منتخب کیا؟ اسی باوقار فہرست کی بنیاد پر جیوری ممبران کا انتخاب بھی اسی شان سے کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا شارب ردولوی، پروفیسر عتیق اللہ اور خالد جاوید کی کتابوں پر روٹری کلب انعام یافتہ یا کوئی اسسٹنٹ پروفیسر یا کوئی شاعر فیصلہ لینے کا مجاز رکھتا ہے؟ کیا جیوری کے اس انتخاب نے نامزد مصنفین کے وقار کو مجروح نہیں کیا اور کیا یہ کام ایک باوقار قومی ادارے کو زیب دیتا ہے؟ آپ کسی کو بھی ایوارڈ دیجیے صاحب، کسی کو اس کی پرواہ نہیں لیکن ہم اردو کے ادبی معاشرے کے باضمیر اشخاص آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ آپ اس طرح ہمارے معزز مصنفین کی نامزدگی کی نمائش کرکے ان کے کارناموں اور گرانقدر تصنیفات کی توہین کریں۔ لہٰذا خورشید اکرم نے جو کل کیا تھا، وہ سوال میں اب آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ آپ ہمارے اتنے اہم مصنفین کی فہرست لگا کر اس پر تین ایسے لوگوں کو مسلط کردیں جن کی نثر شناسی اور بطور خاص فکشن شناسی فی الحال مشکوک ہے۔ اگر آپ کے نزدیک نہیں ہے تو پھر بتائیں کہ اردو فکشن کے مختلف رجحانات پر ان کا موقف کیا ہے اور کن بنیادوں پر ان تمام ثقہ مصنفین کو ردّ کیا گیا؟

خیال صاحب نے کل خورشید اکرم، مکرم نیاز، ابرار مجیب اور میرے کیے گئے سوالات کو آج اپنی پوسٹ سے ڈیلیٹ کردیا ہے لیکن بطور احتیاط ہم نے سب کا اسکرین شاٹ لے لیا تھا جو اس پوسٹ کے ساتھ اٹیچڈ ہے۔ سوالوں کو مٹانے سے وہ ختم نہیں ہوجاتے بلکہ وہ اور شدت سے ابھرتے ہیں۔ یہ سوال اب ہم اردو کے ادبی معاشرے کی جانب سے انڈیا کے عزت مآب وزیر ثقافت اور ساہتیہ اکیڈمی کے مرکزی صدر اور سکریٹری سے بھی بصد احترام بمع ثبوت کے دریافت کرنے والے ہیں، اور ضرورت پڑی تو ہم پریس کانفرنس بھی منعقد کریں گے۔ فی الحال ہم نے ’گمشدہ جیوری کی ایک رپورٹ‘ در ج کرادی ہے، باقی سب کچھ خیال صاحب پر منحصر ہے، چونکہ گیند اب ان کے پالے میں ہم نے ڈال دیا ہے۔

Comments are closed.