مجھے خوف ’سنگھی کمل ‘ سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے

 

ڈاکٹر سلیم خان

ملک میں انتخاب کا موسم  شروع ہوچکا ہے۔  یہ سیاسی جماعتوں کے لیے موسمِ بہار ہے۔  جشن بہاراں کا افتتاح کرنے کے لیے کانگریس نے 139ویں یوم تاسیس کا انتخاب کیا ۔ اس تقریب کے لیے ملک کے اندر شہروں کی کمی نہیں تھی ۔ ابھی حال میں تلنگانہ کے اندر کامیابی درج کرانے والی کانگریس کو حیدرآباد جانا چاہیے تھا تاکہ وہاں کے وزیر اعلیٰ یہ ثابت کرپاتے کہ قومی  انتخاب کے لیے ان کی تیاری کیا ہے مگر کانگریس نے ’تیار ہیں ہم ‘ کے عنوان سے جلسۂ عام کی خاطر ناگپور آنے کا فیصلہ کیا ۔ مودی سرکار کو چیلنج  کرنے    کے لیے دہلی سے اچھا مقام کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا مگر ایک  ایسے وقت میں جبکہ بی جے پی اپنی لڑائی کو ایودھیا لے گئی ہے کانگریس نے اسے ناگپور میں لاکر یہ علامتی پیغام دیا کہ نظریاتی سطح پر سنگھ پریوار سے لوہا لینے کی خاطر ’تیار ہیں ہم‘۔  ابن الوقتی اور موقع پرستی کے اس دورِ پر فتن میں  جب سیاست کی دنیا میں نظریات کی موت کا مرثیہ پڑھا جاچکا ہے نظریاتی کشمکش  کا اعلان  ایک خوش آئند تبدیلی کا جھونکا  ہے۔

 ملک  میں فی الحال ایسے لوگ بھی جو اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ دہلی سرکار ناگپور کے دربار سے چلائی جاتی ہے۔  یہ بات درست نہیں ہے مگر اس سے انکار ممکن نہیں کہ  دہلی کے تخت پر فی الحال آر ایس ایس کی فسطائی نظریات کے حاملین کا قبضہ ہے۔ اس لیے سیاست کی دنیا  ناگپور کو ایک خاص حوالے سے اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔ اسی لیے کانگریس نے اسی شہر  کو منتخب کیا تاکہ سنگھ کے سر پر سوار ہوکر  حملہ کیا جاسکے۔ راہل گاندھی نے اپنے خطاب کے دوسرے ہی جملے میں کھل کر اس جنگ  کا اعلان کردیا ۔  انتخابی  لڑائی  چونکہ زبانی ہوتی ہے اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس نے سنگھ پریوار کو ’’گھر میں گُھس کر دھویا‘ ۔ کانگریس پارٹی کی  کرسیٔ صدارت پر فی الحال ملک ارجن کھڑگے براجمان ہیں ۔ ان کے علاوہ  ناگپور میں راہل کے ساتھ تلنگانہ  اور ہماچل پردیش کے وزرائے اعلیٰ نیز  کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ  و دیگر مرکزی و صوبائی ذمہ داران بھی موجود تھے ۔

ریاست مہاراشٹر میں  کانگریس صدر نانا پٹولے  کی حیثیت اس اجلاس میں میزبان کی تھی۔ انہوں نے شیواجی مہاراج، راجرشی شاہو مہاراج، مہاتما پھلے، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے نظریات کی سرزمین ناگپور میں یوم تاسیس کے اہتمام پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ  گاندھی جی  نے انگریزی استعمار کے خلاف ناگپور سے  تحریک شروع کی تھی ۔ آگے چل کر اس میں پورا ملک شامل ہوگیا تھا ۔ اس کے نتیجے میں برطانوی سامراج کے 150 سالہ دور کو ختم ہوگیا تھا۔ نانا پٹولے نے اس موقع پر بی جے پی کی ظالم و جابر حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پرزوردیا نیز اجلاس کا مقصد  مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں کو انصاف دلا کرجمہوریت اور آئین کو بچانا بتایا ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ  سبز و سفید انقلاب  برپا کرنے کے بعد اندرا گاندھی  ودربھ میں  لوک سبھا کی تمام   11 نشستیں جیت کر  وزیر اعظم بنی تھیں۔ناناپٹولے  نے اعلان کیا کہ اب  اندرا گاندھی کے پوتے راہل گاندھی محبت کا پیغام لے کر آئے  ہیں اس لیے ودربھ اور مہاراشٹر کے لوگ  ان کی  حمایت کریں ۔

ناگپور کے اندر 139؍ ویں سال میں داخل ہوتے ہوئے کانگریس نے خود کو جوان بناکر پیش کرنے پر خصوصی توجہ دی ۔ جلسۂ عام سے خطاب کرنے والوں بیشتر مقرر نوجوان اور ادھیڑ تھے ۔ پارٹی کے صدر ملک ارجن کھڑگے کے علاوہ کسی بزرگ رہنما کو زحمت نہیں دی گئی  تھی ۔ کرناٹک سے بزرگ  وزیر اعلیٰ سداّ رمیا  کے بجائے ان کے  نائب شیوکمار کو موقع دیا  گیا۔  وہ چونکہ  ہندی  نہیں بول سکتے اس لیے انہوں نے انگریزی زبان میں مختصر  اظہار خیال کیا۔ شیوکمار نے   اس بات کا اعتراف کیا کہ ابھی حال میں  تین ریاستوں  کے اندر  کانگریس کو شکست ہوئی مگر  ملک کے بہت سارے لوگ اب بھی   کانگریس کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں اور انڈیا نامی الحاق کی سرکار کا امکان روشن ہے ۔ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو نے سوال کیا کہ سنگھ پریوار  اپنے کسی ایک فرد کا نام بتائے جس نے  ملک و قوم کے لیے قربانی دی ہو۔ یہ  آر ایس ایس کی دُکھتی رگ ہے اس لیے کہ اس کے پاس ایک بھی مجاہد آزادی کی  مثال  نہیں ہے اس کے برعکس  انگریزوں کے مخبری اور وفاداری کرنے والی کئی شخصیات  مثلاً اٹل بہاری واجپائی اور ونایک ساورکر وغیرہ کی طویل قطار ہے ۔ 

 کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے اپنی صدارتی تقریر میں اسی لیے  سنگھ کو للکارتے ہوئے کہا کہ یہ ہمیں کیا ڈرائیں گے یہ تو خود انگریزوں سے ڈرتے تھے ۔ اس ملک میں  انگریزی سامراج کا مقابلہ کانگریس نے کیا اور ان  کی غلامی کے چنگل سے ملک کو آزاد کرایا ۔ اس لیے یہ کانگریسی کارکنان کو نہیں ڈرا سکتے وہ تو ببر شیر ہیں۔ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی نے بہت پر جوش تقریر کی ۔  انہوں نے یاد دلایا کہ بھارت جوڑ یاترا کرناٹک میں آئی تو بی جے پی کا اقتدار ختم ہوگیا۔  اس کے بعد تلنگانہ میں داخل ہوئی تو وہاں کانگریس کی سرکار بن گئی۔ وہاں سے وہ یاترا مہاراشٹر میں آئی تھی اس لیے اب اس ریاست میں بھی کانگریس برسرِ اقتدار آجائے گی ۔ ریونت ریڈی نے بتایا کہ  چھپّن انچ والے وزیر اعظم دو نوجوانوں کو ایوان پارلیمان  میں داخل ہونے سے نہیں روک سکے   اس لیے  آگے کانگریس پارٹی کو لال قلعہ پر ترنگا لہرانے سے بھی نہیں روک پائیں گے۔ وہ بولے  ہر دوائی  کی ایک ایکپسائری ڈیٹ ہوتی ہے اور یہی حال مودی جی کی دوائی کا ہوچکا ہے۔ اب وہ بے کار ہوچکی ہے یعنی ان کے اقتدار کی مدت  اب قریب الختم ہے۔

 ناگپور کے اجلاس میں بہترین  فنِ خطابت کا مظاہرہ   کرکے عمران پرتاپ گڑھی نے ثابت کردیا کہ آج بھی  جب مسلمان بولنے پر آتا ہے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور اردو زبان کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگے تو اچھے اچھے مقررین پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ عمران  پرتاپ گڑھی نے اپنی تقریر  ’ہم آتش سوزاں میں بھی حق بات کہیں گے ‘ والے شعر سے شروع کرکے  نہرو، ابوالکلام آزاد اور گاندھی جی کے حوالے سے کانگریس کا ماضی  بتایا اور پھر  اس کو راہل گاندھی  تک پہنچا دیا۔ وہ بولے یہی پارٹی ملک کا حال اور  مستقبل بھی  ہے۔ ماضی کے حوالے سے تو     عمران پرتاپ گڑھی کی بات درست ہے مگر حال اور روشن مستقبل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ انہوں نے مودی سرکار کو گھیرتے ہوئے     یہ دلچسپ بات  بھی کہی کہ اپنا دوہزار کا نوٹ سات سال تک نہیں چلا پانے والے  کانگریس سے ستّر سالوں کا حساب مانگ رہے ہیں۔  ای ڈی اور سی بی آئی کی مدد سے حزب اختلاف کو پریشان کرنے والی موجودہ سرکار کو چیلنج کرتے ہوئے عمران  نے  کہا کہ ’تم پھول  کو چٹکی میں مسل سکتے ہو لیکن ،خوشبو کو بکھرنے سے نہیں روک سکو گے‘۔ انہوں   نے اپنے خطاب کے دوران   موجودہ حکمرانوں کی رعونت پر طنز کرتے ہوئے ایک شعر پڑھ کر مجمع لوٹ لیا جو اردو زبان کی مقبولت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے؎

اُدھر وہ ہاتھوں کے پتھر بدلتے رہتے ہیں ، اِ دھر بھی اہل جنون سر بدلتے رہتے ہیں

یہ دبدبہ یہ حکومت یہ نشۂ دولت، کرائے دار ہیں سب گھر بدلتے رہتے ہیں

  کانگریس کی اس سالگرہ کے موقع پر  ایک اور نوجوان مقرر  کنہیا کمار نے بھی خوب دادِ تحسین وصول  کی۔  انہوں نے یاد دلایا کہ ناگپور صرف سنگھ کا گڑھ نہیں بلکہ  ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی دِ کشا بھومی بھی ہے۔ آرایس ایس کے لیے بات قابلِ شرم ہے کہ  اپنے ہزاروں پیروکاروں کے ساتھ  ہندو دھرم کو چھوڑ بودھ مذہب اپنانے کا کام ڈاکٹر امبیڈکر  نےاسی شہر ہی میں کیا تھا۔ اسی کے ساتھ  کنہیا کمار نے  بھی  شیواجی ، شاہو مہاراج اور مہاتما پھولے جیسے سماجی مصلحین اور سنتوں کی تحریک  کا ذکر کرکے انہیں  ریاست کو روشن خیال اور ترقی پذیر بنانے کا کریڈٹ دیا۔ بی جے پی کے ذریعہ  کانگریس پر بدعنوانی کے الزام  کا جواب دیتے ہوئے کنہیا کمار نے کہا کہ جب کوئی کانگریسی جئے شاہ کے والد یعنی وزیر داخلہ کی پناہ میں چلا جاتا ہے تو ای ڈی اور سی بی آئی اس کو کیوں بخش دیتے ہیں؟ انہوں نے مثال دی کہ چالاک  پاکٹ مار جب پکڑا    جاتا ہے تو وہ چور چور چلانے لگتا ہے۔ حزب اختلاف نے  بی جے پی کو چند سرمایہ داروں کی مدد کرتے ہوئے  رنگے ہاتھ پکڑلیا  ہے اس لیے وہ شور مچا رہی ہے۔ ان کے اس الزام کی سب سے بڑی مثال  وارانسی سے پرینکا  گاندھی کے نام پر غورو خوض کے  شروع ہوتے ہی  ای  ڈی کی فہرست میں ان کا نام آجاناہے۔ کسی فرد یا جماعت کے اندر اپنے مخالف کا خوف فطری ہے مگر جیسے مودی اور ان کے حواری  ڈرتے ہیں اس کا کوئی ثانی  نہیں ہے ۔  سنگھ کے مقابلے کنہیا اور عمران پر یہ  شکیل بدایونی کا یہ شعر اور اس میں ’ آتش گل‘ پر ’کمل کی آگ‘  پوری طرح صادق آتی ہے؎

میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں                   مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے

Comments are closed.