بات کڑوی ہے مگر سچ ہے

 

 

از…. عمران صدیقی ندوی

 

آج حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے یوم وفات کی مناسبت سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے لیکن ایک عنوان ایسا ہے جس پر شاید اب تک کچھ نہیں لکھا گیا ہے اور شاید آئندہ بھی نہ لکھا جائے لیکن اگر اس پر قلم اٹھایا گیا تو بہت کچھ خیر کی امید کی جا سکتی ہے اگرچہ یہ کڑوا گھونٹ پینا سب کے بس کی بات نہیں لیکن شفا تو اسی کے بعد ملتی ہے

 

عنوان یہ ہے "حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح کے افکار و نظریات کی روشنی میں موجودہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے نصاب و نظام تعلیم کا جائزہ”

 

مثلا حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ "مغربی نظام تعلیم کا تنقیدی جائزہ لیا جائے اور اس کے علوم و تجارب کو مواد خام (Raw Material) فرض کر کے اپنی ضرورت اور اپنے قد و قامت اور اپنے عقیدہ و معاشرت کے مطابق تیار کیا جائے”، اب دیکھا یہ جائے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں اس سے متعلق کیا تیاریاں ہو رہی ہیں یعنی کیا ندوے کے تحت ایسا کوئی شعبہ قائم ہے، کیا موجودہ ندوے کا نصاب تعلیم ایسے افراد تیار کر رہا ہے جو وقت کی اس اہم ترین ضرورت کو پورا کر سکے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کے کیا وجوہات ہیں اور اس کی تلافی کس طرح کی جا سکتی ہے

 

مثلا حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے اس پر ہمیشہ زور دیا کہ "مغربی مستشرقین اور ان کی تحقیقات و افکار کا جائزہ لیا جائے اور تعلیم یافتہ طبقے پر ان کے مضر اثرات کو دور کیا جایے” تو کیا ندوے میں اس پر کام کرنے کے لیے کوئی شعبہ بنایا گیا ہے؟ کیا ندوے کا نصاب ایسے افراد تیار کرنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے جو مولانا علی میاں ندوی رح کی فکر کو عملی جامہ پہنا سکیں

 

مثلا مولانا کو اس بات کی بہت فکر تھی کہ "قانون اسلامی کی تدوین جدید کی جائے جس کے ذریعے یہ ثابت کیا جا سکے کہ اسلامی قانون اور فقہ نہایت وسیع اور ترقی پذیر قانون ہے، جس میں زندگی کے تغيرات و ترقیات کا ساتھ دینے کی پوری صلاحیت ہے” کیا ندوے کے احاطے میں اس پر کچھ کام ہو رہا ہے؟

 

مثلا مولانا چاہتے تھے کہ”جدید تعلیم یافتہ طبقے پر محنت کرنے والے ایسے داعی پیدا کئے جائیں جو اپنے قول و عمل سے اسلام کے سچے ترجمان بن سکیں کیونکہ عصر حاضر کی تمام دینی تحریکات کے قائدین کو اسی طبقے میں سے اپنے بہترین کارکن ہاتھ آئے تھے جو اپنے جوش و خلوص، زبان و بیان کی وجہ سے اسلام کے بہترین ترجمان ثابت ہوئے.”

 

جائزہ یہ لینا چاہیے کہ کیا دار العلوم ندوۃ العلماء خصوصی شعبہ کے ذریعے جس میں کالج سے پڑے ہوئے طلباء عالم بنائے جاتے ہیں، کیا وہ ایسے داعی تیار کرنے میں کہاں تک قائم ہے یا پھر خصوصی کے شعبہ سے بھی اسی طرح کی روایتی علماء کی کھیپ تیار ہو رہی ہے

 

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح کے اس جیسے اور بہت سے افکار ہیں جس کو سامنے رکھ کر کام کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ان تمام کاموں کے لیے فطری بات ہے کہ سب سے پہلے لوگوں کی نگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء کی طرف اٹھتی ہے، اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ندوے اس پر کتنا کھرا اترتا ہے اور اگر ندوے میں اس پر کام نہیں ہو رہا ہے یا وہ ایسے افراد تیار کرنے میں ناکام ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ کھل کر اس کے وجوہات تلاش کئے جائیں اس کے تدارک پر بات کی جائے اور یہ کام ندویوں کو ہی کرنا ہوگا صرف دوسروں کی طرح "پدرم سلطان بود” کے نعرے لگا لینے سے وقتی خوشی تو مل جاتی ہے لیکن مسائل حل نہیں ہوتے ہیں.

Comments are closed.