آج اہل اسلام کی شادیوں میں نکاح کے علاوہ دین پر عمل ندارد: مولانا سید راشد

اللہ نے ہمیں مسلمان بنایا ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمان دیکھنا بھی چاہتے ہیں، اسلام سے وابستگی میں ہی اللہ کے یہاں ہماری عزت ہے،دارالعلوم دیوبندکے استاذکامجلس نکاح سے خطاب
جے پور (محمد صابر قاسمی؍بی این ایس ) جامعہ دارالعلوم بیاور کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد عثمان اویسی کی دختر نیک اختر کی نکاح خوانی کی مجلس منعقدہوئی ، جس میں نکاح خوانی کی نسبت سے سابق مبلغ و استاذدارالعلوم دیوبند مولانا سید راشد علی نے خصوصی طورپرشرکت کی، اس موقع پر مولانا موصوف نے نکاح پڑھانے سے قبل محمد مسجد ایک مینارہ واقع جے پور میں اہلیان شہر جے پور خصوصاً میوات سے تعلق رکھنے والے سرکردہ شخصیات و عمائدین شہر کے درمیان شادی و نکاح سے متعلق قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیلی بیان کیا، جس میں نکاح و شادی سے متعلق شریعت و سنت کی جامع رہنمائی فرمائی اور موجودہ دور میں اہل اسلام کی طرف سے اپنائی جارہی شادیوں میں بے جا خرافات و روایات و لوازمات کا بالتفصيل ذکر کیا، مولانا موصوف نے کہا کہ آج اہل اسلام کی شادیوں میں نکاح کے عمل کے علاوہ دین پر عمل ندارد، ہماری اور اغیار کی شادیوں میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہ گیا ہے، خصوصاً راجستھان کے مسلمانوں میں جس طرح شادیوں کے موقع سے ڈی جے اور ویڈیو گرافی کا رواج دیکھنے میں آتا ہے وہ ہم اہل اسلام کی غیرت ایمانی اسلامی شناخت کے سرا سر خلاف ہے، اللہ نے ہمیں فطرتاً غیرت مند بنایا ہے، موصوف نے نے کہا کہ، ہم زبانی کلامی ایمان اور اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ہم سراسر سنت و شریعت سے ہٹی ہوئی شادیوں میں شرکت کر عملی طور پر اسلام کو ناپسندیدہ دین ثابت کر رہے ہیں جو ہم سب کے لیے سراسر خسارہ کی بات ہے، اللہ نے ہمیں مسلمان بنایا ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمان دیکھنا بھی چاہتے ہیں، چاہے ہم جس شعبہ میں جائیں، چاہے بازار میں چاہے تجارت میں یا پھر صنعت و حرفت اور خوشی اور غمی میں کسی بھی حال میں اسلام کے ساتھ وابستہ رہیں ، اگر ہم اپنے اسلام سے الگ ہو گئے تو پھر یہ نا قدری ہے اسلام اور ایمان کی، دوستو افسوس ہوتا ہے جب ہم دعویٰ کرتے ہیں ہم مسلمان ہیں، لیکن جب ہم شادی کرتے ہیں تو کون سی ایسی خرافات ہے جو غیروں کے یہاں پائی جاتی ہے اور وہ ہمارے یہاں نہیں پائی جاتی،یہ نکاح دو خاندانوں کا ملاپ ہے، اس لیے جیسی شادی ہوگی وجود میں آنے والی نسل پر بھی اس کے ایسے ہی اثرات مرتب ہونگے۔
اسلام نے مرد عورت کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد بیوی ایک دوسرے کو سمجھیں اور آپس میں در گذر کرکے رشتہ کو مقدس بنا کر نبھائیں، اگر لڑکے والے لڑکی والوں کی اور لڑکے والے لڑکی والوں کی ایک دوسرے کی کمیوں کو چھپائیں اور نظر انداز کریں، تو کبھی بھی ناچاکی نہیں ہوگی،اگر نزاع کی شکل اختیار کریں گے تو عزت دونوں طرف سے اترے گی، رشتے مقدرات کے ہوتے ہیں اس لیے ہر ایک کو چاہیے کہ ہمارا رشتہ اللہ کا منتخب کردہ گردانیں، اس لیے ہمیں اللہ کی رضا پر راضی ہونا چاہیے جو سکون و اطمینان کا ذریعہ و سبب ثابت ہوگا ، مولانا نے فرمایا رشتہ کی بنیاد مال جمال خاندان حسب نسب پر لوگ کرتے ہیں لیکن اللہ کے نبی کا فرمان ہے کہ، اگر تمھیں کامیابی چاہیے تو دین دار گھرانے سے شادی کرو دین دار لڑکی سے شادی کرنے کو ترجیح دو،اب ایک نیا چلن شروع ہو رہا ہے لوگ اشارتاً کنایتاً جہیز کا مطالبہ کر رہے ہیں، راجستھان میں گرچہ اس رواج نے ہنوز جڑ نہیں پکڑی تاہم نیتوں میں خرابی ضرور پائی جا رہی ہے، لیکن جہاں تک جہیز کے مطالبے کی بات ہے تو اس کی شریعت میں کہیں پر بھی کسی بھی طرح گنجائش نہیں ہے۔
اس موقع پر مولانا عثمان نے تقریب نکاح میں شامل ہونے والے تمام اہلیان شہر جے پور و میوات کا شکریہ ادا کیا اور ہونے والے مہمان کاشف زکی کھنداؤلی کو مبارکباد دیکر سنت کی ادائیگی کی ، شرکاء میں مولانا لقمان ستپڑا، مولانا صابر ملائی،مولانا صابر قاسمی، ارشد خان مہراب ڈاکٹر عبدالطیف، انیس بھائی رئیس بھائی، مولانا حبیب ملائی، مولانا عارف دوسہ،مفتی شاکر حسنپورہ، مولانا ارشاد، مولانا ناظر، قاری رضوان اونمری، ارشد بھائی پنیر والے، تسلیم بھائی، مفتی سالم اویسی، مولانا اسعد، مولانا کفایت اللہ ، ثاقب اویسی، ساجد حافظ ماجد روپڑاکا، عصرو الدین، مولانا عالم، کفیل عثمانی شامل ہیں۔
Comments are closed.