Baseerat Online News Portal

کرپشن ، مرض اور علاج

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
صدر آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
ایک بہتر اور پُر امن سماج کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد عدل و انصاف پر ہو ، انصاف کے ذریعہ نہ صرف لوگوں کو ان کے حقوق حاصل ہوتے ہیں ؛ بلکہ امن و آشتی کا ماحول بھی قائم ہوتا ہے اور ہر طرح کی ترقی کے مواقع پیدا ہوتے ہیں ، انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو کسی مشقت اور رکاوٹ کے بغیر اس کا حق مل جائے ، اگر کسی کا حق روک لیا جائے اور زبردستی اپنے قبضہ میں لے لیا جائے تو یہ ظلم ہے ، اور قرآن مجید میں جس قدر ظلم کی مذمت کی گئی ہے شاید کسی اور گناہ پر کی گئی ہو ، اورا گر دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں اس لئے رکاوٹ پیدا کی جائے کہ وہ کچھ پیسے دینے پر مجبور ہوں تو اس طرح ناجائز طریقہ پر پیسے وصول کرنا حرام ہے اور اسی کو رشوت کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف رشوت لینے کی مذمت فرمائی؛ بلکہ بلا ضرورت رشوت دینے کو بھی ناجائز قرار دیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ کی لعنت ہو: ’’لعن اللّٰه الراشی والمرتشی‘‘ ۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۹۰۱۱، ۹۰۱۹)
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ملک کا نام تو بد عنوانی کی فہرست میں بہت اوپر ہے اور پوری دنیا میں اس حیثیت سے ہمارا شہرہ ہے ؛ لیکن ترقی یافتہ ممالک اور فوجی اورمعاشی اعتبار سے سوپر طاقتیں بھی اس بیماری سے محفوظ نہیں ہیں اور رشوت بہ تدریج سرکاری ملازمین کے لئے ایک ذریعۂ آمدنی بن گیا ہے ، اب لوگ اس کے اظہار میں بھی جھجکتے نہیں ہیں اورکہتے ہیں کہ تنخواہ تو اتنی ہی ہے ؛ لیکن بالائی آمدنی اچھی خاصی ہوجاتی ہے ، یہ بالائی آمدنی اصل میں حرام خوری کا مہذب نام ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس بیماری کے کسی وبا کی طرح پھیل جانے کا سبب کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ رسول اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اُمت کا بناؤ اور بگاڑ علماء اور امراء سے مربوط ہے ، جب ان میں بگاڑ آئے گا تو اُمت میں بگاڑ آئے گا، علماء سے مراد تو وہ لوگ ہیں جو علم دین سے آراستہ ہیں اور جن کے ہاتھوں میں مذہبی قیادت ہے اور امراء سے مراد ہیں حکمراں ، سترہویں صدی میں جو انقلاب آیا ، اس نے مذہبی قیادت کے تصور کو ختم کردیا ؛ اس لئے آج اگر کسی درجہ میں مذہبی قیادت موجود ہے تو وہ مسلمانوں میں ، مگر مغرب نے مذہب کو زندگی سے الگ تھلگ رکھنے کا جو صور پھونکا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ مسلم سماج اس کے اثر سے پاک ہو اوردوسری قوموں کی صورت حال تو یہ ہے کہ انھوں نے مذہبی شخصیتوں کو عبادت گاہوں میں کچھ مذہبی رسوم کے انجام دینے تک محدود رکھا ہے ، اس وقت امراء یعنی سیاسی قائدین ہی کے ہاتھوں میں ملک و قوم کی قیادت ہے ؛ اس لئے ایک لامذہبی اور کثیر مذہبی معاشرہ میں بناؤ اوربگاڑ ان لوگوں سے مربوط ہے جو حکومت کے ایوانوں اور اقتدارکے کاشانوں میں برا جمان ہیں ۔
اس وقت کرپشن میں جو روز افزوں اضافہ ہورہا ہے ، اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ سیاسی طبقہ جس کے ہاتھوں میں قوموں اور ملکوں کی باگ ڈور ہے ، وہ خود کرپشن میں پیش پیش ہے ، عام لوگوں کی رشوت سو اور ہزار میں ہوتی ہے ؛ لیکن اس طبقہ کے لئے یہ ’’اونٹ کے منھ میں زیرہ‘‘ کا مصداق ہے ؛ اس لئے کئی سو کروڑ اور کئی ہزار کروڑ تک ان کی رشوت پہنچ جاتی ہے ، خود ہمارے ملک میں سیاسی شخصیتوں کی مدد سے رشوت کے بعض ایسے واقعات سامنے آئے ہیں ، جس میں ملک کی بڑی ریاستوں کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ پیسوں کی ہیر پھیر کی گئی ہے ، بعض اہل دانش کا قول ہے : ’’الناس علی دین ملوکہم‘‘ (فتح الباری لابن حجر:۷؍۱۵۱)یعنی لوگ اپنے حکمرانوں کے طریقہ سے متأثر ہوتے ہیں اور انھیں اپنے لئے آئیڈیل بناتے ہیں ، اگر وہ کسی برائی میں مبتلا ہوں تو وہ برائی عیب کے بجائے ہنر بن جاتی ہے اور لوگوں میں اس کے بُرے ہونے کا احساس بھی ختم ہوجاتا ہے ۔
اس لئے اگر کرپشن کو دُور کرنا ہے تو اس کی ابتداء ایوانِ اقتدار سے ہونی چاہئے اوراوپر سے نیچے تک ہر ایک کو احتساب کے دائرہ میں لانا چاہئے ، وزیر اعظم کا عہدہ نہایت موقر عہدہ ہے ؛ لیکن کیا یہ عہدہ بھی داغ دار نہیں ہوچکا ؟ ہمارے ہی ملک میں راجیو گاندھی پر بوفورس توپ کی خریداری کے معاملہ کو لے کر اور نرسمہاراؤ پر بہت سے اور مسائل سے متعلق انگلیاں نہیں اُٹھی ہیں ؟ شریعت اسلامی کا مزاج یہ ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری کے سلسلہ میں جواب دہ ہے ، کوئی شخص کتنے ہی اونچے عہدہ پر پہنچ جائے ؛ لیکن وہ جواب دہی سے بالاتر نہیں ہوسکتا ، پیغمبر اسلام ﷺ نے اُصول مقرر کردیا کہ ہر شخص اپنے اپنے دائرہ میں ذمہ دار ہے اورجو شخص جس کے بارے میں ذمہ دار ہے اس کے بارے میں جواب دہ بھی ہے : ’’کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب الجمعۃ ، باب الجمعۃ فی القری والمدن ، حدیث نمبر: ۸۴۴) جواب دہی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان اپنے مفوضہ کام کو انجام دے اور یہ بات بھی کہ وہ اس کو پوری دیانت داری اور شفافیت کے ساتھ انجام دے ۔
حضور ﷺ نے یہ تصور لوگوں کے ذہن میں اس طرح راسخ کردیا تھا کہ حضرت عمر ص منبر پر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کے جسم پر دو چادریں ہیں ، جب کہ بیت المال میں آئے ہوئے سامان میں سے ایک ایک چادر ہی لوگوں کو تقسیم کی گئی تھی، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ تم لوگ میری بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ، سامعین میں سے حضرت سلمان فارسی ؓ کھڑے ہوگئے اور فرمایا : میں نہ آپ کی بات سنوں گا اور نہ مانوں گا، حضرت عمر ؓ نے سبب پوچھا تو فرمایا: آپ نے سبھوں کو ایک ایک چادر عنایت کی اور آپ کے جسم پر دو چادریں ہیں، حضرت عمر ؓ نے اپنے صاحبزادہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے فرمایا کہ وہ اس سلسلہ میں وضاحت کردیں، حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کھڑے ہوئے اوروضاحت کی کہ اس میں ایک چادر میرے حصہ کی ہے اورایک چادر والد صاحب کے حصہ کی، اب حضرت سلمان ؓ مطمئن ہوئے اور عرض کیا: اب میں آپ کی بات سنوں گا بھی اور فرماں برداری بھی کروںگا ، یہ ہے احتساب کا وسیع تر دائرہ جس میں ایک معمولی شخص کسی بھی وقت امیر المؤمنین کا محاسبہ کرسکتا ہے اور ان سے جواب طلب کرنے کا حق رکھتا ہے ۔
سیاست میں کرپشن کی جو بیماری کینسر کی صورت اختیار کرگئی ہے ، اس کی ایک اہم وجہ ہمارا انتخابی نظام ہے ، الیکشن میں جلسے ، ریالیاں ، اشتہارات ، پوسٹرس وغیرہ ایک ضرورت بن گئے ہیں اور اس میں کثیر اخراجات صرف ہوتے ہیں ، ایک شخص جب پارلیمنٹ کا ممبر بنتا ہے تو وہ کئی کروڑ روپے خرچ کرکے یہاں تک کا سفر طے کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص ممبر اسمبلی بنتا ہے ، اس کے اخراجات بھی کروڑ تک پہنچ جاتے ہیں ، کسی ممبر اسمبلی یا ممبر پارلیمنٹ کی تنخواہ اتنی نہیں ہوتی کہ وہ ان اخراجات کو وصول کرسکے اور بہر حال اسے خرچ کیا ہوا وصول بھی کرنا ہے اورمزید دولت بھی اکٹھی کرنی ہے ، یہ چیز اسے کرپشن کی طرف لے جاتی ہے ؛ اس لئے ضرورت ہے کہ انتخابی نظام کو سادہ بنایا جائے ، جلسوں جلوسوں کے بجائے گورنمنٹ کی طرف سے سہولت فراہم کی جائے کہ سرکاری ذرائع ابلاغ پر ہر اُمیدوار اور ہر پارٹی اپنا منشور پیش کردے اور کارکردگی کی وضاحت کرے ، گورنمنٹ کی طرف سے ہر آبادی میں انتخاب سے متعلق ایک دو پروگرام رکھے جائیں، جس میں مختلف پارٹیوں اور اُمیدواروں کو اپنی بات پیش کرنے کا موقع دیا جائے ، اس طرح شاید اس کرپشن کو کم کیا جاسکتا ہے اور عوام کو بھی ترجیح دینے میں سہولت ہوسکتی ہے ۔
سرکاری سہولتوں کے عوام تک پہنچنے اور ترقیاتی کاموں کے انجام دینے میں واسطوں کی کثرت بھی کرپشن کو بڑھاتی ہے ، سیاسی نمائندوں ، سرکاری عہدہ داروں اور مقامی ٹھیکداروں کی ایک طویل چین ہے ، جو ایک طرف سرکاری اخراجات کو بڑھاتی ہے اور دوسری طرف عوام کو سرکاری اسکیموں کے حقیقی منافع سے محروم رکھتی ہے ، گورنمنٹ کو ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہئے کہ یہ واسطے کم سے کم ہوجائیں اور عام لوگ براہ راست سرکار سے رابطہ کرسکیں ، اس کی ایک روز مرہ دیکھی جانے والی مثالوں میں ’’ریلوے ریزرویشن‘‘ ہے ، کچھ سال پہلے رشوت دئے بغیر ریلوے ریزرویشن کا حصول ناممکن سمجھا جاتا تھا ، یاتو اسٹیشن ماسٹر کو رشوت دینی پڑتی یا ٹی ٹی کو ؛ لیکن ریزرویشن کے لئے کمپیوٹر کے استعمال نے اس کو کافی حد تک کم کردیا اور ای ٹکٹ کی سہولت نے رشوت کو روکنے میں مزید مؤثر کردار ادا کیا ، اگر حکومت اپنے پروگراموں کو عوام تک پہنچانے میں جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرے اور ترقیاتی کاموں میں شفافیت پیدا کرنے کے لئے اس کی تفصیلات نٹ (Net) کے ذریعہ عوام کو فراہم کردے تو بہت کچھ اس کے سد باب میں مدد ملے گی ؛ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا خود حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں ایسی شفافیت لانے پر آمادہ ہوگی ، جس میں ان کے نمائندوں اور مقامی کارکنوں کے لئے ناجائز خوردو نوش کا راستہ بند ہوجائے اور بڑے ٹھیکداروں سے پارٹی فنڈ کے نام پر رقم حاصل کرنے کی گنجائش نہ رہے ؟
کرپشن زندگی کے تمام شعبوں میں اس طرح پھیل گیا ہے اور عوام اس سے اس درجہ پریشان ہے کہ انا ہزارے کی تحریک پر پورا ملک اکٹھا ہوگیا اور ایک ایسا شخص — جس کی پہلے سے کوئی عوامی ساکھ نہیں تھی — کی آواز پر ملک بھر کے لوگ متوجہ ہوگئے اور حکومت کو نیم دلی کے ساـتھ ان کی کچھ شرطوں کو قبول کرنا ہی پڑا ؛ لیکن محض اتنی سی بات رشوت کو ختم کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ، جب تک لوگوں کی بنیادی سوچ کو نہ بدلا جائے اور ایک ایسا انقلاب نہ لایا جائے جس کا ہدف صرف ’’زبانیں‘‘ نہ ہوں؛ بلکہ ’’دل‘‘ ہوں ، حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی ؛ کیوںکہ دل کے بناؤ اور بگاڑ پر ہی انسان کا عملی رویہ موقوف ہے ؛ چنانچہ پیغمبر اسلام ﷺ نے ارشاد فرمایا : جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے ، جب اس کی اصلاح ہوتی ہے تو انسان کا پورا وجود صالح بن جاتا ہے اورجب یہ بگڑ جاتا ہے تو انسان کے پورے وجود میں فساد سرایت کرجاتا ہے : ’’إن في الجسد لمضغۃ ، إذا صلحت صلح کلہ و إن فسدت فسد الجسد کلہ ألا وھي القلب‘‘ (سنن البیہقی الکبری، حدیث نمبر: ۱۰۱۸۰) اس لئے ضرورت ایک ایسی تحریک کی ہے جو دلوں کی دنیا کو بدل دے ، جو بنیادی سوچ میں تبدیلی لائے اور جو انسان کو سکھائے کہ وہ سکے ڈھالنے والی مشین نہیں ہے ؛ بلکہ وہ درد مند دل ، انسانیت کے لئے سوچنے والا دماغ اور محبت کی دھڑکنوں سے آراستہ خدا کی ایک عظیم مخلوق ہے ، اس کے بغیر کرپشن کو روکنے کی جو بھی کوشش ہوگی ، وہ درخت کی جڑوں کو سیراب کرنے کی بجائے پتوں پر پانی ڈالنے کے مترادف ہوگی ۔(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.