حق و باطل کا ازلی معرکہ اور غزہ

✍محمد تعریف سلیم ندوی
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی داستان کوئی نئی بات نہیں ہے،مسلمان کے مقابل تمام اقوام یکجا ہوتی ہیں،جب بھی انہیں ظلم و بربریت کا موقع ملتا ہے وہ انسانیت کی تذلیل سے گریز نہیں کرتی، کفر و باطل کا تصادم روز اول سے ہے، نور و ظلمت کی کشمکش ازلی و فطری ہے، تاہم اس کا منتہی فرزندانِ توحید کا غلبہ اور اہل حق کے دبدبہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.
آئیے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں، کفارِ مکہ کے تمام قبائل نے باہمی اتفاق و اتحاد سے حبیبِ خدا، سرورِ دو جہاں، محبوب الملائكة، وجہ ارض و سما محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ڈھائی سال تک سماجی بائیکاٹ رکھا، ضروریات زندگی تک کی تمام اشیاء پر پابندی عائد کر دی گئی، ہجرت کے بعد یکہ بعد دیگر کئی جنگیں کی،لیکن جب فتحِ مکہ ہوا تو تمام معاندینِ اسلام سرنگوں تھے، لیکن حبیبِ کبریا نے سب کو آزادی کا پروانہ تھما دیا، زبانِ رحمت و رأفت سے کلمات یہ جاری ہوئے "اليوم يوم المرحمة ” آج عفو و درگزر کا دن ہے.
یہودی اپنی سازشوں کے سبب نکالے گئے،تاہم انتقامی آتش کو سلگائے رکھا.
صلیب بردار عیسائی بھی بغض و عناد کی آگ میں جلتے رہے، جنگیں کیں،1099 میں بیت المقدس پر قابض ہو گئے، جب عیسائی فوجی شہر میں داخل ہوئے تو بھوکے بھیڑیے اور وحشی درندے بن گئے تقریباً ستر ہزار مسجد اقصیٰ کے عبادت گزاروں اور پڑوسیوں کا قتل عام کیا، خون گلیوں میں اس قدر بہا کہ گھوڑوں کو چلنا دشوار ہو گیا.
نوے سال گزر جانے اور تقریباً سولہ بار کوششیں کرنے کے بعد جہاد کے جذبہ سے سرشار ایک جانباز مردِ مجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی رح نے حطین کے میدان میں یورپ کی متحدہ فوج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں تیس ہزار صلیبی فوجی واصلِ جہنم ہوئے، اور سن 1187ء میں بیت المقدس فتح ہو گیا.
جبکہ سلطان نے شہر میں عام معافی کی منادی کرا دی، صلیب کو عزت سے اتار کر روانہ کیا گیا، کسی بھی عام شہری کو کھرونچ تک نہ آئی، یہ جذبہء رحمت اسلام سکھاتا ہے.
یہ سبق عظیم سپہ سالار محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ بوڈھے، بچے، عورتیں، تہی دست شہری سمیت کسی بھی شے کو تلف نہ کیا جائے.
اسپین میں 13 لاکھ عام مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا یا پھر درندگی سے آگ میں جلا دیا.
تاآنکہ 12 ویں صدی عیسوی میں منگول قاتلوں کی آندھی آئی اور تمام مسلم سلطنتوں کو تہ و بالا کر دیا،ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کی، سفاکیت و بربریت کی انتہا کر دی، ظالم دہریہ تھا اور مقتول لاکھوں عام مسلمان تھے.
ابھی گزشتہ دو صدیوں میں فرانس، انگلستان، سوویت یونین (روس) اور امریکہ نے مسلم ممالک کی معصوم عوام اور تہی دست افراد کے ساتھ جو حیوانیت و شیطانیت کا ننگا ناچ کیا ہے وہ تاریخِ انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں جنہیں صاف نہیں کیا جا سکتا ہے، سوویت یونین کے سوا بقیہ تینوں ممالک صلیبی مقدس جنگ کے حصہ ہیں جو مسلمانوں کے بلا تفریق خون بہانے کو کارِ ثواب گردانتے ہیں، امریکہ سے قبل فرانس اس مذہبی جنگ میں سورما رہا ہے، انگلستان نے مزید پیش قدمی کی اور امریکہ نے ظلم و جور کے لفظ کو ہی بے معنی کر دیا.
فرانس نے الجزائر، تیونس جیسے کئی افریقی ممالک کو بزور قوت زیر نگیں کیا.
انگلستان نے بھی اپنی قوت و طاقت کا ناجائز استعمال کر اپنی استعماریت کے رقبہ کو وسیع تر کیا اور اس راہ میں تمام حدیں عبور کر دی، امریکہ نے طاقت کے نشہ میں چور ابھی دو دہائی کے بھیتر افغانستان کے پندرہ لاکھ اور عراق کے دس لاکھ عام شہری مسلمانوں کے خون سے اپنا ہاتھ رنگین کیا.
اسی کے ساتھ کئی سارے مسلم ممالک میں انارکی و انتشار کا بازار گرم رکھا.
لیکن یہی امریکہ عراق میں رسوا ہوا، پھر افغانستان میں ذلت سمیٹی، بڑا بے آبرو ہوکر رات کے پہر میں نکلا، پوری دنیا تماشا بین رہی.
وہیں دوسری طرف افغانی جیالوں اور طالبانی مجاہدین نے عام معافی کا اعلان کر دیا.
سب مخالفین و معاندین کو بخشش کی نوید سنائی.
مسلم حکمرانوں میں جب کوئی بھی فاتح بن کر ملک و شہر میں داخل ہوتا ہے تو انسان و حیوان سمیت نباتات تک کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے.
غزہ کے مسلمان آج جنگ کے عالم میں ہیں، غزہ فلسطین کا حصہ ہے جو اب صہیونی غصب و قبضہ کے سبب علاحدہ ایک ٹکڑا ہے،
اسرائیل نے جھوٹ کا پلندہ قائم کر رکھا تھا، اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر قوت اور محفوظ پناہ گاہ قرار دیا، جدید ٹیکنالوجی اور آلات کا ہیولا دنیا کے سینہ میں بٹھایا، لیکن پھر اس کا سرفروشوں اور جیالوں سے پالا پڑا جنہیں ان کے نبی پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے سکھایا ہے.
عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:” لا تمنوا لقاء العدو، فإذا لقيتموهم فاصبروا”.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دشمن سے لڑنے بھڑنے کی تمنا نہ کرو ‘ ہاں! اگر جنگ شروع ہو جائے تو پھر صبر سے کام لو۔“ (حدیث)
اول تو کسی سے لڑو نہیں لیکن اگر کوئی سانڈ سرپھرا ہو جائے تو اس کے سینگھ اکھاڑ کر پھینک دو تاکہ پھر کبھی وہ کسی دوسرے کو بھی ضرر و نقصان نہ پہنچا سکے.
سو دن گزر گئے لیکن فلسطینی جیالے ڈٹے ہوئے ہیں، جمے ہیں، باطل کے دانت کھٹے کئے ہوئے ہیں.
یقیناً یہ جنگ لمبی بھی ہو سکتی ہے، ضروری نہیں کہ اس بار ہی سبز پٹی دار فتح و نصرت دیکھیں، لیکن عنقریب یہ ہوگا، چونکہ باطل کی کمر وہ توڑ چکے، ان کی بودی حقیقت کو وہ آشکارا کر چکے، آئرن ڈوم سے موساد تک کا بھرم ملیا میٹ کر چکے، اب فتح قریب ہے، حق غالب ہو کر رہے گا، باطل مٹنے کو آیا ہے مٹ کر رہے گا.
بشارت ہے اس دن کے لئے جب پھر بیت المقدس فتح ہوگا اور یہی جیالے عام معافی کا اعلان کریں گے، دنیا حیران ہے کہ یہ انتقام کیوں نہیں لیتے، عوام پر کیوں ہتھیار نہیں اٹھاتے، کیونکہ ایسا کام تو بزدل کرتے ہیں، دیوث و نامرد کرتے ہیں جو بچوں اور عورتوں پر تشدد روا رکھتے ہیں، رحمت العالمین محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم نے میدانِ جنگ میں اصول الگ اور تمدنی و شہری علاقوں کے اصول الگ سکھائے ہیں.
یہی آخری پیغامبر فاتحِ مکہ مکرمہ نے اپنے متبعین کو درس دیا ہے.
Comments are closed.