عباسی خلیفہ معتصم باللہ

مولانامحمد انعام الحق قاسمی
لجنہ علمیہ ،ریاض ، سعودیہ
اس کا لقب المثمن [آٹھ ہندسہ والا] تھا اور اس نے ترکوں سے جنگی اور امنی معاملات میں امداد حاصل کی تھی۔
تاریخی حوالے سے ذکرکیا جاتاہے کہ رومی بادشاہ نے معتصم کو دھمکی آمیز خط بھیجا، جب خلیفہ نے اسے پڑھا تو کاتب سے کہا: لکھو اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ تمہارا خط پڑھا اور اسکے محتویات سے مطلع ہوا، اور جواب ایسا ہوگا جو تم نے کبھی نہ دیکھا ہوگا اور ناہی سنا ہوگا” اورابھی کافروں کو معلوم ہو جائے گا کہ نیک انجام کس کا ہے۔”
معتصم باللہ نے سائنس اور اہل سائنس کی حوصلہ افزائی کی ۔ ترجمہ اور سائنسی اداروں اور لائبریریوں کی تعمیرمیں بہت زیادہ دلچسپی کا اظہار کیا۔
معتصم باللہ کو عباسیوں کے سب سے طاقتور اور مشہور خلفاء میں سے ایک شمارکیا جاتا ہے، کیونکہ اس نے عباسی ریاست کے استحکام، اس کے مضافات میں توسیع، اور اقتصادی اور تجارتی زندگی کی بے مثال بحالی کے بعد اقتدار سنبھالا۔
معتصم باللہ ثقافتی کمزوری کے باوجود وہ سب سے بڑے اور باوقار عباسی خلفاء میں سے ایک تھے۔
پرورش اور نشو و نما
اسلامی تاریخ کے ماہر تعلیم اور محقق، ڈاکٹر عمار مرضی کے مطابق معتصم باللہ، خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے جن کا نام محمد ابو اسحاق ہے، سنہ 180 ہجری میں پیدا ہوئے، اور ان کی والدہ ترک نژاد تھیں، اور ان کا نام مریدہ خاتون ام ولد تھا۔
حلیہ
معتصم باللہ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا جبکہ داڑھی گھنی تھی۔ قد متوسط تھا۔ طاقت، ہمت اور وقارکا مرقع تھا۔
تعلیم و تربیت
معتصم باللہ عباسی حکمرانوں کے مقابلے ثقافت، لکھنے اور پڑھنے میں کمزور تھے، لیکن وہ سب سے بڑے اور معزز خلفاء میں سے ایک تھے، اگر خلق قرآن کا فتنہ نہ ہوتا، جس کی وجہ سے علماء کو بہت زیادہ آزمائش میں ڈال دیا اور قتل و غارتگری مچائی۔ جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ جن پر مصائب کے پہاڑ توڑے گئے۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید ،معتصم بالله کو بہت چاہتا تھا۔ اِسی چاہت کے سبب ایک تعلیم یافتہ غلام [مربی و معلم] ہر وقت معتصم کے ساتھ رہتا جو اُسے پڑھاتا رہتا اور لازمی تربیت بھی دیتا تھا۔ جب وہ غلام فوت ہو گیا تو ہارون الرشید نے کہا: محمد! ( معتصم کا اصلی نام محمد ہے) اب تمہارا غلام بھی مرگیا، اب بتلاو کہ کیا کریں؟ معتصم نے کہا: ہاں! وہ مرگیا اور میں کتاب کی بلاء سے آزاد ہوگیا۔ بعد ازاں وہ تعلیم سے بہرہ مند نہ ہو سکا اور اَن پڑھ ہی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ کچھ پڑھ لیتا تھا اور اِسی قدر لکھ بھی لیتا تھا مگر بہ نسبت دوسرے خلفاء کے وہ غیر تعلیم یافتہ ہی رہا۔
بیعت خلافت
معتصم باللہ نے رجب 218ھ میں اپنے بھائی المامون کی وفات کے بعد باشندوں سے خلافت کی بیعت لی۔ مامون نے ان سے اپنے بیٹے عباس کی بیعت کی سفارش کی تھی جسے کچھ شہزادے اس کی امارت کیلئے کوشش کررہے تھے۔عباس شہزادوں کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے اپنے چچا سے بیعت کرلی ہے، معتصم باللہ اپنے بھائی کو دفن کرنے کے بعد طرسوس سے بغداد واپس آئے ۔
سنہ 220 ہجری میں معتصم باللہ نے اپنی نئی راجدھانی سامراء کی تعمیر کی اور اس کا نام "سرًمن رای” تھا کچھ دنوں کے بعد سامراء میں بہت فساد اور خرابی پیدا ہوگئی تو اس کا نام "ساء من رای” پڑگیا۔ مرور زمانہ کیساتھ ساتھ اس شہر کا نام "سامراء” پڑگیا۔
نمایاں ترین کامیابیاں
معتصم باللہ کے دور نے عظیم کامیابیوں اور عظیم فتوحات کا مشاہدہ کیا ، کیونکہ اس کی حکومت کا دور نسبتاً مستحکم تھا۔تجارت، زراعت اور صنعت نے ترقی کی، زمین سے معدنی وسائل نکالے گئے، خلافت کے وسائل میں اضافہ ہوا۔ ریاست نے عوامی سہولیات کو بہتر بنایا، لوگوں کے لیے زندگی آسان بنائی گئی، اور ریاست کی سرحدوں کو محفوظ بنایا گیا۔ سائنس کی حوصلہ افزائی کی، سائنسدانوں کو انعامات سے نوازا گیا، ترجمہ پرخصوصی توجہ مبذول کی گئی۔سائنسی ادارے اور لائبریریاں قائم کی گئیں۔ اور دفاع میں توسیع اور ریاستوں کے درمیان نقل و حرکت میں آسانی کے وسائل پیدا کی۔
معتصم اپنے عہد میں نمودار ہونے والی کشمکش اور بغاوت کی تحریکوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جن میں سب سے اہم خرمیہ گروپ اور ان کے عقیدہ جو بغداد میں سرگرم تھا کا خاتمہ ہے۔ یہ ایک بدعتی مذہب تھا جو جادو اور مجوسیت کی باقیات کو یکجا کرتا ہے۔
سامرا شہر کی تعمیر خلیفہ المعتصم باللہ کی نمایاں ترین شہری کامیابیوں میں سے ایک تھی۔
عموریہ کی فتح
عموریہ کی فتح معتصم بالله کی سب سے اہم فتوحات میں سے ایک ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ بازنطینی سرزمین ایشیا مائنر (موجودہ ترکی) کا ایک شہر ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے مردوں، جانوروں اور لوہے کي ایک ایسی فوج تیار کی جسے اس سے پہلے کسی خلیفہ نے فوج کو اس سے لیس نہیں کیا تھا۔
سامرا شہر کی تعمیر
ان کی سب سے اہم شہری و تمدنی کامیابی سامرا شہر کی تعمیر اور اسے اپنا دارالحکومت بنانا تھا۔ یہ دو اہم وجوہات کی وجہ سے ہے: پہلا یہ کہ تاریخ کہتی ہے کہ بغداد کے لوگ ترک فوجیوں کی ایذا رسانی سے تنگ آچکے تھے۔ دوسری وجہ خلیفہ کا خرمیہ کی تحریک سے خوف تھا، اس لیے وہ جب بھی ظاہر ہوتے، خشکی اور سمندر سے ان کے پاس آتے، ان کے اوپر غالب ہونا چاہتے تھے۔
آٹھ [8] ہندسہ والا خلیفہ
نمبر 8 [آٹھ] معتصم کی زندگی کے بہت سے مراحل سے منسلک تھا، جس کی وجہ سے بعض مورخین نے اسے مثمن کا خطاب دیا۔ اس بارے میں مورخ عمیری رقمطراز ہیں کہ معتصم نے 18 رجب 218 ہجری کو خلافت کی باگ ڈورسنبھالی اور ان کی وفات 18 ربیع الاول بروز جمعرات ہوئی، اس حساب سے ان کی خلافت کی مدت 8 سال اور 8 ماہ، اورمعتصم [8] آٹھویں عباسی خلیفہ ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ معتصم کے 8 بیٹے اور 8 بیٹیاں تھیں، 8 محلات بنائے اور 8 ہزار دینار سونا، 18 ہزار درہم، 80 ہزار گھوڑے، 8 ہزار مملوک اور 8 ہزار لونڈیاں چھوڑیں۔
امام احمد اور معتصم کے دور میں ان کی آزمائش
امام احمد کے بیٹے عبداللہ بن احمد نے اپنے والد کے ذریعے معتصم کے دور میں کیا مصیبتیں پہنچائی تھیں، اسکے متعلق بیان کرتے ہیں کہ جب معتصم مجھے قید خانے سے لے کر آیا تو اس نے مجھ پر مزید زنجیریں ڈال دیں اور میں ان کی بوجھ کی وجہ سے چلنے کے قابل نہیں تھا، اس لیے میں نے انہیں سینے سے باندھ کر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پھر وہ میرے پاس ایک جانور لائے، اور مجھے اس پر سوار کیا، اور میں تقریباً زنجیروں کے بوجھ سے منہ کے بل گرنے کے قریب ہوگیا۔ میرے ساتھ کوئی نہیں تھا کہ وہ مجھے پکڑے، جب تک ہم معتصم کے پاس نہ پہنچ گئے، اللہ تعالیٰ نے میري حفاظت فرمائی۔ چنانچہ مجھے ایک گھر میں لایا گیا اور وہ مجھ پر بند کر دیا گیا ، اس گھر میں چراغ نہیں تھا۔میں نے وضو کرنا چاہا تو میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو ایک برتن ملا جس میں پانی تھا تو میں نے اس میں سے وضو کیا قبلہ کا رخ معلوم کیے بغیر پھر میں اٹھ کھڑا ہوا، اور جب میں بیدار ہوا تو میرا چہرہ قبلہ کی طرف تھا، الحمد للہ۔
اسکے بعد امام احمد کے کپڑے اتار کران پر کوڑوں کی بارش کی گئی ان کا قصور یہی تھا کہ وہ قرآن کریم کو مخلوق نہیں مانتے تھے۔ اللہ تعالی امام احمد بن حنبل کو جنت الفردوس میں اعلی مقام پر فائز فرمائے آمین۔
ترکوں سے عسکری اور امن امداد حاصل کرنا
خلیفہ معتصم باللہ نے فارسی عناصر کے ساتھ توازن پیدا کرنے کے لیے ترکوں سے عسکری اور امن عناصر سے مدد طلب کی۔ اسلامی تاریخ کے محقق کریم الاعراجی نے خلیفہ معتصم باللہ کی ترک عناصر سے مدد کی وجہ فارسی عناصر کے ساتھ توازن کی مساوات کو پیدا کرنے کو قرار دیا ہے جو ان کی خلافت سنبھالنے سے قبل فوج اور عباسی ریاست کے اداروں میں رائج تھا۔
کہا جاتا ہے کہ خلیفہ معتصم باللہ کی والدہ ان کے والد ہارون الرشید کی ترک لونڈی تھیں انھوں نے انھیں آزاد کر دیا۔ یہ یقینی طور پر معتصم باللہ کے ماموں اور رشتہ داروں میں ان کی گہری دلچسپی ہوگی جس نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عباسی ریاست کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں میں خاندانی ریاستوں نے بڑا کردار ادا کیا، اس کے علاوہ ترک فوجیوں کی عسکری اور جسمانی صلاحیتوں میں بھی فرق تھا۔
ترک عناصر کے استعمال کے نتیجے میں عباسی ریاست میں فوج اور انتظامی قیادت کا مینڈیٹ فارسی عناصر کے بجائے ترک عناصر کی طرف منتقل ہوگیا۔ سنہ 220 ہجری میں معتصم نے ترکوں کو بخارا، سمرقند، فرغانہ، عشروسنہ اور ٹرانسکسیانا سے متصل دوسرے شہروں سے منگانا شروع کیا۔ ان کی تعداد – جیسا کہ بعض تاریخی ذرائع سے پتہ چلتا ہے – 18 ہزار جنگجو تھے۔ اس نے انہیں خاص لباس پہنایا تاکہ وہ باقی لوگوں سے ممتاز ہوں۔ ریاست کے اندر اور عباسی خلافت کے ادارے کے اندر ان ترک رہنماؤں اور سپاہیوں کے لیے معتصم کی مکمل حمایت کے ذریعے ان میں نمایاں اور تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا۔
اس کے بعد ترکوں کا ایک فوجی طبقہ نمودار ہوا جو عباسی خلافت کی صلاحیتوں کو استعمال کرتا تھا اور خلیفہ کو الگ تھلگ یا منتخب کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا خلیفہ ان کے اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہو گئے تھے اور ان کی منظوری کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنے کی قدرت ان کے پاس نہیں تھی۔ اس طرح عباسی خلافت کی ہیبت اور رعب ختم ہو گیا۔
علالت اور وفات
سنہ 227 ہجری میں معتصم باللہ حجامہ لگانے کے بعد بیماری کا شکار ہو گیا لیکن بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں ترک عناصر نے زہر دیا تھا اور اسی سال 18 ربیع الاول کی رات جمعرات کو ان کا انتقال ہوا۔
الاعراجی نے جلال الدین السیوطی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب معتصم مرض مرگ میں مبتلا تھا تو اس نے کہا کہ "ساری چالیں چلی گئیں لیکن کوئی چال یا حیلہ کام نہیں آیا””اے خدا، تو جانتا ہے کہ میں اب تجھ سے ڈرتا ہوں، لیکن میں تجھ سے پہلے بے خوف تھا، اور میں تجھ سے امید رکھتا ہوں، لیکن میں پہلے تجھ سے امید نہیں رکھتاتھا [یعنی دنیا کی چمک دمک کھوکر تجھ سے غافل ہوگیا تھا]۔”
تقریباً 9 سال کی حکمرانی کے بعد 48 سال کی عمر میں 5 جنوری 842 ء کو 18 ربیع الاول 227 ہجری کو سامرا شہر میں وفات پائی۔
معتصم باللہ کی وفات کے بعد انہیں ایک بہت بڑے سرکاری جلوس کے ساتھ جنازہ لے جایا گیا اور سامراء شہر میں گنبد خلفاء نامی جگہ میں دفن کیا گیا جو آج تک [سامرا میں دریائے دجلہ، جو بغداد سے تقریباً 120 کلومیٹر شمال میں ہے] میں موجود ہے۔
Comments are closed.