اگر راہ فرار اختیار کی تو ہندوستان ہی سے نہ بھگا دئے جائیں

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
۲۲ جنوری کو جب ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ بنائے گئے رام مندر کی پران پرتشٹھا ہورہی تھی اور سارا ملک اسی رنگ میں رنگا ہوا تھا اس وقت ہم گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ کہہ رہے تھے کہ ایودھیا بابری مسجد کا کیس تو ہم جیتے ہیں! کورٹ نے ہماری بات قبول کی کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی یہ بھی تسلیم کیا کہ مسجد میں مورتیاں پرکٹ نہیں ہوئیں بلکہ رکھی گئی تھیںاور اس بات پر بھی اپنی مہر لگائی کہ مسجد توڑنا بھی مجرمانہ عمل تھا۔اس سب کے باوجود کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ فریق مخالف کو کیوں سونپ دی؟ اس کا جواب ہمیں ڈھونڈنا چاہئے اور وہ بھی کورٹ کے فیصلے کے گہرے مطالعہ کے ذریعہ سنی سنائی سے نہیں۔ حالانکہ بابری مسجد کا معاملہ اب ماضی کی بات ہو چکا ہے لیکن اس پورے معاملے کی ابتدا سے اخیر تک کا مطالعہ ہمیں مستقبل بلکہ حال ہی میں پیش آنے والے گیان واپی اور شاہی عیدگاہ مساجد کے معاملات میں آگے کے لئے لائحہء عمل طے کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے تاکہ ہم قانونی طور پر اپنے آپ کو بہتر طریقے سے پیش کرسکیں۔ جس وقت ہم اپنی جیت کا ماتم منارہے تھے اسی وقت پورے ملک سے رام بھکتوں کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف شرانگیزیوں اور تشدد کی بھی خبریں آرہی تھیں لیکن ہم اپنی جیت کے ماتم میں اتنے مگن رہے کہ ہم نے اس کی کوئی تیاری ہی نہیں کررکھی تھی ، جہاں بھی حالات خراب ہوئے وہاں کے مقامی لوگوں نے بھگت لئے اور بس ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پران پرتشٹھا کا اعلان ہونے کے بعد ہم اس تیاری میں لگ جانتے کہ حکومت و انتظامیہ اس دن مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی شرانگیزی اشتعال انگیزی اور تشدد کو روکے لیکن ایسا کسی بھی سطح سے نہیں ہوا۔ ایسا بھی نہیں کہ ہمیں اس طرح کی شرانگیزیوں کا خدشہ نہیں تھا، تھا لیکن ہم نے اس کا قانونی بندوبست کرنے کے بجائے خود یہ بزدلانہ اور شرانگیزوں کو شہہ دینے والے اعلانات کرنا شروع کردئے کہ مسلمان احتیاط کریں جبکہ یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمیشہ مسلمان ہی احتیاط سے کام لیتے ہیں جہاں کہیں حالات خراب ہوتے ہیں وہ شرانگیزوں کے اشتعال دلانے کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ میرا روڈ ممبئی کے نیا نگر میں ہوا آؤٹ لک آن لائن نے24 جنوری 2024 کو لکھا کہ‘‘ڈپٹی کمشنر جینت بجبالے کے مطابق میرا روڈ کے نیا نگر علاقے میں ہندو برادری کے افراد نے نعرے بازی کی تو تنازع شروع ہوا۔’’لیکن بات نعرے بازی تک ہی نہیں رہتی پران پرستشٹھا کے اس موقع کے اور بھی کچھ ویڈیوز شیئر کئے گئے ہیں جن میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بات نعرے بازی سے آگے کی ہوتی ہے، لیکن کارروائی ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف کی جاتی ہے۔اس بار تو مہاراشٹر میں بھی بلڈوزر چلا دیا گیا حالانکہ کہا جارہا ہے کہ بلڈوزر غیر قانونی تعمیرات پر چلا یا گیا لیکن اس کا وقت اس کے پیچھے کی بد نیتی صاف عیاں کئے دے رہا ہے اس کے باوجود بی جے پی ایم ایل اے نتیش رانے کی طرف سے پولیس پر تنقید کی گئی، جس نے انہیں فرقہ وارانہ فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ہندو برادری کی حفاظت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ لیکن ہماری طرف سے ہماری جان املاک اور عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے کسی قسم کا کوئی سوال حکومت و انتظامیہ سے پوچھا گیا اور نہ ہی میڈیا پلیٹ فارم سے اٹھایا گیا۔ہاں اب فسادات تھم جانے کے بعد فساد زدگان کی بازآبادکاری اور رلیف ورک اور گرفتار شدگان کی رہائی کے نام پر دیکھئے ہم کیسی دوڑ لگائیں گے اور چھوٹے موٹے کاموں کا بھی کیسے کریڈٹ لیں گے۔ دراصل ہم میں احساس زیاں نہیں ہے اور نہ مستقبل کی کوئی فکر۔ ہم بہت تیزی سے ناقابل درست حالات کی طرف دھکیلے جارہے ہیں مگر ہم سا بے پروا بھی کوئی نہیں ہے۔ بابری مسجدمقدمہ میں ہم جیت نہیں سکے اس کا قلق تو ساری زندگی ہمارے دلوں میں ٹ کچوکے لگاتے رہنا چاہئے لیکن اب کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم حال اور مستقبل کے بارے میں سوچیں حکومت ،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو اس بات کے لئے مجبور کریں کہ وہ شر پسند عناصر کی زبانی اور عملی شر پسندی کو روکیں اور ان معاملات میں جو بھی کارروائی کریں وہ یک طرفہ یعنی مسلمانوں کے خلاف ہی نہ ہو بلکہ شواہد کی بنیاد پر ہر اس شخص کے خلاف ہو جو مجرم ہو پھر چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو۔ اگر ہم بزدلانہ طور پر احتیاط کے بہانے راہ فرار کا انتخاب کریں گے تو ہمیں ہندوستان سے ہی بھگا دیا جائے گا ۔ ہمیں اپنی مینٹالیٹی بدلنی ہوگی، حکومتوں سے بات کرنی ہوگی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے اپنی بات بھرپور اوربہادری سے رکھنی ہوگی یا پھر تمام قانونی گنجائشوں کے ذریعہ عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگا، اب حالات انتہائی سنگین ہوتے جارہے ہیں اگر ہم اب بھی ذاتی جماعتی اور فرقہ وارانہ مفادات سے اوپر نہیں اٹھے تو ہمیں یہاں وطن عزیز میں بھی اسپین کی تاریخ کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
Comments are closed.