شبِ برأت کی حقیقت وفضیلت

از: مفتی اسجد اللہ قاسمی، مقیم دوحہ ،قطر

شعبان المعظم کی پندرھویں رات شبِ برأت کے نام سے موسوم ہے۔ یہ انتہائی فضیلت و بزرگی والی رات ہے۔
شب برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین (حضرت ابوبکرصدیق، حضرت علی المرتضیٰ ،حضرت عائشہ صدیقہ حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوہریرہ،حضرت عوف بن مالک،حضرت ابو موسیٰ اشعری،حضرت ابو ثعلبہ الخشنی، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص،حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنهم اجمعين) سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ ذكر کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے ۔

شبِ برات کے حوالے سے دو طرح كے نظرے بائے جاتے هين ۔ایک نظريه متشدّدین كا ہیں جو اسے مكمل بدعت قرارديتے ہیں اور اس سے متعلقہ روایت کردہ تمام احادیثِ مبارکہ کو ضعیف یا موضوع سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جہلاء ہیں جنہوں نے اغیار کی نقالی کرتے ہوئے بہت ساری رسومات و بدعات کو بھی اِس رات كي عبادت کا ایک حصہ بنا لیا ہے۔ اس مضمون میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان امور کا جائزہ لیا گیا ہے جن کا کرنا ماہِ شعبان یا شبِ برات میں مستحب و مستحسن ہے اور ان خرافات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جن کو عبادت کے نام پر دین کا ایک حصہ بنا لیا گیا۔ علامہ البانی نے ماہِ شعبان اور شبِ برات کے حوالے سے تقریباً ایک سو پینتیس (۱۳۵) صحیح ‘ حسن ‘ضعیف اور موضوع روایات کو مختلف کتبِ احادیث میں بیان کیا ہے ۔اِن کے علاوہ بھی بعض دوسرے علماء نے کتب تفسیر وغیرہ میں کچھ روایات کا تذکرہ کیا ہے ۔

شب برأت میں عبادت :۔
امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔

شبِ برأت میں قبرستان جانا:۔
اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں ، لیکن شيخ الاسلام حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمة الله عليه ایک بڑی کام کی بات بیان فرمائي هے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے هين کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی ، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔

عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں :۔
البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلاً پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکر کریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
آدمی کے اندر دو صفتیں پائی جاتی ہیں: ایک ”روحانیت“، دوسری ”حیوانیت“؛ پہلی صفت میں انسان ترقی کرکے فرشتوں کے مشابہ هوجاتا ہے ، اس لیے اسے ”مَلکیت“ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسری صفت میں اضافہ کی وجہ سے انسان عام حیوانوں کے مشابہ هوجاتا ہے؛ اس لیے اس کو ”بہیمیت“ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ روزہ کی برکت سے حیوانیت روحانیت کے تابع هوجاتی ہے، آدمی خواہشات کو دباکر اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہوجاتا ہے اور متقین کی صف میں شامل ہوجاتا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں روحانیت اور ملکیت کے بڑھانے کے لیے جہاں فرض روزوں کی تعلیم دی ہے، وہیں نفل روزے رکھے ہیں اورامت کو اس کی ترغیب وتعلیم بھی دی ہے۔
احادیث میں نفل روزوں کی ترغیب:-
روزہ کی وجہ سے روحانیت میں ترقی ہوتی ہے اور حیوانی وشہوانی قوت ٹوٹتی ہے؛ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض کے علاوہ نفلی روزہ کثرت سے رکھا کرتے تھے اور صحابہٴ کرام رضي الله عنهم اجمعين کو اس کی ترغیب بھی دیتے تھے، ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
(عن أبي هريرة رضي الله عنه قال ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :(كل عمل ابن آدم يضاعف الحسنة عشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف ، قال الله عز وجل إلا الصوم ، فإنه لي وأنا أجزي به ، يدع شهوته وطعامه من أجلي للصائم فرحتان فرحة عند فطره وفرحة عند لقاء ربه ولخلوف فيه أطيب عند الله من ريح المسك . مسلم 1151 )
(حضرت ابو هريرة رضي الله عنه سے مروي هيكه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرماياكه آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک بڑھایا جاتا ہے؛ مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے، وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے تحفہ ہے، اور میں ہی (جس طرح چاہوں گا) اس کا اجر وثواب دوں گا، میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہشِ نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے (پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی قربانی اور نفس کُشی کا صلہ دوں گا) روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک ومولیٰ کی بارگاہ میں حضوری اور شرفِ باریابی کے وقت، اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منھ کی بو، اللہ کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے.
(عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : "الصِّيَامُ جُنَّةٌ فَلا يَرْفُثْ وَلا يَجْهَلْ وَإِنْ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْن . البخاري 1894)
حضرت ابو هريرة رضي الله عنه سے مروي هيكه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرماياكه، روزہ (دنیا میں شیطان اور نفس کے حملوں کے لیے اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے حفاظت کے لیے) ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتو اسے بے ہودہ اور فحش باتیں نہیں بکنا چاہیے اور نہ ہی شور وغُل کرنا چاہیے اور اگر کوئی دوسرا اُسے گالی دے یا جھگڑے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں“
(عن أبي هريرة رضي الله عنه قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لكل شيء زكاة وزكاة الجسد الصوم،ابن ماجه 1745)
(حضرت ابو هريرة رضي الله عنه سے مروي هيكه رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ہر چیز کی ایک زکوٰة ہوتی ہے (جس کے نکالنے سے وہ چیز پاک ہوجاتی ہے) اور جسم کی زکوٰة روزہ رکھنا ہے۔)

( عَنْ أَبِي أُمَامَةَ البَاهِلِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ. سنن الترمذي 1624)
) حضرت ابوامامہ الباهلي رضي الله عنه آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ: جو آدمی اللہ کے راستے میں (یعنی اللہ واسطے) ایک دن روزہ رہے، اس کے لیے اللہ رب العزت اس کے اور جہنم کے درمیان خندق (گڑھا) کھود دیتے ہیں، جس کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہوتی ہے۔ (حاصل یہ کہ اس بندے کا جہنم میں داخل ہونا محال ہے)
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (من صام يوماً في سبيل الله، باعد الله وجهه عن النار سبعين خريفاً) متفق عليه)
(حضرت ابوسعید خدری رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جو آدمی اللہ کے راستے میں (اللہ واسطے) ایک دن روزہ رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے (یعنی جسم) کوجہنم سے ستر سال دور فرمادیں گے۔ )
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال سمعت رسول الله يقول من صام يوما ابتغاء وجه الله بعده الله من جهنم كبعد غراب طائر وهو فرخ حتى مات هرما "
(حضرت ابو هریرہ رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ : رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جو آدمی اللہ تعالیٰ کی رضامندی وخوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک دن روزہ رہے اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے اتنا دور فرمادیں گے، جتنا چوزہ ہونے کی عمر سے کھوسٹ بڈھا ہوکر مرنے تک برابر اڑنے والا کوّا دوری طے کرتا ہے۔ (مشکوٰة:۱۸۱)
مذکورہ بالا تینوں (4.5.6) روایتوں میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رہنے کی برکت سے جہنم سے چھٹکارہ پانے کی یقینی صورت کو مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے، مطلب ایک ہی ہے؛ البتہ اسلوبِ بیان الگ ہے، آسمان وزمین کے برابر خندق کھودنے کا مطلب ہے کہ اس بندے کا جہنم میں داخل ہونا بہت مشکل ہے۔ ”ستر“ کا عدد عرب اپنے محاورے میں کثرت کے مبالغہ کے لیے بولا کرتے تھے؛اس لیے ستر سال دوری کا مطلب ہے کہ وہ جہنم سے بہت دور ہوجائے گا۔ ”کوّا“ کی عمر بڑی لمبی ہوتی ہے، عرب میں لمبی مدت کے لیے کوے کی عمر کو کنایہ اور استعارہ کے طور پر بولتے هیں، ظاہر سی بات ہے کہ کوّا اگراپنے چوزے پن کی حالت میں اڑنے لگے اور کھوسٹ بڈھا ہوکر مرنے تک اڑتا ہی رہے تو کتنی زیادہ مسافت طے کرے گا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، اسی طرح اللہ ربُّ العزت نفل روزہ رکھنے والے کو جہنم سے اتنا دور فرمادیں گے کہ وہ واپس جہنم میں جاہی نہیں سکے گا۔
نفل روزوں میں اعتدال
اسلام اعتدال ومیانہ روی کی تعلیم دیتا ہے، نفل عبادتیں اتنی ہی محمود هیں، جن کے ساته آدمی اپنے جسم وجان، عزیز وقریب اور زیردستوں کی پوری ذمہ داری کو بہ حسن وخوبی نبھاسکے، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر شفقت کرتے ہو ئے نوافل میں اعتدال کی راہ بتائی، اس لیے هر مہینے میں صرف تین دن روزہ کو صوم الدہر (ہمیشہ روزہ رہنے) کے برابر بتایا، اور مزید قوت وطاقت ہوتو ایک دن روزہ ایک دن فاقہ کرکے نصف ماہ روزہ کی اجازت دی اور قرآن پاک کو مہینہ میں ایک بار ختم کرنے کی تعلیم دی اور اگر ہمت وطاقت ہوتو ہفتہ میں ایک بار ختم کی اجازت دی۔ (مشکوٰة: ص:۱۷۹) اس لیے ہمیں اعتدال کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

شعبان میں نفل روزے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے (کبھی) مسلسل رکھنے شروع کرتے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب ناغہ نہیں کریں گے اور (کبھی) بغیر روزے کے مسلسل دن گذارتے؛ یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگتا ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا روزہ ہی رہیں گے۔ نیز فرماتی ہیں کہ: میں نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا پورا روزہ رکھتے نہیں دیکھا، اسی طرح کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (مشکوٰة:۱۷۸) بعض روایتوں میں ہے کہ شعبان کے مہینہ میں بہت کم ناغہ کرتے تھے، تقریباً پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ (الترغیب والترہیب:۲/۱۱۷)
احادیث کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفلی روزوں کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی لگا بندھا دستور ومعمول نہیں تھا، کبھی مسلسل روزے رکھتے، کبھی مسلسل ناغہ کرتے؛ تاکہ امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں زحمت، مشقت اور تنگی نہ ہو، وسعت وسہولت کا راستہ کھلا رہے، ہر ایک اپنی ہمت، صحت اور نجی حالات کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرسکے، اسی لیے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایامِ بیض (13.14.15 تاریخوں) کے روزے رکھتے، کبھی مہینے کے شروع میں ہی تین روزے رکھتے، کسی مہینہ میں ہفتہ، اتوار اور پیر کے روزے رکھتے تو دوسرے مہینے میں منگل، بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے، کبھی جمعہ کے روزے کا اہتمام کرتے، اسی طرح عاشورہ اور شوال کے چھ روزے رکھنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت سے روزے رکھنے کی علماء نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں:
۱- چوں کہ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کے دربار میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے؛ اس لیے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہوتو میں روزے کی حالت میں رہوں، یہ بات حضرت اسامہ بن زید رضي الله عنه کی روایت میں موجود ہے۔ (نسائي)
۲- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ: پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دیے جائیں تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوں۔ (معارف الحدیث: 4/155)
۳- رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار وبرکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے، جس طرح فرض نمازوں سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، اسی طرح فرض روزے سے پہلے نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور جس طرح فرض کے بعد سنتیں اور نفلیں پڑھتے تھے؛ اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھ روزے رکھتے اوراس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔
شعبان کے روزے میں آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورامت کے عمل میں فرق
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جیسا کہ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے تقریباً پورے مہینے روزہ رکھتے تھے، دوسرے مہینوں کے مقابلے میں اس مہینہ میں اہتمام زیادہ تھا، اسی طرح چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت پر بڑے شفیق، رؤوف اور رحیم تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بتایا کہ تم میری ہمسری نہیں کرسکتے، مجھے تم سے زیادہ طاقت دی گئی ہے، اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خصوصیت حاصل ہے (یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ) کہ مجھے میرے رب کھلاتے پلاتے رہتے ہیں، مجھے روحانی غذا ملتی رہتی ہے؛ اس لیے تم لوگ شعبان میں روزہ رکھ سکتے ہو؛ لیکن نصف شعبان آتے ہی روزہ رہنا بند کردو پھر جب رمضان آئے تو نئی نَشاط کے ساتھ روزہ شروع کرو! (ابن ماجہ: ۱/۳۰۳، تحقیق مصطفی اعظمی زیدمجدہ) ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے: اذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلاَ تَصُوْمُوْا (۱/۵۵) جب شعبان کا مہینہ آدھے پر آجائے تو روزہ نہ رہو! (نیز دیکھئے: بلوغ المرام:۱۳۹)

خلاصہ یہ کہ پورے مہینہ یا اکثر دنوں میں روزہ رہنا سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے، ہمارے لیے نصف شعبان تک روزہ رہنا سنت ہے؛ لیکن اس کے بعد روزہ رہنا خلافِ سنت ہے، محدثین نے اس ممانعت کو تنزیہی پر محمول کیا ہے، ملا علی قاری رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم امت پر شفقت کے طور پر ہے تاکہ رمضان المبارک کے فرض روزے رکھنے میں ضعف محسوس نہ ہو؛ بلکہ نَشاط، چستی اور حشاش بشاش ہونے کی حالت میں رمضان کا روزہ شروع کیا جاسکے۔ (مرقات)
نيز جمیع محدثین کے يہاں اُصول حدیث کا متفق علیہ قاعدہ ہے کہ فضائل اَعمال میں حدیثِ ضعیف بھی مقبول ہوتی ہے جبکہ شبِ برأت کے حوالے سے تو کثیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایات مروی ہیں۔ لہٰذا یہ تصور ذہن میں نہیں آنا چاہیے کہ کسی ایک روایت اور سند پر کسی ایک نے لکھ دیا کہ اس میں ضعف ہے تو معاذ ﷲ اسے اٹھا کر پھینک دیا جائے۔ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ضعف کسے کہتے ہیں؟ ضعیف حدیث، موضوع روایت کو نہیں کہتے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ضعف کبھی حدیث کے متن و مضمون (الفاظ) میں نہیں ہوتا، بلکہ ضعف اس کی اسناد میں کسی وجہ سے ہوتا ہے اور اگر ایک سبب سے ایک سند میں ضعف ہے اور دوسری سند اس سے قوی آ جائے تو اس پہلی سند کا ضعف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ صرف اپنی کم علمی کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرتے رہتے ہیں۔‘
شبِ برأت پر کثیر تعداد میں مروی احادیث، تعاملِ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ سلف، فقہاء صرف اس لیے نہیں ہیں کہ کوئی بھی بندہ فقط ان کا مطالعہ کر کے یا بنا مطالعہ کے ہی انہیں قصے، کہانیاں سمجھتے ہوئے ان سے صرفِ نظر کرے بلکہ ان کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے مولا خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے اُستوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگر روحانی راتوں میں عبادت سے باسہولت میسر آ سکتا ہے۔
ان بابرکت راتوں میں رحمتِ الٰہی اپنے پورے آب وتاب كےساته بندون پرسايه فگن ہوتی ہے اور اپنے گناہ گار بندوں کی بخشش و مغفرت کے لیے بے قرار ہوتی ہے، لہٰذا اس رات میں قیام کرنا، کثرت سے تلاوتِ قرآن، ذکر، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے اور یہ اَعمال احادیثِ مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہیں۔ اس لیے جو شخص بھی اس شب کو یا اس میں عبادت کو بدعتِ ضلالۃ کہتا ہے وہ درحقیقت احادیثِ صحیحہ اور اعمالِ سلف صالحین کا منکر اور فقط ہوائے نفس كا متبع ہے۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ جو عمل خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہو، تابعین، اتباع تابعین اور اسلاف امت اس پر شروع سے ہی عمل پیرا رہے ہوں، فقہائے کرام جسے مستحب قرار دیتے ہوں، کیا وہ عمل بدعت ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا عمل بھی بدعت ہے تو پھر سنت و مستحب عمل کیا ہوگا؟
الله رب العزت سے دعا هيكه تمام مسلمانون كو دين كي صحيح سمجه عطا فرمائے. آمين ثم آمين

 

Comments are closed.