وقف کے دفاع میں ”انسانی زنجیر“: خاموش ہاتھوں کی گونجدار پکار!

از قلم: محمد فرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
8495087865, [email protected]
وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف جو احتجاجی تحریک بنام ”وقف بچاؤ،دستور بچاؤ تحریک“ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی سرپرستی میں ملک بھر میں زور و شور سے جاری ہے، وہ درحقیقت وقف قانون میں صرف غیر آئینی ترمیمات کے خلاف آواز نہیں بلکہ ایک نظریاتی، دستوری اور تہذیبی بیداری کی تحریک ہے۔ وقف، اسلامی تشخص، ملی ورثہ اور اقلیتی تشخص کا محافظ ہے، اور اس پر وار دراصل ایک مخصوص طبقے؛ مسلمانوں کے وجود، اس کے دینی و تہذیبی نظام، اس کے تعلیمی اداروں، اس کے مساجد، مدارس، خانقاہوں، یتیم خانوں،مزاروں، قبرستانوں اور عوامی بھلائی کے منصوبوں پر حملہ ہے۔ چنانچہ اس حملے کا جواب صرف قانونی چارہ جوئی تک محدود نہیں رہ سکتا، بلکہ اس کے خلاف ہر سطح پر پرامن، باشعور اور منظم عوامی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ اسی مزاحمت کے مختلف مراحل اور صورتیں ہیں جو اس وقت ”وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک“ کے ذریعہ ملک کے مختلف علاقوں میں عمل میں لائی جارہی ہیں۔
احتجاجی تحریک کی ان مختلف صورتوں میں ایک منفرد اور پراثر صورت ”انسانی زنجیر“ (Human Chain)کا طریقہ ہے، جس کے ذریعہ نہ صرف قوم میں بیداری پیدا ہوتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک پرامن اور باوقار پیغام جاتا ہے۔ انسانی زنجیر کے ذریعہ ایک خاموش لیکن زوردار احتجاج ریکارڈ ہوتا ہے، جو حکومت کو احساس دلاتا ہے کہ عوام اب بیدار ہوچکے ہیں اور وہ اپنے حقوق، اپنے مذہبی اداروں اور اپنے دستوری تشخص کے تحفظ کیلئے خاموش تماشائی بنے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ طریقہئ احتجاج اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں عوام کی براہ راست شرکت ہوتی ہے،مرد، نوجوان، بچے، بزرگ، ہر طبقے کے افراد سڑک پر آکر خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ایک ایسی زنجیر بناتے ہیں جو ظاہری طور پر خاموش ہوتی ہے لیکن درحقیقت اپنے پیچھے ایک گونجدار پیغام رکھتی ہے۔
کرناٹک میں 04/ جولائی کو نماز جمعہ کے بعد جو انسانی زنجیر بننے جارہی ہے وہ صرف ایک ریاستی احتجاج نہیں بلکہ قومی سطح پر بیداری کی علامت ہے۔ یہ زنجیر اس بات کی علامت ہے کہ ملک کے آئینی اصول، اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی اور وقف جیسی دینی و سماجی ادارے ملک کی روح ہیں اور ان پر کسی قسم کی چیرہ دستی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انسانی زنجیر کا تصور نیا نہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے ایک مؤثر احتجاجی ذریعہ مانا گیا ہے۔ جنوبی افریقہ کی نسلی امتیاز کے خلاف تحریک میں، اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف احتجاج میں اور بھارت میں مختلف مواقع اور تحریکات میں اس طریقے کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ ایک پرامن، مہذب اور خود کو دستور کے دائرے میں رکھتے ہوئے آواز بلند کرنے کا ذریعہ ہے، جو کسی بھی جمہوری ملک کی روح کے مطابق ہے۔انسانی زنجیر(ہیومن چین) کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس میں صرف نارے بازی یا جذباتیت نہیں بلکہ منظم تیاری، شعور، یکجہتی اور عوامی شمولیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جب کوئی انسان اپنے دائیں اور بائیں موجود افراد کا ہاتھ تھامے ہوئے کھڑا ہوتا ہے، تو وہ درحقیقت یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں، ہم سب متحد ہیں، اور ہم سب اپنے وقار اور اداروں کے تحفظ کیلئے کھڑے ہیں۔ اس میں کوئی لسانی، مذہبی، یا سیاسی تفریق نہیں ہوتی، بلکہ یہ صرف اور صرف اپنے مشترکہ وقار اور دستور کے تحفظ کی ایک علامت بن جاتی ہے۔
پلے کارڈز اور بینرز انسانی زنجیر کے پیغام کو مزید مضبوط بناتے ہیں۔ جب ہاتھوں میں ایسے بینرز ہوں جن پر لکھا ہو ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ“، ”ہم وقف کے محافظ ہیں“، ”ہم آئین مخالفت وقف ترمیمی قانون 2025 کو مسترد کرتے ہیں“، ”ہم ایک ہیں“، تو یہ ہر راہگیر، ہر کیمرہ، اور ہر سوشل میڈیا صارف کے ذہن میں سوالات پیدا کرتا ہے، اور یہی سوالات بیداری کی بنیاد بنتے ہیں۔ میڈیا کیلئے ایسے مناظر نہایت پرکشش ہوتے ہیں، کیونکہ ایک بڑی تعداد میں پرامن طریقے سے کھڑے لوگ، یکساں پلے کارڈز، منظم ترتیب، اور جذباتی فضا، یہ سب ایک مؤثر بصری پیغام میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے احتجاج میڈیا کی توجہ بھی حاصل کرتے ہیں، اور اگر اس کے ساتھ سوشل میڈیا کی منظم مہم بھی ہو، جیسے کہ تصاویر، ویڈیوز، مختصر کلپ، ہیش ٹیگز وغیرہ، تو یہ پیغام گھنٹوں میں مقامی سے قومی، اور قومی سے عالمی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کا کردار آج کے دور میں احتجاج کو عالمی بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ جس طرح فلسطین کے مظالم پر عالمی شعور، سوشل میڈیا خاص طور پر X (Twitter) کے ذریعہ بیدار ہوا، اسی طرح اگر ہمارے نوجوان، ہمارے علماء، ہمارے کارکنان، ہمارے تعلیمی ادارے، طلبہ، اپنے اپنے مقامات پر انسانی زنجیر کے ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر ایک ہی ہیش ٹیگ کے تحت نشر کریں، تو یہ احتجاج صرف سڑکوں تک محدود نہ رہے گا، بلکہ ہندوستانی عوام، عدالتوں، ایوانوں، اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے اداروں تک اپنی آواز پہنچائے گا اور یہ مسئلہ صرف مقامی نہ رہ جائے گا بلکہ قومی اور بین الاقوامی مسئلہ بن جائے گا۔ یہی وہ طریقہ ہے جو آج کے دور میں کم وسائل کے باوجود مؤثر مزاحمت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر سطح پر منظم تیاری ہو، تصاویر اور ویڈیوز اچھے معیار کی ہوں، ترسیل منظم ہو، اور پیغام مربوط ہو۔
انسانی زنجیر ایک ایسا طریقہ احتجاج ہے جو صرف حکومت کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر کی غفلت کو بھی جھنجھوڑتا ہے۔ جب ایک عام شخص، جسے شاید سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ سڑک پر آکر اپنے ہم مذہب بھائی کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کھڑا ہوتا ہے، تو وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اب غفلت کافی ہوچکی، اب ہم جاگ چکے ہیں۔ یہ بیداری کا لمحہ صرف حکومت کو پریشان نہیں کرتا بلکہ پوری قوم کو ایک نئی روح بخشتا ہے۔ کرناٹک کی یہ انسانی زنجیر اس بیداری کی علامت ہے، اور اگر ہر ادارہ، ہر تنظیم، ہر شہر، ہر ضلع، ہر ریاست اس جذبے کو قبول کرے، تو یہ احتجاج ایک انقلاب میں بدل سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی زنجیر میں شرکت خاموش احتجاج ہے، لیکن یہ خاموشی گونجدار ہوتی ہے۔ یہ خاموشی ہر زندہ ضمیر کو آواز دیتی ہے، یہ خاموشی ہر دستور شکن طاقت کیلئے خطرہ بن جاتی ہے، اور یہ خاموشی ہر مظلوم کے دل میں امید کی کرن جگاتی ہے۔ اس میں کوئی اشتعال نہیں، کوئی جارحیت نہیں، کوئی قانون شکنی نہیں، صرف محبت، اتحاد، اور بیداری کا پیغام ہوتا ہے۔ اور یہی وہ اسلوب ہے جس سے بڑی سے بڑی حکومتیں بھی دباؤ محسوس کرتی ہیں اور اپنے فیصلوں پر نظر ثانی پر مجبور ہوتی ہیں۔
انسانی زنجیر کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہم اپنے اداروں کی حفاظت کریں گے، ہم اپنے بزرگوں کی امانتوں کے وارث بن کر ابھریں گے، اور ہم اس ملک کے دستور، جمہوریت، اور اقلیتی تحفظات کے اصولوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھیں گے۔ کرناٹک کی سڑکوں پر بننے والی انسانی زنجیر اس وقت تاریخ رقم کرے گی، اگر ہم سب اسے صرف ایک احتجاج نہ سمجھیں، بلکہ اسے اپنے عزم، اپنی بصیرت، اور اپنی ذمہ داری کا اعلان بنائیں۔ یہ وقت صرف باتوں کا نہیں، عمل کا ہے۔ اور انسانی زنجیر ایک ایسا عمل ہے جو تاریخ کے صفحات پر ثبت ہوگا، اور آنے والی نسلیں اس دن کو یاد رکھیں گی کہ ہم نے خاموشی سے ایک ایسا زوردار پیغام دیا جو دیواروں، قانون ساز اداروں، اور اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ گیا۔
لہٰذا ہر شخص، ہر فرد، ہر باشعور شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس انسانی زنجیر کا حصہ بنے۔ یہ صرف مظلوموں کی حمایت نہیں بلکہ اپنے وجود، اپنے تشخص، اور اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کا اعلان ہے۔ ہمیں اپنے ہاتھوں کو جوڑنا ہے، لیکن صرف ہاتھ نہیں، اپنے دلوں کو بھی جوڑنا ہے، اپنی فکروں کو جوڑنا ہے، اپنے وسائل کو جوڑنا ہے، اور اپنے راستے کو جوڑنا ہے۔ جب ہم سب ایک ہاتھ سے ایک ہاتھ جوڑیں گے، تو وہ زنجیر صرف انسانوں کی نہیں ہوگی بلکہ ایک بیدار قوم کی علامت ہوگی، جو ہر سازش، ہر ناانصافی، اور ہر آئینی حملے کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے گی۔ یہ زنجیر ہمارے اتحاد، شعور اور دستور سے وفاداری کی گواہی دے گی۔ یہی وہ پرامن لیکن پراثر طریقہ ہوگا جس کے ذریعے وقف کی حفاظت کے لیے ایک پرزور آواز بلند ہوگی۔ یہ صرف احتجاج نہیں بلکہ ایک اعلان ہوگا کہ ہم اپنے دینی، ملی اور قانونی ورثے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انسانی زنجیر کے ذریعہ ہم وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف ایک بڑی اور منظم مزاحمت کو جنم دیں گے، جو آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے گی کہ جب وقف پر وار کیا گیا، تو قوم خاموش نہ رہی بلکہ تاریخ کے ہر موڑ پر اس نے اپنے تشخص کا دفاع کیا۔
(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر ہیں)
Comments are closed.