مکہ مکرمہ میں تکریمی و تعزیتی نشست کا انعقاد

رپورتاژ : از قلم محمد عطاء الله داؤد
19/ فروری 2024م بروز پیر طلبہ جامعہ ام القری ہند و نیپال کی طرف سے جمعیت عبداللہ بن مسعود رضي الله عنہ کے تحت مطعم ريدان عزيزیہ شمالیہ میں تکریمی و تعزیتی نشست کا انعقاد ہوا.
اس وقت مكہ ميں ہند و نیپال کی دو عظیم شخصیتیں عمرہ پہ تشریف لائے ہوےہیں.
طلبہ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور اپنے بزرگوں کی تکریم وتعظیم میں پیش قدمی کی اور ان کے علمی دینی، سماجی و سیاسی تجربات سے مستفید ہوے.
نیپال سے تشریف لانے والے ایک مؤقر بلند پایہ عالم دین، خالص علمی شخصیت، انشاء وعربى ادب کے رمز شناس، فن حدیث سے حد درجہ شغف و محبت رکھنے والے، بلکہ بارہ سال سے احادیث کی اونچی کتابیں پڑھانے والے، دار العلوم جلپاپور کے عالیہ درجات کے سابق استاذ، جامعہ حفصہ للبنات ببیا انروا کے شیخ الحدیث،مرکز النور للبحث و النشر نیپال كے صدر عالی باوقار، جمعیت علماء نیپال سنسری کے ضلعی صدر، سیاسی وسماجی اثر ورسوخ رکھنے والے، سلیم القلب واللسان، حضرت مولانا محمد عیسی ندوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی مرنجا مرنج و باغ وبہار شخصیت؛ تو دوسری طرف ملت اسلامیہ ہند کے ماتھے کا جھومر، فن حدیث کے متبحر عالم دین، فن حدیث کے غواض ،ذہین ترین شخصیت جنکے حاضر جوابی اور وسعت مطالعہ سے عرب علماء بھی حیراں وششدر تھے. محدث آعظم مولانا حبیب الرحمن آعظمی کے علوم کے حقیقی نسبی و روحانی وارث ان کے پوتے مولانا انور رشید آعظمی مکی – حفظہ اللہ- کی ہے۔
دونوں بزرگوں سے ہم طلباء نے خوب خوب استفادہ کیا، اور دونوں کی جمعیت کی طرف سے تکریم کی گئی، اللہ تعالی ان کی زندگی میں خوب خوب برکت عطاء فرمائے اور ان کی علمی خدمات کو قبول فرمائے۔
واضح رہے کہ پروگرام کا آغاز برادرم حافظ ومولانا نظام الدین بن مولانا محی الدین ندوی قاسمی مکی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، مہمانوں کا مختصر جامع تعارف اور جمعیت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قیام کا پس منظر اور اس پلیٹ فارم سے علماء ہند و نیپال کے استقبال کا ایک طویل سلسلہ کا ذکر راقم الحروف محمد عطا ءالله داؤد ریسرچ اسکالر جامعہ ام القری نے بہت ہی جامع انداز میں کرایا۔
اولا :مولانا عیسی صاحب مدظلہ العالی نے اپنے چالیس سالہ تدریسی تجربات کی روشنی میں بہت دردمندانہ مشفقانہ لہجہ میں طلباء کے سامنے قیمتی نصیحتیں فرمائی ، آپ کا ایک ایک جملہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔
آپ نے فرمایا "اللہ تعالی کو نرم زبان اور نرم دل بڑا پسند ہے” اپنے قول وعمل میں نرمی پیدا کرتے جائیے لوگ آپ سے جڑتے چلے جائینگے، "من تواضع للّه رفعه الله ” کا حقیقی مصداق بن جائیے. مولانا نے ندوہ میں اپنے استاذ شیخ الحدیث مولانا ضیا الحسن ندوی قاسمی عليه الرحمه کے واقعات بھی سنائے، جلپاپور میں 19 سالہ تدریسی خدمات کا سرسری طور پر ذکر بھی فرمایا، ترجمان ملت سہ ماہی پرچہ کیلئے تگ ودو کا بھی تذکرہ کیا، مجلہ ترجمان ملت میں شائع شدہ اپنے قیمتی مضامین پہاڑوں کا دیش نیپال كو ياد كر كے محفل ميں تازگی بخشی، اور ہم طلبہ کو اس تہنیتی تکریمی پروگرام پر مبارکباد بھی پیش کیا. ساتھ ساتھ مرکز النور للبحث و النشر نیپال کے سیمنار میں مقالہ لکھنے کی ترغیب اور شرکت کی دعوت بھی دی، والد گرامی قدر مولانا محمد داؤد صاحب اتحادي کے سانحہ ارتحال پر افسوس کا اظہار اور ان کے خدمات كو یکجا کرنے کی ترغیب بھی دلائی۔
بعدہ مولانا انور رشید اعظمی ناظم مدرسہ مرقاة العلوم مئو ناتھ بھنجن یوپی نے اپنے زمانہ طالب علمی کے واقعات سے ہم سب کو حیران کردیا اس سے قبل ہمیں انکے متعلق مکمل جانكاري نہیں تھی، 1400 ھجری میں آ ج سے 45 سال قبل یہاں آپ کا داخلہ ہوا تھا اس وقت جامعہ ام القری جامعہ کی شکل میں نہیں تھی بلکہ ایک کلیہ الشریعہ کی شکل میں جامعہ الملک عبد العزيز جدہ کے تابع ھوا کرتی تھی، اس ذکر سے ہم سب کی دلچسپی ان کے کلام طرف مزید بڑھتی چلی گئی، اور انہوں نے حرم پہ قبضہ کا ذکر چھیڑا اور ہم اس وقت کے ابتدائی حالات میں کھوگئے. مولانا نے جامع انداز میں ہم طلباء کے اس پلیٹ فارم کی تائید کی اور قلبی مسرت کا اظہار فرمایا۔
اسکے بعد پروگرام کا دوسرا رخ تعزیتی پیغام کا تھا، ہماری جمعیت کے اس مشن میں جہاں ایک طرف حرمیں آنے والے علماء کرام کا تعارفی وتکریمی نشست کا انعقاد ہے تو وہیں دوسری طرف ہمارے درمیان سے رخصت ہونے والے علماء كرام کا ذکر خیر بھی ہوتا ہے ،اس سلسلے کی بھی ایک لمبی کڑی ہے، حالیہ دنوں میں قریب میں وفات پانے والے مشہور علماء میں قاری احمد اللہ بھاگلپوری شیخ القراء مدرسہ تعلیم الدین ڈھابیل گجرات متوفی (10/فروری2024م) کے سانحہ ارتحال کو یاد کیا گیا، اسی طرح اس سے قبل نیپال کے مشہور و معروف علمی شخصیت
دار العلوم دیوبند کے خوشہ چیں ،مفتی سعید احمد پالنپوری علیہ الرحمہ کے رفیق درس حضرت مولانا مفتی محمود الحسن صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ
(متوفی :22 دسمبر 2023م) کے پچاس سالہ تدریسی تعلیمی تربیتی سماجی دعوتی خدمات کو سراہا گیا۔
اسی طرح والد گرامی قدر مولانا محمد داؤد صاحب اتحادی کے 44 سالہ تدریسی تعلیمی تربیتی اورسماجی خدمات کو مفتی کلیم اختر قاسمی و مولانا نظام الدین صاحب صاحب ندوی قاسمی نے اچھے انداز میں بيان كيا ۔
مفتی کلیم صاحب نے”کلّ نفسٍ ذائقة الموت "سے بات شروع کی اور موت کے فرق مراتب کو گنا یا اور روز مرہ کے اموات اور علماء کرام کی اموات کو ” موت العالم موت العالم "سے تعبیر فرمایا ، تمام مرحومین کیلئے دعائے مغفرت کی اور اس شعر پر اپنی بات مکمل کی
زندگی ایسی جیو کہ دوسروں کو رشک ہو
موت ہو ایسی کہ دنیا دیر تک ماتم کرے
جبکہ مولانا نظام الدین صاحب نے اپنے والد گرامی مولانا الحاج محی الدین صاحب اورمولانا داؤد صاحب کے ابتدائی دور سے قبل از موت تک کے رفاقت پر تفصیلی روشنی ڈالی، اور ان کے چوالیس سالہ خدمات اور ان کے جنازہ میں شاگردوں کی کثرت کو شجر سایہ دار سے تعبیر فرمایا، اور مولانا مرحوم کے فن ریاضی وفن خوش خطی اور انکی جہد مسلسل ،كدو کاوش اور تربیت اولاد میں کی جانے والے کوششوں کا ذکر فرمایا، اور ان کے چاروں لڑکے کے عالم ہونے پر” أو ولد صالح یدعو لہ "سے تعبير فرمایا.
اللہ تعالی تمام مرحومین کی بال بال مغفرت فرمائے.
اسکے بعد دونوں مہمانوں کی ایک ایک شیلڈ اور قیمتی عربی عود سے تکریم کی گئی،بعده پر لطف عشائیہ پر مجلس اختتام كو پنہچی۔
واضح رہے کہ پروگرام میں مذکورہ احباب کے علاوہ مفتی شمیم صاحب قاسمی مکی،مولانا مشتاق صاحب ندوی مکی ،مولانا فیروز احمد صاحب قاسمی مکی، مولانا ساجد صاحب ندوی مکی، مولانا اظہر صاحب قاسمی مکی، مولانا نعمان صاحب اشاعتی، مولانا امروز انس صاحب مفتاحی، اور دیگر چند مہمان موجود تھے. جبکہ پروگرام کی ترتیب وتنسيق اور کلیدی کردار ادا کرنے میں محمد عطاء اللہ داؤد طالب جامعہ ہذا تھے۔
Comments are closed.