Baseerat Online News Portal

فلسطین کے مسلمان اور قادیانی گروہ

 

مولانا محمد انصار اللہ قاسمی
(آرگنائزر مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھرا )

اس وقت غزّہ کی سرزمین پر کفر وایمان کا معرکہ برپاہے، اس معرکہ میںبیت المقدس کی آزادی کے لیےسرگرم اسلام پسند تحریک ’’حماس‘‘ کے زیر قیادت فلسطین کے جانباز نوجوان ،بلند حوصلہ بزرگ حضرات، عفت ماٰب خواتین، حتی کے معصوم ننھے منے بچے شہادتوں کی ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں،ان کے با المقابل اسرائیلی حکومت نہتے فلسطینیوں پر ظالمانہ اور وحشیانہ کاروائیوں کے ذریعہ ظلم و بربریت اور درندگی و سفاکیت کے اپنے تمام سابقہ ریکارڈ کو توڑ رہی ہے، صرف مسلمان ہی نہیں تمام انصاف پسند اور انسانیت نواز افراد کھل کر واضح انداز میں اسرائیل کی غاصب و ظالم حکومت کی مذمت کررہے ہیں،اس صورتحال میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے مفادات اور مقاصد کے تحت اسرائیل کی کھل کر مذمت کر نے کے بجائےصرف مظلوموں کے لئے ’’دعاء‘‘ کی بات کر رہے، ان میں اتنی ا خلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ حماس کےنہتے مجاہدین کے مقابلہ میں اسرائیلی کو ظالم بتا سکیں ۔
اس کی واضح اور نمایاںمثال خود کو’’احمدیہ کمیونٹی‘‘ کہنے والے قادیانی فرقہ کی ہے،حماس کے خلاف اسرائیل نے جب غزّہ پر اپنے ظالمانہ اور وحشیانہ حملوں کا آغاز کیا تواُس وقت اس بدنام زمانہ اسلام کے باغی گروہ کا بیان اُس کے آفیشل ویب سائیٹ پر آیا ،’’اسرائیل اور فلسطین کے درمیان حالیہ کشیدگی پر جماعت احمدیہ مسلمہ کا موقف‘‘ عنوان کے تحت اس بیان میں کہا گیا:
’’گذشتہ چند دنوں میں سینکڑوں اسرائیلی اور فلسطینی، جن میں خواتین ،بچے اور بوڑھے شامل ہیں، بے جا تشدد اور خونزیزی کے نتیجے میں ہلاک یا زخمی ہوچکے ہیں، معصوم شہریوں کا قتل یا انھیں نقصان پہونچانا پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے آں حضرت ﷺ کی تعلیم تھی کہ حالت جنگ میں کسی عورت، بچے یا بزرگ کو نقصان نہ پہونچایا جائےاور نہ ہی کسی مذہبی راہنما یا عبادت گاہ پر حملہ کیا جائے………
آگے خطے کے مسلم ممالک کو قیام امن کے لئے متحدہ کوشش کا مشورہ دینے کے بعد لکھا ہے:
’’………اور اس بات کو یقینی بنانا چاہے کہ ان بے گناہ فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے جن کا انتہا پسندوں سے کوئی تعلق نہیں……‘‘
(حوالہ: ویب سائٹ احمدیہ مسلم کمیونٹی ،پریس اینڈ میڈیا آفس مورخہ ۱۰/اکتوبر ۲۰۲۳ء)
اس بیان میں دو تین باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں:
۱) پہلی بات تویہ کہ’’ سیکڑوں اسرائیلی اورفلسطینی ……..‘‘کہہ کر یہ تاثر دینےکی کوشش کی گئی کہ حماس اور اسرائیل ایک دوسرے کے خلاف جنگی کاروائیوں کانشانہ بننے والی شہریوں کی تعداد برابر ہے،اس تعداد میںدونوں طرف کی خواتین بچے اوربوڑھے شامل ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی جنگی کاروائیوں سے سینکڑوں نہتےاور بے گناہ فلسطینی متاثر ہوئے ہیں اور غزّہ کی پوری آبادی کو تباہ وتاراج کردگیا، اس وقت غزّہ ایک خوفناک اور وحشت ناک ویرانہ بنا ہوا ہے، 30 ہزار فلسطینی مسلمان بھائی شہادت سے سرفراز ہوئے، 70 ہزار زخمی ہیںاور 20 لاکھ سے زائد فلسطینی گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ، بھوک اور فاقہ کشی کے شکار امداد کی لائین میں کھڑے ہزاروں فلسطینی بھائیوںکو ظالم اور وحشی اسرائیل نے جنگی حملوں کا نشانہ بنایا اور اس کے بالمقابل حماس کی جنگی کاروائیوںکا نشانہ بننے والے اسرائیلوں کی تعداد’’ سینکڑوں ‘‘میں چند ہزاروں میں ہے، پھر اس میں عام شہری نہیں بل کہ فوجی ہے، دونوں فریق کی جنگی کاروائیوں سے متاثرین کی تعداد برابر بتلانے کا مقصد یہ ہے کہ حریت پسند تحریک حماس کو بھی جنگی جرائم میں برابر کا شریک اور ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور پھر اس کی آڑ میں اسرائیل کے ظلم وبربریت کو ’’حق دفاع‘‘ کہہ کر جائز قرار دیا جاسکے۔
۲) دوسرے یہ کہ بیان میں جنگ سے متعلق پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کا حوالہ دیا گیا، یہ حوالہ اسرائیل کے لئے تو نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ جب آں حضرت ﷺ کو نبی اور پیغمبر مانتے ہی نہیں تو آپ ﷺ کی تعلیمات کی پیروی کا کیا سوال!! اس لئے یہاں نبی ﷺ کی تعلیمات کا حوالہ دینے کا مقصد حماس کی جوابی کاروائیوں کو غلط ٹہرانا ہے اور پوری بدیانتی وبدنیتی کے ساتھ یہ ثابت کرنا ہے کہ حماس اپنی کارائیوں میں عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں،مذہبی رہنمائوں اور مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بنارہاہے ،جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
حالاں کہ حماس کے مجاہدین کو اس نصیحت کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، انھوں نے اپنی جان دائو پر لگا کر اپنے پاس قید اسرائیلی شہریوں کی حفاظت کی،پھر دورانِ قیدجنگی قیدیوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کا اعلی نمونہ پیش کیا، قید سے رہا ہونے کے بعد اسرائیلی شہریوں نے اس کا بھر پور اعتراف کیا، یہاں تک کہ رہا ہونے والی بعض اسرائیلی خواتین حماس کے مجاہدین کو نکاح کی پیش کش کردی،چنانچہ حماس کے خلاف دجالی میڈیا کے منفی پروپیگنڈہ کے باوجود اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ اُن کا حسن سلوک کی خبریں میڈیا میں آگئیں، کیوں کہ اچھی اور سچی باتیںخوشبو کی طرح ہوتی ہیں وہ اپنا وجود منوائے بغیر نہیں رہتی،بہر حال حماس کے مجاہدین کے بارے میں ایک یرغمالی اسرائیلی خاتون کا حقیقت وسچائی پر مبنی تبصرہ اخبارات میں سرخیوں میں شائع ہوا، یہ تبصرہ اسرائیلی یرغمالی خاتون دانیال اور ان کی ننھی بیٹی ایملیا کے خط کی شکل میں سامنے آیا،اس خط میں خاتون لکھتی ہیں:
’’میری بیٹی خود کو غزّہ میں ملکہ سمجھتی تھی اور سب کی توجہ کا مرکز تھی، اس دوران مختلف عہدوں پر موجود لوگوں سے واسطہ رہا اور ان سب نے ہم سے محبت ،شفقت اور نرمی کا برتائو کیا، میں ہمیشہ ان کی مشکور رہوں گی، کیوں کہ ہم یہاں سے کوئی دکھ لے نہیں جارہے ہیں، اسرائیلی خاتون کے خط کے متن کےمطابق میں سب کو آپ کے اس حسن سلوک کے بارے میں بتائوں گی جو غزہ میں مشکل حالات اور نقصان کے باوجود ہم سے کیا……….‘‘(روزنامہ اعتمادحیدرآباد، مورخہ ۲۹/نومبر ۲۰۲۳ء)
اسی طرح ایک اور خبر میں بتایا گیا:
’’ایک اسرائیلی صحافی نے ان افراد کے رد عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ حماس کی جانب سے یرغمالیوں پر کوئی تشدد یا بُرا سلوک نہیں کیا گیا، مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی چینل 13 کے فوج سے متعلق امور کو ر کرنے والے صحافی بین ڈیوڈ نے بتایا کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی یر غمالیوں کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا، انھوں نے کہا کہ میں نے رہا ہونے والے افراد سے بات کی اور سب نے ایک ہی کہانی دہرائی ،ان لوگوں کا کہنا تھا کہ حماس کے لوگوں نے ہمارا خیال رکھا، کھانا فراہم کیا اور ادویات مہیا کرنے کی کوشش کی……..‘‘(روزنامہ اعتمادحیدرآباد، مورخہ ۲۹/نومبر ۲۰۲۳ء)
قادیانیوں سے زیادہ تو وہ انصاف پسند اور حق گو یہودی لاکھ درجہ اچھے ہیں جنہوں نے حماس کو مورِد الزام ٹہرانے کے بجائے اپنے ہی ہم مذہب حکومت کی مخالفت کی اور کہا: ’’اسرائیل یہودیوں کے لئے سب سے زیادہ غیر محفوظ جگہ ہے اور جرائم پیشہ لوگ حضرت موسی ؑ کے پیروکار نہیں………‘‘(دیکھیے روزنامہ منصف حیدرآباد،مورخہ ۴/جنوری۲۰۲۴ء)
۳) قادیانی گروہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے اس حصہ سے قادیانیت کی حقیقت پوری طرح بے نقاب ہوگئی، اس میں کہا گیا:
’’………اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان بے گناہ فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے جن کا انتہا پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے………‘‘
یہاں ’’انتہاپسندوں ‘‘ سے کون مراد ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لئے کسی ’’دماغی ورزش‘‘ کی ضرورت نہیں ہے ،کیوں کہ ہر باخبر اس سے بخوبی واقف ہے کہ مکمل اسلامی نظام کی بات کرنے والے، دین،وطن اور عزت اور وقار کے لئے آزادی کی جنگ لڑنے والے ، شانِ رسالت میں گستاخی اور شعائر اسلام کی توہین پراحتجاج کرنے والے غیور مسلمانوں کے لئے مغربی میڈیا میں ’’انتہا پسند‘‘ کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے، اس تعبیر کے مطابق قادیانی گروہ حماس کے جانباز اور حریت پسند مجاہدین کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے ہے۔
حالاں کہ بادی النظر میں ’’انتہا پسندی‘‘ ہویا ’’شدت پسندی‘‘ وغیرہ الفاظ جاہلانہ اور احمقانہ تعبیرات کے علاوہ اور کچھ نہیں، اپنی سوچ وفکر پر مضبوطی سے جمے اور ڈٹے رہنے کا نام ’’شدت پسندی‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ ہے تو یہ تعبیر صرف مذہب پسند اور دین و شریعت کے پابند مسلمانوں کے لئے کیوں؟؟ انسانی حقوق، مذہب کی آزادی ، آزادی نسواں وغیرہ پُر فریب نعروں کے حوالے سے مذہب بےزار افراد، آزاد خیال اور آوارئہ مزاج معاشرہ کی سوچ وفکر میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے، یہ بھی اپنی کٹر پنتھی دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے، تو پھرانھیں ’’شدت پسند‘‘ اور ’’انتہا پسند‘‘ کیوں نہیں کہا جاتا؟؟ وہ تو اپنے زعم میں بہت ہی’’ نرم خوانتہائی روادار اور متحمل مزاج‘‘ ہوتے ہیں، اسرائیل کی فوجی کاروائی اور علانیہ ودرپردہ اس کی ہم نواءطاقتوں کے گھسے پٹے اقدامات اس نرم خوئی، رواداری اور بردباری کی عملی مثالیں ہیں۔
غرض یہ کہ قادیانی فرقہ چوں کہ اسلام دشمن عناصر کا پیداکردہ اور ان ہی کا پروردہ گروہ ہے، اس لئے اُس کی یہ اوقات نہیں کہ وہ اپنے کسی موقف کے اظہار کے لئے آزادانہ تعبیر اختیار کرے۔
خود کو ’’احمدیہ مسلم جماعت‘‘ کہنے والے خارج اسلام قادیانی فرقہ کو عام طورپر ایک مذہبی فرقہ خیال کیا جاتا ہے ، اس خیال کی وجہ قادیانی فرقہ کی طرف سے چند خاص موضوعات پر مذہبی بحثوں کو بڑھانا اور پھیلانا ہے اور مذہب کے عنوان سے اپنی سرگرمیاں چلانا ہے ،لیکن جو لوگ اس فرقہ کے تاریخی پس منظر سے بخوبی واقف ہیں اور اس کے زمانہ ظہور کے سیاسی وملکی حالات کا گہرا اور وسیع مطالعہ رکھتے ہیں ، ان کے نزدیک قادیانی فرقہ کی حقیقت ایک ’’سامراجی ٹولہ‘‘اور ’’استعماری گماشتہ‘‘کی ہے ، یہ فرقہ اپنی تاریخ میں ہمیشہ ظالم وجابر اور غاصب حکومتوں کا وفادار اور آلۂ کار رہا، مختلف مواقع پر دنیا کے ایک سے زائد ملکوں میں بیرونی طاقتوں کے لئے جاسوسی خدمات انجام دینا اور ان ملکوں میں داخلی سطح پر سیاسی عدم استحکام کے حالات پیداکرنا ،اس فرقہ کا خاص مقصد ومشن ہے۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت اور سچّائی ہے کہ سامراجی طاقتوں کی طرف سے ظالمانہ اور غاصبانہ انداز میں فلسطین کی سرزمین کو تقسیم کرنے کے بعد ایک ناجائز ریاست کی حیثیت سے یہودی مملکت ’’اسرائیل‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا، اس ناجائزریاست کے استحکام اور اِس کے مقاصد ومفادات کی تکمیل کے لئے مختلف پہلوؤوں سے منصوبہ بندی کی گئی، اپنے آپ کو ’’احمدیہ کمیونٹی‘‘ کہنے والا قادیانی گروہ چوں کہ خود برطانوی سامراج کا ’’خود کا شتہ پودا‘‘ ہے، اِ س لئے سامراجی طاقتوں نے اسرائیل کو مضبوط اور محفوظ بنا نے متعلق منصوبہ بندی میں قادیانی گروہ کو شامل کیا ، چنانچہ ایک خالص یہودی مملکت میں قادیانی گروہ کو اپنی سرگرمیاں چلانے کی پوری اجازت ہے، حیفہ میں باضابطہ اس کا مرکز قائم ہے، اسرائیلی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران دافسران سے قادیانیوں کے خصوصی مراسم اور تعلقات ہیں ، چنانچہ جولائی 2017 ءکو وزیر اعظم ہندنریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا، اس موقع پر حکومت کی طرف سے سرکاری سطح پر جن مذہبی نمائندوں سے وزیراعظم کی ملاقات کا انتظام کیا گیا تھا ، ان میں قادیانی فرقہ کا نمائندہ بھی شامل تھا، اس نمائندہ کی شمولیت دراصل قادیانی فرقہ پر اسرائیلی حکومت کی خاص عنایت وشفقت کا اظہار ہے ، اسلام مخالفت خدمات کے صلہ میں قادیانی فرقہ پر یہودی حکومت کی یہ عنایتیں اور شفقتیں اسرائیل کے ناجائز وجود کے بالکل ابتدائی دور ہی سے ہیں، قادیانی فرقہ کے ساتھ اسرائیل کے برادرانہ تعلقات کاتاریخی اورمذہبی پس منظر بھی ہے، اس کو جاننے اور سمجھنے کے سلسلہ میں چند حقائق ملاحظہ ہوں:
۱) اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم اور جلیل القدر پیغمبرحضرت ابراہیم علیہ السلام انبیاء کرام کے ’’جدامجد‘‘ آپؑکی طرف نسبت کرتے ہوئے مسلمان اپنے آپ کو ’’ملت ابراہیمی ‘‘ کہتے ہیں ،آپؑ کے دوفرزند تھے ، ایک حضرت اسحاق ؑ ،دوسرے حضرت اسماعیل ؑ ،حضرت اسحاق ؑ کے فرزند حضرت یعقوب ؑ ہیں ، آپؑ کالقب’’اسرائیل ‘‘ ہے ، انبیاء بنی اسرائیل کا تعلق حضرت اسحاق ؑ کی اولاد سے ہے، یہودی اپناسلسلۂ نسب ’’بنی اسرائیل‘‘ سے جوڑتے ہیں ،مرزاغلام قادیانی نے مختلف جگہوں پر اپنا خاندانی تعارف کرواتے ہوئے اپنا سلسلہ نسب بیان کیا ہے ، ایک جگہ اس شخص نے اپنے بارے میں ’’اسرائیلی ‘‘ہونے کا دعوی کیا جس سے یہودی قوم کے ساتھ اس کے نسبی تعلق ورشتہ کا ثبوت ملتا ہے ،چناںچہ یہ شخص لکھتا ہے:
’’میں خدا سے وحی پاکر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں اور بموجب اس حدیث کے جو کنز العمال میں درج ہے ، بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں ….‘‘(ایک غلطی کاازالہ /روحانی خزائن ،۱۸)
ایک دوسری جگہ لکھا ہے :
’’…جو خدانے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی …..‘‘ (حوالہ سابق ص:۲۱۶)
۲)یہودیوں کے ساتھ قادیانی فرقہ کے بانی اور پیشوا کے اس نسلی ونسبی تعلق کے علاوہ اور بھی مشترکہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے یہودیت اور قادیانیت کے درمیان یک رنگی ،یکجہتی اور ہم آہنگی اچھی طرح واضح ہوتی ہے ،مثلاً:
الف:قرآن مجید میں یہودیوں کے مختلف جرائم بیان کیے گئے ، ان میں ایک سنگین جرم یہ بھی ہے کہ وہ وقت کے نبیوں کو ناحق قتل کردیاکرتے تھے، یقتلون الأنبیاء بغیر حق اپنی اس مجرمانہ روش کے مطابق یہودیوں نے حضرت عیسیٰؑؑ کو قتل کرناچاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو یہودیوں کی سازش ومنصوبہ بندی سے بچاکر زندہ آسمان پر اٹھالیا ،حضرت عیسیٰؑ کو قتل کرنے کے سلسلہ میں قرآن مجید میںیہودیوں کے دعویٰ کو یوں بیان کیا گیا:وقولھم انا قتلنا المسیح ابن مریم اور ان کا کہنا ہے کہ ہم ہی نے مسیح ابن مریم کو قتل کیا ہے،حضرت عیسیٰؑ کو مارنے سے متعلق اس یہودی دعوی کی جھلک مرزا غلام قادیانی کے دعوی میں بھی صاف طور پر نظر آتی ہے ،چناںچہ یہ شخص فخریہ طورپر اپنے دعوی کا اظہار کرتاہے :
’’اصل میں ہمارا وجود دوباتوں کے لئے ہے ، ایک تو ایک نبی (یعنی عیسیٰؑ )کو مارنے کے لئے ،دوسرا شیطان کو مارنے کے لئے ‘‘(ملفوظات ج:۵ص:۳۹۸حاشیہ ،مطبوعہ ہندوستان 2003ء)
ب:قرآن مجید کے بیان کے مطابق یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ ان لوگوں نے حضرت عیسیٰؑ کو سولی دے کر قتل کیا، قرآن مجید پھر اس کی تردید بھی کرتا ہے :وما قتلوہ وماصلبوہ قرآن مجید کی اس آیت میں حضرت عیسیٰؑ کو صلیب پر چڑھائے جانے کی صاف نفی کی گئی کہ ’’ان لوگوں نے انھیں سولی ہی نہیں دی ‘‘ قادیانی فرقہ قرآن مجید کی اس تردید کو تسلیم کرنے کے بجائے یہودیوں کے دعوی کی تائید کرتا ہے اور مانتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کوپھانسی دی گئی ، البتہ یہودیوں اور قادیانیوں کے ماننے میں صرف اتنافرق ہے کہ یہودی سولی کی سزا دئے جانے کے بعد حضرت عیسیٰؑ کی موت واقع ہوجانے کو مانتے ہیں ،جب کہ قادیانی (قرآن مجید کی نفی کے خلاف)کہتے ہیں کہ آپؑ کو صلیب پر تو چڑھایا گیا لیکن اس پر آپؑ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ آپؑ کی حالت’’مردہ کی سی‘‘ ہوگئی تھی ،چناںچہ اس سلسلہ میں مرزاغلام قادیانی کی وضاحت ملاحظہ ہوں:
’’درحقیقت جس شخص کوصلیب پر کھینچا گیا اور اُس کے پیروں اور ہاتھوں میں کیل ٹھوکے گئے یہاں تک کہ وہ اُس تکلیف سے غشی میں ہوکر مردہ کی سی حالت میں ہوگیا ،اگر وہ ایسے صدمہ سے نجات پاکر پھر ہوش کی حالت میںآجائے تو اُس کا یہ کہنامبالغہ نہیں ہوگامیں پھر زندہ ہوگیااور بلاشبہ اس صدمہ عظیمہ کے بعدمسیح کا بچ جانا ایک معجزہ تھا، معمولی بات نہیں تھی لیکن یہ درست نہیں ،ایسا خیال کیا جائے کہ مسیح کی جان نکل گئی تھی ……‘‘
(حوالہ :مسیح ہندوستان میں /روحانی خزائن ص:۲۰،ج:۱۵)
ج:قرآن مجید میں حضرت عیسیٰعلیہ السلام کی ذات گرامی کو یہودیوں کی سازش سے محفوظ رکھنے کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا:’’ میں تجھ کو کافروں کی تہمت سے پاک کروں گا‘‘ومطہرک من الذین کفرو یعنی یہودیوں کی طرف سے آپؑ کے نسب کے بارے میں لگائی تہمت سے آپ کی برأت ظاہرکروںگا۔
حضرت عیسیٰعلیہ السلام کے نسب سے متعلق یہودیوں کی اس بدترین تہمت کی موافقت مرزاغلام قادیانی بھی بہت ہی شرمناک طریقہ پر اس طرح کی ہے :
’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں ،جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا……‘‘(حوالہ:انجام آتھم /روحانی خزائن ،ج:۱۱،ص:۲۹۱)
اندازہ کیجئے کہ کس طرح مرزا غلام قادیانی ملعون نے حضرت عیسیٰعلیہ السلام کے سلسلہ ٔ نسب کو مطعون اور مجروح کرنے کے لئے بدزبانی اورفحش گوئی کی انتہاء کردی،’’نانیاں‘‘کہہ کر والدہ حضرت مریم ؑ کی طرف سے خاندانی سلسلہ کو متّہم کیا،اسلامی عقیدہ کے لحا ظ سے حضرت عیسیٰعلیہ السلام توبغیر والد کے پیدا ہوئے ،لیکن مرزا غلام قادیانی نے ’’تین دادیاں‘‘کہہ کر آپؑ کی معجزانہ ولادت کا انکار کیا ہے جب آپؑ کے والد ہی نہیں ہے تو پھر ’’دادیاں‘‘کہنے کا کیا مطلب ؟؟۔
د:قرآن مجید میں آپؑ کے معجزات صاف اور واضح انداز میںبیان کئے گئے (دیکھئے :آل عمران :۴۹)یہودی حضرت عیسیٰؑ کے ان معجزات کاانکار کرتے ہیں اور اُس کو شعبدہ بازی قراردیتے ہیں چناںچہ جیوش انسائیکلو پیڈیا میں ہے:
’’یسوع نے بہ حیثیت معلم دین یا قانون ساز کے نہیں بلکہ بہ حیثیت شعبدہ بازکے اپنی زندگی میں شہرت وناموری گلیل کے سادہ مزاج باشندوں میں حاصل کی‘‘
(ج:۷،ص:۱۶۷ بہ حوالہ تفسیر ماجدی ،ج:۱،ص:۵۷۸۴)
یہودیوں کی تقلید اور تائید میں یہی بات مرزا غلام قادیانی نے یوں کہی ہے:
’’یہ حضرت مسیح کا معجزہ (پرندے بناکر ان میں پھونک مارکراڑانا)حضرت سلیمان ؑ کے معجزہ کی طرح صرف عقلی تھا، تاریخ سے ثابت ہے کہ اُن دنوں میں ایسے امور کی طرف لوگوں کے خیالات جھکے ہوئے تھے کہ جو شعبدہ بازی کی قسم میں سے اوردراصل بے سود اور عوام کو فریفتہ کرنے والے تھے ……‘‘ (ازالہ اوہام /روحانی خزائن ج۳،ص:۲۵۴ حاشیہ )
ایک جگہ مرزا غلام قادیانی نے قرآن مجید میںمذکور حضرت عیسیٰعلیہ السلام کے بیان کردہ معجزات کا کھل کر یوں انکار کیاہے:
’’غرض یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بناکر اور ان میں پھونک کر انھیں سچ مچ کے جانور بنادیتاتھا ، نہیں ،بلکہ صرف عمل الترب تھا جوروح کی قوت سے ترقی پذیر ہوگیا تھا……‘‘(حوالہ :سابق ص:۶۲۳حاشیہ)
بیت المقدس کے بارے میں قادیانیوں کا نظریہ :
بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، کعبۃ اللہ کو قبلہ قراردیئے جانےسے پہلے مسلمان اسی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاکرتے تھے ، اس کے علاوہ خاتم النبین حضرت محمدﷺ نے سفرمعراج کے موقع پر اسی مسجد میں تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی اور پھر یہاں سے سات آسمانوں کا سفر فرمایا، ان خصوصیات کی وجہ سے بیت المقدس مسلمانوں کے نزدیک مکہ مکرمہ اور مدینہ منور کے بعد تیسرا مقدس مقام ہے ــــــ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی بھی اس مقام کو مقدس ومحترم مانتے ہیں لیکن مسلمان چوں کہ رسول ﷺ کی نبوت کے ساتھ گذشتہ تمام انبیاء کرام کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں ، اس لئے وہ بیت المقدس کی تولیت کا زیادہ حق رکھتے ہیں اور مسلمان بجاطورپر اس تولیت کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں، ۱۶ ؁ ھ میں خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ کے مبارک ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا اور پہلی مرتبہ بیت المقدس کی تولیت مسلمانوں کو حاصل ہوئی ، اس کے بعد 1099ء مطابق ۴۹۲؁ھ میں یہودی دوبارہ اس پر قابض ہوگئے یہاں تک کہ 1187ء مطابق ۵۸۳؁ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے اس کو فتح کیا، اس کے بعد ۷۸۰/سال مسلمان بیت المقدس کے متولی رہے ،یہاں تک کہ 1967ء میں تیسری مرتبہ بیت المقدس پر یہودیوں کاقبضہ ہوگیا اور تاحال یہ قبضہ برقرار ہے،گذشتہ نصف صدی سے قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کے لئے فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد جاری ہے، اس جدوجہد میں اُن کی کئی نسلیں قربان ہوچکی ہیں، اس جدوجہد کی وجہ سے آج بھی فلسطینی بھائیوں اسرائیلی حکومت کی طرف سے بدترین ظلم وتشدد کا سامنا ہے ، دنیا بھر کے مسلمان قبلہ اول کی آزادی کی تمنا اور تڑپ اپنے دل میں رکھتے ہیںاور فلسطینی بھائیوں کی جدوجہد کی کامیابی کے لئے دعا گورہتے ہیں۔
اس سب کے برخلاف اور برعکس بیت المقدس کے حقِّ تولیت کے سلسلہ میںقادیانی فرقہ کا نقطہ نظر اور اُس کی سوچ کیا ہے؟ یہ فرقہ کھلے اور واضح طورپر بیت المقدس پر مسلمانوں کی تولیت کو تسلیم نہیں کرتا، اس فرقہ کے اخبار روزنامہ ’’الفضل قادیان‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’اگر یہودی اس لئے بیت المقدس کی تولیت کے مستحق نہیں کہ وہ جناب مسیح علیہ السلام اور حضرت نبی کریم ﷺ کی رسالت ونبوت کے منکر ہیں اور عیسائی اس لئے غیرمستحق ہیں کہ انھوں نےخاتم النبین ﷺ کی رسالت ونبوت کا انکار کردیا ہے تو یقیناً یقیناًغیراحمدی(مسلمان)بھی مستحق تولیت بیت المقدس نہیں،کیوں کہ یہ بھی اس زمانہ میں مبعوث ہونے والے خدا کے اولوالعزم نبی (مرزا غلام قادیانی از ناقل)کے منکر اور مخالف ہیںاور اگر کہاجائے کہ حضرت مرزا صاحب کی نبوت ثابت نہیں توسوال ہوگا کہ کن کے نزدیک؟اگر جواب یہ ہوکہ نہ ماننے والوں کے نزدیک تواسی طرح یہود کے نزدیک مسیح اور آںحضرت ﷺ اور مسیحیوں کے نزدیک آںحضرتﷺ کی نبوت ورسالت بھی ثابت نہیںاگر منکرین کے فیصلہ سے ایک نبی غیر نبی ٹہرجاتا ہےتوکڑوڑوں عیسائیوں اور یہودیوں کااجتماع ہے کہ نعوذ باللہ آںحضرت ﷺ نبی اور رسول نہ تھے، پس اگر ہمارے غیراحمدی بھائیوں کا یہ اصول درست ہے کہ بیت المقدس کی تولیت کے مستحق تمام نبیوں کے ماننے والے ہی ہوسکتے ہیں تو ہم اعلان کرتے ہیں کہ احمدیوں(قادیانیوں ) کے سوا خدا کے تمام نبیوں کا مومن اور کوئی نہیں‘‘(حوالہ:الفضل قادیان ۷/نومبر/۱۹۲۱ء بہ حوالہ قادیان سے اسرائیل تک ص:۱۰۰)
اسرائیل میں قادیانی فرقہ کی سرگرمیوں کی تاریخ:
اسرائیلی حکومت کے ساتھ فرقہ کے تعلقات بہت پرانے ہیں اور اسرائیل کے ناجائز وجود کے بعد سے ہی اس فرقہ کی ارتدادی سرگرمیاں جاری ہیں، ۱۹۴۸ءمیںغاصبانہ اور ظالمانہ طریقہ پر اسرائیل کا قیام عمل میں آیا، اس وقت پورے فلسطین پر ایک قیامت پر با تھی، ہر طرف ظلم وتشدد کا ننگا ناچ کھیلا جارہا تھا ، اس کی وجہ سے ہزاروں فلسطین بے گھر ہوگئے ، اُن کی بستیاں اجاڑدی گئیں،بہت سی جانیں آگ اور خون کی ہولی کی نذر ہوگئیں،جو بچ بچاکرکسی طرح بھاگ نکلے وہ کھلے آسمان تلے کیمپوںمیں زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے، ہرطرف خوف ودہشت کاماحول تھا ،عین ان حالات میں قادیانی پورے سکون واطمینان کے ساتھ جھوٹی نبوت کی تبلیغ کررہے تھے ،کتاب’’قادیان سے اسرائیل تک‘‘ کے فاضل مؤلف ’’ابومدثرہ‘‘لکھتے ہیں:
ان پُرآشوب حالات میںجب مسلح صیہونی غنڈے نہتے عربوں پرظلم ڈھارہے تھے ،فلسطین کے طول وعرض میں بوڑھوں ،بچوں اور عورتوں کا قتل عام کیا جارہا تھا ،یروشلم کی گلیاں اوربازار بے گوروکفن لاشوں سے اٹے پڑے تھے،ہزاروں بے یارومددگار فلسطینی پناہ گزیں کھلے کیمپوں میں پڑے بھوک کی اذیتیں برداشت کررہے تھے ،مسیح موعود کے قادیانی غنڈے ان مظلوموں کے کیمپوں میں گھس گھس کر انھیں مرزا (قادیانی )کی نبوت کا ذبہ پر ایمان لانے کی دعوت دینے میں مصروف تھے اور صیہونی اٹنلی جنس کے لئے کام کررہے تھے ‘‘(ص:۲۶)
قادیانی فرقہ کی ان ارتدادی سرگرمیوں کی روداد ایک قادیانی مبلغ رشید احمد چغتائی نے اپنے قادیانی مرکز کو ارسال کردہ رپورٹ بابت ماہ اگست تااکتوبر ۱۹۴۸ء میں لکھا ہے ،اس شخص نے رپورٹ میںبتایا:
’’فلسطین کے شہر صور اپنے حیفا کے احمدی بھائیوں تک پہونچنے کےسلسلہ میں گیا، جہاں فلسطینی پناہ گزینوں میںتبلیغ کی، احمدی بھائیوں کی خواہش پردویوم یہاں رہا، تبلیغ کے علاوہ ان کی تربیت کے لئے بھی وقت صرف کیا، یہاں ۲۹/کس کو تبلیغ کی، ایک شخص سے خاص طورپر تبادلہ خیالات دوروز تک چارسے چھ گھنٹے تک ہوتا، انھیں بعض کتب بھی مطالعہ کے لئے دی گئیں ۔(الفضل لاہور۱۲/مارچ۱۹۴۹ء)
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہودی مذہبی ریاست کی حیثیت سے مکرو فریب کے مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعہ ’’اسرائیل ‘‘دنیا کے نقشہ پر ظاہر ہوا، اسرائیلی حکومت اپنی اس نظریاتی شناخت کی بقاء وتحفظ کے لئے بہت ہی حساس ہے، حکومتی سطح کے انتظامات کے موقع پر اس کااظہار بھی ہوتا ہے ،چناںچہ سیاسی اور سفارتی نقطہ نظر سے کتنی ہی اہم مصروفیت کیوں نہ ہو، یہ ہفتہ کے دن نہیں رکھی جاتی ،کیوں کہ یہ دن یہودیوں کے یہاں مذہبی اعتبار سے تعطیل کا ہوتا ہے ، اس دن کابینہ کی میٹنگ نہیں ہوتی اور نہ یہاں کے وزیر اعظم کسی بیرونی شخصیت یاوفد سے ملاقات کرتے ہیں ،یہودی شناخت کو خطرہ کے پیش نظر اسرائیلی حکومت اپنے یہاں دوسرے مذاہب کےماننے والوں کو اپنی مذہبی سرگرمیاں چلانے کی اجازت نہیں دیتی لیکن اس سب کے باوجود مذہب کے نام پر قادیانی فرقہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی آزادی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قادیانی فرقہ کی ’’مذہبی سرگرمیوں‘‘کی حقیقت یہودی حکمرانوں کو اچھی طرح معلوم ہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ قادیانی عقائد وعزائم کے تجزیہ کرنے کے بعد فرمایا تھا ’’قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے‘‘ اس لحاظ سے یہودی حکمرانوں کے نزدیک قادیان سرگرمیوں کی نوعیت خود اپنی ہی مذہبی سرگرمیوں کی سی ہے ، اس لئے وہ ان سرگرمیوں کو ’’یہودیت ‘‘ کےلئے خطرہ نہیں سمجھتے بلکہ یہودی مقاصد کے فروغ اوریہودی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ سمجھتے ہیں، چناںچہ اسرائیل کے حکومتی اور سیاسی حلقوں میں قادیانی فرقہ کا بڑا اثرورسوخ ہے اور فلسطینی مسلمانوں کے خلاف حکومت کے ظالمانہ اقدامات کو بروئے کارلانے میں قادیانی فرقہ کا مخصوص کردار اور اس کی ایک خاص پوزیشن ہے، اس سلسلہ میں مرزاغلام قادیانی کا پوتامرزا مبارک احمد اپنی کتاب ’’ہمارے بیرونی مشن ‘‘ میں لکھتا ہے:
’’قارئین ایک چھوٹے سے واقعہ سے ہمارے مشن کی پوزیشن کا اندازہ لگاسکیں گے جو اُسے اسرائیل میں حاصل ہے ،۱۹۵۶ء میں جب ہمارے مشنری چوہدری محمد شریف تحریک(قادیانیت) کے ہیڈکواٹر پاکستان آنے لگے تواسرائیل کے صدر نے انھیں پیغام ارسال کیا کہ وہ جانے سے قبل انھیں ملیں، چوہدری محمد شریف نے موقع سے فائدہ اٹھاکر قرآن حکیم کے جرمن ترجمہ کی ایک کاپی آپ کو پیش کی جو آپ نے بہ خوشی قبول کی‘‘
(بحوالہ قادیان سے اسرائیل تک ص:۲۰۹)
غرض یہ کہ ان حقائق کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہے کہ قادیانی گروہ سامراج طاقتوں کا یار اور آلہ کار ہونے کی حیثیت سے آج بھی ان طاقتوں کے مفادات کی تکمیل میں سرگر م ہے، اس لئے یہ گروہ آج کھل کر غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت نہیں کررہاہے، دکھا وے کے لئے کچھ بیان بھی جاری کرتا ہے تو وہ کچھ اس انداز کا کہ ظالم کو ظلم سے روکنے کے بجائے اُلٹا خود مظلوم کے دفاع کرنے کو غلط بتایا جارہاہے، اس لئے تحریک ِ ختم نبوت کے سرکردہ رہنما اورمایہ ناز مصنّف شورش کا شمیریؒ نے بہت ہی مختصر اور دل چسپ انداز میں سامراجی طاقتوں کے ساتھ قادیانی گروہ کی ساجھے داری کویوں بے نقاب کیا ہے:
’’مرزا قادیانی برطانوی اغراض کا روحانی بیٹا تھا، قادیان، مرزائیت کی جائے پیدائش، ربوہ اعصابی مرکز،
تل ابیب تربیتی کیمپ، لندن پناہ گاہ، ماسکو استاذ اور واشنگٹن اُس کاپینک ہے‘‘(ہفت روزہ’’چٹان‘‘ اپریل ۱۹۷۴ء)

اللہ تعالیٰ قادیانی گروہ اور اُس کی سازشوں سے عالم اسلام بالخصوص فلسطینی بھائیوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین

Comments are closed.