Baseerat Online News Portal

کل یگ کے رام نے اپنے ہنومان کو ہی گرفتار کرلیا

 

ڈاکٹر سلیم خان

اروند کیجریوال نے دہلی کے ایوانِ اسمبلی  میں اپنی گرفتاری کی جو وجہ بتائی تھی وہ صد فیصد درست نکلی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ آج کے دور میں اگر شری رام بھی  آجائیں تو  بی جے پی والے ان کے سامنے دو متبادل رکھ دیں گے ، یاتو ہمارے ساتھ آو یا جیل جانے کے لیے تیار ہوجاو ۔  ایسے میں جو مریادہ پرشوتم رام  جوکرتے وہی  ان کے بھگت ہنومان یعنی اروند کیجریوال نے کیا ۔  انہوں نے ذلت کی آزادی  پر جیل کی قید و بند کو ترجیح دی  اور دنیا نے دیکھا کہ کل یگ کے رام نے اپنے ہنومان  کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا  اور راجہ دشرتھ  یعنی سرسنگھ چالک بے یارو مددگار دیکھتے رہ گئے ۔ اروند کیجریوال کی گرفتاری  حسبِ توقع ذرائع ابلاغ پر چھا ئی  ہوئی ہے اور وہ یہی چاہتے تھے ۔ نو مرتبہ ای ڈی کے سمن پر  حاضر ہونے سے انکار کرنے والے کیجریوال کو پتہ تھا کہ  اب  جیل میں  ستیندر جین، منیش سسودیہ  اور  سنجے سنگھ کے پاس جانے کا وقت قریب آلگا ہے۔  کیجریوال کو    یقین تھا کہ امیت شاہ انہیں  گرفتار کرکے اپنے پیر پر کلہاڑی چلائیں گے  اور شاہ جی  نے کلہاڑی پر پیر مارکر کمل کو لہو لہان کرہی دیا ۔ اب اس خونِ حقدار  کو عام آدمی پارٹی کے جھاڑو سے صاف کیا جائے گا۔ اس طرح زمین سے خون کےدھبےتو  دھل جائیں گے مگر کمل کا دامن  داغدار  رہے گا۔ 

وطن عزیز میں آر ایس ایس کے نظریہ یعنی ہندووں کی خوشامد   کے معاملہ میں  عام آدمی پارٹی کا جھاڑو بی جے پی کے  کمل سے بھی آگے نکل جاتا  تھا۔ اسی لیے اروند کیجریوال کو بی جے پی کی بی ٹیم کہہ کر پکارا جاتا ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ انا ہزارے کی آڑ میں چلائی جانے والی بدعنوانی کے خلاف تحریک کو سنگھ پریوار کی پوری حمایت حاصل تھی کیونکہ دونوں کا  مشترک  دشمن منموہن سنگھ کی کانگریسی سرکار تھی لیکن آگے چل کر جب اروند کیجریوال نے کانگریس کے ساتھ الحاق کرکے  وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا تو ساری دنیا چونک پڑی۔  یار دوستوں نے اس کی توضیح یہ کرڈالی کہ  وہ سنگھ پریوار کی ایک چال ہے۔  سنگھ چاہتا ہے کہ اروند کیجریوال کو نریندر مودی کا متبادل بناکر پیش کرے تاکہ اگر بی جے پی اقتدار سے بے دخل ہوجائے تو وہ عآپ کے ذریعہ سے اپنے عزائم کو بروئے کار لائے۔     آگے چل کر  اروند کیجریوال نے جب ایک نوٹنکی کے بعد  استعفیٰ دے دیا اور کانگریس کے بغیر اپنے بل بوتے پر انتخاب لڑنے کا ارادہ کیا تو انہیں  ’مودی کا چھوٹا ریچارج ‘  کے لقب سے نوازہ گیا ۔  

اروند کیجریوال ایک آرزومند سیاستداں ہیں اس لیے ان  پر لگایا جانے  والامذکورہ بالا  الزام  غلط تھا لیکن اگر سنگھ چاہتا تو عام آدمی پارٹی کو اپنے اسٹیفنی ٹائر کے طور پر استعمال کرسکتا تھا ۔ مو دی جی خودپسندی  اور شاہ جی ہڑ بڑا ہت نے آر ایس ایس کو اس  مقصد  میں پوری  طرح  ناکام کردیا و رنہ آج یہ صورتحال نہیں  بنتی  ۔ اروند کیجریوال بھی  نتیش کمار، نوین پٹنایک، چندرا بابو نائیڈو  اور راج ٹھاکرے کی مانند بی جے پی کی پناہ میں آجاتے یا کم ازکم ممتا اور مایا کی طرح بلاواسطہ حامی بن جاتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے ہیمنت سورین اور  کے کویتا کے راستے کا انتخاب کرکے جیل جانے کو پسند کر کے بی جے پی کے فسطائی چہرے  سے جمہوری نقاب کو نوچ کر پھینک دیا  ۔   بھیما کورے گاوں کی آڑ میں ملک کے حریت پسند دانشوروں کی تنقید کا گلا گھونٹنے کے لیے انہیں  گرفتار کیا گیا تو زور و شور سے یہ  الزام لگا کہ ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔  شاہین باغ کے احتجاج میں پیش پیش رہنے والوں پر جب دہلی فساد کا مجرم بناکر جیل بھیجا گیا تب بھی ایمرجنسی کا الزام لگا یا گیا مگر ذرائع ابلاغ سیاسی جماعتوں کی آزادی کا حوالہ دے کر  اسے مسترد کرنے کا کام ہوتا رہا مگر اب  ہیمنت سورین اور  کیجریوال کی گرفتاری کے بعد یہ الزام  پر مہر ثبت کردی ۔

حزب اختلاف اسی بنیاد پر انتخاب لڑنا  چاہتاہےکیونکہ ماضی میں ملک کی عوام نے ایمرجنسی کے خلاف رائے دہندگی  کے حق کا استعمال کیا تھا ۔ اس طرح  مودی سرکار نا دا نستہ مخالفین کے  جال میں پھنس گئی اور ایک ایسے وقت میں اس سے یہ حماقت سرزد ہوئی جب انتخاب  کی تلوار بالکل سر پر لٹک ر ہی ہے  اور اس کے منفی اثرات سے خود کو بچانا ناممکن ہے۔  

اروند کیجریوال اور ہیمنت سورین  کے پاس بھی نتیش کمار اور ممتا بنرجی کی مانند مندرجہ بالا  دو متبادل تھے ۔ اول تو   یہ کہ وہ نتیش کی طرح  این ڈی اے میں شامل ہوجاتے یا کم ازکم  ممتا بنرجی کی طرح انڈیا سے الگ ہوجاتے            لیکن انہوں نے یہ دونوں پیشکش ٹھکرا دی ۔ ان دونوں  وزرائے اعلیٰ  نے  جیل جانا تو  گوارہ کرلیا مگر بی جے پی کے آگے جھکنے پر راضی نہیں ہوئے ۔ ویسے ہندوستان کی تاریخ میں جیل جانے والے اروند کیجریوال  پہلے وزیر اعلیٰ ہیں ۔   ملک کا آئین جرم ثابت ہونے تک کسی رکن اسمبلی کی رکنیت منسوخ نہیں کرتا اس لیے وہ جیل سے بھی حکومت کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی دہلی میں وزیر اعلیٰ کے اختیارات بہت محدود ہوتے ہیں اس لیے اس کے جیل یا ریل میں ہونے سے کوئی آفت نہیں آئے گی ۔ بی جے پی  کی مرکزی حکومت اگر اپنے کٹھ پتلی لیفٹننٹ گورنر کے ذریعہ  ان کی حکومت برخواست کردے تو عام آدمی پارٹی کے کارکنان کو ہمدردی بٹورنے کا ایک نادر موقع مل جائے گا۔  

اروند کیجریوال کو اس گرفتاری سے قبل نو مرتبہ سمن دے کر تفتیش کے لیے بلایا گیا مگر ہر بار انہوں نے اس کو سیاست سے مغلوب غیر قانونی قرار دے کرٹھکرا دیا ۔  شراب پر آبکاری سے متعلق جس معاملے میں  انہیں  کو گرفتار کیا گیا ہے اس پر اب تک6؍ عدد  فردِ جرم داخل ہوچکی ہیں اور ان میں128 کروڈ کی بدعنوانی کا الزام ہے۔   نومبر 2021 میں دہلی سرکار نے یہ پالیسی نافذ کی ۔ جولائی 2022 میں اس کے خلاف ضابطے کی خلاف ورزی کا الزام لگا  اور لیفٹننٹ گورنر نے سی بی آئی جانچ کی سفارش کردی۔  اگست   2022 میں سی بی آئی نے اس کی بابت ڈپٹی وزیر اعلیٰ اور دیگر لوگوں پر چھاپہ مارا اور اسی وقت ای ڈی نے منی لانڈرنگ کی تفتیش شروع کردی ۔ستمبر 2022 کو عآپ میں رابطہ عامہ کے ذمہ دار وجئے نایر گرفتار کرلیے گئے اور مارچ 2023 میں منیش سسودیا کو ای ڈی نے گرفتار کرلیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی نے ان کو اپنی پارٹی میں شامل ہوکر وزیر اعلیٰ بننے کا لالچ دیا جس کو انہوں نے ایکناتھ شندے کی مانند قبول کرنے کے بجائے ٹھکرا دیا۔  یہ داوں نہیں چلا تو اکتوبر 2023 میں  عآپ کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ کو ای ڈی نے گرفتار کرلیا اور اسی وقت اروند کیجریوال کے نام پہلا سمن نکلا ۔

یہی  زمانہ تھا جب انڈیا وفاق میں اروند کیجریوال سرگرم ہوگئے تھے ۔  اس کے بعد دسمبر میں دوسرا سمن بھیجا گیا۔ امسال جنوی میں دو سمن بھیجے گئے اور فروری کے اندر تو جملہ چار سمن  موصول ہوئے ۔ اس  دوران 16 مارچ کو بی آر ایس کی رہنما کے کویتا کو اسی معاملے میں گرفتار کیا گیا اور 21 مارچ کو نواں سمن ملا ۔ اسی دن دہلی ہائی کورٹ نے ای ڈی سے الٹا سوال کردیا کہ اسے گرفتاری سے کس نے روکاہے۔ بس پھر کیا تھا اس شام ای ڈی کے اہلکار اروند کیجریوال کو گرفتار کرنے کے لیے پہنچ گئے اور ان کی گرفتاری عمل میں آگئی۔. اروند کیجریوال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بچپن میں اپنے چچا کے توسط سے آر ایس ایس کے  رابطے میں آئے تھے ۔ وہ بی جے پی سے نرم نہیں بلکہ سخت تر ہندوتوا کے قائل ہیں۔  مودی رام کا نام لیتے ہیں تو وہ ہنومان   بھگت بن  جاتے ہیں۔ اروند کیجریوال نے کشمیر کی دفع 370سے لے کر رام مندر تک تمام متنازع مسائل میں سنگھ کے موقف کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ رام مندر نہیں بناسکتے تو بزرگ زائرین کے لیے مفت ایودھیا سفر کا اہتمام کرتے ہیں ۔

  دہلی فساد کے دوران مسلمانوں کے حوالے سے ان کا رویہ مایوس کن تھا۔ کورونا کی وبا کے دوران تبلیغی جماعت کے تئیں وزیر صحت ستیندر جین منفی پروپگنڈے کا حصہ بن گئے تھے۔  عآپ کھلے عام مسلمانوں کی مخالفت نہیں کرتی  اس لیے  ایسے رہنما روہنگیا کی آڑ میں انتہا پسند ہندووں کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی کرتے رہے ہیں ۔ ایسے رہنما کی   کردار کشی کرنا یا اس کی سیاسی جماعت کو تباہ برباد کرنا  ہندو توا کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے لیکن بی جے پی کو فی الحال اپنے نظریہ سے زیادہ اقتدار عزیز ہے اور وہ اس کی خاطر کسی بھی  حد تک جاسکتی ہے۔   بی جے پی نے اپنی کوتاہ نظری  سے  اروند کیجریوال کو انڈیا وفاق میں رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ دہلی اور پنجاب کی عوام میں میں ان کے تئیں ہمدردی کی زبردست لہر چلا دی ہے ۔ یہ حکمت ِ  عملی دہلی ، پنجاب اور ہریانہ میں  بی جے پی کو براہ ِ راست مہنگی پڑے گی اور ملک بھر میں اسے اس کا نقصان ہواگا۔    بعید نہیں اس قومی انتخاب کے بعد مودی جی پر سلیم کوثر کا یہ شعر صادق آجائے ؎

وقت رک رک کے جنھیں دیکھتا رہتا تھا سلیم             وہ کبھی وقت کی آواز ہوا کرتے تھے

Comments are closed.