Baseerat Online News Portal

اسلام کا فلسفۂ نصرت و آزمائش

 

ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

 

آج کل ملت اسلامیہ سخت آزمائشوں میں مبتلا ہے، بالخصوص اہلِ غزہ کی آزمائش خون کے آنسو رُلاتی ہے، لیکن دوسری جانب ان کا صبر و ثبات بہت حوصلہ بخش ہے، چوں کہ ان کا نظامِ تربیت بہت مثالی اور زبردست ہے، اس لیے وہ قرآن کے فلسفۂ نصرت و آزمائش سے بخوبی واقف ہیں، اور اسی لیے ثابت قدم ہیں، ان کے استدلال سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا فہم قرآن بہت عالی ہے، ان کی نظر بہت وسیع ہے، قرآن مجید کے حرف حرف پر ان کا غیر متزلزل ایمان ہے، ورنہ عام طور پر جن لوگوں کو ابتلاء و آزمائش کے فلسفہ اور تاریخِ اسلام میں اس کی اہمیت کا درست علم نہیں ہوتا وہ خوف و ہراس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، واویلا کرتے ہیں، ماتم کرتے ہیں اور فتح و آزادی کے بجائے غلامی کو ترجیح دیتے ہیں، موت کا خوف اور زندگی کی چاہت (وہن) انھیں آزمائش و مقاومت کے نام سے ہی ڈرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس مضمون میں ہم راست طور پر قرآن مجید کا بیانیہ پیش کرنےکی کوشش کریں گے، تاکہ حالات کا بھی صحیح اندازہ ہو جائے اور فلسفہ آزمائش و نصرت کا قرآنی بیانیہ بھی سامنے آ جائے، اس سلسلے کے تمام فلسفوں سے قطعِ نظر قرآن کا فلسفہ سمجھنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔

ایک روز الجزیرہ نے اسرائیل کے وزیرِ دفاع کا بیان نشر کیا، جس میں اس نے کہا تھا کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم حماس کی طاقت کو توڑ کر رکھ دیں، تاکہ اس کے اندر حکومت کرنے کی صلاحیت اور عسکری قوت باقی نہ رہے۔ ہم نے اس پر نوٹ چڑھاتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ ناممکن ہے، اسی وزیر نے پہلے کہا تھا کہ ہم یہ کام چند دن میں کر گزریں گے؛ لیکن اس بیان میں کہا کہ اس کے لیے ہمیں طویل مدت درکار ہے، اسی لیے ہم نے لکھا کہ یہ ناممکن ہے، کیوں کہ مقاومہ کے لوگوں نے یہ باور کر دیا ہے کہ انھیں موت کا خوف نہیں، وہ فلسفۂ آزمائش پر غیر متزلزل ایمان رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ فتح و نصرت کی شرطیں بہت سخت ہیں، انھیں معلوم ہے کہ امت مسلمہ دورِ زوال سے گزر رہی ہے اور وہ پوری امت کی طرف سے کفارہ ادا کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا اپنے سب سے نیک بندوں کو سب سے زیادہ آزماتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ۔ (محمد: ۳۱)

(اے مؤمنو! اللہ تعالیٰ کفار سے جنگ کے ذریعہ تمھارا امتحان لے گا، تاکہ واضح ہو جائے کہ تم میں سے کون جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو بھی تنگی و خوش حالی تمھارے لیے مقدر کر رکھی ہے، اس میں تمھارے اعمال کو، تمھاری باتوں کو اور حالات کو جانچے اور پرکھے گا، تاکہ سچوں اور جھوٹوں میں فرق نمایاں ہو جائے۔)

ترمذی کی روایت ہے، سعد بن وقاصؓ روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺسے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ أی الناس أشد بلاء، تو آپﷺنے فرمایا کہ انبیاء کی، پھر جو ان کے بعد مقام و مرتبہ میں ان سے قریب ہوتا ہے اس کی، قال: الانبیاء ثم الأمثل فالأمثل، آگے آپﷺنے فرمایا کہ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنے دین میں متصلب ہوتا ہے تو اس پر حالات بھی سخت آتے ہیں اور مصیبت شدید ہوتی ہے، یعنی جو جس قدر کامل ہوگا، جتنا زیادہ ایمان مضبوط ہوگا، اسی قدر اس کی آزمائش ہوگی۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے اور علامہ البانی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

قرآن مجید نے اس فلسفہ آزمائش کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا ہے!

وَلَنَـبْلُوَنَّكُمْ بِشَىْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِـرِيْنَ۔ (البقرۃ: ۱۵۵)

(یہیں پر یہ بات بھی فرما دی گئی کہ ہم بعض سختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر کے کسی قدر آزمائشوں سے گزاریں گے۔ یہ آزمائشیں دشمنوں کے خوف و دہشت، جانی و مالی نقصان، پیداوار کی قلت، فصلوں کی تباہی، احباب و اقارب کی موت کے ذریعہ ہوں گی، تاکہ اس ناپائیدار دنیا میں تمھیں آزمایا جا سکے۔ اس مصیبت اور آزمائش میں صبر کے علاوہ کوئی چیز تمھارے لیے نفع بخش نہیں ہوگی، چناں چہ صبر کرنے والا کامیاب و سرفراز ہوگا، اسے بے حساب اجر سے نوازا جائے گا اور بلند مقام عطا کیا جائے گا اور فرشتے اس پر رحمتیں برسائیں گے۔)

إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَ لِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ۔(آل عمران: ۱۴۰)

(اے مؤمنو! اگر تم کو اللہ کے راستے میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔ تم قتل ہوتے ہو یا زخم لگتا ہے۔ تو تم سے پہلےکفار کو بھی تمھاری طرح زخم لگ چکے ہیں۔ یہ تو اللہ کا قانون ہے۔ زمانہ گردش کرتا رہتا ہے، کبھی خوشی ملتی ہے کبھی غم، کبھی فتح ہوتی ہے اور کبھی شکست۔ اللہ تعالیٰ قوموں کا وقت بدلتا رہتا ہے۔ چناں چہ ایک قوم کو آپ کامیاب و غالب دیکھیں گے، لیکن پھر اس کو مغلوب و کمزور اور شکست خوردہ پائیں گے۔ اس میں اللہ کی حکمتیں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان جنگوں، مصیبتوں اور مشکلات کے ذریعہ دلوں کو جانچتا ہے تاکہ یہ واضح کر دے کہ مؤمن کون ہے اور کافر کون ہے، سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے اور اللہ تعالیٰ تم میں سے شہداء کا انتخاب کرنا چاہتا ہے، تاکہ ان کو اپنا محبوب و مقرب بنائے اور انھیں جنتِ نعیم میں رکھے۔ یہ بھی اس کی حکمت ہوتی ہے کہ وہ بندے کا عمل ظاہر کر دے کہ کس نے خدا کی تصدیق کی اور دینِ خدا کی نصرت کی اور کس نے خدا کو جھٹلایا اور کفر کیا۔ مقصود یہ سب جتانا ہوتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو واقعات کے واقع ہونے سے پہلے ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وہ تو بندوں پر قضا و قدر کے نافذ ہونے والے فیصلوں سے متعلق اپنے علم کا اظہار فرماتا ہے۔ تو جس نے اللہ کی نصرت کرنے سے انحراف کیا اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی وہ ظالم ہے اور اللہ ایسے ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے کہ اللہ نے ظلم کو اپنے اوپر اور اپنے علاوہ سب کے لیے حرام قرار دیا ہے۔ ظالموں کی مذمت کی ہے اور ان کو دردناک عذاب کی وعیدیں سنائی ہیں۔)

اَمْ حَسِبْتُـمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّـذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَّسَّتْهُـمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّـٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللّـٰهِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّـٰهِ قَرِيْبٌ۔ (البقرۃ:۲۱۴)

(مسلمانو! تم یہ بالکل مت سمجھو کہ جنت میں داخلہ بہت آسان ہے۔ تم بغیر امتحان و آزمائش کے جنت میں داخل ہو جاؤگے۔ تم سے پہلے جن لوگوں کو بھی نجات ملی انھیں شدید حالات سے گزارا گیا، انھوں نے جسمانی و مالی تکلیفیں جھیلیں، قربانیاں دیں، جہاد کیا، اللہ نے انھیں فقر میں آزمایا تو انھوں نے صبر کیا، مرض میں آزمایا تو شکر ادا کیا، سخت حالات آئے ایسی آزمائشیں آئیں کہ انھیں ہلا کر رکھ دیا۔ وہ ایک حد تک ثابت قدم رہے، مگر حالات کی شدت کے سبب رسول اور ان کے ساتھ اہل ایمان کہنے لگے، ان سخت حالات سے نجات کب ملے گی، اس آزمائش کے بعد اللہ کی مدد کب آئے گی؟ مؤمنو! بس اللہ کی مدد آنے والی ہے، راحت و کشادگی ملنے والی ہے، فتح حاصل ہونے والی ہے، نصرت خداوندی سے مایوس مت ہو، بس تم پر لازم ہے کہ صبر کرتے رہو۔)

کم علم اور کج فہم لوگ سمجھتے ہیں کہ بس حالات ابھی آئے ہیں، مصیبتوں کا یہ منظر نامہ نیا ہے، جب کہ آزمائش کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے، نبی اکرمﷺکو مکہ مکرمہ میں کن حالات کا سامنا کرنا پڑا، آپ کے اصحاب پر کیسے کیسے مظالم ہوئے، شعب ابی طالب میں کیا کچھ نہ گزری، آج اگر اہلِ غزہ گھاس کھا رہے ہیں، تو پیارے حبیبﷺ کی موجودگی میں شعب ابی طالب کی داستان دلخراش میں صبر و استقامت اور قربانیوں کی یہ سب تصویریں موجود ہیں ، صحیح مسلم میں عتبہ بن غزوان کی روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺکی معیت میں پورا پورا ہفتہ اس طرح گزر جاتا تھا کہ ہمارے پاس درختوں کے پتّوں کے سوا کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا، پتّے کھا کھا کر ہمارے منھ چھل جایا کرتے تھے، ان آزمائشوں کے باوجود ہجرتیں ہوئیں، جنگیں ہوئیں، جنگ احد میں نبیﷺکے دندان مبارک شہید ہوئے، آپ کی موجودگی میں آپ کے ۷۰؍جاں نثار کام آئے، یعنی دس فیصد اجلۂ صحابہ شہید ہوئے، پھر بھی بظاہر احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ پھر احزاب کے موقع پر یہ صورت حال ہوئی کہ مسلمانوں کو سخت آزمائش سے گزارا گیا، اسی آزمائش و امتحان نے مؤمن و منافق کو الگ کر دیا، اس وقت کی صورت حال کا نقشہ قرآن نے اس طرح کھینچا ہے:

إِذْ جَآءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ ٱلْأَبْصَـٰرُ وَبَلَغَتِ ٱلْقُلُوبُ ٱلْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِٱللَّهِ ٱلظُّنُونَا۔ هُنَالِكَ ٱبْتُلِىَ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا۟ زِلْزَالۭا شَدِيدًا۔ (الاحزاب: ۱۰-۱۱)

(اس دن کو یاد کرو جب کفار مشرقی جانب کے بالائی علاقے سے اور مغربی جانب کے نشیبی علاقے سے تم پر چڑھ آئے، دہشت اور خوف سےتمھاری آنکھیں پتھرا گئیں۔ خطرے کی شدت اور خوف و رعب کے سبب تمھارے کلیجے منھ کو آنے لگے۔ منافقین پر مایوسی چھا گئی، شکوک و شبہات جنم لینے لگے۔ تم اللہ کے متعلق ایسے گمان کرنے لگے جو اس کے بارے میں نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنے رسولﷺکی نصرت نہیں کرے گا اور اپنے دین کو سربلند نہیں کرے گا۔ اس سخت وقت میں اہلِ ایمان کی بڑی شدید آزمائش کی گئی۔ انھیں ہلا کر رکھ دیا گیا۔ صاف ظاہر ہو گیا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے۔ مسلمانوں پر ایسی سخت آزمائش آئی کہ ان کے دل ہل کے رہ گئے۔ ایسی سخت آزمائش اس لیے کی گئی، تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے اور اپنے رب پر ان کا یقین و اعتماد مزید پختہ ہو جائے۔)

اس شدید آزمائش کے بعدایک گروہ وہ سامنے آیا جس کا حال قرآن نے اس طرح بیان کیا:

وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا۔ وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ۚ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا۔ (الاحزاب: ۱۲-۱۳)

(اس دن ان منافقین نے جن کے دلوں میں روگ تھا اور شکوک و شبہات تھے، انھوں نے کہا کہ محمدﷺنے ہم سے نصرت و عزت اور غلبے کے جو وعدے کیے تھے، وہ سب جھوٹے اور بے حقیقت تھے، وہ سب محض فریب تھے، جن کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

منافقین کے اس گروہ کو یاد کروجو اہلِ مدینہ میں پکار پکار کر کہہ رہا تھا ۔ اے یثرب والو! (یہ مدینے کا قدیم نام تھا) ایسے گھاٹے کے معرکے میں کیوں ٹھہرے ہوئے ہو۔ جاؤ مدینے میں اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ اور منافقوں کا ایک گروہ نبی کریمﷺ سے گھر واپس جانے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ عذر یہ پیش کر رہا تھا کہ ان کے گھر کھلے ہوئے ہیں، غیر محفوظ ہیں۔ انھیں اپنے بچوں اور عورتوں کا خطرہ ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے،اُن کا مقصد یہ تھا کہ وہ رسول اللہﷺاور آپ کے صحابہ کو چھوڑ کر جہاد سے بھاگ جائیں۔)

اور دوسرے گروہ کے لوگوں کی بابت یہ فرمایا کہ سخت آزمائش کی بھٹی سے وہ مزید کندن بن کے نکلے اور ان کے ایمان و جذبۂ اطاعت میں مزید اضافہ ہوا:

وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا۔ (الاحزاب:۲۲)

(جب اہلِ ایمان نے کفار کے متحدہ لشکروں کو دیکھا کہ انھوں نے مدینے کو گھیر لیا ہے تو وہ سمجھ گئےکہ اللہ کی نصرت کا وعدہ پورا ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ انھوں نے کہا: ہاں یہی وہ منظر ہےجس کا اللہ اور رسولﷺنے ہم سے پہلے ہی وعدہ کیا تھا کہ پہلے آزمائش ہوگی پھر مدد آئے گی اور استحکام عطا کیا جائے گا۔ اللہ نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کرے گا، رسول اللہ کی دی ہوئی خبر سچی ثابت ہوئی، ان متحدہ لشکروں کو دیکھ کر وعدۂ الہٰی پر ان کے ایمان و یقین میں مزید اضافہ ہوا۔ اللہ کے فیصلہ پر ان کا ایمان پختہ ہو گیا۔ اللہ کے حکم کی اطاعت کا جذبہ مزید فروزاں ہوا۔)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ باطل اس وقت عروج پر ہے اور اہل اسلام آزمائشوں کے دور سے گزر رہے ہیں، لیکن یہ طے شدہ ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، باطل کے مقدر میں شکست ہے، عروج بہر حال حق کا مقدر ہے، ظلم کی رات لمبی تو ہو سکتی ہے، لیکن حق و عدل کی صبح بہرحال طلوع ہوگی۔ یہ خدا کا وعدہ اور اس کا فیصلہ ہے:

وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ۔ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ۔ وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ۔ (صافات: ۱۷۱-۱۷۳)

(اللہ کا فیصلہ ہو چکا ۔ اس نے پہلے ہی اپنے رسولوں سے کہہ دیا۔ اسے ہر حال میں پورا ہو کر رہنا ہے۔کہ بالآخر حسنِ انجام ان ہی کے لیے ہے۔ مدد و تائید ان ہی کے ساتھ ہے۔ کامیابی ان کے لیے مقدر ہے۔ اللہ تعالیٰ دلیل و قوت کے ساتھ ان کی تائید و نصرت کرے گا۔ اللہ کا لشکر ہی غالب آئے گا۔ یعنی اس کے راستے میں، اس کے کلمہ کی سربلندی کی خاطر لڑنے والے مجاہدین کو ہی اللہ کے حکم سے غلبہ ملے گا، ان ہی کی مدد کی جائے گی۔ وہ ہر موقف میں دشمنانِ خدا پر غالب آئیں گے۔ بات دلیل و حجت کی ہو یا میدانِ جنگ کی بہر صورت وہی غالب آئیں گے، اس لیے کہ حسنِ انجام متقیوں کے لیے طے ہے۔)

كَتَبَ اللهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىْ اِنَّ اللهَ قَوِىٌّ عَزِيْزٌ۔ (المجادلہ: ۲۱)

(اللہ نے لکھ دیا ہے اور فیصلہ کر دیا ہے کہ غلبہ اس کے لیے ہے اور اس کے رسول کے لیے ہے، اس لیے کہ وہ ایسا طاقت ور اور غالب ہے کہ اس کو کوئی شئ اسے عاجز نہیں کر سکتی، کوئی اس سے لڑ سکتا ہے اور نہ غالب آ سکتا ہے، وہ ایسا با اقتدار اور زبردست ہے کہ ہر ایک کو ہرا دیتا ہے اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو وہ اس کو رسوا کر دیتا ہے۔)

إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ۔(غافر: ۵۱)

(بے شک اللہ اپنے رسولوں اور اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے، دنیا میں جو ان سے جنگ کرتا ہےان پر انھیں فتح حاصل کرتا ہے اور قیامت کے دن فرشتے، انبیاء اور اللہ کے نیک بندے کافروں کے خلاف گواہی دیں گے کہ انبیاء نے بات پہنچا دی تھی، لیکن کافروں نے جھٹلایا تھا۔)

کفر لاکھ کوششیں کر لے، شرک کے ماتھے پر کتنی ہی شکن پڑیں، وہ کتنے ہی پروپیگنڈے کر لے، ہتھکنڈے اپنالے، بڑے سے بڑا الائنس بنا لے، لیکن یہ خدا کا فیصلہ ہے کہ:

يُرِيدُونَ لِيُطْفِـُٔوا۟ نُورَ ٱللهِ بِأَفْوٰهِهِمْ وَٱللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكٰفِرُونَ هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ ۔ (الصف: ۸- ۹)

(یہ کفار اس ہدایت کو جسے لے کر نبیﷺ مبعوث کئے گئے اپنی گمراہ کن باتوں اور پروپیگنڈوں سے دبا دینا چاہتے ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے، شاعری ہے، کہانت ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے دین کو بہر حال غالب کر کے رہے گا۔ خواہ وہ معاندین اور کٹر کافروں کو کیسا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ ان کی ناگواری اور بد دلی کے باوجود یہ دین غالب آ کر رہے گا۔اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول محمدﷺ کو علمِ نافع اور عملِ صالح (دینِ اسلام) کے ساتھ مبعوث فرمایا، تاکہ اس کو ہر دین پر غالب کر دے، خواہ اس کے غلبے کو مشرک کتنا ہی ناپسند کریں، لیکن اللہ کا حکم بہر حال پورا ہو کر رہے گا۔)

نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے، جس کو امام احمد نے اپنی مسند اور بیہقی نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ دین ضرور بالضرور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک رات و دن کا سلسلہ جاری ہے، شہر و دیہات کا کوئی گھر باقی نہ رہ جائے گا، جہاں اللہ اس دین کو داخل نہ کر دے، عزت والا عزت کے ساتھ اس کو قبول کرے گا اور ذلت والا ذلت کے ساتھ۔ عزت وہ ہے جو اسلام سے ملتی ہے اور ذلت وہ ہے جو کفر سے ملتی ہے: قال رسول اللہﷺ: لَيَبْلُغَنَّ ‌هَذَا الأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ، وَلَا يَتْرُكُ اللهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللهُ هَذَا الدِّينَ، بِعِزِّ عَزِيزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ، عِزًّا يُعِزُّ اللهُ بِهِ الإِسْلَامَ، وَذُلًّا يُذِلُّ اللهُ بِهِ الكُفْرَ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ عروج تو خدا کی طرف سے طے ہے، فتح و نصرت اور غلبہ و تمکین و استحکام کے وعدے بھی ہیں، لیکن اس کے لیے شرطیں خود قرآن مجید نے بیان کر دی ہیں، ذیل میں ہم ایسی چند آیات کا مطالعہ پیش کریں گے جن سے یہ واضح ہو جائےگا کہ نصرت کب آتی ہے، فتوحات کے دروازے کب کھلتے ہیں، آزمائشوں کا دور کب ختم ہوتا ہے اور اسبابِ نصرت و تمکین کیا ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:

اَمْ حَسِبْتُـمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّـذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ مَّسَّتْهُـمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّـٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَعَه مَتٰى نَصْرُ اللّـٰهِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّـٰهِ قَرِيْبٌ۔(البقرۃ: ۲۱۴)

(پھر کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ (محض ایمان کا زبانی دعویٰ کر کے) تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالاں کہ ابھی تو تمھیں وہ آزمائشیں پیش ہی نہیں آئی ہیں ، جو تم سے پہلے لوگوں کو پیش آ چکی ہیں، ہر طرح کی سختیاں اور محنتیں انھیں پیش آئیں ، شدتوں اور ہولناکیوں سے ان کے دل دہل گئے، یہاں تک کہ اللہ کا رسول اور جو لوگ ایمان لائے تھے پکار اٹھے اے نصرتِ الہٰی! تیرا وقت کب آئے گا؟ (تب اچانک پردۂ غیب چاک ہوا اور خدا کی نصرت یہ کہتی ہوئی نمودار ہو گئی) ہاں گھبراؤ نہیں خدا کی نصرت تم سے دور نہیں ہے۔)

غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ آزمائش پر صبر دخول جنت کی ضمانت ہے، آزمائشوں سے گزرنا انبیاء کی سنت ہے، اس لیے آزمائشوں سے نکلنے میں بھی انبیاء کا منہج ہی اختیار کرنا لازم ہے، نصرت کی طلب بھی اسی سے کی جا سکتی ہے، جو قوت و طاقت کا اصل مرکز و محور اور مرجع ہے، اس آیت میں جہاں یہ واضح کیا گیا کہ خدا تعالیٰ کی حکمت کبھی کبھی ایک مدت کے لیے فتح و نصرت کو روک دیتی ہے، وہیں نصرت کی بشارت بھی دے دی گئی ، تاکہ اہلِ ایمان اس سے حوصلہ پائیں اور تعاقب و جہاد میں اجر و نصرت کی امید رکھتے ہوئے مقابلہ میں ڈٹے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو بہت صراحت کے ساتھ اپنے رسول اور آپ کی امت سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں اس سرزمین کی خلافت عطا کرے گا، حالتِ خوف کو حالتِ امن سے بدل کر زمامِ اقتدار عطا کرے گا، لیکن اس وعدہ کو مشروط بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔ (النور: ۵۵-۵۶)

(اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے نصرت و غلبہ اور تمکین کا وعدہ کیا ہے کہ اللہ انھیں ضرور بالضرور روئے زمین پر خلافت عطا کرے گا، جیسے ان سے پہلے نیک و خدا ترس مؤمنین کو خلافت عطا کی تھی۔ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ دینِ اسلام جس کو ان کے لیے پسند و منتخب کیا ہے، اُسے قوت و اقتدار اور غلبہ عطا کرے گا اور جب بھی اس کے بندے اس کے دین پر قائم ہوں گے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے اور خالص اسی کی عبادت و اطاعت کریں گے تو وہ انھیں خوف و بد امنی سے نکال کر امن و سلامتی عطا کرے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے عزت، غلبہ اور خلافت عطا کرنے اور خوف و ہراس کے بعد امن و سلامتی عطا کرنے کے بعد کفر کرے گا اور اس کے حکم کی نافرمانی کرے گا تو وہ باغی و سرکش ہوگا۔ اطاعتِ الہٰی سے نکل جانے والا اور حدودِ الہٰی سے تجاوز کرنے والا شمار ہوگا۔ اے ایمان والو! شریعت کے مطابق نماز قائم کرنے کا اہتمام کرو اور اپنے اموال کی زکوٰۃ مستحقین تک پہنچاؤ۔ رسول کی سنتوں کی اتباع کر کےآپﷺکی اطاعت کرو، تاکہ اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے دامن رحمت میں داخل کر لے جس کی وسعت نے ہر شے کو اپنے سایے میں لے رکھا ہے۔)

جن دنوں مسلمان عین مغلوبیت کے عالم میں تھے اور انھیں چین سے بیٹھنا تک نصیب نہ تھا، بلکہ بعض مسلمان تو نبی کریمﷺ سے سوال کرتے تھے کہ دس سال مکہ میں اسی کشمکش میں گزرے، پھر ہجرت کے بعد اب بھی ہمہ وقت دشمنوں کا خطرہ درپیش ہے، کیا کبھی ایسا وقت آئے گاکہ ہم ہتھیار اتار کر رکھ دیں اور سکون کی سانس لیں تو حضورﷺپر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اہلِ ایمان کو بشارت دی گئی۔ مفسرین کا کہنا ہے کہ خلفائے راشدین کی خلافت سے اس آیت میں کیا گیا وعدہ پورا ہو چکا ۔ لیکن آیت کا خطاب قیامت تک کے لیے ہےاور دوہری تاکید کے ساتھ خلافت، استحکام اور غلبہ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس کو یعبدوننی و لا یشرکون بی شیئاً سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ جب بھی مسلمان ایمان میں کھرے ہوں گے، عمل کے دھنی ہوں گے اور شرک سے بری ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں استحکام و غلبہ عطا کرے گا۔ شرک نہ کرنا تو دور کی بات ہے اب تو صورت حال یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد کے ذہنوں سے شرک کا مفہوم و معنیٰ اور شرک کی قباحت و شناعت نکلتی جا رہی ہے۔ بہت سی چیزیں جو کسی علاقے میں بدرجۂ مجبوری قبول کی گئیں انھیں اب مسلمان اگر عین اسلام نہیں سمجھتے تو اسلام مخالف بھی نہیں سمجھتے۔ باوجود اس کے کہ ان کے شرک ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی بے بسی، بے عملی اور بے ایمانی کی کیفیت کے ساتھ خلافت تو دور نصرتِ الہٰی کا ظہور بھی ممکن نہیں۔ یہ ملحوظ رہے کہ خلافت کا ترجمہ حکومت سے نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ وعدہ خلافت کا کیا گیا ہے اور خلافت وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا حکم جاری ہو اور صرف کتاب و سنت کی حکمرانی ہو۔

سورۃ الحج میں صدقِ ایمان اور اقامتِ شریعت کو اس وعدہ کی تکمیل کے بعد دوام و استحکام کے لیے ضروری عمل قرار دیا ، کیوں کہ رب پر مکمل و کامل ایمان اور اقامتِ شریعت کے نتیجہ میں ہی یہ تمکین و استحکام ملا۔

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّـٰهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ أَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَمَرُوا۟ بِٱلْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا۟ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلْأُمُورِ۔ (الحج: ۴۱)

(جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا وعدہ کیا، وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ جب زمین میں قوت دیتا ہے۔ اقتدار عطا کرتا ہے اور انھیں ان کے دشمنوں پر غلبہ عطا فرماتا ہے تو یہ نماز کو اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ قائم کرتے ہیں، جیسے کہ سنت کے مطابق اسے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اموال کی زکوٰۃ اس کے مستحقین تک پہنچاتے ہیں۔ تمام معاملات کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے اور ہر شے کو بالآخر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور انجام کار بالآخر اہلِ تقویٰ کے لیے ہے۔)

سورۃ النور کی آیات میں ہم نے دیکھا کہ ایمان و عمل صالح وعدۂ نصرت و تمکین کی تکمیل و تحقیق کے لیے بنیادی سبب ہے، پھر سورۃ الحج کی آیت نے یہ واضح کر دیا کہ رب پر صحیح ایمان و اعتقاد اور اقامتِ شریعت محمدی کے نتیجے میں استحکام حاصل ہوتا ہے، ذرا اور جائزہ لیجیے تو قرآن مجید نصرتِ دین کو فتح و نصرت کا لازمی سبب قرار دیتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ زبان و عمل اور اعتقاد و دعوت اور جہد و جہاد کے ذریعہ خدا کے دین کی نصرت کی جائے تب فتح و نصرت کے دروازے کھلیں گے۔ ارشاد باری ہے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّـٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ، وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّـهُـمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَـهُمْ۔ (محمد:۷-۸)

(اے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والو! اگر تم اللہ کی اطاعت کر کے، اس کے رسول ﷺکی اتباع کر کے، اس کی شریعت پر عمل کر کے اور اس کے راستے میں جان و مال اور زبان و قلم سے جہاد کر کے اللہ کی مدد کروگے، تو اللہ تعالیٰ تمھارے دشمنوں کے مقابلہ میں تمہاری مدد فرمائے گا اور تمھیں غلبہ عطا فرمائے گا۔ میدانِ جنگ میں تمھیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا اور تم پر روحانی و جسمانی سکون نازل فرمائے گا، تاکہ تم جم سکو اور پسپائی اختیار نہ کرو۔ کافروں کے لیے ہلاکت و تباہی ہے۔ ان پر اللہ کا غضب اور پھٹکار ہے۔ اللہ نے ان کے سارے اعمال کو برباد و اکارت کر دیا۔)

قرآن مجید تلقین کرتا ہے کہ خدا پر توکل کیا جائے، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ اسباب میں تاثیر اللہ پیدا کرتا ہے، نتائج اس کی طرف سے آتے ہیں، اسی پر بھروسہ کیا جائے اور اسباب اختیار کیے جائیں۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ۔(آل عمران:۱۵۹)

(یہ تو محض اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ آپ مؤمنین کے لیے نرم ہیں۔ اللہ ہی نے آپ کے دل میں نرمی و جذبۂ رحم رکھا ہے۔ چناں چہ آپ ان کی خطاؤں کو معاف کرتے ہیں، کوتاہیوں کی پردہ پوشی فرماتے ہیں، لغزشوں سے درگزر فرماتے ہیں، باوجود اس کے کہ ان لوگوں نے آپ کے حکم کی مخالفت کی، جنگ میں آپ کے ساتھ نہیں جمے، لیکن یہ تو اللہ کی رحمت ہے جو اس نے آپ کے اندر رکھی ہے۔ اے نبیﷺ اگر آپ سخت بات کرتے، سخت گیری کرتے، معاملات میں سختی برتتے تو آپ کے اصحاب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے اور آپ کی نصرت سے دور ہو جاتے۔ لیکن آپ کے حسنِ اخلاق کے سبب اللہ نے قلوب و ارواح کو آپ پر جمع کر دیا ہے۔ چناں چہ جن لوگوں سے آپ کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی، انھیں معاف کیجیے۔ ان کے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کیجیے۔ اپنے اصحابؓ سے ہر اہم معاملے میں مشاورت کیجیے، تاکہ انھیں آپ کے قرب کا احساس ہو اور آپ بعد میں آنے والی امت کے لیے نمونہ بن جائیں، پھر جب کسی بات پر اتفاق ہو جائے اور آپ کوئی فیصلہ کر لیں تو اس پر جم جائیے۔پیش قدمی کیجیے اور اللہ پر بھروسہ رکھیے، کیوں کہ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اپنا معاملہ ا س کے سپرد کر دیتے ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے حسنِ اختیار پر یقین رکھتے ہیں۔)

وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ۔ (الانفال: ۶۰)

(اے مسلمانو! اپنے دشمنوں سے مقابلے کے لیے ہر ممکن تیاری کرو۔ قوت و طاقت کے مادی ومعنوی اسباب مثلاً سامانِ جنگ۔ اسلحے کو تیار رکھو اور جنگ کے فنون کو سیکھو، تاکہ اس قوت کے ذریعہ تم اللہ کے دشمنوں کو مرعوب و خائف کر سکو، خواہ ان کا تعلق کفار و مشرکین سے ہو یا اہلِ کتاب یا ملحدین سے۔ تاکہ اس قوت کے سبب اسلام کی ہیبت بیٹھ جائے۔ مسلمانوں کی عزت کی جائے۔ ان کی تعلیمات کی تقدیس کی جائے۔ حق بغیر طاقت کے ہو تو اس پر دست درازی کی جاتی ہے۔ ریاست کے پاس قوت نہ ہو تو اس کی عزت نہیں کی جاتی۔ اسے اہمیت نہیں دی جاتی۔ کمزور کو سبھی ہڑپنا چاہتے ہیں اور اس کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اسلام کے لیے طاقت کا حصول مطلوب ہے۔ ضروری ہے کہ گھوڑوں کو تیار رکھا جائے،اسلحہ تیار رکھا جائے، اموال جمع رکھے جائیں، فوجیں تربیت یافتہ رکھی جائیں، صنعت گاہیں قائم کی جائیں، ایجادات کا سلسلہ چلتا رہے، کیوں کہ اس قوت کے ذریعہ نہ صرف تم اپنے ان دشمنوں کو مرعوب کرتے ہو جنھیں تم جانتے ہو، بلکہ انھیں بھی ڈر اور خوف میں مبتلا رکھتے ہو جنھیں تم نہیں جانتے۔ تم اللہ کے راستے میں جو کچھ خرچ کروگے اور جو بھی کوشش کرو گے وہ تمھارے لیے اللہ کے یہاں محفوظ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ تم کو اس کے بدلہ بھر پور اجر سے نوازے گا اور دنیا میں بھی عزت و نصرت اور غلبہ و استحکام اور انعام و اکرام سے نوازے گا، جب کہ آخرت کے ثواب میں کوئی کمی نہ رہ جائے گی، بلکہ اللہ اپنے فضل و کرم سے اور زیادہ ہی ثواب عطا کرے گا۔)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دنیاوی زندگی کے لیے ایک ایسی حکمت عملی کی طرف رہنمائی کی، جس کا ہم کھلی آنکھوں مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا طاقت کے سامنے جھکتی ہے۔ ڈنڈے کی بات سمجھتی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلمان جب تک اس آیت کو سمجھتے رہے اور اس پر عمل کرتے رہے، تب تک وہ دنیا کی یک قطبی اور نا قابل شکست طاقت رہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سرکش شیاطین اس ڈنڈے کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے اہل حق کے پاس متوازن طاقت کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اسے قرآن مجید کا اعجاز کہیے کہ قرآن نے عالمِ اسباب میں اسباب کی تیاری کا حکم دیا۔ اس لیے کہ کائنات کا نظام معجزات پر نہیں مشاہدات و اسباب سے مربوط رکھا گیا ہے۔ اسباب کو اختیار کرنے کا حکم دینے کے لیے لفظ ”قوة“ کا استعمال کیا جس کی وسعت و گہرائی میں قرآن کے اعجاز کا راز پوشیدہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب جس زمانہ میں جو چیز قوت کا مظہر سمجھی جائے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسے تیار کریں، جو کچھ بھی پیمانۂ طاقت اور معیارِ قوت ہو، اس میں مسلمانوں کو لگ جانا چاہیے۔ اگر میڈ یا اصل طاقت بن جائے تو مسلمانوں کو اس میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔”قوۃ“ کا عام لفظ استعمال کرنے کے بعد”رباط الخیل“ کا خاص لفظ ذکر کر کے یہ واضح کر دیا کہ سامان جنگ اور اسلحہ بالکل تیار رکھا جائے اور گھوڑے کا ذکر کر کے یہ بتایا کہ جس زمانے کا جو اسلحہ سب سے کارگر ہو اُسے تیار کیا جائے۔ افسوس کہ ایسی بے مثال حکمتِ عملی ہمیں کتاب الہی میں دی گئی، لیکن آج عالمِ اسلام دولت کی ریل پیل کے باوجود بے حیثیت ہے۔ اس لیے کہ اس کے پاس طاقت نہیں۔ آج کی طاقت سائنس و ٹکنالوجی ہے، میڈیا ہے، اسلحہ کی صنعت ہے اور عالم اسلام بحیثیت مجموعی ان تینوں باتوں میں اغیار کا محتاج و دست نگر ہے۔ طاقت کا راز خود خدا نے فاش کیا کہ تمہارے دشمن تمہاری طاقت سے مرعوب ہوں، لیکن آج ہماری کمزوری اور مرعوبیت سب پر عیاں ہے۔ ہمارے مقدسات، ہماری تعلیمات اور ہماری شخصیات کی کھلے عام بے حرمتی کی جاتی ہے اور سوائے کڑھنے کے ہم کچھ نہیں کر پاتے اس لیے کہ ہم کمزور ہیں۔ ظالموں کے قانون میں کمزور کی جان کی کوئی قیمت ہوتی ہے نہ مال کی، ان کے مقدسات کی کوئی حیثیت ہوتی ہے نہ تعلیمات کی، آج کی ظالم دنیا اگر ہمارے ساتھ کہیں کچھ رعایت کرتی ہے تو صرف اس لیے کہ ہمارے بیشتر خوشحال ممالک اس کی منڈی اور اس کے صارف Consumer ہیں، ورنہ ہمارے دین کا استہزاء اور عالمی منظر نامہ پر اسلام کی تعلیمات کو بدنام کرنا آج کی مہذب دنیا کا سب سے بہترین مشغلہ ہے۔ تیسری بات اس آیت میں جو بہت خاص ہے، وہ ہے ”اعداد قوت“ کے ساتھ ”بقدر استطاعت“ کی قید۔ یعنی تم حسب استطاعت سامان قوت کی تیاری کرو۔ مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کی کامیابی کا مکمل دارو مدار ساز و سامان اور اسباب پر نہیں۔ ان کے لیے بالکل یہ ضروری نہیں کہ ان کے پاس ویسا ہی سامان ہو جیسا ان کے دشمن کے پاس ہے، بلکہ مطلوب یہ ہے کہ وہ ایمان و عمل صالح اور توکل علی اللہ کے ساتھ حسب امکان و سہولت اسباب جنگ کی بھی تیاری کریں۔ روحانیت کے ساتھ مادّی اسباب کی تیاری میں پیچھے نہ رہیں۔ یہ وہ راز ہے جس کو عرصہ سے مسلم دنیا نے فراموش کر دیا اس لیے خدائی قانون کے مطابق تائید و نصرت بھی روٹھ گئی۔ جتنی جلدی مسلمان اس حکمت عملی کو سمجھ کر عمل پیرا ہو جائیں گے اتنی جلدی تبدیلئ حالات کا دور شروع ہو جائے گا۔ ان ہدایات کی روشنی میں حماس نے بقدرِ استطاعت تیاری کی اور پھر اللہ پر توکل کرتے ہوئے پوری دنیا کو دکھا دیا کہ وہ جس کی طاقت کو ناقابلِ تسخیر سمجھ رہی ہے اس کی اور اس کی ٹکنالوجی اور آئرن ڈوم کی اس حکمتِ عملی کے سامنےکوئی حیثیت نہیں ہے، ناقابلِ تسخیر ہونے کا غبارہ پھوٹ گیا، ہوا نکل گئی، بے شمار بیانات موجود ہیں کہ غزہ کی جنگ میں اسرائیل سو فیصد ناکام ہوا ہے، سوائے اس کے کہ اس نے ہزاروں معصوموں کی جانیں لی ہیں اور ان کے گھر گرائے ہیں، لیکن وہ اخلاقی و نفسیاتی اور میدانی شکست سے دوچار ہوا ہے اور تقریباً ۲۰؍سال پیچھے پہنچ گیا ہے۔

فتح و نصرت کے لیے لازم ہے کہ آزمائش کے دور میں صبر و ثبات کو لازم سمجھا جائے، تقویٰ کو لازم پکڑا جائے، اپنی طاقت کو مجتمع رکھا جائے، آپسی افتراق و انتشار سے اپنی قوت کو ضائع نہ کیا جائے، اللہ کے لیے مخلص رہا جائے، دعا و ذکر کو حرزِ جاں بنایا جائے، طاعتِ الہی، طاعتِ رسول اور خشیتِ الہی ہی مطمحِ نظر ہو۔ ارشاد ربانی ہے:

وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ۔ (النور: ۵۲)

(جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے، اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کا لحاظ کرتا ہے۔ اس کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرے اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے، ان سے دور رہے۔ یہی وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ (آل عمران:۲۰۰)

(اے ایمان والو! تم پر لازم ہے کہ طاعت پر جمے رہو اور اچھی طرح ہوائے نفس اور رب کی مخالفت اور معاصی سے اجتناب کرتے رہو۔ قضا و قدر پر صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو۔ حق پر ڈٹے رہو اور دشمنوں سے مورچہ لینے میں صبر و ثبات کامظاہرہ کرو۔ میدانِ جنگ میں بھی ان کے مقابلہ پر ڈٹ کر جاؤ اور علمی شکوک و شبہات کو رفع کرنے میں ان کا بھرپور مقابلہ کرو۔ تم پر لازم ہے کہ عملاً جہاد کے لیے بھی مستعد رہو اور اوقاتِ عبادت کے لیے بھی تیار رہو اور پنج وقتہ نمازوں کے لیے مسجد کو لازم پکڑو۔ جب کہ نبی کریمﷺنے وضو اور مسجد کی طرف اٹھنے والے قدم کی کثرت اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کا ذکر کرتے ہوئے اسے ’’رباط۔ یعنی مستعدی اور تیاری‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ بس جس نے مصیبتوں پر صبر کیا اور مقابلہ میں ڈٹا رہا اور ہمیشہ مقابلہ کے لیے تیار رہا وہ کامیاب و کامران ہو گا۔ اسے جنت کی دائمی نعمت حاصل ہوگی۔ وہ اعلیٰ مقام حاصل کرے گا، بہترین و افضل ترین نعمتیں پائے گا، اس لیے اس نے ہر مقام پر اللہ کی عبودیت اختیار کی، بندگی کا ثبوت دیا اور اطاعت کی وہ احکام پر عمل کرتا رہا، معصیت سے بچتا رہا، آزمائشوں میں کھرا اترا، چناں چہ وہ اللہ کے مخلصین اور سچے محبوب بندوں میں شمار ہوا۔)

اس سورۃ کے اختتام پر شریعت کے حقوق ادا کرنے کی یہ جامع ترین ہدایت دی گئی ہے۔ پہلی ہدایت ’’اصبروا‘‘ کی ہے جس کا مطلب ہے کہ جو مصیبتیں بھی حق کی راہ میں پیش آئیں، ان کا مقابلہ کرو اور ان پر صبر کرو، عبادت میں مشقت ہو یا نفس کی خواہشات سے روکنا۔ جس سطح پر بھی زحمت اٹھانی پڑے اور مزاحمت کرنی پڑے تو کرو اور حق پر جمے رہو۔ دوسری ہدایت ’’صابروا‘‘ کی ہے یعنی خارجی آزمائشوں اور دشمنوں کی طرف سے پیش آنے والے مصائب و مشکلات کے مقابلہ پر صبر کرو اور ڈٹ جاؤ اور اس کے مقابلہ کی تیاری کے لیے تیسری ہدایت ’’رابطوا‘‘کی ہے کہ ہمیشہ ہر قسم اور ہر سطح پر مقابلہ کے لیے مستعد رہو۔ آخری نصیحت ’’واتقوا‘‘ کی ہے اس لیے کہ اللہ کا استحضار و خیال اور اس کا خوف ہی انسان کو احکامِ شریعت پر چلاتا ہے اور حقوق شریعت کا لحاظ کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اس اعتبار سے یہ آیت کریمہ انفرادی و اجتماعی کامیابی کے لیے شاہِ کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پر عمل کر کے فرد و ملت دونوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ۔ (الانفال: ۴۵- ۴۷)

(اے ایمان والو! میدانِ جنگ میں تمھارا کفار کے ٹولے سے مقابلہ ہو تو صبر کرو، ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو، تاکہ اللہ تعالیٰ نے تم سے مدد کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا کرے۔ کثرت سے اللہ کا ذکر کر کے اس سے مدد حاصل کیا کرو۔ ذکرِ الٰہی بہترین زادِ راہ، طاقت ور ہتھیار اور جہاد کی بہترین تیاری ہے۔ ذکر الہٰی سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں، مصیبتیں دور ہوتی ہیں، برکتیں حاصل ہوتی ہیں، صبر و شکر کے ذریعہ عظیم کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ اس جگہ پر اللہ نے اپنے ذکر کا خاص طور پر تذکرہ کیا ، اس لیے کہ انسان مشکلات کے وقت اپنے محبوب کو یاد کرتا ہے اور مؤمنین کے لیے سب سے محبوب ذات اللہ کی ہے، سب سے افضل عمل اللہ کا ذکر ہے اور سب سے مشکل کام جہاد ہے، اس مشکل کام کے لیےمناسب نسخہ اللہ نے اپنا ذکر تجویز کیا، تاکہ اس کی جلالت و عظمت اور ذکر کے عظیم فوائد کے سب جہاد جیسے مشکل عمل میں سہولت ہو۔ اگر ذکر کے لیے کوئی اور فضیلت نہ بیان کی جاتی تو بس یہی کافی تھا کہ ذکر کرنے والے دنیا و آخرت کی خیر حاصل کرنے میں سبقت کرنے والے اور کامیاب ہونے والے ہوں گے۔ اور جب مڈ بھیڑ ہو تو تم پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت لازم ہے۔ اس کے احکام کی اتباع اور اس کے نواہی سے اجتناب کرو۔ آپس میں اختلاف و جھگڑا نہ کرو، ورنہ تمھاری طاقت کمزور ہو جائے گی، تمھاری ہیبت جاتی رہے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی، کامیابی تم سے روٹھ جائے گی اور نصرت سے محروم ہو جاؤ گے۔ سختیوں پر جمے رہو اور مصائب کے مقابلہ پر ڈٹے رہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کی تائید کرتا ہے اور اپنی نصرت سے ان کا اکرام فرماتا ہے۔ یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اجتماعیت اور اطاعت میں قوت کا راز پوشیدہ ہے، اسی کے ذریعہ نصرت و کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اختلاف اور بزدلی ناکامی اور شکست کا سبب بنتی ہے۔ اے ایمان والو! ان مشرکوں کی طرح بننے سے بچو جو مکہ سے بدر کے لیے طاقت و قوت اور دولت کے نشہ میں چور ہو کر فخر کرتے ہوئے، غرور و گھمنڈ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکلے۔ وہ لوگوں کو اپنی طاقت دکھا رہے تھے، تاکہ انھیں اسلام سے روک سکیں اور ان کی تعریفیں لوٹ سکیں، وہ جو کچھ کرتے ہیں، اللہ سب جانتا ہے وہ ان کے تمام کرتوتوں سے واقف ہے۔ اس نے ان کے تمام اقوال و اعمال کو نوٹ کر رکھا ہے، تاکہ یہ لوگ عذاب کا مزہ چکھ سکیں۔)

ان سب آیات میں متعدد ہدایات دی گئی ہیں، لیکن ہم نے دیکھا کہ صبر کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور بار بار اس کی تلقین کی گئی ہے، در اصل آزمائش میں صبر کی اہمیت دو بالا ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نظام یہ ہے کہ انسان کو صبر کے ذریعہ بھی آزماتا ہے اور شکر کے ذریعہ بھی آزماتا ہے، بلکہ اس نے موت و حیات کو بھی آزمائش قرار دیا ہے۔ الّذِی خَلَقَ الْمَوْت وَ الْحیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ۔ (الملک: ۲) صبر کرنے والوں کی اس نے تعریف کی ہے: وَالصَّابِرِیْنَ فِی البَأسَاءِ۔ (البقرۃ: ۱۷۷)(تنگی و مصیبت کی گھڑی ہو….ہر حال میں صبر کرنے والے ثابت قدم ہوتے ہیں)۔

صبر کے ذریعہ قوت و مدد حاصل کرنے کی تلقین کی ہے اور پھر صبر کرنے والوں حفاظت و مغفرت کی بشارت دی ہے۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُـوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ اِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ ۔ (البقرۃ: ۱۵۳)

(مسلمانو! صبر اور نماز (کی معنوی قوتوں) سے سہارا پکڑو۔ یقین کرو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔)

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔ (الانفال: ۴۶)

(اور اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ایسا کروگے تو تمھاری طاقت سست پڑ جائے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی اور (جیسی کچھ بھی مشکلیں مصیبتیں پیش آئیں) تم صبر کرو، اللہ ان کا ساتھی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔)

وَلَمَنْ صَبَـرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۔ (الشوریٰ: ۴۳)

(مگر جو صبر کرے اور دوسروں کی خطا بخش دے تو یہ بڑی ہی عالی حوصلگی کے کام ہیں۔)

قرآن مجید کی متعدد آیات صبر کو انبیاء کی صفت قرار دیتی ہیں، اور یہ واضح کرتی ہیں کہ آزمائشوں پر صبر فتح و نصرت اور فلاح کی شاہِ کلید ہیں، محمود بن لبید کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: إنَّ اللهَ إذا أَحَبَّ قومًا ابتلاهم ، فمن صبر فله الصبرُ ، و من جزع فله الجزَعُ۔ (الترغیب و الترھیب)

(اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان پر آزمائش ڈالتا ہے، جو صبر سے کام لیتا ہے، اس کے لیے صبر ہے اور جو جزع فزع کرتا ہے اس کے لیے جزع ہی ہے۔)

اور حضرت صہیب کی بڑی مشہور روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: عَجَباً لأمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَلِكَ لأحَدٍ إِلاَّ للْمُؤْمِن: إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْراً لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خيْراً لَهُ۔ (مسلم)

(مؤمن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔اور یہ بات مؤمن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔جب اُسے خوش حالی میسر آتی ہے تو(اللہ کا) شکر کرتا ہے۔اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے ،یہ بھی فی الوقت اس کے لیے بھلا ہوتا ہے ۔)

پھرسب سے اہم بات یہ ہے کہ موت کا خوف دل سے نکال دیا جائے، کیوں کہ اس کے بغیر شجاعت و پامردی اور قربانی و آزمائش سے گذرنے کا حوصلہ پیدا ہی نہیں ہوتا!

أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا ۔(النساء:۷۸)

(تم جہاں بھی رہو اور جتنا بھاگو موت تو تم کو آ کر رہے گی خواہ تم مضبوط اور بند قلعہ میں ہو، کوئی حیلہ موت سے نہیں بچا سکتا، کوئی دوا موت نہیں روک سکتی۔ پھر خدا تعالیٰ نے یہ واضح فرما دیا کہ جب ان منافقین کو دنیاوی زندگی میں کچھ فائدہ پہنچتا ہے، ان کے اموال و اولادمیں اضافہ ہوتا ہے، یا ان کو مالِ غنیمت ہاتھ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہمارا مقام ہونے کی وجہ سے ہمیں حاصل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں ہمارے لیے خاص کی ہیں اور جب ان کو موت کی مصیبت پہنچتی ہے یا کوئی مرض لاحق ہوتا ہے یا فقر و فاقہ کی مصیبت آتی ہے یا شکست ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ رسالت محمدی کی ’’نحوست‘‘ کے سبب ہے۔ (العیاذ باللہ) چوں کہ ہم نے ان کا اتباع کیا اسی لیے ہم اس مصیبت میں گرفتار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کو حکم دیا کہ انھیں بتلا دیں کہ اے عقل سے عاری لوگو! جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ قضائے الٰہی میں مقدر ہوتا ہے، خیر ہو یا شر، پہلے سے تقدیرِ الہٰی میں لکھی ہوئی ہے۔ ان نا سمجھوں کو کیا ہو گیا کہ یہ دین کا مفہوم ہی نہیں سمجھتے۔ مصالح شریعت ہی نہیں سمجھتے۔ ظاہر ہے کہ منافق کو دین کی سمجھ ہی نہیں ہوتی۔ شریعت کے سلسلہ میں منافق کی عقل مریض ہوتی ہے۔)

اسبابِ نصرت و فتح کے باب میں آخری بات یہ ہے کہ خود کو عقل کُل نہ سمجھا جائے، نہ ہی اہل علم و فکر اور اصحاب رائے سے کنارہ کشی کی جائے، رسول اللہﷺہمیشہ اپنے صحابہ سے مشاورت کرتے تھے، قرآن مجید اہلِ ایمان کا یہ وصف بیان کرتا ہے کہ: وَالَّـذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِـمْ وَاَقَامُوا الصَّلَاةَۖ وَاَمْرُهُـمْ شُوْرٰى بَيْنَـهُمْۖ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُـمْ يُنْفِقُوْنَ ۔(الشوریٰ: ۳۸)

(ان نیک لوگوں کی صفات میں سے یہ ہے کہ انھوں نے کتاب اللہ کی بات مانی، نبی کریمﷺ نے انھیں ایمان اور مخلصانہ عبادت کی دعوت دی تو اس کو قبول کیا۔ نماز کو اس طرح پورے اہتمام کے ساتھ ادا کیا جیسے اس کا حکم دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات میں آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی اپنی رائے پر کسی دوسرے مسلمان بھائی کو مجبور نہیں کرتا۔ چناں چہ وہ اپنے اور اللہ کے درمیان تعلق کو نماز کے ذریعہ مضبوط کرتے ہیں۔ وہ اپنے اور مسلمانوں کے درمیان تعلق کو مشورے اور نصیحت کے ذریعے مضبوط کرتے ہیں اور اللہ نے ان کو جو کچھ عطا فرمایا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں، علم، مال اور عہدہ و منصب سب کے ذریعے دین کی اور خلقِ خدا کی خدمت کرتے ہیں۔)

حالات کے تناظر میں قرآن مجید کے فلسفہ آزمائش و نصرت کو سمجھنا ضروری ہے، جن لوگوں کے پاس سرسری معلومات ہوتی ہیں، یا جن کا قرآن مجید کا مطالعہ نظریاتی ہوتا ہے، جو اس نظر سے قرآن نہیں پڑھتے، جس نظر سے صحابہ پڑھا کرتے تھے، وہ عام طور پر آزمائشوں سے پریشان ہو جاتے ہیں، کم علم اور کمزور ایمان کے لوگ الحاد کی طرف بڑھنے لگتے ہیں، حالاں کہ قرآن مجید میں ان کے لیے سامان تسلی موجود ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کو صاحبِ ایمان کی نظر سے پڑھیں، غیر متزلزل ایمان کے ساتھ اس کا مطالعہ کریں، اس موضوع پر مزید تفصیل اور بہتر تنظیم و ترتیب کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے، لیکن ضروری خیال ہوا کہ حالات کے تناظر میں سرسری طور پر ایک مطالعہ پیش کر دیا جائے، اور اس باب میں قرآنی بیانیہ کو وضاحت سے سامنے رکھ دیا جائے، قرآن مجید اس پورے فلسفہ کو ایک فقرہ میں بیان کر دیتا ہے۔

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ۔ (آلِ عمران: ۱۳۹)

(اے مسلمانو! تم بزدل و کمزور مت پڑو۔ وہن’’یعنی دنیا کی محبت اور موت سے خوف‘‘ تمھارے عزائم کو کمزور نہ کرے، راہِ خدا میں جو پریشانیان جھیل رہے ہو ان پر غم نہ کرو، اس لیے کہ حسنِ انجام تو تمھارے لیے ہی ہے، تم ہی بلند و غالب اور کامیاب رہو گے۔ اللہ تمھارا مولیٰ ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ تمھارے رسول ہیں۔ قرآن مجید تمھاری کتاب ہے۔ جنت تمھارا ٹھکانہ ہے۔ کفار کا کوئی مولیٰ نہیں ہے۔ فسادان کا راستہ ہے۔ گمراہی ان کا طریقہ ہے۔ جہنم ان کا ٹھکانہ ہے۔ اے مسلمانو! تم اس دنیا میں خوش بخت ہو، اس لیے کہ تمھارے دل ہدایت سے معمور ہیں، تمھارے مقتولوں کے لیے مرتبۂ شہادت ہے، تمھارے مردوں کے لیے اجر عظیم ہے۔ تمھاری اور کفار کی کوئی برابری نہیں ہے۔ تم نیکوکار و ابرار ہو۔ تم نے اللہ کو راضی کیا ہے، جب کہ وہ شریر و فاجر ہیں۔ ان کے لیے بدترین ٹھکانہ اور اللہ کا عذاب ہے۔)

ساتھ ہی اس فلسفہ کی بنیاد فراہم کرتے ہوئے قرآن مجید اس طرح تلقین کرتا ہے:

وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْم إِنْ تَكُونُوا تَأْ لَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْ لَمُونَ كَمَا تَأْ لَمُونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللهِ مَا لَا يَرْجُونَ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا۔ (النساء: ۱۰۴)

(دشمنوں کے تعاقب میں وہن کا شکار مت ہونا یعنی دشمنوں کا پیچھا کرنے میں نہ ڈرنا ، نہ بزدلی دکھانا۔ اگر تم کو تکلیف ہوتی ہے، نقصان ہوتا ہے تو وہ بھی تمھاری طرح ہی انسان ہیں، ان کو بھی تکلیف پہنچتی ہے، لیکن ان کے اور تمھارے درمیان واضح فرق یہ ہے کہ تم اللہ سے اجر و ثواب اور اچھے انجام کی امید رکھتے ہو۔ جب کہ ان کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ تو اس کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ انھیں خدا سے کسی خیر کی امید ہی نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون دشمن سے جہاد کرنے میں اپنی نیت میں سچا ہے اور اللہ کی رضا کا طلب گار ہے، اس کے احکام حکمت پر مشتمل ہیں، جن کو اس نے عدل و حکمت کے ساتھ حالات و مقام اور مشکلات کے موافق و مناسب اتارا ہے۔)

موجودہ صورت حال کا جائزہ لیجیے، عالمِ اسلام مغرب کی خواہشات پر عمل کرنے میں مقابلہ آرائی کر رہا ہے، اہلِ منصب کفار کی آراء پر سر دھن رہے ہیں، حالاں کہ نبیﷺکو سب سے منہ موڑ کر اپنے دین پر استقامت کا حکم دیا گیا تھا، جب صورت حال یہ ہو گئی ہے تو من حیث الامت ہم نصرت خداوندی کے حق دار کیسے ہو سکتے ہیں؟

فَلِذٰلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِــعْ اَهْوَآءَهُـمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ مِنْ كِتَابٍ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اللٰهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللهُ يَجْـمَعُ بَيْنَنَا وَاِلَيْهِ الْمَصِيْـرُ۔ (الشوریٰ: ۱۵)

(پس دینِ اسلام جو تمام انبیا کا دین ہے۔ اے نبیﷺآپ اسی کی طرف دعوت دیں، لوگوں کو اسی کی طرف بلائیں اور اپنے دین پر، اللہ کے حکموں کی اطاعت کیجیے اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے، ان سے رکے رہیے اور ایسے ہی جمے رہیے جیسے اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے اور تاکید و وصیت فرمائی ہے۔ بس اسی کے مطابق استقامت کا مظاہرہ کریں ،گویا علم پر عمل اور اتباع مطلوب ہے نہ کہ کچھ نیا ایجاد کرنا۔ کفار کی گمراہ کن آراء اور ان کے خیالات کی اتباع نہ کیجیے، بلکہ اللہ کی طرف سے نازل کی جانے والی وحی کو لازم پکڑیے۔ چناں چہ اللہ کے احکامات کو لازم پکڑنا اور اس کے مخالف و معارض جو بھی رائے ہو اس کو چھوڑ دینا ہی اصل ہے۔ اے نبیﷺ آپ کہہ دیجیے کہ میں ان تمام کتابوں کی تصدیق کرتا ہوں جو اللہ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائیں اور اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے درمیان فیصلہ کرنے میں انصاف کروں۔ اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کروں نہ کہ اجرت و معاوضہ کی بنیاد پر۔ اللہ ہی ہمارا اور تمھارا رب ہے، اس لیے واجب ہے کہ صرف اسی کی بندگی کی جائے، ہمیں ہمارے اچھے اعمال کا بدلہ ملے گا اور تم کو تمھارے برے اعمال کی سزا ملے گی۔ حق ظاہر ہونے اور حجت قائم ہونے کے بعد ہمارے تمھارے درمیان کوئی جھگڑا اور تکرار نہیں۔ اللہ قیامت کے دن ہم سب کو جمع کرے گا تاکہ ہمارے درمیان جن چیزوں میں اختلاف ہے ان کا فیصلہ کر دے۔ اسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے پھر وہ عمل کرنے والے کو اس کے اچھے برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔)

استقامت نصرتِ الہٰی کی ضمانت ہے، استقامت کے سبب ہی خوف کی نفسیات سے نجات ملتی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ (الاحقاف: ۱۳)

(بے شک جن لوگوں نے کہا: اللہ ہمارا رب ہے، انھوں نے اس کی ربوبیت و الوہیت کی گواہی دی۔ اس کی اطاعت پر جمے رہے اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں سے گریز کرتے رہے، انھیں آئندہ پیش آنے والے خطرات و ہولناکیوں کا کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ ہی انھوں نے جو اعمال کیے اور جو مال و اولاد چھوڑا اس کا کوئی غم ہوگا۔)

اسی استقامت و ثبات اور حق پر جم جانے کے نتیجے میں اصحابِ کہف کی نصرت کی گئی اور فرمایا گیا:

نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاَهُـمْ بِالْحَقِّ اِنَّـهُـمْ فِتْيَةٌ اٰمَنُـوْا بِرَبِّـهِـمْ وَزِدْنَاهُـمْ هُدًى۔ وَرَبَطْنَا عَلٰى قُلُوْبِـهِـمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَ مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اِلٰـهًا ۖ لَّـقَدْ قُلْنَـآ اِذًا شَطَطًا۔ (الکہف: ۱۳-۱۴)

(اے نبیﷺ! اللہ تعالیٰ اصحابِ کہف کا قصہ آپ کو سچائی اور یقین کے ساتھ سنا رہا ہے۔ یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے اپنے رب کی وحدانیت کا اقرار کیا، اس کی اطاعت کی تو اللہ نے ان کے ایمان، یقین اور ہدایت میں اضافہ کر دیا اور انھیں حق پر استقامت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایمان کے ساتھ مضبوط کر دیا، اس وقت انھیں عزیمت پر قائم رکھا، جب کہ وہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی خاطر کھڑے ہوئے۔ بادشاہ انھیں اللہ کی بندگی کرنے اور بت پرستی کو ٹھکرانے کے سبب ملامت کر رہا تھا، لیکن وہ نوجوان جواب دے رہے تھے کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے۔ہم اس کی توحید کے قائل ہیں جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، ہم نہ اس کے علاوہ کسی اور کی بندگی کرتے ہیں اور نہ کسی اور کو یکتا و تنہا جانتے ہیں۔ اگر اس کے علاوہ ہم کوئی اور بات کہیں گے تو اس کا مطلب کہ ہم جھوٹ بولیں گے، ناحق بات کہیں گے اور حق سے گمراہ ہوں گے۔)

ان چند نصوص کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے، یہاں حالات کو اسباب و عمل سے مربوط رکھا گیا ہے، عروج و زوال اور آزمائش و نصرت کے اسباب کتاب و سنت میں واضح کر دیئے گئے ہیں، عارضی طور پر امت اس وقت دورِ زوال سے گزر رہی ہے، کتاب و سنت اور منہج نبوی سے بُعد کے سبب مبتلائے آزمائش ہے، لیکن ظلمت کے یہ بادل چھٹیں گے، اسباب تبدیل ہوں گے، یہ امت پھر صراطِ مستقیم پر گامزن ہوگی، نہ صرف اپنے حقوق حاصل کرے گی، بلکہ اپنے منصب کے مطابق اقدام و عمل کرتے ہوئے نظامِ عدل قائم کرے گی اور پوری دنیا میں حق و انصاف کی روشنی بکھیرے گی۔ ان شاء اللہ العزیز۔

٭٭٭

Comments are closed.