Baseerat Online News Portal

صدقہ کرنے کے آداب وفوائد

 

مولاناانیس الرحمن قاسمی
چیئرمین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن وقومی نائب صدرآل انڈیا ملی کونسل (نئی دہلی)

(1) ایسا صدقہ جو اللہ کے لیے ہو وہ اللہ کے نزدیک مقبول ہوتا ہے اورآخرت میں اس کا اجر ملتا ہے۔اللہ جل شانہ نے حکم دیا ہے کہ پاک و حلال مال سے خرچ کرو۔ارشاد الٰہی ہے:
”اے ایمان والو! اللہ کی راہ میں اپنی کمائی سے عمدہ چیزوں کو خرچ کرو اور ان چیزوں میں سے جن کو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا ہے اور جو ردی اور ناکارہ چیز ہو اس کو دینے کا ارادہ (بھی) نہ کرو کہ (راہ خدا میں) اسی میں سے خرچ کرنے لگو،حالاں کہ تم خود بھی اس کو لینے والے نہیں ہو سوا اس کے کہ تم چشم پوشی کرواورجان لو کہ اللہ غنی اورمحمود ہے“۔ترجمہ (سورہ بقرہ:267)
(2) دوسرا حکم یہ ہے کہ کسی کو مال دے کر اس پر احسان نہ جتلائے۔طنز کرکے اس کو تکلیف نہ دے،یا لوگوں کے سامنے رسوا نہ کرے،اس کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہونچائے اوردینے میں دکھاوا نہ کرے۔اللہ جل شانہ نے حکم دیا ہے:
”اے ایمان والو! مت ضائع کرو اپنی خیرات احسان رکھ کر اور ایذا دے کر، اس شخص کی طرح جو خرچ کرتا ہے ا پنا مال،لوگوں کے دکھانے کو اور یقین نہیں رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر“۔ترجمہ (سورہ بقرہ:264)
(3) مال دینے والے میں اس کی نیت خالص اللہ کے لیے ہو اوراس سے آخرت میں اللہ کی طرف سے جہنم کی آگ سے چھٹکارا لینے اورجنت کے حصول کا امیدوار ہو، اگر وہ اپنی ذات پر یا اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے تو اللہ کی اس نعمت پر حمد وشکر بجالائے اور جنت کی امید رکھے،فقراومساکین پر یا فلاحی کاموں اورخیر کے امور میں خرچ کرے تو اللہ سے اجر وثواب کی امید رکھے اورنیت کو خالص کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
”تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو، یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی، جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے“۔ترجمہ (صحیح بخاری،حدیث نمبر:1)
اس لیے جو شخص اس دنیا میں دکھانے کے لیے خرچ کرے گا تواس دنیا میں لوگ اس کی تعریف کریں گے؛ مگرآخرت میں وہ کوئی اجر نہیں پائے گا۔حضرت سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے جدا ہوئے تو ناتل جو کہ اہل شام میں سے تھا(ناتل بن قیس خرامی یہ فلسطین کے رہنے والے تھے اور تابعی ہیں، ان کے والد صحابی ہیں) نے کہا کہ اے شیخ! مجھ سے ایک ایسی حدیث بیان کرو، جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا ہے:
”قیامت میں پہلے جس کا فیصلہ ہو گا، وہ ایک شخص ہوگا، جو شہید ہوگیا تھا،جب اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمت اس کو بتلائے گا، وہ پہچانے گا۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے اس کے لیے کیاعمل کیا ہے؟ وہ بولے گا کہ میں تیری راہ میں لڑتا رہا،یہاں تک کہ شہید ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے جھوٹ کہاتو اس لیے لڑا تھا کہ لوگ تجھے بہادر کہیں اور تجھے بہادر کہا گیا۔پھر حکم ہو گا اور اس کو اوندھے منہ گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ایک شخص ہو گا جس نے دین کا علم سیکھا اور سکھلایا اور قرآن پڑھا، اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں دکھلائے گا وہ شخص پہچان لے گا، تب کہا جائے گا کہ تو نے اس کے لیے کیا عمل کیاہے؟ وہ کہے گا کہ میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ تو نے اس لیے علم پڑھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن تو نے اس لیے پڑھا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں، دنیا میں تجھ کو عالم اور قاری کہا گیا۔ پھر حکم ہو گا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ایک شخص ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال دیا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں دکھلائے گا اور وہ پہچان لے گا، تو اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے اس کے لیے کیا عمل کیے؟ وہ کہے گا کہ میں نے تیرے لیے مال خرچ کرنے کی کوئی راہ ایسی نہیں چھوڑی جس میں تو خرچ کرنا پسند کرتا تھا مگر میں نے اس میں خرچ نہ کیاہو تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹا ہے، تو نے اس لیے خرچ کیا کہ لوگ تجھے سخی کہیں تو لوگوں نے تجھے دنیا میں سخی کہہ دیا۔پھر حکم ہو گا اور اسے منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا“۔ترجمہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:1905)
(4) مال خرچ کرنے کا چوتھا ادب یہ ہے کہ جب بھی کوئی چیز کھانے، پینے،پہننے وغیرہ کاکسی کو دے تو اچھا سے اچھادے اوراپنے لیے جو پسند کرے،وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرے۔اللہ کے یہاں بہتر اجر اس بہتر مال کو خرچ کرنے پر ملے گا جو اس کو پسند ومحبوب ہو،ایسا نہ ہوکہ اپنے لیے عمدہ پسند کرے اوردوسرے کو دے تو خراب دے۔اللہ جل شانہ نے فرمایاہے:
”تم اس وقت تک ہرگز نیکی نہ پا سکوگے،جب تک تم اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ خرچ نہ کرو،جو کچھ تم خرچ کرتے ہو،اس کو اللہ جانتا ہے“۔ترجمہ (سورہ آل عمران:92)
(5) مال خرچ کرنے کا پانچواں ادب یہ ہے کہ مال خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لے،ایسا نہ ہو کہ جس مال کو اللہ نے دیا ہے،اسے اہل وعیال ورشتہ داروں کا خیال کئے بغیر پورا کا پورا دوسرے کاموں میں خرچ کردے۔اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:
”اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے“۔ترجمہ (سورہ فرقان:67)
(6) چھٹا ادب یہ ہے کہ دن اوررات،کھلے اورچھپے جب ضرورت ہو، خرچ کرے،اس کی اجازت ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
”بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور انھوں نے نماز قائم کی اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا اس میں سے انھوں نے پوشیدہ اور ظاہری (طورپر) خرچ کیا، وہ ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جوکبھی برباد نہ ہو گی؛ تاکہ وہ انھیں ان کا اجر پور ے پورے دے اور اپنے فضل سے انھیں زیادہ بھی دے، بلا شبہ وہ بے حد بخشنے والا، نہایت قدردان ہے“۔ترجمہ (سورہ فاطر:29-30)
(7) ساتواں ادب یہ ہے کہ ہر شخص اپنی مالی وسعت کے حساب سے خیر کے کاوں میں خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:
”لازم ہے کہ وسعت والا اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا؛ مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کر دے گا“۔ترجمہ (سورہ طلاق:7)
”اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن میں اس نے تمہیں (پہلوں کا) جا نشین بنایا ہے، پھر وہ لوگ جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے خرچ کیا، ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے“۔ترجمہ (سورہ حدید:7)
خرچ کرنے کے فوائد:
(1) صدقہ کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جوشخص کسی تنگدست پر آسانی کرے گا، اللہ اس پر دنیا اورآخرت میں آسانی کریں گے۔اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لیے فرشتے اضافہ مال کی دعا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
”کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ!ممسک اور بخیل کے مال کو تلف کر دے“۔ترجمہ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:1442)
شیطان خرچ کرنے والوں سے ناخوش ہوتا ہے،وہ لوگوں کے دلوں پہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ خرچ کرنے سے مال ختم ہوجائے گا؛مگر ایمان والے خرچ کرنے کو مغفرت وثواب اورخیر وبرکت کا ذریعہ یقین کرتے ہیں۔اللہ جل شانہ نے فرمایاہے:
”شیطان وعدہ دیتاہے تم کو تنگ دستی کا اورحکم کرتاہے بے حیائی کا اور اللہ وعدہ دیتا ہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کا اور اللہ بہت کشائش والا ہے، سب کچھ جانتا ہے“۔ترجمہ (سورہ بقرہ:268)
اللہ جل شانہ نے ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایاہے:
”اور تم خیر میں سے جو بھی خرچ کرو گے سو تمہارے اپنے ہی لیے ہے اور تم خرچ نہیں کرتے؛مگر اللہ کا چہرہ طلب کرنے کے لیے اور تم خیر میں سے جو بھی خرچ کرو گے، وہ تمھیں پورا ادا کیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا“۔ترجمہ (سورہ بقرہ:272)
”کہہ دے بے شک میرا رب رزق فراخ کرتاہے اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے اور اس کے لیے تنگ کر دیتا ہے اور تم جو بھی چیز خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ اور دیتا ہے اور وہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے“۔ ترجمہ (سورہ سبا:39)
اورحدیث شریف میں انفاق کی فضیلت کی تاکید آئی ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں صدقہ کرنے سے مال میں اورعمر میں زیادتی اورگناہوں کی معافی کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
(2) صدقہ مصائب اوربلاؤں کو دور کرتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے:
”صدقہ دینے سے کو ئی مال نہیں گھٹا اور جو بندہ معاف کر دیتا ہے اللہ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے“۔ترجمہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:6592)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے، جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا نہیں ہوتا، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا درس و تدریس کرتے ہیں؛ مگر ان پر سکینت (اطمینان و سکون قلب) کا نزول ہوتا ہے اور (اللہ کی) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین میں جو اس کے پاس ہوتے ہیں، ان کا ذکر کرتا ہے اور جس کے عمل نے اسے (خیر کے حصول میں) پیچھے رکھا، اس کا نسب اسے تیز نہیں کرسکتا“۔ترجمہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:6853)
(3) صدقہ دینے اورلوگوں کی ضرورت میں خرچ کرنے سے آپس کے کینے دور ہوتے ہیں۔غرباومالداروں کے درمیان بغض پیدا نہیں ہوتا ہے؛اس لیے مال والوں کو چاہیے کہ وہ ضرورت مندوں پر اپنا مال خرچ کرتے رہیں،اس سے دنیا وآخرت میں فلاح وکامیابی ملے گی۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح راستے میں خرچ کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔(آمین)

Comments are closed.