Baseerat Online News Portal

خواتین اور رمضان

ام ھشام نوریہ (ممبئی)
رمضان المبارک، اسلامی تاریخ و ثقافت کا ایک معروف ،محترم اور بابرکت مہینہ ہے , یہ نزول قرآن اور اللہ کی خاص رحمتوں سے گھرا ہو امہینہ ہے جتنا معظم و محترم مہینہ اتنی ہی پر مشقت اور صبر آزما اسکی محنتیں , انسان کو اسکی برکات اور نعمتوں سے فیضیابی تبھی مل سکےگی جب وہ اپنے آپ کو ان تمام چیزوں کے لیے تیار کر پائیگا۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :یاایھالذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون (البقرۃ.183)اے ایمان والوں . تم پر روزے فرض کیے گئےہیں جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا امید ہے کہ تم میں تقوی کی صفت پیدا ہوگی۔”اے ایمان والوں کا خطاب ربانی دونوں صنفوں کے لیے ہے مرد ہو یا عورت اور قرآن کریم نے جن صفات کو مردوں کے لیے بنظر استحسان دیکھا ہے وہی صفات عورتوں کے لیے بھی پسند فرمائی ہے یہ اسلام کی عظیم خوبیوں میں سے ہے کہ وہ دنیوی اور اخروی کامیابی کا جو معیار مردوں کے لیے رکھا ہے بعینہ عورت کے لیے بھی وہی ہے دونوں کو نماز،روزہ، زکوۃ،حسن اخلاق ,ادائیگی حقوق کا یکساں ذمہ دار ٹھراتا ہے۔
اللہ فرماتا ہے …من عمل صالحا من ذکر او انثی و ھو مومن فلنحیینہ حیاۃ طیبۃ و لنجزینھم اجرھم باحسن ما کانوا یعملون (النحل :96)‌جس مومن مرد یا عورت نے نیک عمل کیے اور وہ مومن ہے تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ان کے انجام دیےاعمال کے بدلے بہتر اعمال کا بہترین اجر وثواب عطا فرمائیں گے ۔
‌رمضان المبارک کا یہ عظیم مہینہ آج ہمیں اپنےگھیرے میں لیے ہوئے ہے ,کہیں شب وروز اللہ اکبر کی صدائیں ,نالہ نیم شب کی سرگوشیاں , اللہ کے بندوں کی اسکی جنت کو پانے کی سعی مسلسل ,اور جہنم سے گلو خاصی کے لیے گناہوں سے دامن چھڑانا ,حاجت منداور مفلوک الحال لوگوں کی دادرسی کرنامعلوم ہوتا ہے ہم کسی نئی دنیا میں آگیے ہیں جہاں معصیت ,نافرمانی , فسق و فجور کا کوئی شائبہ نہیں اس ماہ مبارک کی تیاریوں میں اگر ہم خواتین کے احسان مند نہ ہوں تو یہ زیادتی ہوگی ,انکی بے لاگ محنت کے نتیجے میں ہی اہل خانہ کو عبادت کا موقع ملتا ہے اور سبھی کی ضروریات وقت پر مکمل ہوجاتی ہیں -بلا شبہ اللہ نے انھیں ایک عظیم ذمہ داری عطا کررکھی ہے اور اسکے صحیح طور پر ادا کرنے میں انکی دنیوی اور اخروی کامیابی ہے لہذا اگر تھوڑی سی منصوبہ بندی کرلیجائی تو رمضان المبارک کے مہینہ میں اپنے اوقات کو بہتر طریقے سے گزارا جاسکتاہے اور مردوں کی طرح عورتیں بھی اپنی تمام تر مصروفیات میں گھر کر بھی رب ذو الجلال سے اپنا خصوصی تعلق قائم کرسکتی ہیں ۔
تو آئیے !!!! قبل از رمضان ہی اسکی تیاریوں میں لگ جائیں ,ہمارے لیے کچھ ایسے کم ہوتے ہیں جو ناگزیر ہوتے ہیں جنھیں موخر نہیں کیا جاسکتا جن میں سب سے پہلے شامل ہے عید کی تیاری ، اہل خانہ کے ملبوسات اور دیگر سامان،رمضان میں استعمال ہونے والے اشیاء خوردو نوش اور دیگر ضروری چیزیں ..ان سبکی خریداری اخیر شعبان تک کرلینی چاہیے تاکہ رمضان المبارک کے عظیم مہینہ کے بابرکت ایام بازاروں میں پھرتے ہوئے نہ بیتیں۔ہمارے کرنے کا پہلا کام یہ ہیکہ جس طرح استقبال رمضان کو گھر کی خصوصی صفائی اور اضافی جھاڑ پونچھ میں پوری توجہ دی جاتی ہے اسی طرح ہمیں اہنے باطن میں بھی شیشہ دل کو صاف کرنا چاہیے , دل سے رذالتوں اور غلاظتوں کا صفایا کرنا ہوگا تاکہ ایک صاف ستھرے دل کیساتھ ہم اللہ کی اس عظیم عبادت کا حق ادا کرسکیں اسمیں کوئی کھوٹ یا ملاوٹ نہ ہو۔ رمضان کو محض ذمہ داریوں اور آرام میں خلل مان کر اگر ہم میں سے کچھ لوگ بوجھ سمجھ رہے ہیں توہمیں اپنی ایمان کو چیک کرنے کی اشد ضرورت ہے سب سے پہلے ہم اپنے ارادہ کو مضبوط اور نیتوں کا خالص کرلیں کیونکہ مضبوط اراہ انسان کو کسی بھی کام کے لیے چوکس اور متحرک بناتا ہے،اور اسی چوکسی کی رمضان میں زیادہ ضرورت ہوتی ہےاور اگر ہمارے کام کی نیت درست ہو تو اسمیں نتیجہ خیزی بھی پیدا ہوتی ہےاور ہمیں ہماری محنت کا ثمرہ جلد ہی نظر آنے لگتا ہے مثلا سچے دل اور لگن سے کی گئ عبادتوں کا یہ تغیر حیرت انگیز اور انقلابی ہوتا ہےجسے حدیث مبارکہ یوں بیان کرتی ہے-عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ” رواه البخاري 37 ومسلم 7599 .اللہ کے رسول نے فرمایا جس نے رمضان کو (روزوں ) ایمان اور احتساب کی حالت میں قائم کیا اسکے گزشتہ گناہ معاف کردیے جا تے ہیں۔اور پھر ایسے انسان کی دنیا بدل جاتی ہے رمضان میں ایمان کے جس درجہ پر وہ کھڑا تھا بعد از رمضان اس سے آگے پہنچنے کی کوشش کریگاایمان کی حلاوت اسکی زندگی کے ہر پہلو کو اچھا اثر چھوڑیگی ہمیں بھی اس چیز کی جستجو اور دعا کرنی چاہیے کہ حالیہ رمضان ہماری مغفرت کا سامان بن جائے۔چونکہ نیکی کی طلب و جستجو ہر مومن کی فطرت کا جزء ہے اسلیے عورتوں کو بھی اس ماہ مبارک کی مبارک ساعتوں سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھانا چاہیےایسا نہ ہو کہ ایسا مہینہ صرف سب کی خدمتوں اور خریداریوں میں بیت جائے اور ہم یہ عذرتراشیں کہ شوہر اور بچوں کی خدمت سے مہلت ہی نہی ملتی…ہم کیسے عبادت کی مشقتیں اٹھاسکتی ہیں …..کیا یہ عذر عنداللہ قابل قبول ہوگا ……….ہرگز نہیں بلکہ شریعت نے عورتو ں کی حوصلہ افزائی میں یہ فرمان صادر کیاانی لااضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی بعضکم من بعض (آل عمران:۱۹۵)اللہ تم میں سے کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا – خواہ وہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے سے ہو۔اللہ نے گر ہمیں ایسے ایام کی نعمتوں سے بہرہ ور کیا ہے تو ہمیں بھی ان کا پھر ہور فائدہ اٹھا نا چاہئے زیادہ سے زیادہ اوقات کو اللہ کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کرنے میں صرف ہونے چاہیے ورنہ آجکل میڈیا نےتو ہماری عوام کا جو ذہن بنایا ہے اس ماہ کے تعلق لیکر اسکے حساب سے تو یہ مہینہ پورے طور پر محض لذت کام ودہن کا مہینہ ہے ,عبادت کے اس مہینہ کو محض تہوار سمجھ لیا گیا ہے، اس مبارک مہینہ میں ہماری وہ خواہشات بھی پوری ہوجاتی ہیں جو شاید ہم سال بھر چاہ کر بھی ہوری نہ کر پائیں ،ہمیں اس بات کا پورا شعور ہونا چاہئے کہ رمضان کے دن اور رات کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے کہ ایک پوری زندگی دے کر بھی ہم اسکا نعم البدل حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم میں سے ہر ایک اس پر قادر ہے کہ رمضان کے پہلے ہی وہ اہنی منصوبہ بندی کرلے …کتنے افسوس کا مقام ہیکہ … عید جو محض ایک دن کی ہوتی ہے اسکے لیے کسقدر انتظامات کیے جاتے ہیں لیکن ماہ رمضان جو تیس دنوں پر مشتمل ہے اس کے لیے ہماری کوئی تیاری نہیں ہمارے شب وروز ہماری فکری صلاحیتوں اور منصوبہ بندی کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ ناقص منصوبہ بندی یا منصوبہ بندی کا فقدان ہماری زندگی کے معیار کو خاصہ ڈسٹرب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اور دنیا میں کامیابی انکو ہی ملتی ہے جنکے پاس اپنی ترجیحات کا درست تعیں موجود ہوتا ہے۔آئیے !کچھ منصوبے بناتے ہیں:
ذاتی محاسبہ :اپنا ذاتی محاسبہ کریں کہ وہ کونسی بری عادات ہیں جن سے ہم پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں .اسکے لیے ہم پوری ایمانداری کیساتھ اپنا محاسبہ کریں گے لوگوں کیساتھ نرم دلی کا مظاہرہ کریں اپنے آس پاس موجود رشتوں کیلئے دلوں میں وسعت پیدا کریں ،کسی سے معافی مانگ لیں ،کسی کو معاف کردیں ۔برے کاموں سے اجتناب کریں، سچی اور پکی توبہ کریں ،زبان پر کنٹرول رکھیں کیونکہ یہ بہت سی معصیتوں سے چھٹکارا دلانا ہے ۔
نیکی کی طلب :فرائض کی ہابندی کا اہتمام کریں ایسا نہ ہو کہ آپ گھر کے بقیہ افراد کے لیے عبادت میں آسانی پیدا کریں اور خود گھر کے اضافی کاموں کے بوجھ تلے دب کر فرائض سے غافل ہوجائیں ۔اس مہینہ میں ہمارا نصب العین یہی ہونا چاہیے کہ کس طرح ہم سال کے بقیہ مہینوں کے مقابلے اس مہینہ زیادہ سے زیادہ اوقات کو اذکارو عبادات میں صرف کریں … جسکے لیے سب سے پہلے اپنے اوقات کومنظم کرلیں ،نیز خواتین ایسی صحبتوں سے پرہیز کریں اور دوری اختیار کریں ،جو ہمہ وقت دنیا کی محبت اور خرافات کا تذکرہ کرنے والی ہوں ایسی صحبتوں سے بچنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارا مکمل دھیان ہماری عبادتوں کو انجام دینے کی جانب ہوگا اور دنیا کی بیجا فکر ہم پر غالب نہیں آئیگی ۔
تربیتی محاذ: رمضان المبارک کا یہ مہینہ تربیت کے لحاظ سے بھی ہمارے لیے نہا یت موزوں ہے ۔ اس مہینہ میں آپ ایک مومنہ اور صالحہ ماں کا کردار ادا کرسکتی ہیں ،جہاں آپ کو اپنے بچوں کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کا خیال ہے وہیں اسکی روحانی تربیت کا اہتمام خصوصی طور پر اس مہینہ میں ہونا چاہیے ،بچے آپ میں اس مومنہ عورت کو پائے جو روزے رکھ کر بھی آپے سے باہر نہیں ہوتی ،ہنستے مسکراتے ہوئے سبھی کی ذمہ داریاں نبھاتی ہے ۔ بچے آپ میں صبر کی ایک مثال پائیں وہ ماں جو گھر کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوتے ہی ..”.اذا فرغت فانصب و الی ربک فارغب”کی مکمل تفسیر بیان کرنے والی ہو،چیخ و پکار ،گالی گلوچ ،غم وغصہ لڑائی جھگڑے سے بہت دور رہنے والی ہو،در حقیقت رمضان خواتین کے لیے وہ اہم موقع ہے جب مائیں بچوں کے دل میں ایک ہی وقت میں عبادت کے طور پر اللہ کی حاکمیت اور استحضار کی عظمت کا سکہ انکے دلوں پر بٹھاسکتی ہیں۔ خواتین اپنے سونے جاگنے کے اوقات کو منظم کرلیں ،ایسے نہ ہو کہ سارا دن گھر کے کاموں سے اسقدر تھک جائیں کہ بوقت سحر اسوقت آنکھ کھلے جب منہ میں پانی ڈالنے کا بھی وقت نہ بچے ، کوشش یہ ہونی چاہیے کہ گھریلو مصروفیات کو حتی الامکان کم کردیا جائے ،سحر وافطار کے مبارک اور بابرکت اوقات کو دعا و اذکار کے لیےصرف کیا جائے ، ماہ مبارک کا لمحہ لمحہ اللہ کی خوشنودی کے حصول میں صرف کیا جائے۔ افطار سے ایک گھنٹہ پہلے کچن میں جائیں اور افطار کے پہلے دسترخوان کے گرد حاضر ہوجائیں انتہائی اہم وقت ہوتا ہے یہ بالخصوص دعاوں کی قبولیت کا وقت ،جو کچن کی بجائے اللہ کو منانے میں گزارنا چاہیے ،ساتھ ہی یہ ایک ماں کے لیے تربیت کا بہترین موقع ہے ۔ بچوں کو دعا کی اہمیت وافادیت سمجھائی جاسکتی ہےماہ رمضان میں خواتین کی یہ مشقت ،یہ جہد مسلسل ،شب و روز کی بے تکان بھاگ دوڑ اللہ کے یہاں یہ ساری مشقتیں درج ہورہی ہیں اور اللہ انھیں بھر پور اجر دینے والا ہے جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’من فطر صائما کان لہ مثل اجرہ غیر انہ لا ینقص من اجر الصائم شئیا ‘‘[سنن ترمذی 648](نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے روزہ دار کو روزہ افطار کروایا اسے بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا اجر روزہ دار کے لیے ہوگا اور روزہ دار کے اجر سے کوئی چیز کم نہ ہوگی ) حدیث مبارکہ میں کتنی اہم بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہیکہ جو روزہ دار کو افطار کراتا ہے اللہ اسے روزہ دار کے جتنے ہی ثواب سے نوازتا ہے ،صائم کو افطار کے لیے وسائل مہیا کرانا یا اسکے لیے آسانی پیدا کرنا ،اسکا تعاون کرنا سبھی باتیں ثواب کے درجہ تک پہنچتی ہیں لہذا یہ خواتین کے لیے ایک عظیم خوشخبری ہے کہ اہل خانہ کی خدمات کا اجر اس ماہ میں دگنا ہوجاتا ہے ،حدیث مبارکہ کی روشنی میں تو بے مثل ہوجاتا ہے اسلیے خوشی خوشی فرائض کیساتھ دوسری عبادتوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے ، ایک اور حدیث ا سی مفہوم میں ملتی ہے… قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ، : ” مسند احمد، حدیث :2671اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی خیر کی طرف رہنمائی کی تو اسکے لیے بھی بمثل فاعل اجر ہوگا۔اسلیے خوشی خوشی فرائض کیساتھ دوسری عبادتوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے ۔
قرآن سے شغف:رمضان المبارک کی فضیلت اسوجہ سے بھی ہے اس ماہ میں قرآن نازل کیا گیا ،اس ماہ کی طاق راتوں کی عبادتیں اور انکا ثواب گر بلند پایہ ہے تو شب قدر کی عظمت بھی اسی وجہ سے ہے کہ اس رات کو قرآن نازل کیا گیا ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب مقدس میں خود بیان فرمایا:(انا انزلنہ فی لیلۃ القدر )لہذا یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ماہ صیام کی شان وشوکت قرآن پاک کی برکتوں کے دم سے ہی ہے لہذا اس ماہ میں قرآن سے زیادہ شغف رکھنا چاہیے وقت نکال کر محض تلاوت پر اکتفاء نہ کریں بلکہ قرآن کے معانی و مفاہیم ہر غور کریں،کیونکہ قرآن کریم جس مقصد کے لیے نازل کیا گیا ہے روزہ ہمیں اسکے حصول کے لیے مستعد کرتاہے اسے تفسیر سے ہڑھنے کی کوشش کریں پھر دن کا کچھ حصہ جیسے بعد فجر یا ظہر حفظ کے لیے متعین کرلیں، اور قرآن مجید کی سورتیں یاد کریں،ساتھ ہی احادیث بھی پڑھیں تاکہ مسائل سے واقفیت ہوسکے ۔اسی کیساتھ صدقہ و زکاۃ کی ادائیگی کو لیکر خاص انتظام کریں بلکہ ہمہ وقت مستعد رہیں اللہ کے نبی نے اس مہینہ کے صدقہ کو بہترین صدقہ کہا ہے ۔ ثواب کی خاطر مردوں پر منحصر نہ رہیں بلکہ اپنے پاس گھر خرچ میں سے جو بھی پسماندہ رقم جمع ہوتی ہو اسے اللہ کو قرض حسنہ کے طور پر دے دیں، بیشک یہ صدقہ اللہ کو بہت محبوب و مرغوب ہے ۔ ریاکاری اور دکھاوے کی بجائے صدق دل سے صدقات اور زکاۃ کو انکے لواحقین اور اصل مستحقین یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو دیں گر کوئی مستحق نہ ملے تب باہر تلاشا جائے ۔اپنی ترجیحات کا تعین کریں ،کاموں کی انجام دہی کے لیے موزوں وقت کا تعین ، عبادات کی انجام دہی میں ہرگز تاخیر نہ کریں ،عبادت کی ادائیگی میں دیگر افراد کے ساتھ تعاون کریں ۔ ماہ مبارک کے بیش قیمت لمحات کی قدر کرتے ہوئے انھیں خیر کے لیے وقف کرنا چاہیے لیلۃ القدر کی راتوں میں شب بیداری کا خاص اہتمام کرنا چاہیے نہ کہ آخری عشرہ بازار میں چوڑی چپل کی میچنگ میں گزاردیں اور ہم اس شعر کا مصداق بن جائیں موسم بھی تھا ،بیج بھی دامن میں تھا مگر بونے کا وقت خواب تغافل میں کھودیا۔خود کو خوش نصیب سمجھتے ہوئے اس رمضان کی ہر سعادت کو تلاشنے کی کوشش کریں ۔ کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” یہ جو مہینہ تم پر آیا ہے اسمیں ایک رات ایسی ہے جو (قدرو منزلت کے اعتبار سے ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا” نیز فرمایا لیلۃ القدر کی سعادت سے صرف بد نصیب ہی محروم کیا جاتا ہے(سنن ابن ماجہ ,1333)اللہ ہمیں سعادت مندوں میں سے بنائے اور محرومین سے دور رکھے۔

Comments are closed.