Baseerat Online News Portal

مودی جی نے دہلی میں بی جےپی کی ہولی جلادی

 

ڈاکٹر سلیم خان

انتقام کی آگ  یا شکست کا خوف کسی قائد پر حاوی ہوجائے تو وہ نادانستہ طور پر دشمن کی مدد کرنے لگتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ یہی ہورہا ہے۔  کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے بڑے رہنما تو ایک دوسرے کے ساتھ آگئے مگر زمینی سطح پر کارکنان کے اندر اب بھی کافی من مٹاو ہے اور اس کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔  راہل گاندھی یا اروند کیجریوال کے لیے ان فاصلوں کو ختم کرنا یہ نہایت مشکل کام تھا جسے مودی اور شاہ نے آسان کردیا ۔  یہ بات کسی کے تصور خیال میں نہیں تھی آپسی اختلافات اور چپقلش کی  ہولی جلا کر عآپ اور کانگریس مقامی رہنما مشترکہ پریس کانفرنس کرکے زبردست  یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے مگر  24 مارچ  کو آسمانِ گیتی نے یہ منظر بھی دیکھ لیا ۔  انڈیا الائنس نے بڑی فراخدلی کے ساتھ عام آدمی پارٹی کے قومی کنوینر اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی حمایت میں 31 مارچ کو دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک میگا ریلی کرنے  کا اعلان کردیا۔ اس مہاریلی میں انڈیا الائنس کی اتحادی جماعتوں کے زیادہ تر بڑے لیڈر شرکت کریں گے۔قومی انتخاب سے قبل  یہ نادر موقع فراہم کرنے کے لیے حزب اختلاف کو چاہیے کہ مودی سرکار کا شکریہ ادا کرے ۔

ملک میں ایک طرف سناتن دھرم کے ماننے والے ہولی جلانے کی تیاری کررہے تھے اور دوسری جانب انڈیا وفاق  کی اتحادی جماعتوں میں شامل  عام آدمی پارٹی کے دہلی ریاستی کنوینر گوپال رائے، دہلی کانگریس کے صدر ارویندر سنگھ لولی، سی پی آئی-ایم کے راجیو کنور، دہلی کانگریس کے سابق صدر سبھاش چوپڑا ،عآپ کی  کابینی وزیر آتشی اور سوربھ بھردواج  مشترکہ پریس کانفرنس میں دہلی کے اندر  کمل  کوجلا کر  بھسم کرنے کااعلان کررہے تھے ۔ اس  موقع پر عآپ  دہلی کے ریاستی کنوینر گوپال رائے نے کیجریوال کی گرفتاری کو  وزیر اعظم کی  آمریت اور  جمہوریت کا قتل بتایا ۔  انہوں نے اپنی مذمت کا دائرۂ کار وسیع کرتے ہوئے کہا کہ  وزیراعظم ملک بھر میں ایک ایک کر کے پوری اپوزیشن کو ختم کرنے کے لیے ایجنسیوں کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ سازشوں کے ذریعے پیسے دےکرارکان اسمبلی  کا سودا کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو ای ڈی، سی بی آئی سےڈرایا دھمکایا جارہا ہے ۔اس طرح جو لوگ گھٹنے ٹیکنے یا جھکنے کو تیار نہیں ہوتے ان رہنماوں پر جھوٹے مقدمات درج کر کے انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔

گوپال رائے نے یاد دلایا  کہ  اروند کیجریوال سے پہلے جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ کو گرفتار کیا گیا ۔ اب  ممتا بنرجی ،  تیجسوی یادو اور دیگر انڈیا الائنس کے رہنماوں پر تلوار لٹک رہی ہے مگراروند کیجریوال کی گرفتاری عوام  اور اپوزیشن کو آمریت کے خلاف متحدکردیا  ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہےاور آنے والے دنوں میں یہ تحریک مزید تیز ہو گی۔ گوپال رائے کے مطابق  پوری دہلی کو چھاؤنی میں تبدیل کر نےکے بعد  منتخب ایم ایل ایز کو بھی حراست میں لے لیا گیااور اروند کیجریوال کے اہل خانہ کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ عام آدمی پارٹی کے دفتر کو چھاؤنی میں تبدیل کر کے سیل کر دیا گیا۔ رائے نے الزام لگایا کہ ان کے ساتھ شہداء پارک میں  بھگت سنگھ، راج گرو اور سہدیو  کو خراج عقیدت پیش کرتے وقت  پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت مان سمیت  وزرا، ارکانِ اسمبلی  اور ہندوستانی اتحاد کے رہنما وں  کے  ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔   اس طرح گوپال رائے نے بی جے پی کی جعلی دیش بھگتی کی ہانڈی پریس کانفرنس میں پھوڑ دی ۔

کانگریس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے  گوپال رائے نے کہا کہ بی جے پی نے الیکٹورل بانڈز سے 8000 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم تو لے لی مگر کانگریس کا کھاتہ ضبط کر لیا ہے تاکہ وہ  اپنی انتخابی مہم نہ چلا سکے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اتنی پرانی پارٹی کانگریس کا کھاتہ ضبط کیا جا سکتا ہے تو ہر وہ تاجر جو انہیں چندہ نہیں دیتا اس کا کھاتہ زبردستی ضبط کر لیا جائے گا۔ ملک کے ہر شہری کا کھاتہ ضبط ہوگا۔ جو بھی ان کے خلاف بولنے کی جرأت کرے گا اسے قید کر دیا جائے گا۔ اس ملک میں کسی تحریک یا کچھ کہنے کی گنجائش نہیں  ہوگی۔ اس آمریت کے خلاف آواز اٹھانے کی خاطر انڈیا الائنس نے 31 تاریخ کو صبح 10 بجے رام لیلا میدان میں مہا ریلی  کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔  انہوں نے  نہ صرف دہلی بلکہ پورے ملک کے لوگوں سے اپیل کی  کہ  آئین اور جمہوریت میں یقین رکھنے والے ہر سیاسی تنظیم، سماجی تنظیم یا کاروباری تنظیم کے لوگ اس میں شرکت کریں  تاکہ   آمریت کے خاتمے کی  مشترکہ جنگ کو آگے بڑھاسکیں ۔ دہلی کے اندر بی جے پی  نے اپنے اس بھیانک خواب  کو خود  شرمندۂ تعبیر کردیا ۔

اس موقع پر دہلی کانگریس کے صدر ارویندر سنگھ لولی نے کہا کہ آج پورے ملک کے اندر جمہوریت خطرے میں ہے۔ کانگریس  پارٹی جمہوریت کو بچانے کی لڑائی میں تمام اتحادی شراکت داروں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی  ہے۔ لولی کے مطابق  یہ نہ صرف کانگریس، عام آدمی پارٹی اور انڈیا الائنس کے لیے بلکہ  تمام ہندوستانیوں کے لیے تشویشناک ہے۔ ا نہوں نے نوجوان نسل کو مخاطب کرکے  کہا کہ بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو نے چھوٹی عمر میں ہی شہادت دی تھی اور مہاتما گاندھی نے ملک کے لوگوں کو کرو یا مرو کا نعرہ دیا تھا تاکہ ہم جمہوریت کی کھلی ہوا میں سانس لے سکیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ  بی جے پی کی  مرکزی حکومت انتخابات میں اپوزیشن کو “لیول پلیئنگ فیلڈ” نہیں دینا چاہتی ہے ۔ انتخابات سے قبل کانگریس کا بینک اکاؤنٹ ضبط کر لیا گیا ہے۔لولی کے مطابق  یہ جمہوریت  رائل ایکٹ کی یاد دلاتی ہے، جس میں نہ اپیل، نہ وکیل اور نہ دلیل کی بات کی گئی تھی۔ آج ملک میں  اگر  ایسا ہی ماحول بن چکا ہے تو ان لوگوں کے خلاف نئی جنگ آزادی لازمی ہوگئی جو غلامی کے دور میں انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ آر ایس ایس کو رائل سیکیورٹی  سروِس کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔

31 مارچ کی  دہلی  ریلی سے متعلق ارویندر لولی نے کہا  یہ   پورے ملک کے لوگوں کو پیغام دے گی کہ ہمارے آباؤ اجداد نے  قربانیاں دے کر   آزادی کی جو جنگ لڑی اس  کو رائیگاں کرنے کے  منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔  اس موقع پرپی آئی ایم کے راجیو کنور نے آگاہ کیا کہ  یہ آمرانہ حکومت  اپوزیشن کو ایک انچ بھی جگہ دینے کو تیار نہیں۔ یہ لوگ جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعتوں کے لیے جگہ نہیں چھوڑنا چاہتے لیکن وہ اس کے لیے لڑتے رہیں گے۔ 31 مارچ کو ہونے والی ریلی میں تمام بائیں بازو کی جماعتیں جمع ہوں گی اور ان کے سرکردہ  رہنما  بھی اس  میں خطاب کریں گے ۔  دہلی کانگریس کے سابق صدر سبھاش چوپڑا نے رام لیلا میدان میں 31 مارچ کو ہونے والی ریلی کامقصد   جمہوریت  بچانابتایا۔ ان کے مطابق  جمہوریت کے مضبوط ستون عدلیہ، مقننہ، ایگزیکٹو اور میڈیا کمزور ہو گئے تو ملک میں  جمہوریت نہیں بچے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ریلی مرکز میں اقتدار کے نشے میں مست حکومت کو بتائے گی کہ ملک کے شہری کمزور نہیں ہیں۔ہندوستان کے لوگ اپنا حق لینا جانتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ بابا صاحب امبیڈکر کے آئین کی حفاظت کیسے کرنی ہے لیکن بی جے پی کو تو فی الحال اقتدار کے چھن جانے کا غم ستا رہا ہے اور وہ اسے بچانے کے چکر میں خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارے چلی جارہی ہے۔

دہلی کے اندر ایک زمانے میں بی جے پی کا دبدبہ ہوا کرتا تھا ۔ لال کرشن اڈوانی وہاں سے الیکشن لڑتے تھے۔ سشما سوراج، مدن لال کھرانہ ، صاحب سنگھ ورما  اور ارون جیٹلی جیسے رہنما دہلی کی سرزمین سے ابھرے   لیکن مودی کے دہلی آتے ہی وہاں کمل مرجھا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا زبردست جھٹکا 2015؍کے اندر دہلی میں لگا جب بی جے پی تینتیس سے گھٹ کر تین پر آگئی۔  اس کے پانچ سال بعد مودی اور شاہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر دو ہندسوں میں نہیں پہنچ سکے۔ سمراٹ مودی کی عظمت و شوکت پر یہ نہایت بدنما داغ ہے کہ وہ دہلی نہیں جیت سکے لیکن یہ کہہ کر خود کو مطمئن کرلیتے ہوں گے کہ کم از کم  ایوان پارلیمان کی ساتوں نشستوں پر کمل کھل جاتا ہے۔ یہی زعم دہلی کی بلدیہ سے متعلق بھی تھا مگر پچھلی بار بی جے پی بلدیاتی انتخاب ہار گئی۔   اس بار کیجریوال اور کانگریس کے ساتھ آنے سےپارلیمانی انتخاب  پر بھی خطرات کے بادل چھا گئے۔ گوتم گمبھیر نے انتخاب لڑنے سے معذرت چاہی تو ڈاکٹر ہرش وردھن نے ٹکٹ نہ ملنے پر سنیاس لے لیا۔ رمیش بھدوڑی نئے لوگوں کی خاطر دری بچھانے  کاصدمہ لے بیٹھے۔  اس کے بعد جو رہی سہی کسر تھی وہ کیجریوال کی گرفتاری نے پوری کردی ۔ 31؍ مارچ کی ریلی سے کچھ اور ہو نہ ہو کانگریس کے ہاتھ میں عآپ کا جھاڑو دہلی سے  کمل کا سپڑا صاف طے کردے گا ۔  یہی حال رہا تو اس انتخاب کے بعد بی جے پی پر دہلی میں میر تقی میر کا یہ شعر صادق آجائے گا؎

دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں                      تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا

 

 

Comments are closed.