Baseerat Online News Portal

قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

 

(مسلم حکمرانوں کے مسلسل تنازل اور عالمِ اسلام کے زوال کے تناظر میں)

 

ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

 

مغرب نے جس دوغلے انسان کو ’’ترکِ دانا‘‘باور کرایا، اقبال اسے ’’ترک ناداں‘‘ کہہ گئے اور بجا کہہ گئے، ہمیں مغرب کی عیاری سے گلہ نہیں، اپنوں کی سادگی اور اپنی صفوں کے منافقین سے شکوہ ہے، منافقین کی معاونت اور مسلمانوں کی سادگی کے سبب ترک ناداں نے خلافتِ عثمانیہ کی قبا چاک کر دی تھی۔ ۳؍مارچ ۲۰۲۴ء کو چاک دامانی کے اس واقعہ کو سو سال پورے ہو گئے، ملتِ اسلامیہ سو سال سے حیران و سرگرداں ہے، قومی زندگی کی بھیک بھی اب مانگے نہیں ملتی، ملت ملی شعور سے بے بہرہ یتیمی کی صورت حال میں زندگی کو گھسیٹ رہی ہے، ایک قلعہ تھا جسے مغرب نے عربوں کی مدد سے مسمار کر دیا، ایک کٹی پھٹی چھتری تھی وہ بھی چھین لی گئی، عالمِ اسلام اور مسلمان دونوں کے حصے بخرے کر دیے گئے، اسلام کی مفتوحہ سر زمین کو جاگیروں اور رجواڑوں میں تقسیم کر دیا گیا، ملت کے غداروں کو والی بنایا گیا، کہیں سے برطانوی استعمار نکلا، کہیں سے فرانسیسی استعمار۔ سب نے اپنی اپنی کالونیاں بسائیں، کسی کی میراث سوویت نے پائی اور کوئی کالونی کیپٹلزم کے استعمار کے حصے میں آئی۔

مغرب کے منافقانہ رویّے کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ وہ ایک طرف جمہوریت کی صدائیں لگاتا ہے، لیکن اپنی عربی اور مسلم کالونیوں میں پہنچتا ہے تو ڈکٹیٹرشپ اور بادشاہت و آمریت کو بسر و چشم تسلیم کرتا ہے، اس کی دوغلی سیاست نے بار بار عالم اسلام کا کلیجہ چھلنی کیا، فلسطین کی بابرکت زمین کو بار بار لوٹا اور خون آلود کیا۔ ہاں وہی فلسطین جو خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کا سبب بنا تھا، کیونکہ سلطان عبد الحمید ثانی نے صاف کہہ دیا تھا کہ جب تک سلطان زندہ ہے تب تک یہود ارضِ موعود میں داخل نہ ہو سکیں گے، اس لیے سلطان کو ہی نہیں، سلطان کی سلطنت کو راہ سے ہٹانے کا نقشہ تیار کیا گیا۔ آج پھر وہی فلسطین لہو لہان ہے، ۷؍اکتوبر سے خون آشام جنگ جاری ہے، بلکہ شاید دنیا کی تاریخ کی سب سے انوکھی جنگ جاری ہے، جس میں سب سے زیادہ شیرخوار بچے شہید ہو رہے ہیں۔ اگر یمن اور شام میں پہلے سے ہی بچے بھوک سے، دوا اور غذا کی قلت سے بلک رہے ہیں، تو اب غزہ کے بچے قطرہ قطرہ پانی اور لقمہ لقمہ کھانے کو ترس رہے ہیں، ہمارے روزے تو اب شروع ہوئے ہیں، اہلِ غزہ مہینوں سے بھوکے پیاسے ہیں، بلکہ اب لوگ بھوک پیاس سے دم توڑ رہے ہیں، پورا علاقہ تباہ کر دیا گیا ہے، لاکھوں زخمی وہاں کراہ رہے ہیں، قبلۂ اوّل بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے، مسلمانوں کو اس ماہِ مقدس میں بھی وہاں جا کر آزادی کے ساتھ عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف عالمِ اسلام میں ہُو کا عالم ہے، بلا کا سناٹا طاری ہے، کہیں کہیں سے کوئی آواز آتی ہے، لیکن بے معنیٰ۔ پوری کی پوری مسلم دنیا ابلیسی فرامین کی تابع ہے، جو اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں ابلیسی نظام اسی طرح اپنے جال میں پھنساتا ہے کہ وہ گھٹنوں پر آ جاتے ہیں، ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ راتوں رات ملیشیا کی معیشت کو تباہ کر کے ماثر محمد کو گھٹنوں پر جھکا دیا، اب اسی ابلیسی نظام نے رجب طیب اردغان کو جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ترکی کی معیشت پر کاری ضرب لگائی گئی، نتیجہ میں اردوغان کو سعودی عرب سے بھی ہاتھ ملانا پڑا اور متحدہ عرب امارات کے اسلام دشمنوں کو بھی رام کرنا پڑا، جنھوں نے ترکی میں فوجی بغاوت کی منصوبہ سازی کی تھی، ان سے بھی دوستی کرنی پڑی اور تو اور اس ملعون زمانہ سیسی کی بھی زیارت کرنی پڑی جس کے ساتھ وہائٹ ہاؤس کے عشائیہ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اکثر حکمران مغرب کے پٹھو ہیں، یا اس کے حکم کے غلام ہوتے ہیں، اور جن چند کا ضمیر زندہ ہے وہ بھی تلملانے کے علاوہ کچھ کر گزرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

غیرت و حمیت تو سو سال پہلے ہی مر چکی تھی، مگر اب صورت حال یہ ہےکہ ظاہری آنکھوں نے بھی دیکھنا چھوڑ دیا، کانوں نے سننا چھوڑ دیا، دل و دماغ تو پہلے سے ہی یورپ کے پاس گروی رکھ دیے گئے تھے، اب تو ضمیر کی بھی موت ہو گئی، جزیرہ عرب کے قبائلیوں نے پہلے مغرب سے ساز باز کی، خلافت کی قبا چاک کی، دین کے نام پر ہنگامہ برپا کیا، قتل و خون کی داستان رقم کی، اب دین محمدی کو تار تار کر رہے ہیں، بت پرستی کو جزیرہ عرب میں واپس لا رہے ہیں، فحاشی کو فروغ دے رہے ہیں، ہر تازہ فرمان جزیرہ عرب سے دینِ حنیف کی جڑیں کھودنے کا مظہر ہوتا ہے، اس صورت حال میں غزہ کے شہیدوں کے خون ، زخمیوں کی چیخوں اور بچوں کی سسکیوں سے ان شقی القلب، امریکی غلام اور یہود نواز بے ضمیر حکام کے دل و دماغ پر کیا اثر پڑے گا؟ جب کہ وہ خود ہی جزیرہ عرب سے اسلام کو دیس نکالا دینے پر آمادہ ہیں، ان کے نزدیک حرمین کے تقدس، جزیرہ عرب کی پاکیزگی و حرمت کی جب کوئی حیثیت نہ رہ گئی تو قبلۂ اولیٰ کی کیا اہمیت ہوگی۔ وہ تو اب شراب سے پابندیاں ہٹانے، مدینۃ الرسول میں سنیما کھولنے، رقص و سرود کی محفلیں سجانے اور اپنی عورتوں کے جسموں کی نمائش کرنے میں مگن ہیں۔ عالمی مقابلۂ حُسن میں حصہ لے رہے ہیں، انھیں جنگ و جدال اور حقیقی عزت و عظمت سے کیا سروکار؟ انھیں تو تصورِ خلافت سے چڑ ہو گئی اور کیوں نہ ہو؟ ان ہی کے آباء و اجداد تھے جنھوں نے یہودیوں کے ساتھ مل کر ملتِ اسلامیہ کے آخری قلعہ کو مسمار کیا تھا، ان سے اب کوئی امید نہ رہی، وہ تو اب ہر اس تحریک کو مغرب کے ساتھ مل کر کچل دیتے ہیں جو اسلام کی بحالی کا تصور رکھتی ہے۔انھوں نے حماس اور فلسطین کے مجاہدین کے خاتمہ کا معاہدہ کر رکھا ہے، وہ اخوان کی ساری قیادت کو دفنانے کے لیے اپنے خزانے لٹا چکے ہیں، انھوں نے تصورِ خلافت کو بھی حرام قرار دیا ہے اور اس تصور کو دہشت گردی کا مترادف بنا دیا ہے، مغرب کی جارحانہ سیاست اور عیارانہ صحافت نے مسلم ذہن سے اس تصور کو محو کر دیا ہے، حالاں کہ مسلمان کے درد کا درماں اور ملت کی نشاۃ ثانیہ اسی تصور سے وابستہ ہے، اس کی شکل جو بھی بنے، مگر واقعہ یہ ہے کہ ملت کی اجتماعی شیرازہ بندی میں ہی اس کی چاک دامانی کا علاج مضمر ہے۔ حکیم مشرق نے اس تصور کو بجا طور پر زندگی دی اور اس کی تمنا کا اظہار کیا ؎

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار

لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

اقبال کی تمنا بالکل بجا ہے، انھوں نے مغرب اور مغرب کے نظریات اور فلسفوں کا گہرا مطالعہ کیا تھا، وہ اگر اس نتیجے پر پہنچے تو بجا پہنچے، انھوں نے جو دور پایا اس دور میں برطانوی استعمار کا عروج تھا، پھر جنگ عظیم کے ہنگامے برپا ہوئے، متحدہ ہندوستان کے مسلمان خود قیامت خیز حالات کا سامنا کر رہے تھے، لیکن ان حالات میں بھی ان کا تصور خلافت کس قدر مستحکم اور واضح تھا، وہ خلافت عثمانیہ کو تمام تر کمزوریوں کے باوجود کس نظر سے دیکھتے تھے اور کس طرح اس کو ملت اسلامیہ کی آخری امید تصور کرتے تھے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے مسلمانانِ ہند کی تحریکِ خلافت، ان کا مالی تعاون اور ان کے اضطراب کا مطالعہ کافی ہوگا۔ ’’جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘کا نعرہ گلی گلی میں گونج رہا تھا اور یہاں کے مسلمان اس کی اہمیت کو سمجھ رہے تھے، ان حالات میں اقبال کا اس نتیجے پر پہنچنا ان کی دور اندیشی اور پختہ فکر کی دلیل ہے۔ یہ شعر ان کی نظم ’’خضر راہ‘‘ کا حصہ ہے، جس میں انھوں نے عربوں کی سودے بازی پر سخت تنقید کی ہے، خلافت کے زوال کا نوحہ کیا ہے، یہ نظم انھوں نے ۱۹۲۲ء کے ایک مشاعرہ میں خود پڑھ کر سنائی تھی، اس نظم میں اقبال نے کئی سوال اٹھائے ہیں اور جواب بھی دیے ہیں، زندگی کا راز جاننے کی کوشش کی ہے، جمہوریت کی گرفت کی ہے، محنت و جفاکشی اور سرمایہ دارانہ نظام کی کشمکش پر گفتگو کی ہے۔ عربوں کی غداری، خلافت کے زوال اور خلافت کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے دنیائے اسلام کے زوال پذیر ہونے کے اسباب پر گفتگو کی ہے، موضوع اور حالات کے گہرے ربط کی بنیاد پر یہ نظم بے پناہ مقبول ہوئی تھی، اس کے بہت سے شعر پُر از حکمت ہیں، جنھیں آج کے حالات میں پڑھیے تو اقبال کی دور اندیشی اور فکری بلندی پر تعجب ہوتا ہے، سرِدست یہ اشعار پڑھ لیجیے:

 

 

 

کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں

مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز

لے گئے تثلیث کے فرزند ميراث خليل

خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز

ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ

جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبور نياز

لے رہا ہے مے فروشان فرنگستاں سے پارس

وہ مے سرکش حرارت جس کی ہے مينا گداز

حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی

ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز

ہو گیا مانند‌ آب ارزاں مسلماں کا لہو

مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز

گفت رومی ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند

می نداني اول آں بنیاد را ویراں کنند

ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں

حق ترا چشمے عطا کر دست غافل در نگر

مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست

مور بے‌ پر حاجتے پیش سلیمانے مبر

ربط و ضبط ملت بيضا ہے مشرق کی نجات

ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر

پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار ديں میں ہو

ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تا‌‌ بخاک کاشغر

جو کرے گا امتياز رنگ و خوں مٹ جائے گا

ترک خرگاہی ہو یا اعرابیٔ والا گہر

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی

اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار

لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش

اے گرفتار‌‌ ابوبکر و علي ہشيار باش

عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی

اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ

تو نے دیکھا سطوت رفتار‌ دريا کا عروج

موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ

عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے

اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ

اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود

مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ

کھول کر آنکھیں مرے آئينۂ گفتار میں

آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس

سامنے تقدیر کے رسوائی تدبير دیکھ

مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار

ہر زماں پیش نظر لایخلف المیعاد دار

 

خلافتِ عثمانیہ کے اسبابِ زوال پر بہت گفتگو کی گئی ہے، لوگوں نے بڑے گہرے تجزیے کیے ہیں اور متعدد اسباب کا ذکر کیا ہے، ان سب کا مطالعہ کیجیے اور موجودہ عرب دنیا اور مسلم حکمرانوں کا تجزیہ کیجیے تو صاف نظر آتا ہے کہ غداروں نے غداری کی، لیکن جاگیریں ملنے کے بعد خود بھی بے بس و دست نگر ہو گئے، عروج کی داستان رقم کرنے کے بجائے پورے عالم اسلام کو گروی بناتے چلے گئے، اگر خلافت کے زوال کا یہ سبب تھا کہ شریعتِ محمدی کی حکمرانی سے حکام دور ہو گئے تھے تو عالمِ اسلام کے نظامِ سیاست و عدالت، معیشت و معاشرت میں شریعت مطہرہ کی حکمرانی کب تھی، اور کہاں ہے؟ اگر وہاں آخری دور میں مختلف قسم کے انحرافات پیدا ہو گئے تھے، امر و نہی کے شعبہ میں تساہلی برتی جانے لگی تھی، داخلی انتشار عام ہو گیا تھا، عبادت کے مفہوم کو محدود کر دیا گیا تھا، ولاء و براء کے حکم الہٰی سے پہلو تہی برتی گئی تھی، افتراق و انتشار اور فرقہ بندی جڑ پکڑ گئی تھی، قوتِ اجتہاد و جہاد شل ہو گئی تھی، ایجاد و اختراع کو نظر انداز کیا گیاتھا، ظلم سلطنت کو گھن کی طرح کھا رہا تھا۔ علماء میں مناصب و وظائف پانے کی ہوڑ لگی ہوئی تھی۔ تو آج کی مسلم دنیا اور عرب حکمرانوں میں ان میں سے کون سی چیز نہیں پائی جا رہی ہے، غزہ جل رہا ہے اور امارات اسرائیل کی مدد کر رہا ہے، سعودیہ در پردہ حماس کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ ہے، افتراق و انتشار کو سعودیہ نے بڑھاوا دیا، طاقت کے وسائل کو امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھ دیا، عقیدہ و مسلک کے نام پر امت کو لخت لخت کر دیا، اسلام کو حج و عمرہ میں قید کر دیا، اب تو صورت حال یہ ہے کہ جزیرہ عرب میں بت پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے، اس سے بڑا اور انحراف کیا ہوگا؟ مسلم خون بہہ رہا ہے اور یہود نوازی میں مقابلہ آرائی ہو رہی ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا انحراف ہوگا؟ دینِ حنیف کے نام پر یہود و نصاریٰ کو مسلمان قرار دینے کی تحریک عالمِ اسلام میں چل رہی ہے، ایجاد و اختراع سے غفلت کا یہ عالم ہے کہ کھانے سے لے کر بیت الخلاء تک مغرب کے دستِ نگر بنے ہوئے ہیں، ظلم کا یہ حال ہے کہ ہر مصلح اور ہر ناقد کے لیے جیل آراستہ اور پھانسی کا پھندہ تیار ہے۔ یوں تو عام طور پر علماء و مشائخ سلطان کی چشم و ابرو کے اشاروں کے پابند ہیں، ان کے انحرافات پر خاموش ہیں یا مجبور ہیں، لیکن ان کی بھی کمی نہیں جو آیاتِ الہٰی کے عوض ثمن قلیل پانے کے لیے قطار میں کھڑے رہنے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ اس صورت حال میں ان کا زوال یقینی ہے، بلکہ ان سے نجات حاصل کرنا وقت کا تقاضا ہے، ان سے تو اس وقت قرآن مجید کا مطالبہ یہ تھا:

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا۔ (النساء: ۷۵)

(تم کو کیا چیز روکتی ہےخدا کے راستے میں جہاد کرنے سے؟ اپنے دبے کچلے کمزور بھائیوں کی مدد کرنے اور ان کو کفارِ مکہ کی قید اور ان کے قہر و عذاب سے بچانے سے۔ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور بچے بھی اور عورتیں بھی۔ وہ دن رات اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں کفارِ مکہ کے ظلم سے نجات دے دے اور ہمیں یہاں سے صحیح سالم نکال لے۔ وہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ انھیں اپنے پاس سے کوئی حمایت کرنے والا نصیب کر دے، کوئی مددگار بھیج دے، جو دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کرے۔ اللہ نے ان کی دعا سن لی، ان کو رسول ہدایتﷺ جیسا حمایتی نصیب فرمایا، جس نے مکہ کو فتح کیا اور نہ صرف ان کی مدد کی بلکہ مکہ سے کفر و کفار کا خاتمہ کر دیا۔)

اس آیت کریمہ میں اگرچہ مسلمانوں کو مکہ میں رہ جانے والے مظلوم مسلمانوں کے تناظر میں خطاب کیا گیا ہے، لیکن قرآن کا خطاب کسی پسِ منظر تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ عام ہوتا ہےاور قیامت تک کے لیے ہے۔ آج بھی یہ آیت چیخ چیخ کر عالمِ اسلام، بالخصوص قوت اور وسائل رکھنے والے مسلم ممالک کو جھنجھوڑتی ہےکہ آخر وہ برما کے مسکین و مظلوم اور ایغور مسلمانوں کی مدد کو کیوں نہیں پہنچتے۔ آخر کیا چیز ان کو روکتی ہے کہ وہ فلسطین کے بے بس مسلمانوں کو یہودی مظالم سے آزاد نہیں کراتے، وہ دن رات اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ خدایا اپنا کوئی بندہ ہماری نصرت کو بھیج دے تو آخر عالمِ اسلام کے مسلم حکمرانوں کی مجبوری ہے کہ ان مظلوموں کی مدد کے لیے جہاد نہیں کرتے، جن کا دین و ایمان محفوظ ہے نہ عصمتیں اور نہ جانیں۔ تاویلات کرنے والے کر سکتے ہیں، مگر اللہ کی بات اتنی صریح اور بے لاگ ہوتی ہے کہ اس کے سامنے کوئی لچر تاویل اور توجیہ کامیاب نہیں ہوتی۔

لیکن ان کا حال یہ ہو گیا ہے جو ایک حدیث میں رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا تھا، یہ متفق علیہ روایت ہے۔ جس کو یہاں مشکوٰۃ کی اردو شرح مظاہرحق سے نقل کیا جا رہا ہے۔

وَ عَنْہُ(حذیفۃ بن الیمان) قَالَ: كانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عَنِ الخَيْرِ، وكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، قَالَ قُلتُ: يا رَسولَ اللَّهِﷺ، إنَّا كُنَّا في جَاهِلِيَّةٍ وشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بهذا الخَيْرِ، فَهلْ بَعْدَ هذا الخَيْرِ مِن شَرٍّ؟ قالَ: نَعَمْ، قُلتُ: وهلْ بَعْدَ ذلكَ الشَّرِّ مِن خَيْرٍ؟ قالَ: نَعَمْ، وفيهِ دَخَنٌ، قُلتُ: وما دَخَنُهٗ؟ قالَ: قَوْمٌ یَسْتَنُّوْنَ بِغَیْرِ سُنَّتِیْ وَ يَعُدُّونَ بغيرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهمْ وتُنْكِرُ، قُلتُ: فَهلْ بَعْدَ ذلكَ الخَيْرِ مِن شَرٍّ؟ قالَ: نَعَمْ، دُعَاةٌ إلى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَن أَجَابَهُمْ إلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، قُلتُ: يا رَسولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقالَ: هُمْ مِن جِلْدَتِنَا، يَتَكَلَّمُونَ بأَلْسِنَتِنَا، قُلتُ: فَما تَأْمُرُنِي إنْ أَدْرَكَنِي ذلكَ؟ قالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وإمَامَهُمْ، قُلتُ: فإنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ ولَا إمَامٌ؟ قالَ: فَاعْتَزِلْ تِلكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، ولو أَنْ تَعُضَّ بأَصْلِ شَجَرَةٍ، حتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وأَنْتَ علَى ذٰلِكَ۔ [متفق علیہ و فی روایۃ] لِمُسْلِمٍ قالَ: يَكونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لا يَهْتَدُونَ بهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فيهم رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ في جُثْمَانِ إنْسٍ، قالَ حُذَیْفَۃُ: قُلتُ: كيفَ أَصْنَعُ يا رَسولَ اللهِ، إنْ أَدْرَكْتُ ذلكَ؟ قالَ: تَسْمَعُ وَتُطِيعُ الأَمِيرَ، وإنْ ضَرِبَ ظَهْرَكَ، وَأَخَذَ مَالَكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ (مظاہر حق، ج: ۶، ص: ۱۹۱)

(حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ لوگ جنا ب رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں سوال کرتے اور میں شر میں پڑ جانے کے خطرے سے شر کے متعلق سوال کرتا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ہم جہالت و برائی میں مبتلا تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ خیر ہمیں عنایت فرما دی کیا اس خیر کےبعد بھی شر ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: جی ہاں! میں نے کہا کیا اس شر کے بعد بھی خیر ہے؟ آپﷺنے فرمایا: جی ہاں! مگر اس میں کچھ دخن ہے۔ میں نے پوچھا: دخن کیا چیز ہے؟ فرمایا: کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو میری سنت کے علاوہ طریقے پر چلیں گے اور میری راہ کے علاوہ راہ اختیار کریں گے۔ ان کی بعض باتیں تم پسند کرو گے اور بعض نا پسند کرو گے ۔ میں پوچھا: کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں! جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو ان کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو ان کی بات کو قبول کرےگا، وہ اس کو دوزخ میں ڈال دیں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ان کے کچھ حالات بیان کریں۔ آپ ﷺنے فرمایا: وہ ہمارے گروہ سے ہوں گےاور ہماری زبانوں سے گفتگو کرنے والے ہوں گے۔ میں نے کہا: اگر میں ان کو پالوں تو آپﷺمجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ تو فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑواور ان کے مقتدی کا ساتھ دے۔ میں نے کہا: اگر ان کی کوئی جماعت نہ ہواور مقتدا نہ ہو تو آپﷺنے فرمایا: ان فرقوں سے الگ رہو اگر تمھیں درخت کی جڑ ہی کاٹنی پڑے، یہاں تک کہ موت تمھیں آ لےاور تم اسی بات پر قائم رہو۔ [یہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے اور مسلم کی روایت میں اس طرح ہے] میرے بعد کچھ ایسے رہنماہوں گے جو میری رہنمائی سے راہ نہیں پائیں گے اور نہ ہی میری سنت کو اپنائیں گے اور ان میں کچھ ایسے آدمی کھڑے ہوں گےجو انسانوں کے جسموں میں شیاطین کے دل والے ہوں گے۔ حذیفہؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اگر میں ان لوگوں کو پا ؤں تو میں کیا کروں؟ فرمایا: تو میری بات مان اور غور سے سُن، اگرچہ تمھاری پشت پر کوڑے لگائیں اور تمھارا مال لے جائیں ، تم ان کی بات سنو اور مانو۔)

یہ درست ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، مفسرین نے اولی الامر کی تعبیر میں حکام و امراء اور علماء دونوں کو مراد لیا ہے، اس لیے کہ ان دونوں کے ہاتھ میں زمامِ زندگی ہوتی ہے، جن اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، ان کی تعریف قرآن مجید نے کچھ اس طرح بیان کی ہے:

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّـٰهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ أَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَمَرُوا۟ بِٱلْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا۟ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلْأُمُورِ۔ (الحج: ۴۱)

(جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا وعدہ کیا، وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ جب زمین میں قوت دیتا ہے۔ اقتدار عطا کرتا ہے اور انھیں ان کے دشمنوں پر غلبہ عطا فرماتا ہے تو یہ نماز کو اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ قائم کرتے ہیں، جیسے کہ سنت کے مطابق اسے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اموال کی زکوٰۃ اس کے مستحقین تک پہنچاتے ہیں۔ تمام معاملات کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے اور ہر شے کو بالآخر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور انجام کار بالآخر اہلِ تقویٰ کے لیے ہے۔)

مفتی شفیع عثمانیؒ صاحب اس کے واقعاتی پہلو پر گفتگو کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’یہ تو اس آیت کے شان نزول کا واقعاتی پہلو ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ الفاظِ قرآن جب عام ہوں تو وہ کسی خاص واقعہ میں منحصر نہیں ہوتے، ان کا حکم عام ہوتا ہے، اسی لیے ائمہ تفسیر میں سے ضحاکؒ نے فرمایا کہ اس آیت میں اُن لوگوں کے لیے ہدایت بھی ہے جن کو اللہ تعالیٰ ملک و سلطنت عطا فرما دیں کہ وہ اپنے اقتدار میں یہ کام انجام دیں جو خلفائے راشدین نے اپنے وقت میں انجام دیئے تھے۔ (قرطبی مع توضیح)‘‘۔

مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس کے حاشیے میں لکھتے ہیں:

’’یعنی اللہ کے مددگار اور اس کی تائید و نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دنیا میں انھیں حکومت و فرماں روائی بخشی جائے تو ان کا ذاتی کردار فسق و فجور اور کبر و غرورکے بجائے اقامتِ صلوٰۃ ہو، اُن کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو، ان کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اُسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے ان کے دبانے میں استعمال ہو۔ اس ایک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں اور کار فرماؤں کی خصوصیات کا جوہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے‘‘۔

مولانا امین احسن اصلاحی نے بڑی وضاحت کے ساتھ وہ بات تحریر فرماتے ہیں، جس کی طرف اشارہ کرنا ہمارا مقصود ہے:’’دنیا میں مسلمانوں کے اقتدار و تمکین کی پہلی بشارت یہی ہے جس کا آغاز حرم کی سرزمین سے ہوتا ہے……کہ اس کی حیثیت ملت کے قلب کی ہے، اسی کے صلاح و فساد پر تمام ملت کے صلاح و فساد کا انحصار ہے۔ بعینہٖ یہی فريضہ مسلمانوں پر ہر اس سرزمین کے لیے عائد ہوتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ ان کو اقتدار بخشے۔ اگر وہ فريضہ ادا نہ کریں تو خدا کے نزدیک جس طرح دوسروں کا تسلط جائز ہے، اسی طرح ان نام نہاد مسلمانوں کا تسلط بھی نا جائز ہے‘‘۔

یہ بات سورۃ النور کی آیت میں مزید واضح کر دی گئی ہے۔

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّ لَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔(النور: ۵۵)

(اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے نصرت و غلبہ اور تمکین کا وعدہ کیا ہے کہ اللہ انھیں ضرور بالضرور روئے زمین پر خلافت عطا کرے گا، جیسے ان سے پہلے نیک و خدا ترس مؤمنین کو خلافت عطا کی تھی۔ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ دینِ اسلام جس کو ان کے لیے پسند و منتخب کیا ہے، اُسے قوت و اقتدار اور غلبہ عطا کرے گا اور جب بھی اس کے بندے اس کے دین پر قائم ہوں گے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے اور خالص اسی کی عبادت و اطاعت کریں گے تو وہ انھیں خوف و بد امنی سے نکال کر امن و سلامتی عطا کرے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے عزت، غلبہ اور خلافت عطا کرنے اور خوف و ہراس کے بعد امن و سلامتی عطا کرنے کے بعد کفر کرے گا اور اس کے حکم کی نافرمانی کرے گا تو وہ باغی و سرکش ہوگا۔ اطاعتِ الہٰی سے نکل جانے والا اور حدودِ الہٰی سے تجاوز کرنے والا شمار ہوگا۔)

اب تو سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ موجودہ اولی الامر کی اطاعت کی جائے تو کس بنیاد پر کی جائے، کیوں کہ ارشاد یہ فرمایا گیا ہے کہ یَاأیّھا الّذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و أُولی الأمر منْکم، یعنی اپنے میں سے ان ذمہ داروں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، جو حق و انصاف کے ساتھ امور کی ذمہ داری اٹھائیں، لیکن یہاں تو صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ وہ مؤمنین کے مقابلے میں طاغوت کے ساتھ کھڑے ہیں، طاغوت کی مدد کر رہے ہیں، طاغوت کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں، ابھی ایک اسرائیلی وزیر کا بیان نظر سے گزرا کہ ’’شہر رمضان‘‘ کی اصطلاح کو مٹا دینا چاہیے، تاکہ اس سے ہمارے خوف کی تسکین ہو سکے، ظاہر ہے کہ اس کو معلوم ہے کہ رمضان نظامِ تربیت ہے، ماہ رباط و جہاد ہے، رمضان بدر کی یاد تازہ کرتا ہے، غزہ کی جنگ کے دوران رمضان کی آمد سے پہلے یہ بیان بڑا معنیٰ خیز ہے، لیکن دوسری طرف سعودی فرمان نظر سے گذرا جس میں کہا گیا ہے کہ رمضان میں مدینہ کے سنیما گھر بھی کھلیں گے، ریستوران کے کھلنے کے اوقات بھی تبدیل کیے گئے ہیں، اور ایک بڑا حکم یہ صادرکیا گیا ہے کہ اگر کوئی پورے ماہ کھلے عام روزہ نہ رکھے تو کوئی تنبیہ و نکیر نہیں کی جائے گئی، جنھیں تاراج و برباد غزہ میں دسیوں ہزاروں شیر خواروں کے چیتھڑے نظر نہیں آئے، انھوں نے اس حکم نامہ کے لیے انسانی حقوق کے احترام کا حوالہ دیا ہے، اب سوچیے کہ یہ ’’منکم‘‘ کی صف میں ہیں یا فکری و عملی طور پر ’’منھم‘‘ کی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں، ہم یہاں چار آیات پیش کر کے ان اہلِ علم کو از سرِ نو غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں، جو نوافل و مستحبات اور فروعی ومسلکی امور کے ترک پر تو تڑپ جاتے ہیں، لیکن خونِ مسلم کی ارزانی، حجازِ مقدس کے تقدس کی پامالی اور احکام ولاء و براء سے صریح انحراف انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ارشاد ربانی ہے:

یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَ النَّصٰرٰی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔ (المائدہ: ۵۱)

(اے ایمان والو! تم قرآن کی تصدیق کرتے ہو اور رسول کا اتباع کرتے ہو۔ تم مؤمنین کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست و ساتھی مت بناؤ کہ ان سے راز کی باتیں کرو اور ان سےمدد حاصل کرو، ان کے لیے دل میں محبت نہ رکھو، کیوں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں، تمھارے مقابلہ میں وہ متحد طاقت ہیں، جو یہود و نصاریٰ سے محبت کرتا ہے، ان کو قابل اعتماد دوست بناتا ہے، وہ در حقیقت ان ہی میں سے ہے۔ اس لیے کہ وہ ان کے عمل سے راضی ہے، ان سے محبت کرتا ہے اور اہل ایمان کو چھوڑ کر انھیں اپنا دوست بناتا ہے، اس وجہ سے وہ ظالم اور حدود شریعت سے تجاوز کرنے والا ہے۔ اللہ ظالم کو ہدایت نہیں دیتا اور نہ اس کو توفیق دیتا ہے نہ اس کی اصلاح کرتا ہے۔)

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّـذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَآءَ وَاتَّقُوا اللهَ اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔(المائدہ: ۵۷)

(اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ اور مشرکین و منافقین سے حقیقی دوستی کرنے سے بچو کہ تم ان سے محبت کرنے لگو اور ان کی دوستی میں ڈوب جاؤ۔ یہ لوگ تمھارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں، تمھارے دین سے کھلواڑ کرتے ہیں، یہ لوگ در حقیقت دشمن ہیں۔ جن سے اللہ دشمنی کرتا ہے ان کو دشمن جانو۔ اگر تم اللہ پر یقین رکھتے ہو تو اس کے غضب و عقاب سے بچواور جس کا وہ تمھیں حکم دیتا ہے، اس کی پابندی کرو۔)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا۔ (النساء: ۱۴۴)

(اے ایمان والو! منافقوں کی طرح مت بنو کہ اللہ کو چھوڑ کر کفار کو اپنا دوست اور سرپرست بناؤ۔ صالحین کی صحبت چھوڑ کر گنہگاروں کی صحبت اختیار کرو، منافقوں کا مسلک مت اختیار کرو۔ اللہ اس کے رسول اور مؤمنین سے دوستی کرو، اگر تم مؤمنین کو چھوڑ کر کفار سے دوستی کروگے تو اللہ تعالیٰ تمھارے خلاف کھلی حجت قائم کر دے گا کہ پھر تمھیں سزا دے گا، تم سے انتقام لے گا اور تم کو شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔)

هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ۔ (آلِ عمران: ۱۱۹)

(اے مسلمانو تم کو کیا ہو گیا ہے؟ ان لوگوں کی محبت میں پڑنے کی خطا کرتے ہو، حالاں کہ یہ تو اللہ کے دشمن ہیں، یہ تم سے بالکل بھی محبت نہیں کرتے، بلکہ شریعتِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں۔ تم تو ان کے رسولوں پر ایمان لائے، ان کی کتابوں کو مانا جب کہ یہ لوگ تمھارے رسول اور قرآن کا انکار کرتے ہیں۔ جب تمھارے پاس ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو آپس میں ایک دوسرے سے شدید غصہ کا اظہار کرتے ہیں، سازشوں کے جال بُنتے ہیں اور تمھارے دین کے لیے اور تمھارے لیے شدید حسد رکھتے ہیں، ان کی تمنا ہے کہ اللہ نے تم کو جو نعمت دی ہے وہ زائل ہو جائے۔ وہ تمھاری ایذا رسانی کے لیے منصوبے بناتے ہیں، ان سے کہیے یوں ہی گھٹتے مرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے جو کچھ وہ راز رکھتے ہیں اور جو کچھ دلوں میں چھپاتے ہیں۔ وہ عنقریب انھیں ان کے کیے کی سزا دے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کی طرف سے چاہے جتنی محبت کا اظہار ہو، مگر مؤمن کو اس سے ظاہری تعلقات رکھنے سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ انھیں گہرا دوست اور مخلص ساتھی نہیں بنانا چاہیے، ان کی دوستی و محبت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ سے تعلق رکھنے والوں کو ہی اپنا گہرا دوست بنانا چاہیے جنھوں نے اس کے رسول کی تصدیق کی اور قرآن کا اتباع کیا ہے۔)

گذشتہ سطروں میں آپ موالاۃ کفار یعنی یہود و نصاریٰ سے دل لگانے، اہلِ ایمان کے خلاف ان سے معاہدے کرنے، عالمِ اسلام کو ان کے لیے کمزور کرنے کی بابت پڑھتے آ رہے ہیں۔ یہاں یہ سمجھ لیجیے کہ موالاۃ معاداۃ کی ضد ہے یعنی دشمنی کے بالمقابل دوستی، موالاۃ کفار کا مطلب ہے کہ ان میں سے بعض سے بہت قریب اختیار کی جائے، ان کے لیے محبت کا اظہار کیا جائے، ان پر اعتماد کیا جائے، ان سے دوستیاں رچائی جائیں اور ان کی صفوں میں کھڑا ہوا جائے، بعض محدثین نے فرمایا کہ موالاۃ کفار کا مطلب یہ ہے کہ ان کا تقرب حاصل کیا جائے، ان کے لیے قول و عمل سے محبت کا اظہار کیا جائے یا محبت کی نیتیں کی جائیں اور ارادے کیے جائیں۔ (نضرۃ النعیم، ج: ۱۱، ص: ۵۵۷۱) قرآن مجید میں جہاں ایک طرف اللہ کی ولایت اختیار کرنے، اس سے تعلق بڑھانے اور اس کا تقرب اختیار کرنے کا حکم دیا گیا، مؤمنین کو ولی و دوست بنانے کا حکم دیا گیا، وہیں دوسری طرف کفار سے دوستیاں رچانے سے منع کیا گیا ہے، یہود و نصاریٰ کا صراحت سے ذکر کر کے ان سے دوستی رچانے سے منع کیا گیا ہے، ظالموں سے تعلقات بنانے اور بڑھانے سے روکا گیا ہے، درجنوں آیات صراحت کے ساتھ اس پر دلالت کرتی ہیں، ولاء و براء کے سلسلے میں فقہاء کے استنباط اپنی جگہ، لیکن امریکہ کی اسلام دشمنی اور اسرائیل کی قتل و غارت گری سامنے کی بات ہے، اس کے بعد ان سے فوجی، تجارتی اور سیاسی معاہدوں کے کیا معنیٰ رہ جاتے ہیں، اہلِ غزہ کو چھوڑ کر صہیونیت کی صف میں کھڑے ہو جانے پر کیا حکم لگتا ہے؟ عبد اللہ بن عباسؓ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ابوذرؓ سے فرمایا کہ ایمان کا سب سے مضبوط بندھن کون سا ہے؟ ابو ذرؓ نے صحابہ کے مزاج کے مطابق جواب دیا: اللہ و رسولہٗ أعلم۔ پھر حضورﷺنے وضاحت فرمائی کہ اللہ کے لیے دوستی کرنا اور اسی کے لیے دشمنی کرنا، اسی کے لیے محبت کرنا اور اسی کے لیے بعض رکھنا۔ علامہ البانیؒ نے سلسلہ صحیحہ میں یہ روایت ذکر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهٗ وَإِلَى اللهِ الْمَصِيرُ۔ (آل عمران: ۲۸)

(اے مؤمنو! اللہ کو چھوڑ کر کفار سے رابطہ مت قائم کرو۔ مؤمنین کو چھوڑ کر ان کو اپنا ساتھی اور مددگار و چارہ ساز مت بناؤ۔ ان سے دوستیاں مت رچاؤ۔ اگر تم نے اہلِ ایمان کو چھوڑ کر ان سے دوستیاں رچائیں تو سمجھ لو کہ تم اللہ کے سچے بندے نہیں رہو گے اور نہ ہی اس سے تمھارا کوئی تعلق رہے گا، پھر تمھارا دعویٔ ایمان جھوٹا ہوگا اور ایمان کی طرف تمھاری نسبت بے معنیٰ ہوگی۔لیکن اگر داخلی طور پر تمھیں ان سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اپنے بچاؤ کی خاطر تم ان سے نرم کلامی کر سکتے ہو، مجبوری میں ان سے اچھی طرح پیش آ سکتے ہو جب کہ دل میں اس وقت بھی خالص اللہ کی محبت رہنا اور اسی سے مضبوط تعلق قائم رہنا ضروری ہے۔ یہ تو بس ظاہری تصنع اور ظاہری خوش خلقی کی اجازت ہے۔اللہ رب العزت کے غضب سے ڈرو۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں متنبہ کر دیا ہے اور اس چیز سے روک دیا ہے جو باعث عذاب و عقاب ہے۔ اور بالآخر تم کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، تاکہ ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ ملے۔ جس نے اچھے کام کیے ہوں گے اس کو اچھا بدلہ ملے گا اور جس نے برے کام کیے ہوں گے اس کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔)

کفار اور مشرکین سے تعلقات کی بابت پہلی مرتبہ سورۃ آلِ عمران کی اس آیت میں تذکرہ آیا، جب کہ آگے قرآن مجید میں مزید سخت احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں ذرا سی وضاحت سے کفار سے تعلقات کی نوعیت واضح ہو جائے گی۔کفار سے تعلقات کی تین نوعتیں ہو سکتی ہیں:

پہلی نوعیت کو اصطلاح میں موالات یعنی حقیقی دوستی رچانا۔ حقیقی دوستی کا مطلب کہ ایک دوسرے کے فائدہ و نقصان اور غم و خوشی کو اپنا سمجھ لینا اور ایک دوسرے کے لیے جان کھپا دینا یا حقیقی دوستی کا اور جو کچھ بھی مفہوم آپ سمجھیں بہر حال اس کی گنجائش نہیں۔ تعلقات کی یہ نوعیت سرے سے جائز نہیں۔

دوسری نوعیت مواسات کی ہے، یعنی احسان کرنا، حسنِ سلوک کرنا، نفع پہنچانا۔ تعلقات کی یہ نوعیت صرف ان کفار کے ساتھ ناجائز ہے حربی کافر ہوں۔ ان کے علاوہ دوسروں کے ساتھ یہ نوعیت جائز ہوگی۔

تعلقات کی تیسری نوعیت ظاہری خوش اخلاقی اور خاطر داری ہے۔اپنے ضرر اور اپنے دفاع کے لیے خاطر مدارات جائز ہے۔ کافر کی ہدایت کی امید میں اس کی گنجائش یا کافر مہمان بن کر آئے تو اکرامِ ضیف کے طور پر اس کا امکان ہے۔ اس مختصر سی وضاحت سے یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ قرآن مجید عام انسانوں اور بے ضرر لوگوں کے ساتھ انسانی بنیادوں پر احسان و نفع رسانی کے خلاف نہیں ہے۔ یہ بھی واضح ہو گیا ہوگا کہ اسرائیل و امریکہ جیسے کفر کے اڈوں سے مسلم ممالک کے باہمی تعاون پر مشتمل تعلقات شرعی اعتبار سے سراسر گناہِ عظیم ہیں، اس لیے کہ عرصہ سے وہ اہلِ ایمان سے برسرِپیکار ہیں۔ان کی اسلام دشمنی عیاں ہے۔ اُن کی گردن پر ہزاروں بے گناہوں اور معصوموں کا خون ہے۔ قرآن کا نظریہ اور نظام دوٹوک اور عادلانہ ہے۔ یہاں بھی تعلقات کی نوعیت سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ قرآن برابری کا موقف اختیار کر رہا ہے اور عادلانہ حکم دے رہا ہے۔

ابن جریر نے اس کی تفسیر میں بہت صاف صاف لکھا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے صریح ممانعت ہے کہ مؤمنین کفار کو اپنا اعوان و انصار اور مددگار نہ بنائیں، ان سے دوستیاں نہ رچائیں، ان کے مذہب پر رہتے ہوئے ان کی حمایت نہ کریں، مسلمانوں کے خلاف ان کی مدد نہ کریں، انھیں مسلمانوں کے راز نہ بتائیں، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اللہ سے بری ہیں اور اللہ ان سے بری ہے۔ امام ابن کثیرؒ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اسی براءت کے ذکر کے بعد قرآن مجید کی کئی آیات نقل کی ہیں، سب سے پہلے انھوں نے سورۃ الممتحنہ کی اس آیت کا حوالہ دیا ہے، پھر سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۴۴ نقل کی ہے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْـهِـمْ بِالْمَوَدَّةِ۔(الممتحنہ: ۱)

(مسلمانو! اللہ کے اور مسلمانوں کے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، کہ ان کے ساتھ محبت و اعانت سے پیش آنے لگو۔)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا۔(النساء: ۱۴۴)

(اے ایمان والو! منافقوں کی طرح مت بنو کہ اللہ کو چھوڑ کر کفار کو اپنا دوست اور سرپرست بناؤ۔ صالحین کی صحبت چھوڑ کر گنہگاروں کی صحبت اختیار کرو، منافقوں کا مسلک مت اختیار کرو۔ اللہ اس کے رسول اور مؤمنین سے دوستی کرو، اگر تم مؤمنین کو چھوڑ کر کفار سے دوستی کروگے تو اللہ تعالیٰ تمھارے خلاف کھلی حجت قائم کر دے گا کہ پھر تمھیں سزا دے گا، تم سے انتقام لے گا اور تم کو شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔)

ہم فقہی تصریحات سے قطع نظر موالاۃ کفار اور ان حالات میں عرب شاہان کی اسرائیل دوستی کو قطعاً درست نہیں سمجھتے، بلکہ غاصب صہیونی ریاست کے باشندوں کو حربی کافر سمجھتے ہیں، وہاں کی حکومت کو قبلۂ اولیٰ کی مجرم، اہلِ فلسطین کی قاتل، کٹر اسلام دشمن، نسل پرست اور دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اور حربی کفار کی حکومت سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید کی واضح ہدایات اور مفسرینِ سلف کے دو ٹوک موقف کو دیکھتے ہوئے حضراتِ علماء کو اس کی سخت مذمت کرنا چاہیے کہ اہلِ عرب ان قاتلوں اور غاصبوں سے معاہدۂ امن کریں، اب کوئی بھی چیز ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی، یوں بھی کفار سے محبت ، ان کی دوستی کا دم بھرنا، مسلمانوں کے خلاف معاہدے کرنا، انھیں تقویت پہنچانا، مسلمان کی نہیں، منافق کی خصوصیات ہیں، موالاۃ کفار کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ انسان اپنے دین سے نکل کر دوست و محبوب کے دین میں داخل ہو جاتا ہے، اللہ اس کے رسول اور اسلام کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کرتا ہے، اسلام کی بنیادیں کھوکھلی کرتا ہے اور باطل کو تقویت پہنچاتا ہے، اہلِ ایمان کو اذیت پہنچانے کا سبب بنتا ہے، اہلِ فلسطین کے خلاف عالمِ عربی کے بیشتر حکمرانوں نے جو رویّہ اپنایا ہے، وہ نہ صرف مجرمانہ، فاسقانہ اور منافقانہ ہے، بلکہ اہلِ ایمان کے لیے مسلسل ذہنی اذیت کا سبب ہے۔ عالم اسلام کے زوال کی انتہا ہے، عرب شاہوں کے تنازل کی آخری حد ہے، او آئی سی اور اسلامی معاون تنظیم کے دیوالیہ پن کا اعلان ہے، اس کے بعد ان کے وجود کے خاتمہ کا ہی اعلان باقی رہ جاتا ہے، کہ اس کے بعد ہی صبح نو کی نموداری کے امکان ہیں، ورنہ جو حکمراں بھی کچھ غیرت مند ہیں وہ بھی ان فراعنہ و نماردہ کی موجودگی میں معذور ہیں، ابلیسی عالمی نظام نے سب کو جکڑ رکھا ہے، جس دن ان حکمرانوں نے اس کی زنجیریں توڑ کر اپنے وجود کے اعلان کا فیصلہ کر لیا، اُسی دن سے نئے دور کا آغاز ہو جائے گا اور امت کا وقار پھر بحال ہو سکے گا۔ زوال کی یہ دھند چھٹے گی اور عروج کی کرنیں روشنی بکھیریں گی۔

٭٭٭

Comments are closed.