Baseerat Online News Portal

لڑکیوں کی نسل کشی کے لئے سماج کی خاموش رضامندی کیوں؟

ڈاکٹرمرضیہ عارف
٭ ہمارے ملک ہندوستان جنت نشان کو دنیا میں کئی امتیازحاصل ہیں یہاں بظاہر عورتوں کو دیوی کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن جب مرد اور عورت کے درمیان حقوق واختیارات کی بات آتی ہے تو عام طور پر عورتوں اور لڑکیوں سے ناانصافی ہوتی ہے، ہمارے معاشرہ میں دور دور تک ایسی مثال نہیں ملتی جو عورتوں سے مساوات کو ظاہر کرتی ہو، یہاں خواتین کے ساتھ مختلف طریقوں سے جانبداری برتی جاتی ہے، جہیز کی لعنت ہو یا وراثت کی تقسیم ، تعلیم کا حق ہو یا بچوں کی پرورش لڑکی کو جان بوجھ کر بوجھ سمجھا جاتا اور نظر انداز کردیا جاتا ہے، خاص طور پر لڑکیوں کو رحم مادر میں مار ڈالنے کی وبا نے تو ایک تشویشناک صورت اختیار کرلی ہے۔اس کام میں پہلے تو صدیوں سے آزمائے جارہے نسخوں اور طریقوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا تھا لیکن پچھلے ۲۵-۳۰ سال سے سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی سے بننے والے آلات ووسائل سے مدد لی جانے لگی ہے، یہ طریقہ ہے دورانِ حمل ماں کے پیٹ میں پلنے والے بچہ کا پتہ لگانا کہ اس کی جنس کیا ہے؟ جس کے بعد اگر لڑکی کی شناخت ہوگی ہے تو اس حمل کو غیر مطلوبہ قرار دیکر ضائع کرادیا جاتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ مذکورہ آلہ حمل کی خرابیوں کو جانچنے کے لئے ایجاد ہوا تھا، جسے تخریب پسند انسانی ذہن یعنی شاطر معالجوں نے لڑکیوں کو رحم مادر میں ختم کرنے کا اوزار بنالیا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق اس ذریعہ سے ہر سال ۲۵ لاکھ مائوں کے رحم میں پلنے والی لڑکیوں کو پیدائش سے قبل تہہ تیغ کردیا جاتا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کی ترقی یافتہ شمار ہونے والی ریاستوں سے لیکر پچھڑے صوبوں تک یہ کام نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ قانونی حد بندی کے باوجود جاری ہے۔
۲۰۰۱ء کی مردم شماری رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں ایک ہزار مردوں کے مقابل عورتوں کی تعداد صرف ۹۳۳ ہے۔ اگر عالمی سطح پر ہم جائزہ لیں تو روس میں ایک ہزار مردوں کے مقابل خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ۱۱۴۰ ہے جبکہ امریکہ میں ۱۰۲۹ اور جاپان میں ۱۰۹۱ عورتیں پائی جاتی ہیں، ان کے علاوہ برازیل، نائجیریا، انڈونیشیا میں بھی مردوں کے مقابل عورتوں کی آبادی زیادہ ہے۔ایک اور جائزہ کے مطابق بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال جیسے کم ترقی یافتہ ملکوں میں صورت حال ہندوستان سے بہتر ہے لیکن تیز رفتار سے ترقی کرنے والا ملک ہندوستان ، عورتوں کی آبادی کے تناسب میں کمی کے لحاظ سے دسویں مقام پر ہے، ہمارے یہاں عورتوں کی آبادی میں مذکورہ کمی اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس سلسلے کے اعداد وشمارکوپرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آبادی میں یہ کمی درجہ بدرجہ آئی ہے۔ ۱۹۶۱ء کی مردم شماری میں ایک ہزار مردوں کے مقابل عورتوں کی آبادی ۹۷۶ تھی جو ۲۰۰۱ء کی مرد م شماری میں گھٹ کر ۹۲۷ رہ گئی ہے صرف کیرل ایک ایسی ریاست ہے جہاں لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کی آبادی میں دو پوائنٹ کا اضافہ درج ہوا ہے، باقی سبھی ریاستوں میں چھ سال تک کی عمر والے بچوں میں لڑکیوں کی آبادی میں گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے، کیرل میں ماں باپ کے ہاتھوں بیٹیاں اس لئے محفوظ ہیں کہ وہاں طویل عرصہ سے عورتوں میں بیداری کی مہم چلائی جارہی ہے، خاص طور پر وہاں ’’ماں کی بالادستی قائم کرنے کی رسم‘‘ نے اس کے لئے زمین ہموار کرنے کا کام کیا ہے۔ اس ریاست میں وقتاً فوقتاً بننے والی سرکاری پالیسیوں کے باعث تعلیم اور صحت کے شعبے میں اچھا کام ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں عورتوں کی حالت دوسری ریاستوں کے مقابلہ میں بہتر ہے اور اسی لئے نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین سے لیکر دنیا کے دوسرے جانے مانے ماہر اقتصادیات کیرل ماڈل کا ذکر کرنے سے نہیں چوکتے۔ جن ریاستوں میں لڑکیوں کی شرح پیدائش زیادہ کم ہوئی ان میں پنجاب ، ہریانہ، ہماچل پردیش، چنڈی گڑھ، دہلی اور گجرات جیسی ترقی یافتہ ریاستیں سرفہرست ہیں، لڑکیوں کی پیدائش میں اس گراوٹ کا باعث ماں باپ کا وہ رویہ ہے جو عموماً لڑکیوں کے ساتھ برتا جاتا ہے، خاص طور پر لڑکوں کے مقابل لڑکیوں کی پرورش میں کوتاہی یا پیدائش سے پہلے ان کی جنس کا اندازہ لگا کر رحم مادر میں مار ڈالنا حقیقت میں ایک مرض ہے، جس کے پیچھے سماجی اور معاشی طور پر لڑکیوں کو بوجھ اور لڑکوں کو خاندان کا اثاثہ سمجھنے کی ذہنیت کام کررہی ہے۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں لڑکیوں کی ہلاکت کے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں، جن لوگوں کو رحم مادر میں اسکیننگ کی سہولت حاصل نہیں یا جو ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والے بچے کی جنس کا بر وقت اندازہ نہیں لگا پاتے وہ لڑکیوں کو ان کی پیدائش کے فوراً بعد منہ میں مٹھی ڈال کر یا ان کے ناک میں تمباکو سے تیار کیمیکل بھر کر ان کی جان لے لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ملک کی ۶۰ لاکھ عورتوں کا قومی سروے کیا، جس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال ہندوستان میں توقع سے ۵ لاکھ لڑکیاں کم پیدا ہوتی ہیں کیونکہ انہیں ماں کی کوکھ میں ہی ختم کردیا جاتا ہے۔
یونیسیف کی ایک رپورٹ مظہر ہے کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران مختلف طریقوں سے تقریباً ۱۰ ملین لڑکیوں کو پیدائش سے قبل یا بعد میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، یہ پہلو بھی کم حیرت انگیز نہیں کہ اسقاطِ حمل کرانے کے اس کام میں جاہل و پسماندہ عورتوں کے مقابل تعلیم یافتہ روشن خیال اور دولت مند خواتین پیش پیش ہیں۔
یہ تو ہوا پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کا حال، غریبوں میں بھی لڑکیوں کی پیدائش کے بعد ان سے جو خراب برتائو ہوتا ہے ۔ اس سے غریب خاندانوں میں لڑکیوں کی اموات کی شرح میں اضافہ اور افزائش کی شرح میں کمی آرہی ہے، اول الذکر رویہ کے خلاف ضرور حکومت نے قانون بناکر قابو پانے کی کوشش کی ہے لیکن غربت وبدحالی کی وجہ سے لڑکیوں کی اموات کا بڑھنا ایک سماجی مجبوری ہے جس سے قانون سازی کے بجائے معیار زندہ بہتر بناکر ہی نمٹا جاسکتا ہے۔
افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس ملک میں یہ ہورہا ہے جہاں آج شیروں کی آبادی گھٹنے پر تشویش کا اظہارہوتا ہے اور آوارہ کتوں کو مارنے کے خلاف چیخ وپکار کی جاتی ہے۔ دوسری طرف اسی ملک میں لڑکیوں کی نسل کشی کو سماج نے خاموش اجازت دے رکھی ہے۔ حالانکہ عورت اور مرد کا یہ جنسی عدم توازن اور اولاد کو اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دینے کا عمل ہرگز اچھی علامت نہیں اگر یہی حال رہا تو آئندہ چند برس میں مردوں اور عورتوں کے درمیان آبادی کا بڑھتا فرق خطرناک بن جائے گا۔اور اس وقت سماج میں عورتوں کی کمی سے مجبور ہوکر مردوں کی ایک بڑی تعداد شادی سے محروم رہ جائے گی ۔ اس لئے حکومت سے ساری توقع قائم کرلینا کہ وہی لڑکیوں کی اِس نسل کشی پر قابو پائے، زیادہ عملی نہیں، اس کے بجائے مذہبی و اخلاقی سطح پر اس برائی کا مقابلہ کرنے کی فکر ہونا چاہئے۔یہ کام لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار کے مواقع بڑھاکر بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ قانون وانتظام کے نفاذ سے بھی زیادہ مشکل کام ہے اور جب تک سماج میں لڑکیوں کی نسل کشی کو ایک لعنت سمجھ کر اس کا مقابلہ نہیں ہوگا اس وقت تک یہ برائی دور ہونا مشکل ہے، غالباً ۱۹۸۰ء کی دہائی میں جب سب سے پہلے یہ راز فاش ہوا تھا کہ ایک خاص جانچ کے ذریعہ رحم مادر میں پلنے والے لڑکی کے حمل کو ضائع کیا جارہا ہے تو ممبئی کے بیدار شہریوں خاص طور پر خواتین تنظیموں نے بچے اور بچیوں کو لیکر اس جرم میں ملوث اسپتال کا گھیرائو کردیا تھا، اس احتجاجی ریلی میں لڑکیوں نے جو پوسٹر اور بینر ہاتھ میں اٹھا رکھے تھے، ان پر لکھا تھا کہ ’’ہم بھی جینا چاہتے ہیں‘‘ اور ’’لڑکی لڑکے سے کسی طرح کم نہیں ہوتی‘‘ پندرہ دن تک چلنے والے اس دھرنے کے بعد مہاراشٹرہندوستان کی وہ پہلی ریاست بنی جہاں ماں کے پیٹ میں پل رہے بچے کی جنس کو شناخت کرکے ضائع کرنے کے خلاف قانون بنادیا گیا۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ قانون کے ساتھ عوام میں بیداری لاکر اس لعنت کا مقابلہ کیا جائے اور مذہب کے اعلیٰ اصول جو ایسے کسی عمل کی اجازت نہیں دیتے بلکہ ہر انسانی جان کی حفاظت کو ضروری قرار دیتے ہیں، ان سے بھی خاطر خواہ مدد لی جائے۔٭

Comments are closed.