Baseerat Online News Portal

جنگ بندی : کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

 

ڈاکٹر سلیم خان

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان کے علاوہ دس غیر مستقل ارکان ہوتےہیں جن کے پاس ویٹو کی طاقت نہیں ہوتی  ۔ انتظارِ بسیار کے بعد تمام غیر مستقل ارکان نے فوری جنگ بندی کی ایک مشترکہ  قرارداد پیش کی اور وہ  منظور ہوگئی۔اس  قرارداد کو امریکی غیر حاضر نمائندے کے علاوہ سارے ارکان کی حمایت حاصل تھی  ۔ اس  میں جنگ بندی کے علاوہ  یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی اور غزہ میں بلا رکاوٹ امداد کی رسائی پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ووٹنگ سے پہلے امریکہ  نے مستقل جنگ بندی کے الفاظ کو طویل جنگ بندی  سے  تبدیل کرنے کے بعد ویٹو کرنے سے گریز کیا۔ماضی میں  جنگ بندی کے حوالے سے 4 قراردادیں پیش کی گئی تھیں  اور ان میں سے ایک امریکہ کی جانب سے بھی تھی مگر  کسی کو  منظوری  نہیں ملی۔اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے  کہا کہ اس  کا فوری نفا ذ  نہ ہونا  ناقابل معافی  جرم ہے۔حماس نے جنگ بندی کی قرارداد کے منظور ہونےکا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس میں   دونوں طرف سے  قیدیوں کے فوری تبادلے پر زور دیاگیا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل نے امریکہ کی جانب سے قرارداد ویٹو نہ کرنے کو ماضی کے مؤقف سے پیچھے ہٹنا قرار دےکر اپنے  وفد کا دورہ امریکہ منسوخ کر دیا۔

چوری اور سینہ زوری کرنے والے اسرائیل کا دعویٰ ہےکہ امریکہ کے اس اقدام سے حماس کے خلاف جنگ اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ اسرائیلی حزب اختلاف کے رہنما نے اسرائیلی وفد کے دورۂ امریکہ کی منسوخی  کو نیتن یاہو  کا اپنی ناکامی چھپانا بتایا  اور  امریکہ نے بھی  افسوس کا اظہار کیا ۔  اس  نورا کشتی سے قطع نظر  اسرائیلی وزیر دفاع کا بیان زیادہ خطرناک ہے کہ جس میں نے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت روکنے سے انکار کرتے ہوئے کہا گیا  کہ وہ  امریکہ کو بتادیں گے کہ اسرائیل حماس کے خلاف ہر جگہ کارروائی کرے گا۔یعنی  اس جگہ بھی کارروائی ہوگی  جہاں اب تک نہیں ہوئی۔  اس ڈینگ مارنے والے وزیر دفاع کی حالت تو یہ ہے اسرائیل میں فوجیوں کی تعداد کم پڑ رہی ہے اس لیےفوجی بھرتی کا متنازع بل پارلیمان میں پیش کیا جا رہا ہے ۔معاشی سطح پر 2022 میں 35 سال بعد جی ڈی پی کا 0.6 فیصد سرپلس  بجٹ 2024 میں 3.5 فیصد خسارے میں چلا گیا۔ سال  2022 میں اسرائیل کی جو شرح نمو ’جی ڈی پی‘ کا 6.5 فیصد تھی اب  1.5 فیصد  رہ  گئی ہے۔

 جنگ  نےاسرائیل کے اسلحے کی برآمدات کے ساتھ  سیاحت کو بھی متاثر کیا۔ وہ تو امریکہ کے   مرکزی بینک نے اسرائیل کو جنگ کے لیے 45 ارب ڈالرز فراہم کرنے کی منظوری دے دی نیز  امریکی کانگریس نے 14 ارب ڈالرز سے زائد کے امدادی پیکیج دے دیا ورنہ اسرائیل ابھی تک سڑک پر آجاتا۔  حقیقت یہ کہ  1948 سے آج تک اسرائیل کے جنگی خسارے کو  امریکہ اور یورپ پورا کرتے آئے ہیں۔ اسرائیل کو اگر تنہاچھوڑ دیاجاتا تووہ کب کا تباہ و برباد  ہوگیاہوتا۔ امریکہ  سے  ناراض اسرائیل نےپچھلے ہفتہ چار یورپی ممالک  سے بھی پنگا لے کر انہیں متنبہ کردیا کہ اُن کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اس تنازع کو کم کرنے وا لے  مُمکنہ مذاکرات کے امکانات کو کم کر دیں گے۔ اس ناراضی  کی وجہ یہ ہے کہ ا سپین  نے’مشرقِ وسطیٰ میں امن‘ کی خاطر  آئرلینڈ، مالٹا اور سلووینیا کے ساتھ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی ریاست کو تسلیم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس طرح اسرائیل اب اپنے سب سے بڑے حلیف سمیت چھوٹے حامیوں سے بھی دست گریباں ہورہا ہے۔

اسرائیل کے ساتھ ساز باز کرکے   گزشتہ ہفتہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں  امریکہ نے ایک  مسودہ  پیش کیا جسے ویٹو کردیا گیا کیونکہ اس میں اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ واضح نہیں تھا ۔حماس نے الزام لگایا تھا  کہ امریکی قرارداد کا گمراہ کن مسودہ مجرم صہیونی دشمن کے اہداف کے حصول کی خاطر جارحیت جاری رکھنے کی حمایت کرتا  ہے۔ اس میں  مشکوک، پراسرار اور مخصوص سیاسی مقاصد کی خاطر غزہ کی پٹی کے اندر فلسطینی قوم کو ختم کرنے کی حمایت کی گئی تھی  ۔ حماس نے امریکی منصوبے کو مسترد کرنے والے روس، چین اور الجزائر کی تعریف کی ۔ روس اور چین نے بھی اپنے ویٹو پاور کے استعمال کایہی جواز پیش کیا تھا کہ اس میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا کوئی براہ راست مطالبہ شامل نہیں تھا، بلکہ جنگ بندی کو محفوظ بنانے کے لیے جاری بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کے عندیہ پر اکتفاء کیا گیا تھا۔ اس نامنظوری کے اگلے دن اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے غزہ کی پٹی کو حقیقی، جان بچانے والی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے "انسانی بنیادوں پر” جنگ بندی کا مطالبہ دہرایا۔انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ غزہ میں جاری لڑائی روکی جائے اور جنگ بندی کی جائے کیونکہ غزہ میں جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے حالانکہ سچ تو یہ ہے  کہ جنگ کا شروع کرنا ہی جائز نہیں تھا ۔ حماس نے چند سو لوگوں کو یرغمال بنایا  اور مارا اس کے برعکس اسرائیل کی جیل  میں اس سے کئی گنا زیادہ فلسطینی قید  ہیں اور شہداء کی تعداد تو بے شمار ہے۔ اس لیے اسرائیل کو جنگ کرنے کے بجائے مذاکرات کرنا چاہیے تھی لیکن  کبر و غرور سے پُر فرعونی ذہن میں دانشمندی کی  یہ بات کیونکر آسکتی ہے؟

اسرائیل جس رفح کراسنگ  پر حملے کی بار بار دھمکی دےرہا ہے اس  کے مصری حصے میں  منعقدہ ایک پریس کانفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتریس نے  کہا : ’’رفح میں ٹرکوں کی لمبی قطاریں کھڑی ہیں اور دوسری طرف قحط کا شکار لوگ ہیں۔ ہمیں غزہ میں انسانیت کی بالادستی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں۔ انہوں نے  دعویٰ کیاتھا کہ وہ  بین الاقوامی برادری میں جنگ بندی اور غزہ میں امداد کے داخلے کا مطالبہ کرنے والی اکثریتی آوازوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل  نے اسرائیل سے مطالبہ کیا  تھا کہ وہ غزہ کے تمام حصوں تک انسانی امداد کے سامان کی غیر محدود رسائی اور پٹی میں یرغمالیوں کی رہائی کا پختہ عزم کرے۔ غزہ سے متصل مصری  شہر العریش کے اسپتال میں زخمیوں کا معائنہ کرنے کے بعدانہوں نے اپنے دورے مقصد یہ بتایا   کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کا درد دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں ۔ وہ بولے  غزہ میں پہلے سے زیادہ اب انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ امدادی ٹرکوں کو سرحد پر  روکنا اخلاقی کمزوری ہے۔ اسرائیل کو پورے غزہ میں بلا روک ٹوک انسانی امداد کی رسائی  دینی چاہیے۔

انتونیوگوتریس نے یہ بھی  کہا کہ رفح میں اسرائیل کا زمینی آپریشن انسانی تباہی کا سبب بنےگا۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے انسانی بنیاد پر جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ  فلسطینی ریاست کے  قیام پر زور دیا۔ انہوں  نے کہا کہ اتنے لوگوں کو مرتا ہوا اور اتنی اذیتوں میں مبتلا  نہیں دیکھا جاسکتا۔ اپنی بیچارگی کا اعتراف کرتے ہوئے  وہ بولے ان  پاس اختیار نہیں ہے اس  لیے ، جن کے پاس اصحابِ  اختیار سے اپیل ہے  کہ غزہ کی جنگ روکی جائے۔ غزہ کی  مصنوعی قحط سالی کا تعلق حماس کے حملے سے نہیں بلکہ اسرائیل کی ناکامی سے ہے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیل نےخونریز جنگ کے آغاز سے 139 دن بعد محاصرہ کرکے  امداد کا داخلہ  بند کر کے بھوک کو ہتھیا ر کے طور پر استعمال کرنے کا سفاکانہ فیصلہ کیا ۔اس شدید  بحران کے دوران ورلڈ فوڈ پروگرام نے 20 فروری 2024 کو "ایکس” پلیٹ فارم پر لکھا  کہ اس نے محصور شمالی غزہ کی پٹی میں انسانی امداد پہنچانے کوشش ناکامی کے بعد  بند کردی ۔ اس سے قبل اسرائیلی فوج ایک امدادی ٹرک کو محصور علاقے میں داخل ہونے سے پہلے بمباری کرکے تباہ کردیا  تھا۔

یونیسیف کے  مطابق رفح میں ۶؍لاکھ بچوں کو موت کا خطرہ لاحق ہے۔ایک زمانے میں  روزانہ 600 ٹرک کارم ابو سالم کراسنگ سے داخل ہوتے تھے۔ان کو روکنے کے بعد اب جو امداد غزہ کی پٹی میں پہنچ رہی ہے وہ کل آبادی کی ضروریات کا ایک فی صد بھی  نہیں ہے۔ اس دوران غزہ کی پٹی میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNRWA) کے بہت سے کارکن بھی  مارے گئے اس کے باوجود وہ اپنا کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ حماس نے اسرائیلی ناکہ بندی کی  مذمت کرتے ہوئے کہا  کہ  بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا، شہریوں کو بھوکا مارنا، عمارتوں کو جلانا اور تباہ کرنا ایسے جرائم ہیں جن کی جدید تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ حماس کے مطابق  یہ جرائم قابض ریاست کو برائی اور جرم کی ایسی علامت کے طور پر برقرار رکھیں گے جو انسانی تاریخ میں اس  سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ اسرائیل کے اس جرم  عظیم میں امریکہ سمیت یوروپ کی نام نہاد مہذب دنیا  پوری طرح شریک ہے ۔ اقوام متحدہ کی حالیہ جنگ بندی سے اس بات کا امکان روشن ہوگیا  ہے کہ اسرائیل کی نکیل کسی جائے گی اور ظلم وجور کی آندھی رکے گی نیز اس کے بطن سے فلسطین کی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ ان شاء اللہ

Comments are closed.