Baseerat Online News Portal

گدا گری مجبوری یا ایک پیشہ

آمنہ سویرا
روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس کا سامنا کرنے والوں کو مالی تنگ دستی اور بنیادی وسائل کی کمی کا سامنا کرنے والے غربا کی دلی و ذہنی کیفیات کا بہتر طور پر اندازہ ہو پاتا ہے کہ بھوک لا چاری کی ہی ایک بد ترین شکل ہے۔ اسی لیے خیرات اور غربا کی مالی مدد پر زور دیا جاتا ہے، تا کہ جہاں انسانوں کے درمیان مالی فرق کو کم سے کم کیا جا سکے، وہیں عارضی ہی سہی لیکن وسائل کی تقسیم سے امیر اور غریب کے فرق کو مٹایا جا سکتا ہے۔

یہاں تک تو بات بہت سادہ اور منطقی ہے لیکن ہر تصویر کی طرح اس کا بھی ایک دوسرا رخ ہے۔ بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ اپنے دستیاب وسائل سے مالی طور پر کمزور افراد کی مدد کرنے والے تعریف اور توصیف کے مستحق ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں صورت حال اس کے بر عکس ہے۔ لینے والا ہاتھ کسی بھی قسم کی ذاتی کوشش کے بغیر خود کو مکمل طور پر دینے والے ہاتھوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے ترقی پذیر ملک میں روز گار کے ذرائع محدود سے محدود تر ہوتے جا رہے ہیں اور منہگائی کی بڑھتی ہوئی شرح نے سفید پوش طبقے کے لیے زندگی کی بنیادی ضروریات کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے لیکن دوسری طرف سفید پوشوں کی آڑ میں پیشہ ورانہ بھکاری اس معاشرتی جذبہ ترحم کا ناجائز فائدہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں، جس کے اصل حق دار کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنی عزت نفس اور خود داری کا قتل سمجھتے ہیں۔

خود دار میرے شہر کا فاقوں سے مر گیا راشن تو بٹ رہا تھا مگر وہ فوٹو سے ڈر گیا

محتاط اندازے کے مطابق، ملک میں گدا گر مافیا مارکیٹوں، سگنلز، مساجد سمیت دیگر چھوٹے بڑے مراکز سے صرف ایک ماہ میں سات سے آٹھ ارب روپیہ جمع کرتے ہیں۔ ان گدا گروں میں جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں۔ رمضان کے دوران جرائم کی شرح بھی کئی فیصد تجاوز کر جاتی ہے۔ شہروں میں ڈکیتیاں، سٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب کہ شہری سلامتی کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق، ملک کے بڑے شہروں میں صرف رمضان میں لاکھوں کی تعداد میں بھکاری مضافاتی شہروں سے ”سیزن لگانے‘‘ آتے ہیں اور پہلے سے موجود مقامی گدا گروں کے ساتھ مل کر شہریوں سے ایک بڑی رقم صدقات اور خیرات کے نام پر اینٹھ لیتے ہیں۔ دوسری طرف دہشت گرد تنظیمیں بھی اس رجحان سے پورا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ کوئی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ کہیں ہماری حصول ثواب کے لیے دی گئی رقم ہی ہماری سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہو۔

بھکاریوں اور ان کے منظم گروہوں کے طریقہ واردات کے متعلق اتنا کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں۔ لیکن یہاں میں صدقات دینے والوں کے لیے کچھ کہنا چاہوں گی۔

خیرات اور صدقات دینے والوں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ جذبہ ترحم و سخاوت ایک احساس ذمہ داری کا بھی متقاضی ہے۔ یہ یقین کرنا بھی ضروری ہے کہ آپ کے دیے گئے صدقات، مفت خور پیشہ وروں کی پرورش کی بجائے جائز مستحقین تک پہنچ رہے ہیں۔

سڑکوں چوراہوں پر غربا کے لیے دستر خوان لگانا، مفت راشن کی تقسیم کے مراکز قائم کرنا اور بھکاریوں میں رقم تقسیم کرنا جیسے اقدامات وقتی طور پر شاید غربا اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی اور دل جوئی کا باعث تو ضرور ہوں گے لیکن دوسری طرف یہ رویے منظم بھکاریوں کے لیے آکسیجن کا کام کرتے ہیں۔ ایسے مخیر حضرات کی نیتوں پر شک نہیں، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کام اپنی ذاتی تشہیر اور انا کی تسکین کے لیے کیے جاتے ہیں۔

چند روز پہلے ایک خبر نظر سے گزری، جہاں امریکہ میں ایک خاتون نے ایک میڈیکل کالج کے طلبا کی سال بھر کی فیس خاموشی سے ادا کر دی۔ ترقی یافتہ ممالک میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں، جہاں مخیر حضرات نے علم و تحقیق پر دل کھول کر خرچ کیا جس کے مثبت نتائج بلا رنگ، نسل و مذہب تمام انسانوں کی بھلائی کی سطح پر دیکھے گئے۔

دور کیوں جائیے، ہمارے اپنے ملک میں ایسے کئی ادارے موجود ہیں جو منظم طور پر انسانی فلاح و بہبود کے لیے انتھک کام کر رہے ہیں۔ ہنرمند بیروز گاروں کے لیے روز گار کا بندوبست، لا چار مریضوں کے لیے علاج معالجے کی سہولیات کے ساتھ ساتھ معذوروں اور یتیموں کو معاشرے کا مفید رکن بنانے کے لیے ان کے اقدامات بہر طور قابل تعریف ہیں۔ لیکن ہمارے مخیر حضرات کی اکثریت شاید بھکاریوں کی سر پرستی کو حصول ثواب کا آسان ذریعہ سمجھتی ہے۔

اب ہی یہ وقت ہے کہ اس معاملے میں احساس ذمہ داری کو اجاگر کیا جائے۔ صدقات اور خیرات جو مذہبی عبادات میں ایک مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ان کی مستحقین تک رسائی یقینی بنانا بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جتنا دیگر عبادات۔ بصورت دیگر، بھکاریوں کی ٹولیاں ہمارے ارد گرد کے منظر کو اسی طرح گہناتی رہیں گی۔

Comments are closed.