Baseerat Online News Portal

اسلام کا فلسفۂ ’’ یُسر‘‘اور آج کل کی شادیاں

 

 

✍️ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

 

آج کل ہمارے شہر میں کچھ لوگوں نے ’’آسان نکاح‘‘ کی مہم چلا رکھی ہے، یہ بہت مبارک کام اور اقدام ہے، شادیوں کو جس طرح لوگوں نے حرص و ہوس، سماجی روایات و رسومات، سماجی دباؤ(Social Pressure) اور میرے الفاظ میں سماجی دہشت گردی(Social Terrorism) کے سبب مشکل و پیچیدہ بنا دیا ہے، اس کی وجہ سے نکاح دشوار ہو گیا ہے، بدکاری رواج پا رہی ہے، فحاشی رواج پا رہی ہے، لوگ ناجائز طریقے اپنا رہے ہیں یا ذہنی مریض بن رہے ہیں، بین مذاہب شادیوں کی وارداتیں بڑھنے میں ایک سبب شادی کی سماجی مشکلات اور رسم و رواج سے پڑنے والا بوجھ ہے۔ نکاح ایک عبادت بھی ہے اور ضرورت بھی، اسی لیے اسلام میں اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے اور اسے آسان بھی رکھا گیا ہے، اسلام کے تمام ہی احکامات آسان رکھے گئے ہیں، کسی ایسی بات کا حکم ہی نہیں دیا گیا ہے، جس کی انسان میں صلاحیت و اہلیت نہ ہو۔ یہاں ہم اسلام کے فلسفہ یُسر کی وضاحت کے لیے متعدد احکامِ شریعت مثلاً جہاد، نماز، روزہ، کفارہ، قصر اور وضو و تیمم جیسے بہت سے بنیادی مسائل کی مثالیں پیش کر سکتے تھے، لیکن طوالت سے بچنے کے لیے چند بنیادی آیات و احادیث پر ہی گفتگو کریں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا لَـهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْـهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۔ [البقرۃ: ۲۸۶]

(جب لوگ اللہ پر ایمان لے آئے اور اس کی طرف رجوع کر لیا تو اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اوامر و نواہی میں ان پر کوئی مشقت نہیں ڈالے گا، بلکہ اپنی رحمت سے ان کو ان کی طاقت و قدرت کے مطابق ہی مکلف بنائے گا، ہر شخص کو اس کی نیکی کے بقدر ثواب دیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے گناہوں کے حساب سے سزا دی جائے گی۔ نہ کوئی زیادتی ہوگی نہ کسی کی نیکیاں کم کی جائیں گی۔)

اسی سورہ میں رمضان کے روزوں سے متعلق احکامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

يُرِيْدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۔ [البقرۃ: ۱۸۵]

اللہ تعالیٰ تو تمھارے ساتھ آسانیاں چاہتا ہے، تمھیں پریشانیوں اور تنگیوں میں نہیں مبتلا کرنا چاہتا، اس کا مقصد تم پر بوجھ لادنا اور تکلیف ڈالنا ہے ہی نہیں، اس نے جو شریعت دی وہ سراپا آسانی ہے، اس شریعت نےانسانیت کو انسانی مظالم، سماجی دباؤ اور رسومات کی بیڑیوں سے آزاد کیا، اس نے اپنے پیغام کا بوجھ اٹھانے کے لیے تمھارا انتخاب کیا اور تمھیں اس کا شرف بخشا اور تمھارے لیے شریعت کو آسان بنایا، اس میں آسانیاں اور رخصتیں رکھیں، تاکہ شریعت پر عمل کرنے میں تمھیں کوئی تنگی و دشواری اور تکلیف نہ ہو، صریح الفاظ میں ارشاد فرمایا: هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ۔ [الحج: ۷۸]

یہ انتخاب اس لیے ہوا ، تاکہ یہ امت دوسری امتوں پر گواہ رہے کہ سب کے رسولوں نے ان تک پیغام پہنچا دیا اور رسولﷺاس امت پر گواہ رہیں کہ انھوں نے پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا، کئی مقامات پر قرآن نے اس کی وضاحت کی ہے، سورۃ البقرۃ کی ایک آیت میں اس امت کا مقام و منصب بیان کرتے ہوئے اس کا کام بھی بیان کیا گیا، وہاں بھی اسلام کے فلسفہ تیسیر و یُسر کو وسطیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُـوْنُـوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًاۗ۔[البقرۃ: ۱۴۳]

(اے مسلمانو!تم پر اللہ کے انعامات میں سے ایک انعام یہ ہے کہ اللہ نے تم کو تمام امتوں کے درمیان متوازن، درمیانی اور انصاف پسند امت بنایا۔ کیوں کہ تمھیں جو دین دیا گیا، وہ سب سے صحیح، سیدھا، مبنی بر عدل اور متوازن ہے ، اس میں افراط ہے نہ تفریط، اس میں غلو ہے نہ جفا، تم اعتقاد و عبادت میں عدل پر قائم ہو۔ اخلاق و آداب اور زندگی کے تمام معاملات میں تمھارا رویّہ متوازن ہے۔ تمام انبیاء کے متعلق تمھارا رویّہ مبنی بر عدل ہے۔ تم یہودیوں کی طرح طاعت سے نکلتے بھی نہیں اور نصاریٰ کی طرح رہبانیت بھی اختیار نہیں کرتے۔ تم نہ رسولوں کی مخالفت کرتے ہو نہ ان میں سے کسی کی عبادت کرتے ہوبلکہ تم صرف اس کی اتباع کرتے ہو۔ چناں چہ امتِ مسلمہ دو بڑی امتوں کے درمیان ایک متوازن امت ہے۔ دو انتہاؤں کے درمیان وہ درمیانی امت ہے۔ دو ہلاکت پانے والی قوموں کے درمیان نجات پانے والی امت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عادل و متوازن اور افضل بنایا ہے، تاکہ وہ لوگوں کے سامنے حق کے گواہ رہیں۔ چناں چہ ان کی بات قبول کی جائے گی، ان کا حکم نافذ ہوگا۔ وہ اپنی بات میں سچے ہوں گے اور اپنے فیصلوں میں منصف ہوں گے، وہ بروزِ قیامت لوگوں کے خلاف گواہی دیں گے کہ ان کی طرف رسول بھیجے گئے۔ اس لیے کہ عادل کی بات قبول ہوگی، اس پر کوئی تہمت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی گواہی درست ہوگی، اس کے قول اس کے حکم اور اس کے فیصلے مقبول ہوں گے۔ یہ امت اجتماعی اعتبار سے معصوم عن الخطأہے۔ اس کا اجماع حجت ہے، اس کی مخالفت گمراہی ہے، اس کے خلاف خروج بغاوت ہے۔ رسول کریمﷺ جو امام المرسلین اور سید الانبیاء ہیں، وہ امت کے سامنے حق کی گواہی دیں گے، وہ گواہی دیں گے کہ اس کے حق میں جس نے ان کی اطاعت کی، اور اس کے خلاف جس نے ان کی نافرمانی کی، وہ اپنی رسالت کی صداقت اور اپنے پیش رو انبیاء کی شہادت دیں گے، بروزِ قیامت تمام امتوں کے سامنے حق کی گواہی دیں گے۔)

نبی اکرمﷺکی سیرت و سنت سے بھی یہی بات ثابت ہے۔ حضرت عائشہؓ کی بہت مشہور حدیث ہے۔

‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا خُيِّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏مَا لَمْ يَأْثَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا كَانَ الْإِثْمُ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ أَبْعَدَهُمَا مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ قَطُّ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ۔ (بخاری: ۶۱۲۶)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺکو جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان کو اختیار کرنا ہی پسند کیا، بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ کا پہلو نہ ہو، اگر گناہ کا کوئی پہلو ہوتا تو آپﷺ اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والے تھے، مزید فرماتی ہیں کہ بخدا آپﷺ نے کبھی اپنی ذات کے لیے یعنی اپنے ذاتی معاملہ میں کسی سے بدلہ نہیں لیا، البتہ جب اللہ کی حرمات کو پامال کیا جاتا تو آپ اللہ کے لیے انتقام لیتے۔

حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ:

عن أَبِي هريرةؓ: قال النَّبيّ ﷺ إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، ولنْ يشادَّ الدِّينُ إلاَّ غَلَبه فسدِّدُوا وقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا، واسْتعِينُوا بِالْغدْوةِ والرَّوْحةِ وشَيْءٍ مِن الدُّلْجةِ۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺنے ارشاد فرمایا کہ یقیناً دین آسان ہے، جو شخص دین میں سختی برتے گا اور شدت اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا، عمل میں پختگی کو اختیار کرو، میانہ روی برتو اور (اس طرح عمل کرنے پر) بشارت قبول کرو (کہ اس سے تمھیں دینی و دنیوی فائدے حاصل ہوں گے)، صبح و شام اور رات کے بعض حصوں میں عبادت کر کے (یعنی نماز کے ذریعہ) مدد حاصل کرو۔

قرآن و حدیث کے فلسفۂ تیسیر کی یہ محض چند جھلکیاں ہیں، جن سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مزاج شریعت میں تکلیف ما لا یطاق کی کوئی گنجائش نہیں، صاحبِ شریعتِ حقہ حضرت نبی کریمﷺ کی جو خصوصیات تورات و انجیل میں بیان کی گئیں، انھیں پڑھ کر شریعت کے مزاج اور اس کے فلسفہ تیسیر و سہولت کا اندازہ کیجیے:

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔ (الاعراف: ۱۵۷)

(یہ لوگ جن کے لیے اللہ اپنی رحمت مقدر فرماتا ہے، وہ ہیں جو ہمارے نبیﷺکی پیروی کرتے ہیں، جنھیں اللہ نے رسالت و نبوت سے سرفراز کیا اور معصوم بنا کر جن کی تائید و حفاظت کی۔ وہ اُمی ہیں نہ لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں، ایسا اس لیے ہے کہ معجزہ پورے طور پر ظاہر ہو جائے۔ اس نبی عربی کی تفصیلات و صفات یہود تورات اور نصاریٰ انجیل میں کچھ اس طرح لکھی ہوئی پاتے ہیں کہ یہ نبی اپنے متبعین کو ہر اس خیر و بھلائی کے کام کا حکم دیتے ہیں، جس کی طرف فطرت سلیم اور عقل و نقل رہنمائی کرتی ہے اور انھیں ہر اس منکر سے روکتے ہیں اور ڈراتے ہیں جس کو پاکیزہ طبیعتیں قبیح سمجھتی ہیں اور شریعتیں جنھیں حرام قرار دیتی ہیں ۔ کھانے پینے اور پہننے کی پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ ایسی تمام کھانے پینے اور پہننے کی اشیاء کو حرام قرار دیتے ہیں جو خبیث و نجس اور نقصان دہ ہیں اور جنھیں فطرتِ سلیمہ اور پاکیزہ طبیعتیں قبیح سمجھتی ہیں۔ وہ جو بھی حرام قرار دیتے ہیں صحیح دلائل کی بنیاد پر حرام قرار دیتے ہیں، وہ ان تمام حکام اور حدود و سلاسل کے بوجھ کو اتار پھینکتے ہیں جن میں وہ لوگ جکڑے ہوئے تھے، ہر اس چیز کو اتار پھینکتے ہیں جن کا انھیں مکلف بنایا گیا تھا اور وہ اس سے مشقت میں تھے۔ انھیں آسانیاں اور بشارتیں دے کر مبعوث کیا گیا ہے، وہ ہر اس حکم کو منسوخ کرنے کے لیے آئے ہیں جس پر سابقہ شریعتوں میں عمل کیا جاتا تھا، اور جس سے لوگ بوجھل تھے تو جو لوگ ان پر ایمان لائیں گے ان کی تصدیق کریں گے ان کی اتباع کریں گے انھیں جو کچھ دے کر بھیجا گیا اس پر ایمان لائیں گے، ان کی نصرت کریں گے، ان کی توقیر و تعظیم کریں گے، دشمن کے مقابلہ ان کی حمایت کریں گے، ان کے ساتھ جہاد کریں گے، وہ قرآن و سنت جو آپؐ کو دیا گیا ، اس کی ہدایت کی روشنی حاصل کریں گے تو یہی وہ لوگ ہوں گے جو دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ ہدایت یافتہ ہونے اور اس پر جمنے کے سبب انھیں جنت اور رضائے الٰہی حاصل ہوگی۔ )

اسی نبی اُمیﷺنے اپنے صحابہ کو تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ تم کو آسانیاں پیدا کرنے کے لیے برپا کیا گیا ہے، تنگیاں پیدا کرنے کے لیے نہیں إنما بعثتم میسیرین و لم تبعثوا معسرین (بخاری) اور آپ نے لوگوں کو اس طرح تعلیم دی تھی کہ یسروا و لا تعسروا، بشروا و لا تنفروا (متفق علیہ) آسانیاں پیدا کرو تنگیاں نہیں، لوگوں کو خوشیاں دو، بشارتیں سناؤ، نفرتیں مت بانٹو۔

اسلام کے اس فلسفہ یُسر اور نبی کریمﷺ کی ہدایات کو سامنے رکھیے، آپؐ کی بعثت کے مقصد پر غور کیجیے اور یہ دیکھیے کہ آپؐ کو تو برپا ہی کیا گیا تھا رسوم و رواج کی بیڑیاں توڑ دینے کے لیے۔ لیکن آج جس طرح سماجی اقدار کے نام پر نکاح جیسی ضرورت اور عبادت کو مشکل بنایا گیا ہے، اس کے نتیجے میں گھر گھر تباہی ہے، مگر آنکھیں پھر بھی نہیں کھلتیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مشکلات کا سلسلہ رشتہ تلاش کرنے سے شروع ہوتا ہے، لین دین اور رسومات کا ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے، کہیں بکری بیچی جاتی ہے، کہیں بکرا خریدا جاتا ہے، بیعانہ دیا جاتا ہے، انگوٹھی اور مہندی کی رسموں سے ہوتے ہوئے بات جہیز و بارات تک پہنچتی ہے،جب کہ ان میں سے کسی چیز کا کوئی ثبوت شریعتِ محمدی میں نہیں ہے، شریعت میں نکاح کو بہت آسان رکھا گیا ہے، رشتہ تلاش کرنے کی وجوہات ذکر کرتے ہوئے بھی فاظفر بذات الدین کی ہدایت دی گئی ہے کہ جب لڑکی اور لڑکے کا انتخاب ہو تو حسب و نسب، مال و ثروت اور حسن و جمال پر دین داری کو ترجیح دی جائے، کیوں کہ اصل کامیابی کی ضمانت صرف دین داری میں ہے، اور حقیقی دین داری غربت کو مالداری اورغنا و استغناء میں اور بد صورتی کو خوب صورتی میں تبدیل کر دیتی ہے، حسب و نسب کو درکنار کرتے ہوئے حقیقی عزت و عظمت کی واضح دلیل إنّ أکرمَکُم عِنْدَ اللہِ أَتقَاکُم جیسی لافانی آیت فراہم کرتی ہے، کہ مالداری، سماجی حیثیت، جاہ و حشمت اور مقام و منصب اور حسب و نسب کی خدا کے تقوے کے سامنے کوئی حیثیت نہیں، جس کے اندر اللہ اور اللہ کی شریعت کا سب سے زیادہ لحاظ ہوگا وہی سب سے زیادہ مکرم و محترم اور اشرف و انسب ہوگا، خواہ دنیا کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت نہ ہو، سرِ دست مجھےیہاں شادی کی بہت سی ان فضول و رائج رسموں میں سے کسی پر بھی گفتگو نہیں کرنی ہے، وقتاً فوقتاً ان پر لکھتا رہا ہوں، یوں بھی موقع خوشی کا ہو یا غم کا اسلام کو سماج کے ذریعے تھوپی گئی سماجی رسومات سے کیا واسطہ، اسلام تو خوشیوں اور نعمتوں پر شکر کی تلقین کرتا ہے، شکر کے اظہار کے طریقے سکھاتا ہے، کہیں شکرانِ نعمت کے لیے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیتا ہے، کہیں قربانی دینے کا، کہیں تحدیث نعمت کا اور کبھی کھانا کھلانے کا، جہیز اور بارات پر کیا گفتگو کی جائے کہ ان کے لیے عربی زبان میں سرے سے کوئی لفظ ہی موجود نہیں۔ حضرت علیؓ کی ایک روایت میں اس کا تذکرہ ہے کہ حضورﷺنے حضرت فاطمہ کے لیے کچھ سامان تیار کرایا تھا، اس میں ’’جھّز‘‘یعنی تیار کرانے کا لفظ وارد ہوا ہے۔ بد قسمتی سے برّصغیر کے بعض موقع پرستوں اور ناواقف لوگوں نے اس کا ترجمہ اور مطلب جہیز سمجھ لیا، جبکہ عربوں میں اس کا تصور تک نہ تھا، اور پھر رسول اللہﷺنے اپنی لخت جگر کو جو سامان دیا تھا وہ حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر جو رقم ملی تھی، اسی سے تیار کرایا تھا اور علیؓ کے سرپرست کی حیثیت سے کرایا تھا، کیوں کہ وہ آپ ہی کے پاس رہتے تھے، اب ان کا گھر بسایا جا رہا تھا تو تکیہ بستر جیسے بنیادی ضرورت کے سامان کا مہیا کرنا بھی ضروری تھا۔ افسوس تو اس پر ہوتا ہے کہ جہیز کی لعنت پر لوگوں کا بے پناہ اصرار ہوتا ہے، لیکن بیٹیوں کو میراث میں ان کا متعین حق دینے کا میلان کسی کا نہیں ہوتا، جب کہ میراث کے حصے خود اللہ نے متعین کیے ہیں اور بار بار ’’وصیۃ من اللہ‘‘، ’’فریضۃ من اللہ‘‘ اور ’’یوصیکم اللہ‘‘کے الفاظ میں تکرار کے ساتھ ان کا حصہ دینے کی تاکید کی ہے، لیکن اس فرض کی ادائیگی سے اکثریت غافل رہتی ہے اور بے بنیاد بلکہ خالص ہندوانہ رسم کی ادائیگی پر بضد۔

یہاں مجھے در اصل ولیمہ کے سلسلہ میں گفتگو کرنی ہے۔ کیوں کہ نکاح میں ایجاب و قبول، گواہان اور مہر کے تعین کے علاوہ جو ایک مسنون عمل ہے، وہ ولیمہ ہے، جسے لوگ بڑی شد و مد کے ساتھ بیان کرتے ہیں، لیکن ایسی آدھی ادھوری بات بیان کرتے ہیں کہ آج ولیمہ بھی ایک بوجھ بن گیا ہے۔ ولیمہ کہتے ہیں نکاح کے بعد کی دعوت، خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دعوت لڑکے کی طرف سے ہوگی، لڑکی والوں پر کسی قسم کی دعوت کا بوجھ نہیں رکھا گیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ دو چار لوگ جو نکاح کے لیے جائیں ان کی بخوشی کچھ ضیافت کر دی جائے، یا رخصتی کے وقت جو قریبی عزیز جمع ہوں، ان کی ضیافت کا اہتمام کیا جائے، لیکن باقاعدہ لٹیروں کی ایک فوج کا بارات کی شکل میں جانا، لڑکی والوں کا کارڈ چھپوانا اور لمبی چوڑی دعوت کا اہتمام کرنا بے بنیاد و بے دلیل ہے، اس سے گریز و اجتناب ہی بہتر ہے، نکاح کی دعوت یعنی ولیمہ میں حاضری تو ضروری ہے، لیکن کھانے نہ کھانے کا اختیار ہے۔ حاضری میں بھی علماء کا اختلاف ہے، کچھ اسے واجب ، کچھ سنت کہتے ہیں، لیکن کھانے نہ کھانے میں مدعو کو مکمل اختیار ہے، حاضری میں اگر کوئی عذر ہو، مثلاً سفر لمبا ہو، مشقت ہو تو دعوت قبول نہ کرنے میں مطلقاً حرج نہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو کھانے (نکاح کی دعوت) کے لیے دعوت دی جائے تو اسے قبول کرنا چاہیے اور حاضری دینا چاہیے، اس کا اختیار ہے کہ کھانا کھاؤ یا نہ کھاؤ عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دُعي أحدُكم فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك۔

معلوم ہوا کہ جب ولیمہ کی مسنون دعوت میں کھانے یا نہ کھانے کا اختیار ہے تو جس دعوت کی کوئی بنیاد و دلیل ہی نہیں اس کا مقاطعہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ عبد اللہ بن عمرؓ کی متفق علیہ روایت میں صریح الفاظ ہیں: إذا دُعی احدُکم إلی الولیمۃ فلیأتھا۔ کہ جب تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تو اس میں شرکت کرنی چاہیے۔

اتنی بات طے ہے کہ ولیمہ کرنا چاہیے اور ولیمہ کرنا سنت ہے، لیکن اس سنت کی ادائیگی میں لوگ ساری حدیں پار کر رہے ہیں، مہنگے مہنگے شادی ہال لیتے ہیں، انواع و اقسام کے کھانے تیار کراتے ہیں، قرضے لیتے ہیں، بلکہ سودی قرضے لیتے ہیں، بلاوجہ ایک بھیڑ جمع کرتے ہیں، دور دراز سے لوگوں کو بلاتے ہیں، حالاں کہ یہ سب مطلوب ہے ہی نہیں۔مطلوب تو یہ ہے کہ بہ سہولت جو میسر ہو اس سے ولیمہ کر دیا جائے، ولیمہ تو اظہار خوشی، شکرانِ نعمت اور اعلانِ نکاح کا ایک ذریعہ ہے، لیکن ہمارے یہاں یہ مقاصد کہاں پیشِ نظر ہوتے ہیں، ہمارے یہاں تو سماجی دباؤ، دکھاوا، مالی اور سماجی حیثیت کی نمائش، تعلقات کی وسعت اور شخصیت کے وسیع اثرات دکھانا مقصد ہوتا ہے، اقربا و احباب سے مقابلہ آرائی مقصود ہوتی ہے، فلاں کے یہاں اتنے لوگ مدعو تھے اور ایسے ایسے لوگ تھے اور اتنے قسم کے کھانے تھے۔ عام طور پر لوگ صرف بڑےلوگوں کو ہی بلانے میں دل چسپی لیتے ہیں، حالاں کہ ایسی دعوت کو بدترین دعوت قرار دیا گیا ہے، جس میں فقراء کو چھوڑ دیا جائے اور صرف اغنیاء کو بلایا جائے اور پھر مالداروں ، اصحابِ منصب اور اہل ثروت کے یہاں حاضری لگانے کو بھی لوگ اعزاز سمجھنے لگے ہیں، دعوت ملنے پر فخر کرتے ہیں پھر یہ نہیں سوچتے کہ کہاں جانا چاہیے اور کہاں نہیں! اس سلسلے میں دین دار طبقہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتا۔ رسول اللہﷺنے ایسی نفسیات کے ساتھ دعوت کرنے والوں کا کھانا کھانے سے ہی منع فرما دیا، ابو داؤد کی روایت ہے۔ حضرت عبد اللہ ؓ بن عباس فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے آپس میں مقابلہ آرائی کرنے والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ، اسی طرح ترمذی کی روایت میں فخر و مباہات اور سخاوت کا دکھاوا کرنے والوں اور محض شہرت کے لیے دعوت کرنے والوں کو وعید سنائی۔ آج ہمارے یہاں جو ولیمے ہوتے ہیں ، ان میں سے بیشتر اسراف کے حدود میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اسراف کی تفسیر میں بعض علماء نے لکھا ہے کہ جائز مصرف میں بھی حد سے تجاوز کرنا اسراف ہے۔ یوں بھی عدل و توازن ہی اسلام کا امتیاز ہے، اس لیے مسلمان کو ہر صورت اور ہر عمل میں توازن و میانہ روی ہی اختیار کرنا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے:

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ۔ [الاعراف: ۳۱]

(اے بنی آدم! نماز و طواف کے وقت اپنا ستر ڈھک لیا کرو اور اچھے لباس کا استعمال کیا کرو، حلال و پاکیزہ کھانے اور مشروبات کا استعمال کرو۔ شریعت کے حدود سے تجاوز نہ کرو اور نعمتیں دینے والے کا شکر ادا کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی معاملہ میں حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ انصاف و توازن ہی ہر خیر کی بنیاد ہے۔ لہذا عدل و توازن کو لازم پکڑنا چاہیے۔ عورت بھی زمانۂ جاہلیت میں ننگی طواف کرتی تھی، تبھی اللہ نے یہ حکم نازل کیا کہ اپنا ستر ڈھک لیا کرو اور اچھے لباس استعمال کیا کرو۔ خذوا زینتکم…….۔)

بخاری و مسلم کی بہت مشہور روایت ہے کہ حضورؐ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کے کپڑوں پر زرد نشان دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ حضورﷺ، میں نے نکاح کیا ہے۔ (یعنی وہ نشان عورت کو لگائی گئی خوشبو کا تھا جو بلا قصد اختلاط کے باعث ان کے کپڑوں پر لگ گیا تھا۔) آپﷺنے برکت کی دعا دی اور حکم دیا کہ أو لم و لو بشأۃ (ولیمہ کی دعوت کرو خواہ ایک پوری بکری ہو) یہ تعبیر ’’کم سے کم‘‘ اور ’’زیادہ سے زیادہ‘‘ دونوں کے لیے بولی جاتی ہے۔ شارحین نے لکھا ہے کہ حضرت عبد الرحمٰن اس وقت تک اتنے غنی نہ ہوئے تھے، اس لیے اقرب یہی ہے کہ تکثیر کے لیے یہ تعبیر اختیار کی گئی کہ خواہ پوری بکری کا خرچ آ جائے، مگر کرو۔آگے بڑھنے سے پہلے یہاں ٹھہر کر ذرا اس پہلو پر بھی غور کر لیجیے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف چہیتے صحابی ہیں، عشرۂ مبشرہ میں ہیں، نکاح کر لیا اور حضورؐ کو اطلاع بھی نہیں، وہ بھی چھوٹے سے مدینہ شہر میں، اور آں حضرت ﷺنے بھی جب معلوم کیا تو یہ شکوہ نہیں کہ عبد الرحمٰن ہمیں کیوں نہ بلایا، ہم سے کیوں نکاح نہ پڑھوایا؟ آج نکاح میں شرکت کے لیے کتنے لمبے سفر کیے جاتے ہیں اور صرف نکاح کسی سے پڑھوانے پر بعض مرتبہ ہزاروں روپیے خرچ کیے جاتے ہیں۔ آں حضرت ﷺنے تو بس ولیمہ کرنے کا حکم فرمایا، اس لیے کہ شکرانِ نعمت کا اظہار اور اعلانِ نکاح ضروری ہے، اسی لیے آپﷺنے ارشاد فرمایا: اعلنوا ھذا النکاح و اجعلوہ فی المساجد و اضربوا علیہ الدفوف (ترمذی) قربان جائیے نبیؐ کی ذات اقدس پر کتنی زحمتوں سے بچنے کا نسخہ بتا دیا کہ نکاح کا اعلان ضروری ہے تو نکاح مسجد میں کر لیا کرو، لوگوں کو بلانے اور مجمع جوڑنے کی زحمت سے بچ جاؤ گے، مجمع بھی خود ہی مل جائے گا اور اعلان بھی ہو جائے گا، مزید فرمایا کہ اس موقع پر دف (طبلہ کے مشابہ)بھی بجا دیا کرو۔ اس زمانے میں بھی اور آج بھی اظہارِ خوشی یا اطلاع و اعلان کے لیے ایک طبل (جس پر ایک طرف کھال چڑھائی جاتی ہے) بجایا جاتا تھا، اب تو اس کے بہت سے دوسرے طریقے بھی لوگوں نے تلاش لیے ہیں ۔ مثلاً؛ لائٹیں لگا دی جاتی ہیں، قمقمے لگائے جاتے ہیں، لیکن اس سے آگے بڑھ کر جو لوگ حدودِ شریعت سے تجاوز کر جاتے ہیں اس کی اجازت قطعاً نہیں، بہر حال یہاں ولیمہ زیرِ بحث ہے، تو ولیمہ کے متعلق اگر رسولﷺنے یہ ہدایت دی ہے کہ ولیمہ کرو خواہ ایک پوری بکری ہو اور ہم علماء کے قول کے مطابق اس کو تکثیر کے لیے ہی مان لیں تو بھی سیرت نبویؐ سے آج کے ولیموں کی وسعت اور تنوعات کی تائید نہیں ہوتی۔ آپﷺنے صرف حضرت زینب سے نکاح کے بعد جو ولیمہ کیا وہ پوری ایک بکری پر کیا، بخاری و مسلم کی روایت ہے عن انس قال: ما أولم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی أحد من نسائہ ما أولم علی زینب أولم بشاۃ۔ یعنی یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ شہنشاہِ کونین کے جس ولیمے کا ذکر ملتا ہے، اس میں بھی بس صرف بکری سے ولیمہ کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے، وہ بھی حضرت انس سے ہی منقول ہے کہ….فا شبع الناس خبزاً و لحماً۔ یعنی اس دعوت میں لوگوں کے پیٹ گوشت اور روٹی کھا کر بھر گئے، لیکن اس کے علاوہ آپ کے جن ولیموں کی تفصیلات ملتی ہیں، ان میں کہیں ’’حیس‘‘نامی کھانے (ایک قسم کا حلوہ) سے، دو کلو جَو سے، کھجور، پنیر اور گھی اور ستّو سے ولیمہ کی تفصیلات ملتی ہیں۔ حضرت انسؓ کی روایت بخاری اور دیگر کتب حدیث میں منقول ہے کہ آں حضرت نے حضرت صفیہ سے نکاح کا ولیمہ اس وقت کیا جب آپ مدینہ اور خیبر کے درمیان قیام پذیر تھے، اس ولیمہ میں روٹی تھی نہ گوشت، چمڑے کے دسترخوان بچھائے گئے اور ان پر کھجوریں، گھی اور پنیر رکھ دیا گیا، یعنی جو کچھ میسر ہو اور جس چیز سے ولیمہ کیا جا سکتا ہو اسی سے کر دیا جائے، یہی سیرت مطہرہ کا اصل درس ہے۔ حضرت زینب والی روایت کی تشریح میں مولانا منظور احمدنعمانیؒ نے بہت خوب صورت اور جامع بات لکھی ہے:

’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اور سب بیویوں کے نکاح پر آپ نے جو ولیمہ کی دعوت کی، وہ اس سے مختصر اور ہلکے پیمانے پر کی تھی۔ چناں چہ صحیح بخاری میں صفیہ بنت شیبہ کی روایت سے یہ حدیث مروی ہے کہ آپ نے بعض بیویوں کے نکاح پر جو ولیمہ کی دعوت کی تو صرف دو سیر جَو کام میں آئے اور اسی صحیح بخاری میں حضرت انسؓ کا یہ بیان مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے جب حضرت صفیہ کو اپنے نکاح میں لیا اور لوگوں کو ولیمہ کی دعوت دی تو دسترخوان پر گوشت روٹی کچھ نہیں تھا، کچھ کھجوریں تھیں اور کچھ پنیر اور مکھن تھا… اس سے معلوم ہوا کہ ولیمہ کے لیے با قاعدہ کھانے کی دعوت بھی ضروری نہیں، کھانے پینے کی جو بھی مناسب اور مرغوب چیز میسر ہو رکھ دی جائے…لیکن بد قسمتی کی انتہا ہے کہ ہم مسلمانوں نے جہیز کی طرح ولیمہ کو بھی ایک مصیبت بنا لیا‘‘۔ (معارف الحدیث، ج:۷، ص: ۳۲)

آج کل جس طرح شادی کی تقریبات بوجھ بن گئی ہیں، ولیمہ کی سنت بھی لوگوں نے زحمت بنا لی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے، بلکہ مرض کی تعدی اور وبائے عام و ابتلائے عام کو دیکھتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسجدوں میں نکاح ہو اور وہیں لڑکے والوں کی طرف سے معمولی ضیافت کا انتظام کر دیا جائے تو اس طرح بہت سے بے جا مصارف اور رسومات و اسراف سے بچا جا سکتا ہے، جو پڑھے لکھے دین دار حضرات یہ عمل کرتے ہیں کہ مسجدوں میں نکاح کرتے ہیں اور وہیں حاضرین میں کھانے یا ناشتے کا ایک پیکیٹ تقسیم کر کے لمبی چوڑی تقریبات کا سلسلہ بند کر دیتے ہیں، وہ آج کے حالات کے تناظر میں بڑے جرأت مند اور دانش مند لوگ ہیں، اس وقت مسلمانوں کو شادی کی تقریبات میں مال لٹانے اور برباد کرنے کے بجائے اپنی اور اپنی قوم کی معیشت مضبوط کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ممکن ہے کہ بعض لوگ کہیں کہ ولیمہ میں تو فقہاء بعض شرطیں لگاتے ہیں، تو ان کا قول بجا اور سر آنکھوں پر، لیکن ولیمہ بعض فقہاء کے نزدیک وہ کھانا ہے جو عقد کے بعد کھلایا جائے، اس سلسلے میں بھی ویسے ہی کئی رجحانات پائے جاتے ہیں، جیسے ولیمہ کے متعلق استحباب و وجوب و مسنون کے تین رجحان پائے جاتے ہیں، ہاں جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہیں کہ ولیمہ عقد کے بعد نہ کیا جائے، بلکہ خلوتِ صحیحہ کے بعد کیا جائے، وہ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کوئی کر دے تو ولیمہ کی سنت تو ادا ہو جائے گی، گرچہ دعوت کا وقت مسنون نہ ہوگا، علماء کا یہ اختلاف گنجائش رکھتا ہے، اس سلسلے کی تفصیلات، روایات اور فتاویٰ پر نظر ڈالنے کے بعد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ تمام تر زحمتوں اور رسموں سے بچنے کے لیے اس گنجائش سے فائدہ اٹھانے میں قطعاً کوئی مضائقہ بھی نہیں۔

آخری بات یہ ہے کہ نکاح و ولیمہ کی تمام روایات و تفصیلات پڑھنے کے بعد خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ اس باب میں بھی اسلام نے اپنے فلسفۂ ’’یُسر و تیسیر‘‘ کو پوری طرح پیشِ نظر رکھا ہے۔ سیرت و سنت کی تفصیلات اس پر شاہدِ عدل ہیں۔ حضرت عائشہؓ کی یہ روایت متعدد کتبِ حدیث میں وارد ہے، جس پر متعدد محدثین نے صحت کا حکم بھی لگایا ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:اعظم النکاح برکۃ ایسرہ مؤنۃ۔ کہ وہ نکاح سب سے زیادہ بابرکت ہے، جس کا خرچ کم سے کم ہو، یہ در اصل اسی مزاجِ شریعت کی ترجمانی ہے، جس پر آپؐ کی پوری سیرت مطہرہ شہادت دیتی ہے، جب خدا تعالیٰ کی فراہم کردہ آسانیوں اور رخصتوں کو چھوڑ کر سماجی اقدار اور تمدنی تجلیات کے ھوالے دیے جائیں گے تو پریشانیاں گھیریں گی، زحمتیں ہوں گی، الجھنیں بڑھیں گی اور خدا کی رحمت و برکت سے محرومی مقدر بنے گی۔ اس ہدایت نبویؐ کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شادی کی تقریب جتنی ہلکی پھلکی ہوگی، اتنی ہی زیادہ باعث خیر و برکت ہوگی۔ (و ما توفیقی إلا باللّٰہ)

 

٭٭٭

Comments are closed.