Baseerat Online News Portal

کہیں دیر نہ ہو جائے!

نور اللہ نور
حال کے پیش آ مدہ واقعات و درپیش مسائل کے تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم کسل مندی ، غفلت اور بے حسی جیسے موذی امراض کے شکار ہیں ، نہ ہی ہمارا حال بہتر ہے اور نہ ہی استقبال میں امکانات روشن نظر آتے ہیں ، اقدام تو کجا ہماری موجودہ صورت حال دفاع کی بھی نہیں ہے۔
حال کا اگر ہم تجزیہ کریں تو ہم ہر اعتبار سے تہی دست ، غیروں پر منحصر تعمیری و فکری شعور سے تہی مایہ دوسروں کے رحم و کرم جی رہے ہیں اور دوسرے کی بیساکھی پر تکیہ کئے ہوئے ہیں کہ وہ ہماری نوکا پار لگائیں گے اسی طرح مستقبل کے بارے میں ہماری نہ کوئی اسٹرونگ اسٹریٹجی ہے اور نہ ہی ہم نے مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کیا ہے
تعلیم جو کسی بھی قوم کے ارتفاع و بلندی میں کلیدی رول ادا کرتا ہے اس شعبے میں عالم یہ ہیکہ 20 فیصد کی آبادی میں ستر فیصد لوگ ناخواندہ اور تعلیم سے نا آشنا ہیں ، جب کہ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 65 فیصد لوگ ہی تعلیم یافتہ ہیں یا پھر تعلیم سے جڑے ہیں اور اعلی تعلیم میں بھی ہماری نمائندگی کوئی خاص نہیں ہے، سرکاری عہدوں پر ہمارے لوگوں کی صرف دو سے تین فیصد ہی ہے ، محکمہ پولیس میں تین فیصد ، محمکہ ریل میں ڈھائی فیصد نمائندگی ہے. تعلیم جو ترقی کے لئے بنیادی و ضروری عنصر ہے اس سے قوم کا ایک بڑا حصہ دور ہے۔
پچھلے کئی صدی سے ہم سیاسی بحران کابھی شکار ہیں اور سیاسی طور پر مکمل مفلوج ہیں نہ ہی ہماری نمائندگی کا تناسب تشفی بخش ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی قابل اعتماد نمائندہ ہے بلکہ ہم مسلسل سیاسی استحصال کے شکار ہیں جس کا خمیازہ ہمیں مختلف شکلوں میں بھگتنا پڑ رہا ہے ، بنیادی اور عائلی قوانین میں در اندازی کی کوشش سیاسی محاذ پر شکشتہ ہونے کی ہی غماز ہے
ملک کی پارلیمنٹ میں جہاں قوانین سازی ہوتی ہے ، جہاں اہم امور پر گفت و شنید ہوتی اور مختلف امور پر بات ہوتی ہے ہماری نمائندگی صرف چار یا پانچ فیصد ہے جب کہ ہم ملک میں سب سے بڑی اقلیت ہیں ، اتنے ملک بڑے میں مشکل سے ہی ہمارا کوئی وزیر اعلی یا نائب وزیر اعلی منتخب ہوتا ہے، ساڑھے پانچ سو ممبران پارلیمنٹ میں سے ہمارے نمائندے صرف ستائیس یا اٹھائیس ہیں
اور سب سے مہلک مرض جو ہماری قوم کے لئے ناسور بن چکا ہے اور اس سے نجات کی کوئی صورت نہیں بن پا رہی ہے نتیجتاً ہمارا شیرازہ منتشر ہے، وہ ہے مسلکی اختلاف جس نے دشمن کو ہم پر حاوی کر رکھا ہے لیکن پھر بھی ہم بات سمجھنے کو تیار نہیں.
موجودہ اعدادوشمار اور صورت حال اس بات کی طرف مشیر ہے کہ ہم نے اپنا حال بھی تباہ کر رکھا ہے اور یہی صورت حال رہی تو مستقبل بھی بہت تاریک اور وحشت ناک ہوگا ، ہماری موجودہ روش نے ہمارا بہت خسارہ کیا ہے اور اگر اسی روش پر ہم چلتے رہے تو باقی ماندہ سرمایہ ، وقار و تحفظ سے ہمیں دستبردار ہونا پڑ سکتا ہے.
اس لئے قبل اس کے ہم قصہ پارینہ بن جائے ، ہم اپنی جان کے دشمن بن جائے اور اپنے ہی ہاتھوں اپنے تشخص اور وجود کا خاتمہ کر لیں ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ، خامیوں کی تلافی کرنی ہے ، کمزوریوں کو قوت و طاقت میں بدلنا ہے بے حسی کو شعور و آگہی سے مات دینی ہے اور اپنی کھویا ہوئے وقار بحال کرنا اس لئے بیدار ہو جائیں اور بیداری کا ثبوت دیں اور اپنی خانہ تلاشی کرکے اصلاحات کی کوشش کریں کہ کہیں دیر نہ ہو جائے اور ہم آج کے مسابقاتی میں پیچھے نہ رہ جائیں.

Comments are closed.