Baseerat Online News Portal

پلٹ گیا کھیل: سنجے سنگھ کو بیل اور رام دیو کو جیل

 

ڈاکٹر سلیم خان

ڈبل انجن سرکار  چلانے میں  ماہر سمجھی  جانے  والی سمراٹ   چندر گپت  موریہ اور چانکیہ  کی  جگل جوڑی کو آج کل جھٹکے پہ جھٹکے  لگ رہے ہیں ۔  کل یگ کے چانکیہ بڑے آرام سے چار سو  کلومیٹر کی  رفتار کے ساتھ گاڑی دوڑا رہے تھے کیونکہ  سارا راستہ تو ای ڈی، سی بی آئی اور الیکشن کمیشن نے صاف کررکھا تھا۔ دور دور تک نہ کوئی آدم نہ آدم زاد بس وہ اپنے آقا کے ساتھ محوِ  سفر تھے ۔ پیچھے کی سیٹ پر سمراٹ 2047کے سورن کال (سنہری دور) کا سپنے   دیکھنے میں مست  تھے کہ اچانک عدالت عظمیٰ کے اندر سے ایک برق رفتار گاڑی میں سنجے سنگھ نکلے اور مودی رتھ کو  پیچھے سے زور دار ٹکر ماردی ۔ سمراٹ خوابِ خرگوش سے ہڑ بڑا کر اٹھے اور اس سے پہلے کہ اپنے چانکیہ سے دریافت کرتے  ’یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟؟ کب ہوا؟؟؟ کیوں ہوا؟؟؟؟ چانکیہ نے آگے سڑک پر چینی چٹائی کے اوپر لیٹے پیٹ پچکانے پھلانے والے بابا  رام دیو  کو ٹکر مار دی۔ اس   نوٹنکی بابا کوبھی سپریم کورٹ نے ہی باہر کی جانب  ایسےاچھالا تھا کہ وہ   یوگا سن بھول کر  رام چرت مانس کا پاٹھ کر نے لگے تھے ۔ چانکیہ نے سوچا ستارے گردش میں ہیں اس لیے  بھاگ چلو تواچانک کورٹ کی کھڑکی  ای وی ایم مشین  نے آکرسامنے کا  شیشہ پھوڑ دیا ۔

ماہِ اپریل  کے پہلے تین دنوں میں  زعفرانیوں کو عدالت عظمیٰ میں یکے بعد دیگرے ایسی لتاڑ پڑتی چلی گئی کہ ان کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ہندوتوا  کے برانڈ ایمبیسیڈر یعنی جھوٹوں کے سفارتکار کو سپریم کورٹ نے چاروں خانے چت کردیا۔ سانسوں کا کھیل سکھانے والی نوٹنکی بابا رام دیو کا تو بس  دم ہی نکل گیا ۔ وہ سوریہ نمسکار کے بجائے عدلیہ کے سامنے ساشٹانگ نمسکار کرنے لگا یعنی الٹا  لیٹ گیا   مگر ایک نہیں چلی ۔یہ معاملہ اس پتانجلی کے ساتھ ہوا جس کے پاس   مودی کی پانچ ٹریلین اکونومی کی مانند آئندہ پانچ سال میں   ایک لاکھ کروڑ روپے کے ٹرن اوور کا خواب  ہے۔گززتہ سال  جون( 23)تک  وہ  ۴۵؍ ہزار کروڑ پارکر چکی تھی  ۔بقول خود  وطن عزیز میں اس کی  سترّ کروڑ لوگوں تک رسائی ہے اور آگے  سو کروڑ لوگوں تک پہنچنے کا ہدف ہے۔ دو سو ملکوں میں اس کے دو سو کروڑ گاہکوں کا  دعویٰ خود رام دیو نے کیا تھا۔ زیڈ پلس سیکوریٹی  کے حامل بابا کے کارخانے کی حفاظت کے لیے سرکاری  سی آئی ایس ایف کے جوان تعینات ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم عدولی  کی جرأت  کا راز ان حقائق میں پوشیدہ ہے۔

خود ساختہ یوگا گرو بابا رام دیو اور پتانجلی آیوروید کے منیجنگ ڈائریکٹر آچاریہ بال کرشنا نے اپنی کمپنی کے  گمراہ کن اشتہارات کی اشاعت کے معاملے میں بعد از رسوائیٔ بسیار  سپریم کورٹ میں غیر مشروط معافی مانگ لی مگر یہ کام بھی  شرافت سے نہیں ہوا ۔  ان لوگوں نے ذلت سے بچنے کے لیے  پہلے اپنے وکیل بلبیر سنگھ کو آگے کیا ۔ اس پر کورٹ بپھر گیا ۔ اس نے سوال  کیا ہمیں بلبیر سنگھ کی نہیں رام دیو اور بال کرشن کی معافی چاہیے آپ کیوں آئے؟ خود مدعا الیہ کو آنا چاہیےیہ قانون کا پہلا سبق ہے ۔  سرکاری داماد  موکل کی بابت بلبیر کو   اس  کڑے رویہ  کی توقع نہیں تھی اس لیےوہ  بھیڑ کا بہانہ بنانے لگا اور  پھرسے پھٹکارے جانے پراپنے  سرالزام  لے لیا ۔  بات نہیں بنی تو مجبوراًرام دیو نے حاضر ہوکر کہا  ’میں اپنے رویہ پر  شرمندہ ہوں۔ انہیں سپریم کورٹ کے حکم کا احساس ہے‘‘ ۔ سپریم کورٹ نےزبانی  معافی کو رام دیو کے منہ پر دے مارا اور کہا کہ یہ عدالتی کاروائی ہے۔ ان کی معذرت  کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

انگریزوں کے زمانے میں مشہور معافی باز ونایک دامودر  ساورکر نے گڑگڑا کر معافی مانگی تھی ۔ مودی کے سنہری دور   میں وہی منظر  دوہرایا گیا۔   اس طرح گویا رام دیو کی شکل میں ساورکر کا پونر جنم ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے  یاد دلایا کہ عدالتی حکم کے باوجود انہوں نے پریس کانفرنس کرکے  توہین عدالت کا ارتکاب کیا ہے نیز اشتہارات کا سلسلہ بھی نہیں رکا ۔ رکتا بھی کیسے بابا رام دیو جس حکومت کے شیدائی ہیں وہ قانون اور ضابطہ میں یقین نہیں کرتی ۔ جیسا مالک ویسا گھوڑا کی مصداق بابا رام دیو بھی عدالت کے حکم کو جوتے کی نوک پر رکھ کر من مانی کرتے رہے ۔ اس لیے سپریم کورٹ کی بینچ نے بابا   رام دیو اور آچاریہ بال کرشن سے کہا کہ آپ کو عدالت میں کئے جانے والے عہد  پر عمل کرنا پڑے گا۔  آپ نے  تمام  حدود و قیود  عبور کردیاہے۔ عدالت کے یہ تیور دیکھ کر سرکاری   وکیل یعنی  سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی طوطا چشمی نظر بدل گئی ۔ وہ  اپنے مؤکل کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر بولے  جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھالیکن سوال یہ ہے سرکار نے کیوں نہیں روکا؟

27 فروری کو جسٹس ہیما کوہلی اورجسٹس احسن الدین امان اللہ کی  بینچ نے پتانجلی  سےکہا تھا کہ   گمراہ کن اشتہارات کو شائع کرکے اس نے توہین عدالت کاارتکاب کیا اور اس پر جاری شدہ  نوٹس کا جواب بھی   نہیں دیا ۔ بینچ نے عدالتی یقین دہانی کی خلاف ورزی کرنے پر آچاریہ بال کرشن اور بابا رام دیو  کو طلب کیا   اورحلف نامہ داخل کرنے کے لیے مزید مہلت طلب پر آگ بگولا ہوکر  کہا کہ بعض اوقات چیزیں اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتی ہیں۔  پتانجلی چونکہ ماضی میں  سپریم کورٹ کو یقین دلایا تھا کہ وہ اپنی مصنوعات کی افادیت کا دعویٰ کرنے یا قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کی تشہیر یا برانڈ نگ نہیں کرے گا۔ دیگر نظام طب کے خلاف میڈیا میں  کوئی بیان جاری نہیں کرے گالیکن  پتانجلی نے سرکاری پناہ کے سبب نافرمانی کی  اور رسوائی اٹھائی۔بابا کی  ناک رگڑائی  کے ساتھ ہی  سنجے سنگھ کی  ضمانت پر رہائی کا شبھ  مہورت  بھی نکل آیا۔

سنجے سنگھ معاملے میں  سپریم کورٹ  کی ای ڈی کو   لتاڑ دراصل مودی سرکار کے لیے  تھی ۔ بہو کو ڈرانے کے لیے ساس جس طرح  بیٹی کو ڈانٹتی ہے وہی کام سپریم کورٹ نے کیا تاکہ سرکار کی عقل ٹھکانے آئے ۔   عدالت نے ای ڈی کو تین تلخ سوالات کرنےکے  بعد ظہرانے کا وقفہ دےدیا۔   سپریم کورٹ نے پوچھا تھا کہ کیا دہلی ایکسائز پالیسی گھوٹالے میں سنجے سنگھ کو زیادہ وقت تک حراست میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ سنجے سنگھ نے چھ ماہ جیل میں گزارے اور ان کے خلاف 2 کروڑ روپے رشوت لینے کے الزام  ہے لیکن ایک روپیہ برآمد نہیں ہوا۔ عدالت نے سارے ثبوت پیش کرنے کا حکم دے کر  خبر دار کیا کہ ’’ اگر اس نے لکھ دیا   کہ اس معاملے میں کافی ثبوت موجود نہیں ہے تو ای ڈی کے لیے مشکلات کھڑی  ہوجائیں  گی یعنی کیس بند ہوجائے گا ۔

پچھلی سماعت میں سنجے سنگھ کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے عدالت کو بتایا تھا کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ  کے اہم گواہ دنیش اروڑہ نےڈیڑھ سال کی حراست کے دوران  اپنے پہلے 9 بیانات میں سنجے سنگھ کا نام نہیں لیا تھا۔ سنجے سنگھ کا نام پہلی بار 19 جولائی 2023 کو آیا  اور پھر اسے سرکاری گواہ بناکر سوئزرلینڈ میں شادی کی سالگرہ منانے کی خاطر جانے کی اجازت دے دی گئی ۔  سنجے سنگھ نے ای ڈی کے خلاف (ہتک عزت) کی شکایت درج کرائی، تو انہیں بغیر کسی سمن کے حراست میں لیا گیا۔ سنگھوی نے یاد دلایا کہ  گواہی کی جب تک  تصدیق نہ ہو جائے وہ قابل اعتماد نہیں ہوتی ۔   سپریم کورٹ کی دھمکی کے بعد  پنجرے  کا طوطا موقع غنیمت جان کر   لنچ ٹائم میں  اپنے آقا کے حضور   احکامات  لینے کے لیے پہنچ گیا ۔ کھانے کے بعد ای ڈی نے پانی مانگے بغیر  عدالت سے  کہہ دیا کہ اسے سنجے سنگھ کی  ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ای ڈی کا  یہ کہنا اس بات کا ثبوت تھا  مودی رتھ کے پہیے کی    ہوا نکل چکی ہے اور چھپنّ انچ کی چھاتی     پچک گئی ہے۔  عآپ کے جھاڑو نے کمل کی ساری ہیکڑی نکال کر سرکار کوبھیگی بلی بنادیا ہے ۔

دہلی میں حزب اختلاف  کی کامیاب ریلی کے بعد حکومت کا رویہ نرم پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے  جب انکم ٹیکس محکمہ کے ذریعہ اپنے کھاتوں کو منجمد کئے جانے اور ٹیکس گوشوارے میں واجبات کی ادائیگی کیلئے ابھی تک ساڑھے تین ہزار کروڑ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کئے جانے کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کوایک حیرت انگیز  یقین دہانی کرادی۔ انہوں نے  کہا انکم ٹیکس محکمہ انتخابات کے دوران کسی پارٹی کیلئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرے گا۔  مرکز کی اس رعایت پر کانگریس کے سینئر لیڈر اور وکیل ابھیشیک منو سنگھوی حیرانی سے  بولےکہ ان کے پاس اس پر کہنے کیلئے الفاظ نہیں ہیں ۔ اسی طرح  سپریم کورٹ نے ای وی ایم کے ووٹوں کی توثیق کیلئے وی وی پیٹ کی پرچیوں کا حساب لگانے کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرکے راہل گاندھی کی جانب سے میچ فکسنگ کے دعویٰ کی تصدیق کردی ۔ عدالت کے یہ  چار فیصلے موسمِ خزاں میں  حزب اختلاف کے لیے راحتِ جان بن  کر وارد ہوئے ہیں  ۔ انتخابی مہم   کی ابتدامیں سنجے سنگھ کی رہائی پر  یہ قوالی صادق  آتی ہے؎؎

ملتے ہی ضمانت پر ہم ہوگئے دیوانے             آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے

Comments are closed.