Baseerat Online News Portal

بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ نہ بنیں

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بھارت میں جو سیاسی پارٹیاں ہیں چاہے وہ نیشنل پارٹی ہو یا علاقائی پارٹی ان کا اس ملک کے عوام سے کچھ لینا دینا ہے۔ وہ نہ تو قوم پرست ہیں اور نہ دیش بھکت یہاں تک کہ جو ذات پر مبنی پارٹیاں ہیں ان کو بھی اپنی ذات یا جماعت سے کچھ لینا دینا نہیںہے۔ یہ سب گینگ گسٹرہیں اور پرانے دور کے رجواڑوں کا بدلا ہوا روپ ہیں۔ پچھلے زمانے میں اقتدار کا فیصلہ تلوار سے ہوتا تھا۔ اب جبکہ جمہوریت ہے تو اقتدار کا فیصلہ ووٹ کے ذریعہ ہوتا ہے۔ مگر ان پارٹیوں اور لیڈران کا اصل مقصد حکومت اور اقتدار ہے اور سرکاری خزانے سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاناہے۔ اس وقت سیاست سے اچھی کوئی تجارت نہیں ہے۔ اس میں طاقت بھی ہے، عزت بھی ہے، دولت بھی ہے اور حصوصی اختیار بھی ہے جو عام آدمی کو حاصل نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے یہ پارٹیاں اور ان کے لیڈران عوام کے چرنوں یعنی قدموں میں ہوتے ہیں اور الیکشن کے بعد جب یہ جیت جاتے ہیں تو عوام ان کے چرنوں یا قدموں میں ہوتی ہے اوریہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن کر راجہ مہاراجہ اور مائی باپ ہوجاتے ہیں۔ پھر لاٹھی چلانا، گولی برسانا، بلڈوزر چلوانا اور منہ کھولنے پر جیل میں ٹھونس دینا ان کو سب اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔ عوام کی پیٹھ ہوتی ہے اور ان کی لاٹھیاں۔ ایڈمنسٹریشن کا پورا استعمال اور عدالت کا پورا نظام نہتے غریب اور مظلوم عوام پرظلم ڈھانے میں ہوتا ہے جو لوگ جرائم پیشہ ہیں یا دبنگ ہیں ان پر ان کی ایک نہیں چلتی۔کرمنل سیاستدانوں نے پورے سسٹم کو یرغمال بناکر رکھاہے۔ پھر بھی ہم دھوکہ میں ہیں کہ ہم جمہوری نظام میں جی رہے ہیں اور آزاد شہری ہیں۔ ہماری آزادی اور جمہوریت ایک دن کی ہوتی ہے جس دن ہم ووٹ ڈالتے ہیں، اس کے بعد جب ہم نے اپنا ہاتھ کاٹ کے دے دیا تو اب ہمیں اپاہج کی طرح سسٹم کے رحم و کرم پر ہی رہنا ہوگا۔ اور یہی پچھتر سال سے ہورہا ہے۔
2024 کے لوک سبھا کے چناؤ کا اعلان ہوچکا ہے۔ بی جے پی بھارت کو سیکولر جمہوری ملک کے بجائے ہندوفسطائی ملک بنانا چاہتی ہے۔ پچھلے دس سالہ اقتدارمیں اس نے اس سمت میں کام کیے ہیں، اس نے ملک کے صورت و کردار کو پوری طرح بدل دیا ہے اب وہ اس کو اور مستحکم کرنا چاہتا ہے اور اب کی بار چار سو پار کے نعرہ کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اتنی طاقت حاصل کرلی جائے کہ بھارت کے موجودہ دستور کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے اور ملک میں نیا دستور نافذ کیا جائے۔ اس نے بھارت کی بہت سی سیاسی پارٹیوںکو اپنا حلیف بنالیا ہے اس کا مطلب ہے کہ ان پارٹیوں کو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ان عزائم پر کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ وہ اس مہم میںاس کے ساتھ ہیں۔
جو پارٹیاں اقتدار سے باہر ہیں وہ ایک تو اپنے وجود کی لڑائی لڑرہی ہیں،دوسرے وہ جمہوریت اور سیکولرزم کا دم بھرتی ہیں۔ لیکن ان کی نیت اور نیتی دونوں میں کھوٹ ہے۔ بھارت کے عوام کی عظیم اکثریت بھارت کو ایک سیکولر اور جمہوری ملک دیکھنا چاہتی ہے اور دستور میں کسی چھیڑ چھاڑ کی مخالف ہے۔ اس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ عوام بی جے پی کے دجل و فریب میں نہیں آئے گی اور اب کی بار اسے دو سو سے زیادہ سیٹ نہیں ملے گی۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ مسلمانوں کو پہلے تو اپنی یہ غلط فہمی دور کرلینی چاہیے کہ وہ کنگ میکر ہیں۔ اس لیے زیادہ اچھل کود مناسب نہیں ہے۔ مسلمانوں میں سیاسی شعور کا فقدان ہے اوران میں ستّا کے اتنے دلال ہیں کہ پوری قوم کو بیچنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مسلمان سیاسی حالات کا قریب سے اور گہرائی سے جائزہ لیں۔ بالکل خاموش رہیں۔ اپنے پتے بالکل نہ کھولیں۔ وقت آنے پر سمجھ بوجھ کر ٹھنڈے دل سے فیصلہ کریں۔ بے گانی شادی میں عبداللہ کو دیوانہ بننے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت آپ اقتدار کے کھیل سے باہر ہیں۔ اقتدار کی پوری لڑائی ہندو اپرکاسٹ، بیک وارڈ کاسٹ اور دلت ورگوں کے درمیان ہورہی ہے۔ آپ یا تو تماشائی ہیں یا مشالچی اس لیے ان کی لڑائی میں ایندھن بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک کے شہری ہونے کے ناطے اپنے شہری حقوق کی حفاظت کے لیے اور ملک کے دستور کے تحفظ کے لیے سمجھ بوجھ کر اپنی رائے حق دہندگی کا استعمال کریں۔

Website: abuzarkamaluddin.com, Mobile: 9934700848

Comments are closed.