Baseerat Online News Portal

مسلمان اپنا کنفیوژن دور کریں

 

تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی)
مقصود منزل، پیراگپور، سہارنپور

ملک عزیز بھارت میں اٹھارہویں لوک سبھا انتخابات 2024 کا بگل بج چکا ہے، سیاسی پارٹیاں جوڑ توڑ میں مصروف ہوچکی ہیں، بھارت کی تقریباً تمام ہی کمیونٹی اپنا ایک سیاسی چہرہ اپنا ایک سیاسی پلیٹ فارم اپنا ایک سیاسی مطالبہ اور پہچان رکھتی ہیں سوائے مسلمانوں کے۔ مسلمانوں کے لیڈر تمام جھوٹے اور غدار سیکولر ہیں، جب کہ مسلمان بصدق دل ان کو اپنا لیڈر مانتا ہے اور ان کو ووٹ بھی دیتا ہے۔ مسلمانوں سے پوچھو تم ووٹ کس کو دوگے تو وہ کہیں گے ”جو بی جے پی کو ہرائے گا “ ان سے معلوم کرو بی جے پی کو کون ہرائے گا؟ تو پھر وہ بگلیں جھانکنے لگتے ہیں ، کسی کو ہرانے اور کسی جتانے کا یہ یہ ذہنی سانچہ گزشتہ ستر سال میں مسلم رہنماؤں نے بنایا ہے، اس بار بی جے پی نے کمال محنت اور تگڑم بازی کرکے بہت سے مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ غریب اور مزدور مسلمان —جن کی دوڑ دھوپ دو وقت کی روٹی حاصل کرنے تک ہے — بی جے پی کے مقامی لیڈروں کے رابطے میں ہیں اور بہت ہوشیاری سے اس طبقے کے ووٹ کو زعفرانی بنادیا گیا ہے ۔ یہ جہاں غدار سیکولر حضرات کی ناکامی ہے وہیں مسلم لیڈرشپ کے منہ پر زبردست طمانچہ بھی ہے اور بی جے پی کی مذکورہ ”کمال ہوشیاری“ نے اس کو ہرانے والا فارمولے کو ناکام بنادیا ہے۔ خیر……
بہت سے نوجوان مسلم مفکرین بار بار کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی سمیت کسی بھی سیاسی پارٹی کو ہرانا یا جیت دلانا ایک بے فائدہ عمل ہے، اس سوچ سے مسلمانوں کا پاگل پن اور کوتاہ بینی ظاہر ہوتی ہے۔
مسلمان سب سے پہلے اپنے دلوں سے خوف کو دور کریں اور سمجھ لیں کہ اگر 2024ء کے عام انتحابات میں بی جے پی تیسری مرتبہ پھر جیت جائے تو قیامت قائم نہیں ہوجائے گی، فرعون آبِ حیات پی کر ہمیشہ کے لئے جاودانی اختیار نہیں کرلے گا، اسی طرح اگر ”انڈیا الائنس“ جیت جائے تو مسلمانوں کے لئے جنت کی کھڑکیاں نہیں کھل جائیں گی، ہندتوا غنڈوں کے مظالم راتوں رات بند نہیں ہوجائیں گے، مسلم دشمنی پر فوراً قدغن نہیں لگ جائےگا، مسلمانوں کی پسماندگی ازخود ختم نہیں ہوجائے گی۔ مسلمان ہرقسم کے ڈر اور خوف کو پس پشت ڈالتے ہوئے مسلم سیاسی پارٹی کو تشکیل دینے کی نیت سے ووٹ ڈالیں ، اگر مسلمان انتہائی سوجھ بوجھ اور گہری پلاننگ کے ساتھ 25 / 30 سال اس بات کی کوشش کر لیں کہ ہمیں اپنی ایک قومی سیاسی پارٹی قائم کرنی ہے تو آپ یقین جانیے کہ بی جے پی مسلمانوں کے ساتھ ملکر حکومت سازی کرے گی اور ”مسلم دشمنی“ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔
وہ منصوبہ بندی کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ مسلمان کسی بھی سیاسی پارٹی کو نہ اپنا دائمی دشمن قرار دیں اور نہ ہی دائمی محبوب، جمہوریت میں سیاست خالص ایک کاروبار ہے ناکہ عبادت و خدمت، تو مسلمانوں کو بھی خالص کاروباری ذہن سے ہی سوچنا چاہیے اور سیاسی پارٹیوں کے ساتھ معاملات کرنے چاہیے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے جس طرح کے الائنس پہلے بھی کیے ہیں اور ابھی حال ہی میں یوپی کے اندر P. D.M نام سے کیا ہے وہ انتہائی قابلِ قدر اور بیدار مغزی کی دلیل ہے، اس قسم کے الائنس جہاں بی جے پی کے ہندتوا عزائم کو چکنا چور کریں وہیں کانگریس کے جھوٹے سیکولرازم کی ہوا بھی نکالیں گے۔ آزادی کے بعد کانگریس پر یکطرفہ اور بغیر کسی معاہدے کے جو بھروسہ کیا گیا تھا وہ اب سراسر غلط اور بیہودگی ہے اس سلسلے کو فوراً روک دینا چاہیے۔ میری بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب سے انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر آپ حقیقت میں مسلمانوں کے اندر ”مسلم لیڈرشپ“ اٹھانا چاہتے ہیں اور یقیناً آپ چاہتے ہیں تو پارٹی کے اندر مضبوط تھنک ٹینک پیدا کریں اور پارٹی کے ڈھانچے کو وسیع بنیادی اصولوں پر استوار کریں منظم کریں۔

Comments are closed.