Baseerat Online News Portal

اوراب مولانا ذاکر بھی : اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے 

مولانا محمدشاہد ناصری الحنفی
بانی وصدر ۔ادارہ دعوت السنتہ ویلفیرٹرسٹ کاندیولی ممبئ

دل رنجور ہے، آنکھیں اشک برسارہی رہی ہیں، فلک کو بھی کیا جلدی تھی کہ ملت کی امیدوں کے چراغ کو ہی برق وبجلی گرا کر آنا فانا میں گل کردیا۔ آپ نے صبح ہی یہ خبر پڑھ لی ہوگی کہ جوان دانا اور بااخلاق وملنسار، امت کے مسائل کے واقف کار، دل درد مند اور فکر ارجمند کے حامل مولانا ذاکر قاسمی اب اس زمین پر نہیں رہے اور ان کو آج ہی عشاء کے بعد زمین کے اندر رکھ دیا گیا؛ اس لیے کہ یہی کہا گیاہے : "منہاخلقنکم وفیہا نعیدکم ومنہا نخرجکم تارة أخری.” (طه)؛ اس لیے کس کی مجال کہ این اور آں کرے، جانا تو سب کوہے زمین سے؛ اس لیے کہ ازل سے دستور یہی چلاآیا ہے، مگر والدین کے جانے کے بعد کہ کائنات میں محبت وعشق کی انتہا انہی پر ہوتی ہے اور آخرت کی فلاح بھی انہی دونوں کی رضا پر اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کے بعد ہوتی ہے، بعض لوگ اپنی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے ممتاز اور اہل زمانہ کے محبوب نظر ہوتے ہیں، ایسے ہی خوش نصیبوں میں مولانا ذاکر قاسمی کا بھی شمار ہوتا تھا، نپی تلی مختصر بات کرنے اور ہرایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنے والے اور شب و روز حتی الوسع لوگوں کے کام آنے کی وجہ سے مجھے بھی ان سے ایک گونہ محبت ہوگئی تھی، وہ ایک اچھے عالم دین تھے، اسی لئے ادارہ دعوت السنتہ مہاراشٹرا نے اپنے حج ہاؤس کے سالانہ کل ہند 26 ویں مسابقتہ القرآن الکریم میں ان کو بہترین عالم دین ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا ؛ علمی استحضار خوب تھا، عالمانہ وقار کے ساتھ تکلف برطرف والا مزاج اور تواضع فطرت میں داخل تھا۔
برادرمکرم جناب مولانا حافظ ندیم صاحب صدر جمیعت علماء مہاراشٹر کے مزاج واشارہ شناش تھے اور ان کی موجودگی جمیعت کے کام کاج کے حوالہ سے صدر موصوف کے لیے انشراح کا باعث ہوتی اور وہ بے فکر طویل طویل تبلیغی اسفار میں اطمینان سے وقت گزارتے۔ مولانا ذاکر صاحب کے جانے سے سچ پوچھیے تو پورا دن انشراح کے بغیر گزرا طبیعت مضطرب رہی اور اپنی موت کی فکر دوچند ہوگئی اور غم کی ایسی ضرب کاری لگی کہ دست کا سلسلہ جو خبرغم کہ بعد شروع ہوا وہ وقفے وقفے سے تادم تحریر نصف شب تک جاری ہے، ضعف نے اس حال میں کہاں رکھا کہ خاموش ہوجانے والے مسافر کی آخری ملاقات وزیارت بھی کرلیتا، طبیعت بھی اب کنٹرول کرنے کی چیز شاید نہیں رہی، بسا اوقات وہ خوشی یا غم سے بہت متأثر ہوتی ہے اور مجسم غم واندوہ کا پیکر بن جاتی ہے، دیکھیے نا ! عجیب اتفاق ہے کہ شیخ طریقت حضرت مولانا منیراحمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا اور قلبی تعلق کے باوجود ان کے جنازہ میں بھی طبیعت کے شدید ضعف نے جانے نہیں دیا، بس اپنے مقام سے رفع درجات کی دعائیں کرتا رہا ؛ اسی طرح مولانا ذاکر صاحب قاسمی رحمہ اللہ کی تربت پرحاضری کے لیے بھی طبیعت کی ناہمواری مانع بن گئی اور ابھی مولانا گل محمد صاحب نے آکر بتایا کہ ملت کے فرزندوں کی کثیر تعداد نے دعاء مغفرت کے ساتھ ان کو اس جہان بے ثبات سے الواداع کہا۔ یہ اس غم ناک ماحول میں ان شاء اللہ مغفرت کے لیے خوش آئند بات ہوئی۔ ویسے بھی رمضان المبارک کے بعد کی موت اور عارضۂ قلب کی موت باعث خیر ہی ہوتی ہے۔
اللہ سبحانہ سے دعا ہے کہ وہ ہم زندوں کی بھی اور مرجانے والوں کی بھی کامل مغفرت فرمائے اور مولانا ذاکر صاحب مرحوم کے حسنات کو قبول فرماکر انہیں پل پل ردائے رحمت ومغفرت میں ڈھانپے رکھے، ان کے پسماندگان کو صبر جمیل مرحمت فرمائے اور ان کے ادارے اور تنظیم کو ان کا نعم البدل نصیب فرمائے، آمین ! میں انہی سطور کے ساتھ مولانا ذاکرقاسمی مرحوم کو خراج عقیدت اور پسماندگان وذمہ دارن جمیعت علماء مہاراشٹرا کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتاہوں۔
شریک غم
محمد شاہد ناصری الحنفی
17 اپریل 2024 ء مطابق 7 شوال المکرم 1445ھ شب کے پونے تین بجے ۔

Comments are closed.