Baseerat Online News Portal

ترکیہ اسرائیل تجارت: حقیقت و نوعیت

 

توصیف احمد

 

طیب اردگان کا نام گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا بھر کے مظلوموں کی آواز بننے اور دادرسی کے لیے جانا جاتا ہے، 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پہ حملے کے بعد جب اسرائیل نے غزہ پہ آگ برسائی، معصوم شہریوں، بچوں اور خواتین کے خون سے ہولی کھیلنے لگا تو مسلم ممالک بالخصوص ترکی پر بہت سے سوالات اٹھے، طیب اردگان کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، ایک انکشاف جس نے سب کو چونکا دیا یہ تھا کہ ترکی ایسے نازک وقت میں بھی اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت جاری رکھے ہوئے ہے، طرفہ تماشا یہ ہوا کہ ایسے میں ایک رپورٹ خود ترکیہ کے سرکاری ادارے کی جانب سے شائع ہوئی، جس میں یہ بتایا گیا کہ جنگ میں استعمال ہونے والا ساز وسامان اور بارود وغیرہ ترکیہ سے اسرائیل فروخت کیا گیا ہے، اس صورتحال نے سبھی ملت کا غم رکھنے والوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، ذیل میں اسرائیل ترکی تجارت سے متعلق چند حقائق بیان کیے جا رہے ہیں، جن میں ہم دیگر ذرائع کے ساتھ ترک نوجوان محمد اردوغان کے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پہ لکھے گئے دو عربی مضامین سے استفادہ کریں گے، اس گفتگو کا مقصد ہرگز ترکیہ کو کلین چٹ دینا نہیں ہے، بل کہ حقیقت بیانی پیش نظر ہے، نہ کاتب سطور کا یہ دعویٰ ہے کہ ترکیہ غزاوی مسلمانوں کے تئیں اپنی ملی ذمے داری کو مکمل طور پر ادا کر رہا ہے؛ بل کہ تجارت کے موضوع پہ خاص طور سے جو کذب بیانی اور حقائق کو مسخ کرنے کا عمل جاری ہے، اس کی صحیح نوعیت اور مقاصد کو قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔

 

نوجوان ترک صحافی محمد اردوغان نے اسرائیل ترکیہ تجارت سے متعلق دو مضامین تحریر فرمائے ہیں، جن میں اس موضوع پہ مفصل روشنی ڈالی ہے، ایک مضمون ضروریات زندگی اور اشیائے خوردونوش کی تجارت کے بارے میں ہے، جب کہ دوسرا جنگی سازوسامان کی فروخت سے متعلق ہے۔

 

خیال رہے کہ ہر دو انواع کی تجارت Private اور نجی سطح پر ہے، جس کا ترکیہ حکومت اور اسرائیلی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

ضروریات زندگی اور اشیائے خورد ونوش کی تجارت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے محمد اردوغان لکھتے ہیں کہ:

یہ ساری تجارت ہمارے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہے، اس کا براہ راست فائدہ علاقۂ 48 (مقبوضہ فلسطین) مغربی پٹی اور شہر القدس کے مسلمان باشندگان کو ہوتا ہے۔

 

اس سوال کے جواب میں کہ کیا فلسطینی تاجروں کے ساتھ صہیونی تاجر بھی ترکیہ سے سازوسامان نہیں لے جاتے؟ لکھتے ہیں کہ بہت ممکن ہے کہ صہیونی تاجر بھی ساتھ میں تجارت کر لیتے ہوں؛ کیوں کہ فلسطینی اور صہیونی تاجروں کے درمیان بسا اوقات امتیاز نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ترک سوداگروں کے پاس ان کی تفصیلات دستیاب ہوتی ہیں۔

 

لکھتے ہیں کہ فلسطینی تجار کے پاس اسرائیل کے راستے ترکیہ سے تجارت کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی مناسب راستہ نہیں ہے، اسرائیل کے راستے تجارت کرنا فلسطینی تاجروں کی مجبوری ہے، نہ تو فلسطینی اتھارٹی کے پاس بیرون ملک تجارت کے اختیارات ہیں نہ غزہ میں بیرونی دنیا سے آمد ورفت ممکن ہے، جہاں تک ترکیہ سے تجارت کی بات ہے تو فلسطینیوں کے پاس تجارت کے لیے کوئی دوسرا مسلم ملک بطور متبادل دستیاب نہیں ہے، جہاں سے ضروریات زندگی کا سامان مناسب داموں میں درآمد کیا جا سکے، ورنہ تو مغربی ملکوں کا رخ کرنا واحد حل بچے گا۔

 

محمد اردوغان کے مطابق اس باہمی تجارت میں ترکیہ کا اپنا فائدہ بھی مضمر ہے، تجارت کے راستے ترک تاجروں کا فلسطینی سرزمین میں داخلہ ممکن ہوتا ہے، یوں وہاں کی تازہ صورت حال سے واقفیت بھی ہوجاتی ہے۔

 

اس گفتگو میں محمد اردوغان نے اس بات پہ زور دیا ہے کہ یہ تجارت فلسطینی تاجروں کے علاوہ ترکیہ اور اسرائیل کے حق میں بھی مفید ہے، کیوں کہ ایک بڑے طبقے کی معیشت کا دار ومدار ان ترکی ساز وسامان پہ ہے، اگر ترکی کا راستہ روک دیا گیا تو ایک بڑا طبقہ معاشی بحران سے دو چار ہوجائے گا، جو کہ خود اسرائیل کے حق میں بھی نہیں ہے، جب کہ ترک اور فلسطینی تاجر تو براہ راست مستفید ہو ہی رہے ہیں۔

 

ایک دوسرا مضمون "أردوغان ليس غبي” کے عنوان سے ہے، جس میں جنگی ساز وسامان کی تجارت اور اس کی تفصیلات و نوعیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

جس قدر بھی تھوڑا بہت جنگی ساز وسامان ترکیہ سے اسرائیل پہنچ رہا ہے، اس میں مکمل طور پر صہیونیت نواز ترک نجی کمپنیاں ملوث ہیں، جن کو کوکاکولا، پیپسی اور اسٹار بکس کی طرح دیگر یہودی کمپنیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے، یوں تو یہ کمپنیاں ترکیہ کی سرزمین پہ قائم ہیں؛ لیکن ان کی باگ ڈور صہیونیت پرستوں کے ہاتھ میں ہے، اس اجمال کو سمجھنے کے لیے ترکیہ کے سابق صدر تورغوت اوزال کی گفتگو کا مراجعہ مفید ہوگا، لکھتے ہیں:

ایک دن تورغوت اوزال نے اپنے بیٹے سے کہا: یہ ملک اس وقت تک آزاد نہیں ہوگا جب تک مغرب کے وفادار تاجروں کی کمر نہ توڑ دی جائے۔

بیٹے نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟

جواب دیا: یہ پانچ خاندان ہیں، جو باسفورس کے کنارے آباد ہیں، یہی ترکی کے سیاہ وسفید کے مالک ہیں۔

 

دراصل ان خاندانوں کو سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد یونان سے لا کے ترکی کے ساحلی علاقوں میں آباد کیا گیا، شاطر دماغ یہ تاجر خاندان انتہا پسندانہ سیکولر نظریات اور ماسونی فکر و خیال کے حامل ہیں، تجارت کے راستے آہستہ آہستہ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور کلیدی ملکی شعبوں تک رسائی حاصل کر لی، جن میں معیشت، میڈیا، عدلیہ، فوج، آرٹ، حتی کہ غذا اور صحت کے شعبے بھی شامل ہیں، یہ بزنس مین فیملیز ترکیہ کی مشہور تجارتی گزرگاہ آبنائے باسفورس کے بشمول بحر متوسط کی تمام تجارتی بندرگاہوں پہ قابض ہیں۔

لہذا جو بھی جنگی ساز وسامان ترکیہ سے اسرائیل پہنچتا ہے وہ انہی کمپنیوں کا ساختہ اور فروخت کردہ ہے، جس کا مالی عوض نہ ہونے کے برابر ہے، حالیہ دنوں میں ترکیہ حکومت کی اعداد وشمار کی آفیشل ویب سائٹ پر ان اعداد وشمار کا آنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ترکیہ حکومت اس جراتِ بے جا سے ناخوش ہے۔

 

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردگان اور ان کی حکومت ان کمپنیوں کو لگام کیوں نہیں دیتی؟

 

اس کا جواب دیتے ہوئے محمد اردغان نے اول تو یہ اعتراف کیا کہ چوں کہ ان خاندانوں کا اثر و رسوخ دہائیوں پہ پھیلی چوطرفہ سازشوں کا نتیجہ ہے، اس لیے سال دوسال میں ان کا طلسم نہیں توڑا جا سکتا، اس اعتراف کے بعد ان کوششوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو اردگان نے گزشتہ وقتوں میں کی ہیں، جن میں سرفہرست TÜSIAD کے بالمقابل MÜSİAD کو ترقی دینا ہے۔

 

اس کی تفصیل یہ ہے کہ TÜSIAD ترک صنعت کار اور تاجروں کی وہ تنظیم ہے جس کا تعلق مذکورہ بالا خاندانوں سے ہے، یہ ترکیہ میں سیکولرازم کی محافظ اور صہیونیت نواز تنظیم ہے، یہ تنظیم 1971 میں وہبی کوچ کی سربراہی میں قائم ہوئی، اس تنظیم نے جہاں ترکی میں صہیونیت نواز سیکولر طاقتوں کو کمک فراہم کی، وہیں اسرائیل، امریکا ویوروپ میں موجود صہیونی لابیوں سے اپنے تعلقات استوار کیے، ان کا اثر و رسوخ یہاں تک پہنچ گیا کہ ملکی سربراہوں کو دھمکیاں دیتے اور ملکی پالیسیوں پہ اثر انداز ہونے لگے؛ تاہم بعد کے ادوار میں بالخصوص طیب اردگان کی قیادت میں ان پہ شکنجہ کسنے کا معقول انتظام MÜSİAD کو فروغ دے کر کیا گیا، یہ آزاد صنعت کاروں اور تاجروں پہ مشتمل اسی نوع کی ایک تنظیم ہے، جس سے دینی مزاج و مذاق کے حامل تاجر وابستہ ہیں، اس کا قیام تو 1990 میں ہوا؛ لیکن طیب اردگان کی اسلام پسند حکومت کے تعاون کے بدولت کافی تیزی سے ترقی کے منازل طے کر لیے۔

 

گزشتہ بیس پچیس سال میں ترکیہ نے صنعت کاری میں اگر بہت ترقی کی ہے، ہر قسم کے جنگی ساز وسامان، الیکٹرانک گیجٹ تیار کیے ہیں، تو اس میں MÜSİAD کا بڑا کردار ہے، وہ تنظیم جو 1990 میں وجود میں آئی، سیکولر طاقتوں، فوجی جرنیلوں، صہیونیت نواز تاجروں کی جانب سے جس کو مسلسل خطرات کا سامنا رہا، وہ 2021 کے اعداد وشمار کے مطابق 10 ہزار بزنس مین اور 60 ہزار کمپنیوں کے ساتھ ترکیہ کی مجموعی قومی پیداوار میں 18 فی صد کی حصے دار ہے۔

 

ان حقائق پہ نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ مسائل جس طرح سادہ نظر آتے ہیں دراصل کتنے پیچیدہ اور گنجلک ہوتے ہیں، ترکیہ جیسے اسلام پسند ملکوں کے خلاف اپنوں اور پرایوں کے پروپیگنڈے سے حقائق کس قدر مسخ ہوجاتے ہیں، راقم طیب اردگان کے حالیہ خطاب سے چند جملے نقل کر کے اس مضمون کا اختتام کرتا ہے:

 

”یہ نہ بھولیے ہمارے کاندھوں پہ ایک بھاری قوم کا بوجھ ہے، ہمارے سروں پہ ایک ملک اور 85 ملین انسانوں کی امانت ہے، ہوسکتا ہے ہمارے اقدامات مخفی ہوں، ہو سکتا ہے ہم اپنی بہت سی کوششوں کو علی الاعلان بیان نہ کرسکیں؛ لیکن جو لوگ فلسطینی قضیے سے متعلق ہماری نیت اور سنجیدگی پہ شک کر رہے ہیں آج نہیں تو کل انہیں شرمندگی ہوگی، کل کو جب تاریخ لکھی جا رہی ہوگی تو اندازا ہوگا کہ ہمارا کردار کیا تھا، اور ہمارے خلاف کس طرح بے جا الزام تراشیاں کی گئیں۔“

 

[email protected]

Insta: @muftitsf

Comments are closed.