Baseerat Online News Portal

مسلمان پرساد تقسیم نہ کریں۔۔۔! 

 

نازش ہما قاسمی ( ممبئی اردو نیوز)

 

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ۱۸ ویں لوک سبھا الیکشن کا ماحول ہے، پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہوچکی ہے دوسرے مرحلے کے لیے ٢٦اپریل کو پولنگ ہوگی، اس کے بعد مزید ۵ مراحل رہ جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں کوئی خاطر خواہ ووٹنگ تناسب نظر نہیں آیا،ہوسکتا ہے دوسرے اور اس کے بعد کے بقیہ مراحلوں میں ووٹنگ فیصد بڑھ جائے۔ ایسے سیاسی ماحول میں مسلمانوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے سیاسی شعور کی بیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر اس لوک سبھا سیٹ پر نہ بکنے والے امیدوار کو ووٹ دیں اور متحدہ طور پر ایک ہی امیدوار کووٹ کریں، ایسا نہیں کہ ایک سیٹ پر اگر دس مسلم امیدوار کھڑے ہوں تو کچھ اسے کچھ اُسے دے کر پرساد کی تقسیم کا عمل شروع کردیں۔ یہاں ہر ایک کو خوش کرنے اور اس کی دلجوئی کا خیال رکھنے سے کوئی بھی امیدوار جیت حاصل نہیں کرسکے گا البتہ جس مقصد کے لیے فرقہ پرست پارٹی اور نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلم قیادت کو ختم کرنے کے لیے ہر مسلم اکثریتی سیٹ سے دس دس قائدین کھڑے کیے ہیں، وہ اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے اور آپ کے دسیوں قائد دھڑے کے دھڑے رہ جائیں گے، فرقہ پرست امیدوار آپ کی بندر بانٹ اور پرساد کی تقسیم کا فائدہ اٹھا کر آپ کے حلقے کا ایم پی منتخب ہوجائے گا منتخب ہونے کے بعد وہ وہی کرے گا جو وہ چاہے گا کیونکہ وہ آپ کے ووٹ سے منتخب ہی نہیں ہوا اور نہ ہی اسے آپ کے ووٹوں کی ضرورت تھی۔اس کا مقصد تو واضح تھا کہ آپ پرساد تقسیم کریں تاکہ وہ جیت جائے، ملک میں بہت ساری جگہوں پر مسلم اکثریت ہے وہاں متحدہ طور پر صد فیصد ووٹنگ کے ساتھ کسی ایک امیدوار کے لیے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ اس کے علاوہ جہاں فرقہ پرست کے مقابل کم فرقہ پرست امیدوار یا کوئی نام نہاد سیکولر پارٹی کا امیدوار کھڑا ہو تو فرقہ پرست کے مقابل میں نہاد سیکولر پارٹی کے امیدوار کو یک طرفہ طور پر ووٹ کریں۔ اترپردیش کے مسلمان بار بار ڈسنے والی اور فرقہ پرستوں کو راست فائدہ پہنچانے والی بی ایس پی سے دوری ہی بناکر رکھیں تو بہتر ہوگا۔ بہرحال دن کم رہ گئے ہیں، آپ آزادی کے بعد سے ہی ووٹنگ کرتے آرہے ہیں، امید ہے فرقہ پرست اور نام نہاد سیکولر و حقیقی سیکولر پارٹی میں فرق سمجھ میں آگیا ہوگا، یہ بھی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ کون سی پارٹی مسلم اور سیکولر ووٹ تقسیم کرکے غیراعلانیہ طور پر دوسروں کو فائدہ پہنچارہی ہے خاص طور پر اترپردیش میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، جہاں کہیں بھی تیسرا امیدوار ہو خواہ مسلم امیدوار کیوں نہ ہو اگر وہ آپ کے اتحاد سے جیت سکتا ہے تو اسے ووٹ دے کر ایوان میں پہنچائیں لیکن ووٹ کی تقسیم ہرگز نہ ہونے دیں،ہوش سے کام لیں،گاؤں کے چوپالوں اور چائے خانوں پر لگی پارلیمنٹ سے تو یہی اندازہ ہوتاہے کہ مسلمان بہت باشعور اور سیاسی فہم و فراست کا مالک ہے۔ ذہن میں رہے کہ یہ الیکشن گزشتہ ۱۷ لوک سبھا کے الیکشنوں کے مقابل بہت اہمیت کا حامل ہے، کئی پارٹیوں کے لیڈران نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہوسکتا ہے یہ آخری الیکشن ہو ۔ اگر آپ کی ناسمجھی کی وجہ سے فرقہ پرست پارٹی جیت گئی تو ملک میں کبھی الیکشن کا دور نہ آئے گا، جمہوریت اور آئین ختم ہوجائے گی، ایک پارٹی جس طرح چاہے اصول و ضوابط مرتب کرکے نافذ کرےگی اور اس پر سبھی کے لیے عمل پیرا ہونا لازم ہو گا۔ اس لیے دستور و جمہوریت کو بچانے، ملک کی قدیم گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کے لیے اپنے آئینی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے فرقہ پرست پارٹیوں کے تابوت میں آخری کیل پوری طاقت و قوت کے ساٹھ ٹھونک دیں اور ملک کو بچالیں۔ جس طرح آج تک بچاتے آئے ہیں ۔ ووٹنگ والے دن غفلت نہ برتیں ہر ایک اپنا ووٹ ضرور کریں۔ ان شاء اللہ ملک فرقہ پرستوں اور ان کی فرقہ پرستی سے پاک ہوجائے گا ۔

اداریہ روزنامہ ممبئی اردو نیوز شمارہ جمعرات ۲۵ اپریل

Comments are closed.