مسلمانوں کا سب سے کم عمر نوجوان قیادت کے میدان میں

 

مولانا محمد انعام الحق قاسمی

لجنہ علمیہ ، ریاض، مملکت سعودی عرب

مسلمان بھارت اور سندھ کے میں کیسے داخل ہوئے؟

اسلام سے پہلے عرب ہمیشہ اپنی جہالت اور بدویت کی وجہ سے مشہور تھے۔ ایسی جہالت جس کی وجہ سے یہ محسوس کیا جاتا تھا کہ عرب کے لوگوں کو اپنے اردگرد کی دنیا کی سرحدوں ، دیگر اقوام اور لوگوں کی فطرت کا ادراک یا علم قطعاً نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ یہ عرب قوم جہالتِ مطلق میں مبتلا تھی۔ لیکن یہ تاثر جلد ہی ختم ہو جاتا ہے جب ہمیں اس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ عرب کسی بھی قدیم قوم کی طرح ہیں، جن میں سے کچھ قبائل چراگاہی، کچھ زراعت اور کچھ تجارت میں مہارت کاملہ رکھتےتھے۔ ان تاجروں کے سرخیل قبائل قریش، مکہ کے سرداران اور خانہ کعبہ کے خدام کے علاوہ یمن، حیرہ اور اسکے علاوہ دوسرے علاقوں کے عرب تھے۔

شام اور یمن کے عرب، جیسے غسانی، مناذرہ، اور قدیم سبا قوم کے لوگ، بھارت کی تجارت کے ساتھ رابطے میں آئے، جو فارس سے ہوتے ہوئے بحر ہند اور بحیرہ احمر سے گزرتی تھی۔ ان سے یمنی تجار سامان تجارت کا تبادلہ کرتے تھے۔ ان میں سے بعض سامان تجارت سردیوں کے مشہور سفر میں قبائل قریش کا حصہ ہوتے تھے جس کا ذکر قرآن کریم کےسورہ قریش میں آیا ہے۔ تاکہ اس سامان تجارت کا اکثر حصہ موسم گرما کے سفر پر شام کی طرف لے جائیں۔ ان میں سے کچھ مصری تاجروں کا حصہ ہوتا تھا جو رومی اور یونانی تاجروں کے ساتھ ان کی بندرگاہوں میں بھاری منافع کے بدلے سودا کرتے تھے۔

جب اسلام آیا اور مسلمانوں نے پورے جزیرہ نما عرب کو فتح کرلیا، پھرشام اور فارس (ایران) کوبھی فتح کرلیا، ان کی نظریں اِن ممالک سے بہت دور آگے دیکھنے لگیں، جیسے فارس کے شمال مشرق میں دریا کے پار کے ممالک یا سندھ (پاکستان) کا ملک اور بھارت جو بہت دور جنوب مشرق میں واقع ہے جو ان کے درمیان عجائبات اور تجسس کی سرزمین کے طور پر جانا جاتا تھا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی کون سی کوششیں تھیں جو اسلام کی پہلی صدی میں کئی دہائیوں تک جاری رہیں؟ کچھ خلفائے راشدین ان دور دراز ممالک پر یلغار کرنے سے کیوں خوفزدہ تھے؟ فتوحات کو آخر کار کامیابی اور پھیلاؤ کا تاج کیسے پہنایا گیا؟ ان ممالک کو فتح کرنے کی قیادت کس نے کی، وہ کیوں بہت زیادہ مشہور ہو ا، اور ان کی زندگی ایک ایسے سانحے میں کیسے ختم ہو ئی جس کا وہ قطعی طورپر ذمہ دار نہیں تھے

خلفائے راشدین اور ہند کی تلاش

ان ممالک کو تلاش کرنے اور ان کی تفصیلات کے بارے میں جاننے کے بارے میں سوچنا اور کھوج کرنا الفاروق عمر بن الخطاب رضي الله عنه کے دور میں شروع ہوا- جب بحرین اور عمان میں مقرر اُن کے گورنر عثمان بن ابی العاص ثقفی رضي الله عنه نے سنہ 15 ہجری میں اپنی فوج کو سندھ اور ہند کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ یہ لشکر حضرت عمررضی اللہ عنه کا جواب آنے سے پہلے ہی روانہ کیا جاچکا تھا ،جس جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ: ’’اے قبیلہ ثقیف کے بھائی، تم نے لوگوں کوہلاکت کی طرف روانہ کیا ہے، اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ مارے گئے تو میں تمہاری قوم سے ان ہی جیسے لوگوں کا سوال کروں گا۔‘‘ عثمان بن ابی العاص رضي الله عنه نے اپنے دو بھائیوں حکم اور مغیرہ کو ہند کی طرف روانہ کیا تھا۔ ان کا ایک گروہ خورالدیبل پہنچا اور دشمن سے مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ دوسرا گروہ آج ہند کے شہر سورت کے قریب بروس [Bharuch]نامی علاقے کی طرف بھیجا گیا تھا۔

عمر بن الخطاب رضي الله عنه کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حکمتِ عملی مسلمانوں کے سمندروں میں کشتی رانی کے خلاف تھی۔ یہ ایک ایسا خیال تھا جو ان کے لیے ہمیشہ واضح تھا جب وہ مصر اور اسکندریہ کی فتح پر راضی ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہے تھے خاص طور پر پانی کی رکاوٹ کی موجودگی کی وجہ سے، جو کہ نیل تھا اور یہ مسلمانوں کو مدینہ میں ان کی مرکزی قیادت سے الگ کر سکتا تھا۔ اسی طرح جب شام میں ان کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کو جزیرہ قبرص کو فتح کرنے کے لیے بحیرہ روم میں کشتی رانی سے منع کیا تھا۔

تاہم، یہ حکمتِ عملی تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان رضي الله عنه کے خلافت کے باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ہی بدل گئی ، کیونکہ انہوں نے معاویہ کو قبرص پر حملہ کرنے کا اختیار دے دیا۔ انہوں نے عراق میں اپنے گورنر عبداللہ بن عامر بن کریز کے پاس لکھ بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ ملک ہند کے ان حصوں میں جائیں جو اس وقت دولت اسلامیہ کی سرحدوں پر واقع تھے ، اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرکے ارسال کریں۔ انہوں نے ایک ہوشیار اور تجربہ کار شخص كو ان علاقوں میں بھیجنے کا حکم دیا۔ درحقیقت ابن عامر نے اپنے سپہ سالار حکیم بن جبلہ العبدی کو ان علاقوں میں بھیج دیاتھا جو ایک مدت تک وہاں مقیم رہے۔ وہ ان علاقے کی باریکیوں کو سمجھنے اور ان کے خفیہ اسرار جاننے کی کوشش کی۔ چنانچہ وہ شہر ِنبوی [مدینہ منورہ] میں خلیفہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس واپس آئے، جہاں انہوں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا، تو حکیم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو جواب میں کہا تھا:

"اس کا پانی خراب اور بہت کم ہے، ان کے پھل ردی ہیں، اور ان کا چور ہیرو ہے۔ اگر ان علاقوں میں چھوٹی فوج بھیجی جائے گی تو وہ ضائع ہو جائے گی اور اگر بڑی ہو گی تو بھوک سے مرجائیں گے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا تھا: بنجر ہے یا آباد ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا: بلکہ بنحر ہے۔ اس پر کسی نے اب تک حملہ نہیں کیا ہے” جب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں سنہ 38 ہجری کا اختتام اور سنہ 39 ہجری پہلے سال میں حارث بن مرہ العبدی نے آپ سے رضاکارانہ طور پر اجازت طلب کیا اورعلی رضی اللہ عنہ کی اجازت کے بعد، انہوں نے اس علاقے پر حملہ کیا اور فتحیاب ہوئے اور مال غنیمت اور قیدیوں کو اپنے قبضے میں لے ہوئے واپس آئے۔”

عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد اسلامی ریاست لڑائی ، بدامنی اور فتنے کے دور میں داخل ہوگئی۔ اس کے بعد اموی ریاست آئی، جسے حسین رضي الله عنه کی شہادت کے فوراً بعد عبداللہ بن الزبیر بن العوام رضي الله عنه کی بغاوت اور بڑے سنگین واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح یزید بن معاویہ کی موت اور اس کے بیٹے معاویہ ثانی کا خلافت سے دستبردار ہونا اور دیگر واقعات؛ ان سب واقعات نے بشمول سندھ اور ہند کی تلاش کے خارجی غیر ملکی فتوحات کو روک دیا، اور ان کی سیاسی پیش رفت اور دوسرے اخبار کے حصول کا سلسلہ بند ہوگیا تھا۔

حجاج بن یوسف کی تقرری اور غزوہ سندھ کے اسباب

عبدالملک بن مروان کی باغیوں پر فتح ، ریاست کا دوبارہ اتحاد، مخالفین کا خاتمہ، اور عراق پر حجاج بن یوسف الثقفی کی تقرری، وہ عراق جو کئی دہائیوں تک انقلابات اور مسلح بغاوتوں کا موطن رہا، حجاج بن یوسف الثقفی کو وسیع اختیارات دینا جس میں فارس، خراسان اور بلادِ مشرق کے گورنروں کا تقرر شامل تھا۔ حجاج کی رائے تھی کہ اسلامی فتوحات کی کارروائیوں کو بحال کیا جائے جو کافی عرصہ پہلے رک گئے تھے۔ اس نے درحقیقت اس جہاد کے احیاء کئی کوششیں کیں، لیکن اموی ریاست سے تمرد اور عصیان کی وجہ سے مکران کے علاقوں اور صوبہ سندھ (پاکستان) سے متصل دوسرے علاقوں میں متمردین کی موجودگی کی وجہ سے وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکے، اور ان علاقوں پر اس وقت راجه داہر کی حکومت تھی۔

تاہم، جس چیز نے حجاج کے جوش اور غضب کو بھڑکا دیا اور اسے فوجی مہم کی تیاری پر آمادہ کیا وہ حقیقت یہ تھی کہ سندھ کے علاقے سے کچھ قزاق "مید الدیبل” سے تعلق رکھتے تھے۔ "سیلون جزیرے (سری لنکا) سے آنے والے ایک بحری جہازجس میں کچھ مسلمان تاجروں ” جن کا اس جزیرے پران کا انتقال ہوگیا تھا ” کی کچھ خواتین ، کچھ مسلمان بیوائیں اور ان کی بیٹیاں سوار تھیں لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوا۔ حجاج نے سندھ کے راجه داہر کو ایک خط لکھ بھیجا کہ ان عورتوں کو آزاد کرکے ہمارے پاس بھیج دیاجائے۔ تاہم اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ان بحری قذاقوں پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ حجاج نے عبداللہ بن نبھان کی قیادت میں ایک تیز فوج بھیجی جس کا خاتمہ شکست پر ہوا۔ اس نےاسکے بعد ایک اور فوج کا بڑا دستہ بھیجاجس کی قیادت بدیل بن طفہ البجلی نے کی، عمان سے ہند کی طرف روانہ کیا تھا، لیکن اسے بھی شکست ہوئی۔

پھر حجاج بن یوسف الثقفی نے فیصلہ کیا کہ خلیفہ الولید بن عبدالملک بن مروان (متوفی 96ھ) سے سندھ کو فتح کرنے کی اجازت طلب کی جائے۔ خلیفہ کی منظوری حجاج کی حمایت میں آئی، اور اس نے فوجی مہم کی سربراہی ایک ممتاز نوجوان شخصیت، اپنے چچازاد بھائی محمد بن القاسم الثقفی کے سپرد کیا۔ جوانی کے ابتدائی دور میں ان کی عمر صرف سترہ سال تھی جب اس نے 93 ہجری میں سندھ کی فتح شروع کی۔

فاتح سندھ محمد بن القاسم الثقفی

 

ایک ہیرو جو ابھی تک جوانی کی دہلیز پر نہیں پہنچا !

اُس ہیرو کی سوانح عمری، جس کے بارے میں ہم اس وقت بات کریں گے، بلا شبہ یہ ملت اسلامیہ اور دین اسلام کے لیے فخر، شان اور سربلندی کا باعث ہے۔ وہ امت اسلاميه کے بیٹوں میں ایسا ہیرو تھا جس نے لشکرِ جرار کی قیادت کی، بڑے علاقوں پر حکومت کی، قدیم شہروں کو فتح کیا، اور سندھ اوربھارت کی سرزمین پر اسلام کو متعارف کرایا اور اسلام کا جھنڈار لہرایا۔ اس نے ظالم و جابر بادشاہوں کو نیست و نابود کیا اور بت پرستی اور شرکیہ اعمال کا قلع قمع کیا۔ ۔ اس نے یہ سب کارنامے اس وقت انجام دیئے تھے جب وہ ایک نوجوان لڑکا تھا، اسکی عمر بیس سال تک بھی نہیں پہنچی تھی۔ ہر مسلمان باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش اس ہیرو جیسے لوگوں کے راستے اور طریقے پر کرے، جو اُن نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بنیں جن کے ذہن دنیا کی وادیوں میں کھو چکے ہیں اور اب ان کے پاس کوئی رول ماڈل جیسا ہیرو نہیں ہے۔

محمد بن القاسم کون ہے؟

ان کا پورا نام محمد بن القاسم بن محمد بن الحکم بن ابی عقیل الثقفی ہے۔ آپ سنہ 72 ہجری میں عراق کی سرزمین میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد القاسم بن محمد ان لوگوں میں سے تھے جو ابن الزبیر رضی اللہ عنہ اور عبد الملک بن مروان کے درمیان جنگ کے دوران عراق کی سرزمین پر آئے تھے۔ وہ مشہور اور انتہائی متنازعہ گورنر حجاج بن یوسف الثقفی کے چچازاد بھائی تھے، محمد بن القاسم کے والد وہاں مقیم ہوگئے۔ حجاج بن یوسف اپنی بہت سی بداعمالیوں اور بڑی قباحتوں کے باوجود جہاد کا شوقین تھا اور لشکروں کو منظم کرنے اور اسلام کو پھیلانے میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ ہیروز کے انتخاب اور انہیں پرکھنے کی گہری نظر تھی اور جہاد کے معاملات میں اپنے وسیع تجربے کی وجہ سے ان کی نظر اپنے نوجوان کزن محمد بن القاسم پر پڑی۔ اس نے اسے قریب لانا شروع کیا اور اس کے عزم اور قابلیت کی حد کو جانچنے کے لیے اسے کچھ چھوٹے کام سونپنے لگے۔ وہ اپنے انتخاب میں اس وقت تک آگے نہیں بڑھا جب تک کہ چھوٹے لڑکے نے اعلیٰ عزم اور بے مثال قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ نہ کیا۔

بہادروں کا ماحول:

اموی ریاست کو پوری دنیا میں اسلام پھیلانے کی شدید فکر تھی۔ اس لیے اموی دور میں جہاد کا بازار گرم تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا ۔ اموی دور خلافت میں اسلام کا کلمہ کرہ ارض کے مشرق و مغرب، خشکی اور سمندر میں پھیل گیا۔ انہوں نے کفار اور ان کے متبعین کو اپنی حکمرانی میں داخل کیا۔ مشرک کے دل مسلمانوں کے رعب و دبدبے سے بھر گئے۔ مسلمان جس خطے میں گئے اس میں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا۔ ان کا جھنڈا ناہی ٹوٹتا اور ناہی جھکتا تھا، کسی بھی دشمن کی ان پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی،اورجس ملک کو انہوں نے فتح کیا تھا اسے ان کے ہاتھوں سے نکال لینا بہت مشکل کام تھا۔ اسی جہادی ماحول میں ہمارا نڈر ہیرو محمد بن القاسم پروان چڑھا۔

سندھ اور اسکی فتح کیلئے فوجوں کی تیاری

حجاج نے اپنے آپ کو مہینوں تک اس فوج کے سامان اور ضروریات کی عمومی نگرانی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس نے اس فوج کی سب سے معمولی ضرورتوں پر توجہ دی، جن میں دھاگے، روئی، سوئیاں اور سرکہ شامل ہیں، یہاں تک کہ بلاذری نے اپنی کتاب "فتوح البلدان” میں اس بارے تفصیل سے لکھاہے۔

اس نے چھ ہزار سپاہی اور دیگر لوگوں کے ایک گروہ جو شام کے فوجیوں میں سے اور ان کے علاوہ لوگوں کواس فوج میں ضم کیا، اس نے ان کی تمام ضروریات کی ہر چیز سے لیس کیا، یہاں تک کہ دھاگے اور پیسے بھی اور دوسری یومیہ ضرورت کی اشیاء۔ حجاج نے انہیں شیراز میں پڑاو ڈالنے کا حکم دیا جب تک کہ فوج کے بقیہ ساتھی ان سے آملیں۔ اور فوج میں کمی کو پورا کیا جاسکے۔ چنانچہ حجاج نے روئی کے ٹکڑے ٹکڑے کئے اور ان ٹکڑوں کو خالص سرخ سرکہ میں بھگو کر سایہ میں سکھادیا۔ پھر حجاج نے ان سے کہا كه اگر تم ملکِ سندھ پہنچ گئے تو جان لو کہ وہاں سرکہ کی کمی ہے، لہٰذا اس روئی کو پانی میں بھگوکر ضرورت کے وقت اسے پیاس بجھانے کیلئے چوسا کریں۔

محمد ابن القاسم الثقفی کا بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر شیراز میں جمع ہوگیا۔ انہوں نے فارس سے جنوب میں بحیرہ عرب کے ساتھ مکران کی طرف کوچ کیا۔ وہاں سے آج کراچی کے قریب سندھ (پاکستان) کا سب سے مشہور علاقہ دیبل کی طرف پہنچنے کے بعد، میڈ اور جاٹ قبائل کے مرد و زن، دو سندھی قبائل نے مسلم فوج میں شمولیت اختیار کرلی، جن میں سے بہت سے مرد اپنے ملک سے باہر ہجرت کر گئے کیونکہ وہ برہمن حکومت کے ناروا سلوک کا شکار تھے، جو ہندو ذات سے وابستہ تھی وہ ان لوگوں میں سے شمار کئے جاتے تھے جنہیں جانوروں پر سواری کرنے یا مہنگے کپڑے پہننے سے اور بہت سارے حقوق سے انہیں محروم رکھا جاتا تھا۔ ان کے لیے صرف ادنی ترین اور سب سے گھٹیا پیشہ اور دستکاری کی ممارست کی اجازت دی جاتی تھی۔ مسلمانوں نے ان لوگوں سے ان ملک کے راستوں اوردوسرے معلومات کی علم کے ساتھ ساتھ جنگوں اور لڑائیوں میں ان کی ہمت اور استقامت کی وجہ سے استفادہ کیا۔

مسلمان جنوبی سندھ (جنوبی پاکستان) کے شہر دیبل کے قریب پہنچے [جسے آج ہم شہر کراچی سے جانتے ہیں] ۔ محمد ابن القاسم نے شہر کا محاصرہ سخت کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد اس نے دلہن نامی منجنیق [جسے پانچ سو دیو ھیکل مضبوط فوجی کھینچا کرتے تھے] سے اس کی دیواروں اور مکانات کو تباہ کرنا شروع کردیا- جونہی مکینوں میں دہشت اور ان میں افراتفری پھیل گئی، تومسلمانوں نے فوراً شہر پر دھاوا بول دیا۔ اس شہر کا راجہ داہر، ذاتی طور پر فرار ہونے کوشش کرتاہے، اپنی تمام قوتوں کو ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کیلئے جمع کرتا ہے،اور محمد بن القاسم نے بھر کوشش کی کہ لوگوں کے بے جا خون بہانے اور ان کے مال کو ضائع کرنے سے بچایا سکے۔

اسکے بعد محمد بن القاسم نے شہر البیرون (موجودہ حیدرآباد سندھ) کی طرف کوچ کیا اور وہاں کے لوگوں نے ان سے صلح کر لی۔ وہ کسی شہر کو صلح و امن کے معاہدے یا بزور طاقت فتح کیے بغیر نہیں گزرا۔ یہاں تک کہ وہ دریائے مہران تک پہنچ گیا، اس نے دریا کو عبور کیا۔ دریا کے دوسرے کنارے پرراجہ داہراپنی تمام قوت کیساتھ ایک فیصلہ کن جنگ کرنے کیلئے محمد بن القاسم کا انتظار کررہا تھا۔ اس مہم میں حصہ لینے والے ایک مسلمان عینی شاہد نے بیان کیا: "داہر ستائیس ہاتھیوں کے ساتھ ایک بڑی بھیڑ کے ہمراہ ہم لوگوں پر حملہ آور ہوا۔” چنانچہ ہم دریا عبور کرکے ان کے پاس پہنچ گئے، اور خدا نے انہیں شکست دی، اور راجہ داہر بھاگ نکلا۔ مسلم افواج دریا عبور کرکے ان کے پاس پہنچ گئی اور مسلمانوں کے ایک فوجی ٹکڑی نے دشمن کا پیچھا کیا اور انہیں قتل کر دیا، پھر جب رات ہوئی تو راجہ داہر ایک بڑی ہجوم کے ساتھ حملہ آور ہوا، تو راجہ داہر اور اس کے اکثر ساتھی مارے گئے اور باقی بچی ہوئی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔

راجه داہر کے قتل نے محمد بن القاسم اور مسلم افواج کے لیے سندھ کی سرزمین پر حملہ کرنےاور آگے بڑھنے کا راستہ ہموار کر دیا۔ چنانچہ وہ شمال کی طرف روہر کے علاقے کی طرف روانہ ہوئے۔ جوبھی شہر یا گاوں راستے میں ملتے وہاں کے باشندے اپنے ہتھیار ڈال دیتے اور امن و امان کے طلبگار ہوتے تھے. یہاں تک کہ وہ شہرملتان پہنچے اور وہاں کے لوگوں نے ان کا سخت مقابلہ کیا۔ یہ سندھ کے سب سے اہم اور گنجان علاقوں میں سے ایک تھا، اور صوبہ پنجاب کے فوجی اڈوں میں سے ایک تھا۔ لیکن وہ لوگ سخت محاصرے کے بعد شکست سے دوچار ہوئے۔ مسلمانوں نے بہت بڑی مقدار میں سونا اپنے قبضے میں لے لیا جو سندھ کے دیوتاؤں اور ہندوؤں اور ان کے بتوں کو بطور قربان يا نذرانه چڑھایا جاتا تھا۔ جب یہ غنیمتیں حجاج کے پاس بھیجی گئیں اور اس نے محمد بن القاسم کی مہم کی بڑی کامیابی دیکھی تو فرمایا تھا: ہم نے اپنے غصہ کی آگ کو بجھالیا، اپنا انتقام راجہ داہر سے لے لیا، اور ساٹھ ہزار (ساٹھ ملین) درہم اورراجہ داہر کا سر تحفہ میں ملا۔”

شمال کی طرف مسلمانوں کی پیش قدمی اس وقت تک نہیں رکی جب تک کہ وہ برہمن آباد شہر تک نہ پہنچے۔ روہر کے زوال کے بعد، داہر کا ایک بیٹا، جسے جے سنگھ کہا جاتا تھا، اس کی طرف بھاگ گیا تھا۔ وہاں وہ مضبوطی کیساتھ قلعہ بند ہوگیا اور اس شہر کے راستوں اور راہداریوں کو بند کردیا۔ غازیوں نے شہر پر اچانک بہت قوت کیساتھ حملہ کردیا، اور راجہ داہر کے بیٹےکے پاس کشمیر کے بادشاہ سے پناہ لینے کے لیے شمال کی طرف بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ محمد ابن القاسم الثقفی اور اس کی فوجیں اس شہر میں ایک مدت تک مقیم رہیں جس کے دوران وہ مفتوحہ علاقوں کے امور کی تنظیم کرتے رہے۔ انہوں نے اس شہر کی انتظامی اداروں کو منظم کیا، وہاں کے ہندو پادریوں کے سربراہوں کو عزت بخشی، اور انہیں اس شرط پر عبادت کی آزادی دی کہ وہ مسلمانوں کے وفادار رہیں گے اور جو کچھ ٹیکس ان پر عائد کیا گیا تھا اسے اداء کرتے رہیں گے۔

محمد ابن القاسم کے نام کا ستارہ اسلامی دنیا کے لوگوں میں تیزی سے چمکنے لگا، خاص طور پر جب انہیں معلوم ہوا کہ اس نے ان دشوار گزار خطوں، بہت بڑی لشکروں، جنگلوں اور دیو ہیکل ہاتھیوں کی بڑی وسعتوں والی سرزمین کو ہزار رکاوٹوں کے باوجود فتح کر لیا ہے، جب کہ وہ ابھی سترہ سال کی عمر میں جوانی کے اوائل سالوں میں صرف مراہق ہے، اور اس وقت ان کے مداحوں نے ان کی تعریف کی، بشمول یزید بن الحکم کہ جنہوں ان کے بارے میں کہا تھا:

 

بہادری، عالی ظرفی وسخاوت وکرم محمد بن القاسم بن محمد کا شیوہ ہے۔

اس نے سترہ سال کی عمر میں لشکروں کی قیادت کی جبکہ یہ عمر بچپن کے بالکل قریب ہے۔

فتوحات کا دروازہ بند ہوگیا

کمانڈر محمد بن القاسم نے سندھ کے لوگوں کو عبادت کی آزادی، اچھے سلوک اور ان کے مال و جان کی حفاظت کا ان لوگوں کو جاننے اور انہیں اسلام سے قریب کرنے اور ان کے درمیان مسلمانوں کے مقام کو مستحکم کرنے پر سب سے زیادہ اثر ڈالا۔ محمد ابن القاسم نے سندھ کے علاقے (پاکستان اور ہند کے کچھ علاقوں) میں مسلمانوں کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے بعد، اس نے عراق میں اپنے رئیس [عراق كا گورنر] اور اپنے چچازاد بھائی حجاج سے فتوحات کوجاری رکھنے اور ہند کی شمالی امارات کی سب سے بڑی سلطنت قنوج میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی۔ سندھ کی سرحدوں سے لے کر بنگال کے علاقے (بنگلہ دیش) تک پھیلی ہوئی ایک وسیع امارت تھی، اور حجاج بن یوسف نے اس معاملے کو منظوری دے دی تھی اور اس اقدام کا خیر مقدم کیا تھا۔

اس کے بعد نوجوان رہنما محمد ابن القاسم نے اپنی فوج کو تیار کرنا شروع کیا جس کی تعداد دس ہزار جنگجو تھی۔لیکن اس سے پہلے اس نے بھارتی ریاست قنوج کے بادشاہ کو ایک وفد بھیجا جس کے ذریعے مطالبہ کیا کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لے یا جزیہ ادا کرے۔ جب محمد ابن القاسم اس عظیم کوشش کی تیاری کر رہے تھے۔ جب سنہ 95 ہجری میں محمد بن القاسم کو ان کے چچا زاد بھائی، معاون اور حامی حجاج بن یوسف الثقفی کی وفات کی خبر ملی۔ پھر اس مہم کی حمایت کرنے والے اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان کی موت اگلے سال سنہ 96 ہجری میں ہوئی۔ سلیمان بن عبدالملک بن مروان کے تخت پر بیٹھنے کے ساتھ ہی منظر بالکل بدل گیا۔

سلیمان بن عبدالملک بن مروان (96-99ھ) حجاج بن یوسف اور اس کے خاندان سے شدید نفرت کرتا تھا۔ کیونکہ اس نے ولید بن عبدالملک کی حمایت کی تھی جب اس نے سلیمان کے بجائے اپنے بیٹے کو ولی عہد مقرر کرنے کی کوشش کی تھی، حالانکہ حجاج سلیمان کے تخت پر بیٹھنے سے ایک سال پہلے هي فوت ہو گیا تھا۔ لیکن اس امر نے سلیمان بن عبد الملک کو حجاج سے متعلق ہر ایک شخص پر اپنا غصہ نازل کرنے سے نہیں روسکا، جس میں نوجوان فاتح محمد بن القاسم الثقفی بھی شامل تھا، جو ملک سندھ کے علاقوں میں تیزی سے آگے بڑھتا جارہا تھا۔ وہ ہند میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا تھا جب وہ ابھی انیس سال کا تھا۔ سلیمان بن عبدالملک نے محمد بن القاسم کو فتوحات روکنے کا آرڈر کیا۔ اور یہاں تک کہ اس نے محمد بن القاسم کو اموی ریاست کے دار الحکومت دمشق آنے کا آرڈر کیا۔ دریں اثنا، صالح بن عبدالرحمن کو سلیمان ابن عبد الملک نے عراق اور مشرقی علاقوں کا گورنر بنا دیا، جو حجاج بن یوسف کے سخت ترین دشمنوں میں سے ایک تھا۔ حجاج نے صالح کے بھائی کو قتل کر دیا تھا [یہ بات مشہور ہے کہ صالح کا بھائی خوارج میں سے تھا] ۔

عراق کے نئے گورنر صالح بن عبدالرحمن کی قیادت میں حجاج بن یوسف کے دشمنوں کی آمد کے ساتھ، فیصلہ محض محمد بن القاسم الثقفی کو ملک سندھ سے نکالنے اور فتح اور توسیع کے عمل کو روکنے کا نہیں تھا۔ بلکہ بدلہ و انتقام لینا بھی تھا، بالخصوص چونکہ حجاج بن یوسف الثقفی نے اپنے بعد تمام سماجی طبقوں کے دشمنوں کے درمیان دشمنی کی ایک بھاری میراث چھوڑی تھی، ان میں نئے خلیفہ سلیمان بن عبد الملک، نئے گورنرصالح بن عبد الرحمن، پھر المحلب بن ابی صفرہ کا خاندان، یہ سارے لوگ حجاج اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ انتقامی کارروائیاں کرنا چاہتے تھے۔ پھرمحمد ابن القاسم نے محسوس کیا کہ اب آخری وقت بہت قریب ہوگیاہے۔

ایک عظیم ہیرو کا افسوسناک انجام!

سندھ کے فاتح محمد بن القاسم کی دستبرداری اپنے لیے بهت هي ذلت آمیز تھی۔ وہ امویوں اور مسلمانوں کے دار الحکومت دمشق جانے کے بجائے، عوام کو خوشخبری، جشن اور استقبال کے ساتھ ان کا استقبال کرنے کے بجائے، اس کے مخالفین نے فیصلہ کیا کہ اسے مجرموں کی طرح زنجیروں میں جکڑ کر پیش کیا جائے۔ پھر خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے اسے عراق میں محمد بن القاسم کے سب سے بڑے دشمن صالح بن عبدالرحمن کے حوالے کر دیا جس نے انہیں واسط جیل میں قید کر دیا۔ محمد ابن القاسم کو سخت ترین اذیتیں اور ذلت و رسوائی کا نشانہ بنایا گیا اور اس نے محسوس کیا کہ اس کا انجام قریب ہوگیا ہے، تو اس لیے اس نے اپنے لئے مندرجہ ذیل مرثیہ کہا:

 

پس اگر میں واسط اور اس کی سرزمین میں پناہ لیتا ہوں۔ لوہے کی بیڑیوں میں باندھے و جکڑے ہوئے

کیونکہ بہت سارے گھڑسواروں کے نیزے میں نے برباد کردیا اور بہت سارے بہادروں کو میدان میں قتل کرکے چھوڑا ہے

 

مؤرخ ڈاکٹر عبداللہ محمد جمال الدین، دارالعلوم، قاہرہ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر، محمد بن القاسم الثقفی کے اس المناک انجام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

حیرت ہوتی ہے کہ اس نوجوان کی زندگی اتنے تلخ انداز میں کیسے ختم ہوتی ہے۔ وہ وہی شخص تھا جس نے پورے سندھ کو فتح کیا اور پورے تین سال کی ریکارڈ مدت میں اسلام کو سندھ میں پھیلایا؟ محمد بن القاسم کو ایسے دردناک انجام کا سامنا اور یہ ذلت آمیز سزا کیسے ملی؟ سکندر اعظم کی عظمت اور شہرت اس کے عسکری اور سیاسی اقدامات سے ماند پڑ گئی۔ كيونكه سکندر ایک ہزار سال قبل ہند کے ایک چھوٹے سے حصے پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا،جبکہ محمد ابن القاسم کے وقت ہند کی آبادی ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ یہ لڑکا بغیر کسی مشکل کے ان علاقوں کو زیر کرنے اور دولت اسلامیہ سے الحاق کرنے میں کامیاب رہا۔ ایک انگریز مورخ نے کہا: اگرمحمد ابن القاسم اپنی فتوحات کو چین تک جاری رکھنا چاہتا تو اسے کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوتی، اور کوئی بھی حملہ آور اس کی فتوحات سے غزنویوں کے دور تک آگے نہ بڑھ سکا۔ "وہ ہر دور کے عظیم آدمیوں میں سے ایک تھے۔”

آج کل کچھ عسکری حکمت عملی بنانے والے محمد ابن القاسم کی فتوحات کے سامنے حیرانی و پریشانی میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کی اس بڑی شاندار کامیابیوں پر ہکابکا و ششدر ہوگئے ہیں جنہیں محمد بن القاسم نے صرف تین سال کے کم عرصہ حاصل کئے تھے۔ ان لوگوں میں سے عراقی میجر جنرل محمود شیت خطاب بھی ہیں جنہوں نے انکے فتوحات کے بارے میں کہا: محمد بن القاسم کے فتح کردہ علاقوں میں گھومنے و سیر سیاحت کرنے والو کو ان دنوں جب یہ وسیع فاصلہ ہوائی جہازوں سمیت تیز رفتار ذرائع آمدورفت سے طے کرنا ہوتا ہے تویہ ضرور خیال کرتے ہوں گے کہ محمد بن القاسم کو نقل و حرکت میں بهت بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ کیونکہ فاصلوں کی لمبائی اور چوڑائی کی وجہ سے یہ بات تقریباً ناقابل یقین ہے کہ مسلمان عربوں نے پیدل، یا اونٹوں، گھوڑوں اور جانوروں پر سوار ہو کر یہ فاصلہ طے کیا، یہ وہ امور ہیں جو ان کی تعریف ، ہمت و شجاعت اور دلیری میں اضافہ کرتا ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ محمد بن القاسم کا اثر اپنے حق میں معارک کو حل کرنے کی رفتار ان کی فوجی کوششوں پر منحصر نہیں تھا،اس کی کم عمری ان واقعات کے سامنے حیران کن ہے جو انہوں نے جوانی کی ذہانت ،چستی ، بزرگوں اور تجربہ کار لوگوں کی حکمت اور عقل سليم کے ساتھ نبھائے۔ بلکہ سندھ کے لوگوں کے ساتھ اخلاق اور سلوک کے میدان میں بھی ان کا اثر واضح تھا۔ جب اس نے ہندو ذاتی واد اور طبقاتی نظام کو ختم کیا جس نے لوگوں کو آقاؤں اور غلاموں میں تقسیم کر رکھا تھا، جب اس نے ملک کے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور مہربانی کا برتاؤ کیا، ان کے معاملات کو برابری كا حصہ دیا، اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میل ملاپ کیا۔ پھر، سب سے بڑا کام، اس نے اپنے نمائندوں کے طور پر تمام انتظامی امور ملک کے مقامی لوگوں،بھارتیوں اور پنجابیوں کو سونپ دیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں اس کی فوجی کارروائیوں میں آسانی پیدا ہوئی۔ ملک کے لوگوں میں ان کی اچھی شہرت تھی لوگوں کے دلوں میں اس کی گہری محبت تھی، جس کی شخصیت میں لوگوں نےاس ایک نوجوان فوجی اور ذہین آدمی دیکھا تھا جس نے ان کے حالات، طبیعت اور کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بیس سال کی عمر سے پیشتر اپنی عظیم کوشش کی بدولت سندھ سے روانگی سے قبل اس پورے خطے میں اسلام پھیلادیا۔

محمد ابن القاسم نے اس خطے کو چھوڑا تو اس وقت ہند کے چند علاقوں ، سندھ اور اسکے تمام سرزمین پر اسلام کا قبضہ ہوچکاتھا۔مبلغین نے تیزی سے پیغام پھیلانے اور مساجد قائم کرنے کا کام کیا، اور مالک بن دینار جیسے آدمی سندھ اور جنوبی ہند کے لوگوں میں مشہور ہوئے۔ چنانچہ فصل جو بویا گیا تھا اس کا پھل آیا اور لوگ گروہ در گروہ خدا کے دین میں داخل ہونے لگے ۔ محمد بن القاسم الثقفی کے بعد اور آنے والی صدیوں تک کسی نے بھی ہند کو نہیں چھیڑا یا فتح کرنے کی کوشش کی سوائے افغانستانیوں اور غزنیوں کے، جب ایک اور ترک فاتح ہند پر چڑھ دوڑا جس کے گھوڑے ہند کے دار الحکومت دہلی کے قلب میں پہنچے اس کی کہانی بھی بہت لمبی ہے۔

آج بھی سندھ کے بعض علاقوں میں بعض قبائلی ہندو باشندے محمد بن القاسم ثقفی کی مورتی کی پوجا کرتے ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والا انسان نہیں بلکہ دیوتا ہے۔

بالجملہ محمد بن القاسم کی برابری اور مساوات کی پالیسی کی وجہ سے ملک سندھ کا کایا پلٹ گیا اور اسے ترقی کے عروج پر پہنچادیا۔

Comments are closed.