مدارس نظاميه {ایک تعلیمی انقلاب}

 

مولانا محمد انعام الحق قاسمی

لجنہ علمیہ ، ریاض،

مملکت سعودی عرب

مدارسِ نظامیہ جنہیں نظام الملک}حسن بن علی بن اسحاق الطوسی{ نے قائم کیا تھا اُن ماڈلز میں شامل ہیں جنہوں نے ہماری تاریخ میں نشاۃ ثانیہ کو جنم دیا، مدارسِ نظامیہ کے قیام کی تاریخ، اس کے اہم ترین مقاصد اور ان کی کامیابی کے عوامل کیا ہیں؟ ذیل میں ان کی تفاصیل درج کی جارہی ہیں:

قوموں کے تجربات اور تاریخ کی تحریکوں نے اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے کہ قوموں کی ترقی اور دوسرے اقوام پر ان کی برتری صرف تعلیم کے فروغ کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو اس اصول کی تصدیق کرتی ہیں۔ ان ماڈلز میں سب سے مشہور تعلیمی نشاۃ ثانیہ وه ہے جس کا مشاہدہ امت اسلاميه نے صلیبی جنگوں کے دوران مدارس نظاميه کے ذریعے کیا ہے۔

مدارس نظامیہ کا قیام

اسلامی تاریخ کے مطابق مساجد میں علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ پھر جب مساجد طلبہ سے کھچا کھچ بھرتی گئیں تو وہ کچھ نجی گھروں میں منتقل ہوگئے جنہیں دارالعلوم کہا جاتا تھا، یہاں تک کہ سلجوقیوں کے وزیر نظام الملک برسر اقتدار آئے۔ انہوں نے بغداد میں پانچویں صدی ہجری سنہ 459 ہجری میں مدرسہ نظامیہ قائم کیا، جو ریاست کی زیر نگرانی میں چلتاتھا۔

اس کے بعد مدارسِ نظامیہ – جونظام الملک کے نام سے منسوب ہیں – اسلامی ریاست کے تمام شہروں میں پھیل گئے، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر نظام الملک اسلامی تاریخ کے پہلے (وزیر تعلیم) تھے۔

مدرسہ نظامیہ کے قیام کے بارے میں اصل سوچ سلطان الپ ارسلان کے 455 ہجری میں سلجوقی تخت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد شروع ہوئی۔ اُس نیک سیرت سلطان کو ایک قابل آدمی اور پرجوش سنی، حسن بن علی بن اسحاق الطوسی، (جو نظام الملک کے لقب سے مشہور ہیں اور اسی نام سے زیادہ پکارے جاتے ہیں) ، نے اس معاملہ میں زبردست مدد اور قوت بہم پہنچائی۔ یہ قابل وزیر اعظم غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ معاشرتی ترقی اور استحکام کے حصول کے لیے معاشرے کے اندر ایک فکری نشاۃ ثانیہ کے ساتھ ساتھ سیاسی نشاۃ ثانیہ کا ہونا ضروری اور لابدی ہے اوریہ کہ اسے بذات خود قوم کو کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل السنت و الجماعہ کا عقیدہ جو وحی الٰہی سے ماخوذ ہے، سے آگاہ کرنے کے لیے بہت جد و جہد کرنا چاہیے۔

اس لئے مدارسِ نظامیہ کے قیام کی سوچ اور غور وفکر ان کی طرف منسوب کردیا گیا۔کیونکہ انہوں نے انہیں قائم کرنے کے لیے سخت محنت کی، ان کی منصوبہ بندی کی، ان کو وسیع و عریض اوقاف کے اموال سے نوازا، اور ان کے لیے قابل ترین اساتذہ و پروفیسروں کا انتخاب کیا۔

مدارس نظامیہ کے تعلیمی مقاصد

1- مختلف شرعی فرائض و احکام کی بہترین تشریح اور انکی افہام و تفہیم ؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس وقت تک شریعت کی خصوصیات اور معالم واضح نہیں ہو سکتی ہیں، جب تک کہ دین کے احکام کو صحیح اسلامی تعلیم کے ذریعے سیکھا / سیکھایانہیں جاتا، اور صحیح تعلیم ہی بہترین ذریعہ اور راستہ ہے جسکے ذریعے شارع سبحانہ و تعالی کے مراد اور منشا تک پہنچا جا سکتاہے۔

2- ایک اور مقصد پہلے والے ہدف کے بعد آتا ہے، جو کہ خود ایک اچھا انسان تیار کرنا ہے جو دوسروں کے لیے اچھا انسان اور رول ماڈل ثابت ہو۔ اس لیے اس مقصد کو اسلامی تعلیم کے نقطہ نظر سے اہم سمجھا جاتا تھا۔ اسلامی تعلیم فرد کو اس بات کے لیے تیار کرتی ہے کہ وہ امر بالمعروف کا حق ادا کرے، اس کیلئےمعاون و مددگات ثابت ہو اور برائیوں سے روکے، اس حکم یا ممانعت کی تعمیل کے بعد وہ بذات خود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ڈٹا رہے اوراس پر ثابت قدم رہے۔

3- ایک تعلیمی ماحول فراہم کرنا ، مدارس ِنظاميه کا مقصد ایک ایسا علمی و سائنسی ماحول فراہم کرنا ہے جو معلمین اور اساتذہ کو سوچنے، لکھنے اور اختراع کرنے میں مدد کرتا ہو، تاکہ وہ مختلف علوم میں ہر نئی چیز کو مستقل بنیادوں پر شامل کرتے رہیں۔

4- طلباء کے فکری افق کو وسعت دینے کے لیے کام کرنا، مدرسه خود کو ترقی پذیر تجربات تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ طالب علم کو سابقہ اور عصری اقوام کے تجربات کے نتیجے میں نئے نئے تجربات فراہم کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ اسی کو اسلامی تعلیم کے اسکالرز "نقل تراث” کہتے ہیں۔ یہ طلباء کو ملک کے ثقافتی اور فکری ورثے کے بارے میں آگاہ کر کے کیا جاتا ہے۔ جو ان تجربات کے سامنے آنے کے نتیجے میں اپنے افق کو وسعت دینے کا باعث بنتا ہے۔

5- تکنیکی عملے کی تیاری، مدرسہ کا مقصد، طلباء کے لیے اپنی تعلیم کے ذریعے، مختلف ملازمتوں پر عمل کرنے کے لیے قابل تکنیکی عملے کو تیار کرنا ہے، چاہے وہ سرکاری محکموں میں ہوں یا کسی اور جگہ، خاص طور پر چونکہ ملازمتیں زیادہ متنوع، کثیر اور وسیع ہوگئی ہیں، اس لیے مدرسہ نے ایسے افراد کو فارغ التحصیل کیا ہے جو ان ملازمتوں میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے کام کریں گے۔

6- سنی فکر کو پھیلانا، شیعہ فکر کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا، اور اس کے اثر کو کم کرنے کے لیے کام کرنا۔

7- سنی عقیدہ کی تعلیم دینے اور اسے مختلف خطوں میں پھیلانے کیلئے قابل سنی اساتذہ کے بہت بڑا گروپ پیدا کرنا.

مدارس نظامیہ کی کامیابی کے عوامل

نظام الملک نے مدارس نظامیہ کے اہداف کے حصول کے لیے کے تجربے کی کامیابی کے لیے جان توڑ کوشش کی اور ان مدارس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اس نے مندرجہ ذیل اہم محوروں پر مبنی ایک منصوبہ تیارکیا:

پہلا محور: مقامات کا انتخاب

نظام الملک نے اپنے مدارس کے مقامات کا انتخاب بڑی احتیاط سے کیا، تاکہ وہ دارالحکومتوں اور بھاری گنجان آبادی والے شہروں میں ہوں۔ کیونکہ یہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ السبکی نظام الملک کے بارے میں کہتے ہیں: "انہوں نے بغداد میں ایک مدرسہ، بلخ میں ایک مدرسہ، نیسا پور میں ایک مدرسہ، ہرات میں ایک مدرسہ، اصفہان میں ایک مدرسہ، بصرہ میں ایک مدرسہ، مرو میں ایک مدرسہ، آمل طبرستان میں ایک مدرسہ اور موصل میں ایک مدرسہ قائم کیا۔

یہ وہ امہات المدارس النظامیہ ہیں جو مشرق اسلامی میں قائم کیے گئے تھے اور ان کی جغرافیائی تقسیم سے یہ بات واضح ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ان شہروں میں قائم ہوئے جو فکری مرکزی قیادت اور فکری توجیہ کے گڑھ مانے جاتے تھے۔

دوسرا محور: اساتذہ اور معلمین کے انتخاب میں دقت نظر اور احتیاط

مدارس نظامیہ کے اساتذہ کا انتخاب بڑی احتیاط سے کیا جاتا تھا، تاکہ وہ علوم شرعیہ میں اپنے زمانے کے مانے ہوئے اور ماہر شخصیت ہوں۔ عماد الاصفہانی اس سلسلے میں نظام الملک کی دقت نظری اور احتیاط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے بارے میں فرماتے ہیں: "ان کا گھر نیک لوگوں کا ٹھکانہ اور علماء کی پناہ گاہ تھا، اور وہ ان میں سے ہر ایک کے حالات کا کھوج لگانے وا لے اور صاحب بصیرت تھے۔ جس کسی میں گورنری [ولایت] کی صلاحیت پاتے اسے گورنر مقرر کر دیتے تھے ۔ جس کسی کے علم سے فائدہ پہنچنے کی صلاحیت ہوتی تھی اسے بے نیاز کر دیتے تھے ۔ اس کی کفایت کے مطابق اسکی تنخواہ مقرر کر دیتے تاکہ وہ دنیا سے منقطع ہوکر اپنے علم سے لوگوں كو فائدہ پہنچائے ، اسے پھیلائے اور اسکی تعلیم دے۔ بہت سے حالات میں ایسے لوگوں كو ایسے علاقے میں بھیج دیتے تھے جہاں کے لوگ اسکے علم سے سیراب ہوں، وہاں حق کی بات کو زندہ کرے اور باطل عقائد کی بیخ کنی کرے۔”

بہت سے معاملات میں، نظام الملک ان میں سے کسی کو اس وقت تک مقرر نہیں کرتے تھےجب تک کہ وہ اس کی بات نہ سن لیتے اور اس کی اہلیت پر اعتماد نہ کر لیتے۔ یہ واقعہ امام غزالی کے ساتھ پیش آیا تھا جو نیشاپور کے نظامیہ میں امام الحرمین الجويني سے فقہ کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ جب 478ھ میں ان کے استاد کا انتقال ہوا تو وہ نظام الملک کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ ان كي مجلس اس وقت علماء کا مجمع اور ان کی پناہ گاہ تھی، ان کی مجلس میں ائمہ کرام سے مناظرہ کیا اور انہوں نے اپنے مخالفین کو شکست دیدی، ان پر غالب آگئے، اسکے بعد لوگوں نے ان کی فضیلت کا اعتراف کیا اور نظام الملک نے ان کے ساتھ تعظیم و تکریم کا معاملہ کیا اور انہیں بغداد کے نظامیہ مدرسہ میں پڑھانے کے لیے استاد مقرر کردیا۔

نظام الملک نے ابوبکر محمد بن ثابت الخجندی (متوفی 496ھ) کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا، جن کو نظام الملک نے شہر مرو میں وعظ و تبلیغ کرتے ہوئے سنا، وہ ان سے بہت متاثر ہوئے اور فقہ اوردوسرے علوم میں ان کا مقام معلوم ہوا، اس لیے ان کو اصفہان لے گئے۔ اور انہیں اپنے مدرسہ نظامیہ میں استاد مقرر کردیا۔ الشریف العلوی الدبوسی (متوفی 483ھ) کو بھی طلب کیا اور ان کو بغداد کے مدرسہ نظامیہ میں تدریس و تعلیم کے خدمات انجام دینے کیلئے مقرر کردیا۔ کیونکہ وہ فقہ اور حجت میں مہارت رکھتے تھے۔

نظام الملک نے ان علماء کو اپنی نگہداشت اور نگرانی میں رکھتے تھے اور انہیں اپنی طرف سے مدد فراہم کرتے تھے ۔ جب تک وہ ملک کے اس خطے میں اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں ہوجاتے جہاں وہ آباد ہوتے تھے۔ ان میں سے کچھ سلطان کے دربار میں نمایاں منصب پر فائز ہوئے، جیسے ابو اسحاق الشیرازی، جنہیں خلیفہ المقتدی نے سنہ 475 ہجری میں عراق کے [قوام امر-جنرل] عمید ابو الفتح بن ابی اللیث سے اپنی شکایت سلطان ملک شاہ اور اس کے وزیر نظام الملک تک پہنچانے کے لیے منتخب کیا تھا۔ ان دونوں نے ان کے ساتھ عزت و اکرام کا معاملہ کیا اور ان کی ہر بات کا جواب مرحمت فرمایا۔ ان کے اور امام الحرمین الجوینی جو نیشاپور کے مدرسہ نظامیہ کے استاد، کے درمیان نظام الملک کی موجودگی میں ایک طویل بحث و مباحثہ ہوا۔ جب ابو اسحاق بغداد واپس آئے تو جنرل [قوام امر] کو نہایت ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور خلیفہ سے متعلق ہر چیز سے ان کو دست بردار ہونا پڑا۔

تیسرا محور: مطالعہ کے طریقہ کار کا تعین

نظام الملک اپنے مدارس کے لیے قابل اساتذہ و معلمین کا انتخاب کرنے کے ساتھ ساتھ، اس نے تعلیم و تدریس کے مناہج مقرر کئے جو ان مدارس میں معمول بہ ہوں گے ۔ ان مدارس میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا فقہ، اصول فقہ، عقائد اور ان کی سوانح عمری کا ان مدارس پر گہرا چھاپ تھا، جیساکہ ان میں احادیث نبوی، گرامر اور لسانیات اور ادب بھی پڑھایا جا تا تھا۔

چوتھا محور: مالی امدادات کی فراہمی

نظام الملک نے ان مدارس کیلئے مالی امدادات فراہم کرنے میں کوئی کوتاہی یا بخل سے کا نہیں لیا جس سے ان مدارس کو اپنے مشن کو مکمل طور پر انجام دینے میں مدد ملے۔ لہذا، ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ان پر فراخدلی سے خرچ کرتے تھے ، اور ان کے لیے اوقاف کے وسیع اموال مختص تھا۔ ابن الجوزی نے ذکر کیا ہے کہ نظام الملک نے بغداد کے مدرسہ نظامیہ کیلئے بہت ساری زمینیں اور جائیدادیں اور اس کے دروازے پر ایک بہت بڑے بازار وقف کردیا تھا۔ نظام الملک نے ہر استاد اور ملازم کیلئے اوقاف میں سے کچھ حصہ مقرر کردیا تھا۔ اس نے متفقه (طلبہ) کو ان میں سے ہر ایک کے لیے روزانہ چار درهم کھانے پینے کیلئے فراہم کیا تھا۔ جہاں تک اصفہان کے مدرسہ نظامیہ کا تعلق ہے، اس کے اخراجات اور اس کے اوقاف کی قیمت کا تخمینہ دس ہزار دینار لگایا گیا تھا، جب کہ نیشاپور کے مدرسہ نظامیہ کے پاس بہت زیادہ اوقاف تھے۔

نظام الملک نے ان مدارس میں طلباء کے لیے رہائش کا بہت عمدہ انتظام کیا تھا۔ بعض تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر طالب علم کا اپنا کمرہ ہوتا تھا۔ روایات کے مطابق اس مدرسہ کے ایک طالب علم جن کا نام یعقوب الخطاط تھا، سنہ 547 ہجری میں ان کا انتقال ہو گیا اورمدرسہ نظامیہ میں ان کا ایک خاص کمرہ تھا۔ چنانچہ متولی ترکات نے آکر مدرسہ میں متوفی کے کمرے کو سیل کردیا۔ اسی طرح نظام الملک اپنے مدارس کے طلباء کے لیے ایک باوقار زندگی گزارنے کا خواہاں رہتا تھا۔ ان مدارس میں وہ ایک علمی ماحول پیدا کرنے کا بھی خواہشمند رہتا تھا جس سے انہیں مطالعہ اور تحقیق میں مدد ملے۔ انہوں نے ان مدارس کے اندر علمی حوالے و مراجع فراہم کرنے پر بہت توجہ دی۔ مدرسہ میں ایک مکمل لائبریری ہوتی تھی، جس کے امور كي مکمل نگرانی ایک نگران (لائبريرين )کرتا تھا۔ ابن الجوزی نے بیان کیا ہے کہ بغداد کے نظامیہ وقف کے انتظامیہ نے یہ شرط رکھی تھی کہ اس لائبریری کی کتابوں کا انچارج بھی شافعی ہونا چاہیے۔

Comments are closed.