بچت برائے سرمایہ کاری

مفتی شہباز عالم ندوی
جب بچت او رسرمایہ کاری کی بات آتی ہے تو اوّل یہ کہ ھندوستانی مسلمانوں میں بچت کا رجحان عمومی طور پر کم ہی دیکھنے میں آتا ہے، کیوں کہ بچت اور سرمایہ کاری اور پھر اس سرمایہ کاری کے ذریعے ایک روپیہ سے دو روپیہ کیسے کمائیں ، بدقسمتی سے اس طرف ہمارا ذہن نہیں جاتا، اور اگرکوئی بچت کرتا بھی ہے تووہ بینک ڈپازٹ یاایف ڈی سے آگے نہیں بڑھ پاتا یا بہت سے بہت ہماری سوچ ماہانہ کمیٹی تک جا پاتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے ایجوکیشن میں بھی نیچے سے لے کر اوپرکے کلاسوں تک،یعنی ثانوی سے لے کر اعلیٰ ثانوی کلاسز تک ’پرسنل فائنانس‘ بچت، سرمایہ کاری، انویسٹمنٹ، مالیاتی مسائل، معاشیات، اسلامی بینکنگ وغیرہ کا بنیادی علم دیا ہی نہیں جاتا۔
جبکہ آج کے دور میں پیسے انویسٹ کرنا مارکٹ میں اپنا پیسہ لگانا مستقبل کے لئے فائنانشیل بیک اپ تیار کرنا بہت ضروری ہوگیاہے۔ خاص طور پر ہم مسلمانوں کے لئے جن کے درمیان سیونگ ریشیو بہت ہی کم ہے بلکہ نہ کے برابر ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ پیسے سیو کریں کیسے؟
یاد رکھیں کہ پیسےکو سیو اور محفوظ تو کریں ہی ساتھ ساتھ پیسے بچانے اور سیو کرنے کی سب سے اچھی صورت کو اپنائیں وہ یہ ہے کہ پیسے کو بینک یا کہیں بھی جمع کرکے احتکار یا ادخار کرکے نہ رکھیں بلکہ آپ اپنے پیسے کو مارکیٹ میں لگائیں، کاروبار کریں، کوئی بزنس کریں یا سرمایہ کاری کریں یعنی مارکٹ میں پیسے کو کسی نہ کسی صورت میں سرکولیٹ کریں ، لگائیں کیونکہ کنوینشنل بینک میں ایف ڈی کی صورت میں ایک تو یہ کہ جمع کیا ہوا پیسہ زیادہ بڑھے گا نہیں، اگر بڑھے گا بھی تو ہمارے لیے اس کا فائیدہ(سود)استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا ، س اکاؤنٹ سے صرف اپنی اصل رقم ہی وصول کرسکتے ہیں،کیونکہ وہ سود ہوگا جو ہمارے لیے حرام ہے ۔ اور اگر پیسہ یوں ہی جمع کرکے رکھیں گے تو نہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا بلکہ احتکار اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہم گنہگار ہوں بھی گے۔مزید یہ کہ پیسے میں گراوٹ(افراط زر) کی جو شرح ہے یعنی انفلیشن ریٹ وہ چھ پرسنٹ ہے
جبکہ مارکیٹ میں پیسہ لگائیں گے تو پیسہ بڑھے گا بھی، انفلیشن سے بھی بچ جائیں گے اور پیسہ مارکیٹ میں سرکولیٹ ہونے کی صورت میں دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے نیز یہ کہ پیسہ مارکیٹ یا حلال کاروبار میں لگانے سے جو ہمیں پرافٹ (فائیدہ) ملے گا وہ جائز ہوگا، حلال ہوگا۔
کیوں کہ مال کو جمع کرکے رکھنااوراسے کاروبار میں نہ لگانا گرچہ اس کو دولت کے ضیاع میں شامل نہیں کیا جاتا البتہ یہ دولت کو ناکارہ بنانے میں ضرور شامل ہو گا، اس لئے کہ دولت کو کاروبار میں لگانے سے جو فوائد صاحب دولت کو حاصل ہونے تھے یا دوسروں کو وہ بھی حاصل نہ ہو سکے، اس لیے سرمایہ کاری سے عمومی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور پیسے کو روک کر رکھنے سے معاشرہ ان فوائد سے محروم ہو جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ فرض زکاۃ کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کی بنا پر کم ہوتا جاتا ہے۔
اسی لیے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "جو شخص بھی اپنے کسی یتیم کا سرپرست بنے اور یتیم کی ملکیت میں کچھ سرمایہ بھی ہو تو اس کے ساتھ تجارت کرےاس سرمائے کو ایسے ہی نہ چھوڑے کہ زکاۃ کھا جائے "اسے دارقطنی نے (2/ 109 ) اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے ۔(11301) اور ابن العربی نے اسے "عارضة الأحوذي” میں صحیح کہا ہے (2/ 99))
اسی طرح امام بیہقی حکم بن ابو العاص سے بیان کرتے ہیں کہ مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا تمہاری تجارت کرنے میں کوئی دلچسپی ہے؟ اس لیے کہ میرے پاس ایک یتیم کا مال ہے اور زکاۃ اس کو ختم کر تی جا رہی ہے تو میں نے انہیں کہا ہاں مجھے دلچسپی ہے، تو اس پر انہوں نے مجھے دس ہزار اشرفیاں دیں، اور میں انہیں لے کر چلا گیا اور اللہ نے جتنی توفیق دی میں ان کی تجارت کرتا رہا، پھر عرصہ بعد میں واپس پہنچا اور عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو مجھ سے پوچھا "پیسوں کا کیا بنا؟” تو میں نے کہا وہ تو ایک لاکھ اشرفیاں ہو گئیں ہیں۔(11303)
امام بیہقی ہی نے ذکر کیا ہے کہ قاسم بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے سرمائے کی زکاۃ ادا کرتی تھیں اور اس سرمائے سے بحرین میں تجارت بھی کی جاتی تھی۔(11304)
اس بنا پر جس شخص کے پاس سرمایہ ہے، تو وہ اس دولت کو کاروبار میں لگائے، اور اس کے اضافے کے لیے محنت کرے، دولت کو ایسے ہی نہ رکھے کہ اسے زکاۃ اور اخراجات ختم کر دیں، ویسے بھی پڑی ہوئی دولت پر ضائع ہو جانے یا چوری ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ لہذا اس کے لیے ہمیں شروع سے ہی پلاننگ اور منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں پیسے کیسے سیو کرنا ہے، کیسے بچانا ہے اور کیسے اور کہاں خرچ کرنا ہے۔
وارن بفٹ دنیا کےبہت ہی مایہ ناز سرمایہ کار ہیں۔
وارن بفٹ کا بچت کے حوالے سے ایک بنیادی اصول ہے”دنیا کے بیشتر لوگ سارے اخراجات کرنے کے بعد بچ جانے والی رقم کو بچت سمجھتے ہیں، یہ تصور درست نہیں۔ وارن بفٹ کا مشورہ ہے کہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہی یہ فیصلہ کرلیں کہ آپ اپنی آمدن کا ایک مخصوص حصہ بچتوں میں ڈالیں گے، آپ کے ہاتھ میں جوں ہی رقم آئے آپ سب سے پہلے اس میں سے بچت کے لیے متعین کردہ مخصوص حصہ الگ کرلیں اور اس کے بعد خرچ کریں”۔
اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم مستقبل کی کسی ضرورت، حادثات، تعلیم، کاروبار یا اور بھی دیگر ضروریات کے لئے شروع سے ہی پیسے سیو کرنے کی عادت ڈالیں پیسے کو مارکیٹ میں لگائیں یا کاروبار کریں، کیوں کہ عام طور پر لوگ مستقبل میں بچوں کی اعلیٰ تعلیم، شادیوں اور ریٹائرڈ زندگی گزارنے کےلیے بچت کے ذریعے طویل المیعاد بنیادوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ پیسے سیو کرنے کی صورت کیا ہوگی ہم کیسے اپنے کمائے ہوئے پیسے کو بچا سکتے ہیں اور کیسے اس پیسے سے پرافٹ جنریٹ کرسکتے ہیں،
تو اس کاسادہ سا جواب یہ ہے کہ سرمایہ کاری سے مراد ہمارا سرمایہ ہمارے لئے ذریعہ آمدن بن جائے اور مستقبل میں سرمایہ پر افزائش (بڑھوتری )حاصل ہو جائے اس سے ہیمں دو فائدے حاصل ہوتے ہیں ایک تو اس سےہمارا دولت بڑھے گا یعنی ہمارے دولت میں اضافہ ہوکااور دوسرا اس سے ہمارا دولت کامحفوظ بھی رہے گا۔
پھرسوال یہ ہے کہ کہاں سرمایہ کاری کریں؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمیں کسی کاروبار کے بارے میں پتہ ہے اورتجربہ ہے توہم اس پیسے سے کوئی تجارت یاکاروبار کریں۔
دوسری صورت پیسے سے پیسے کمانے اور پیسے بچانے کی یہ ہے کہ ہم پیسے کو مارکیٹ میں سرکولیٹ کردیں یعنی پیسے کو مارکٹ میں لگادیں ، اس کی صورت یہ ہوگی کہ یا تو رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کریں یا حلال شیئرز خرید کر پیسے اسٹاک مارکیٹ میں پیسے لگادیں یا حلال میوچل فنڈز میں انویسٹ کردیں(جو ہمارے لئے ایک محفوظ شکل ہے) یا پھراسلامی بانڈز(صکوک) کی خریدوفروخت کی صورت میں سرمایہ کاری کریں۔
واضح رہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کہ اپ سرمایہ کاری کے لیے کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں لیکن اس کا مقصد ہمیشہ سے انویسٹ کیے ہوئے پیسے پر منافع کمانا ہوتا ہے لہذان تمام صورتوں میں اگر ہمارے پاس ٹائم صلاحیت اور مہارت موجود ہے تویا تو ہم خود سے انویسٹمنٹ کریں گے یعنی خود سے شیئرز اور اسلامی بانڈز خریدیں گےاور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کریں گے۔
ورنہ اگر ہم خود سے مارکٹ میں پیسے انویسٹ نہیں کرسکتے ،خود سے مارکٹ میں شامل نہیں ہو سکتے، نیزہمارے پاس اتنی صلاحیت بھی نہیں ہے کسی کمپنیز کے شئرزخرید سکیں اور اس سے پیسے کما سکیں تو الحمد للہ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ایسے حلال متبادل موجود ہے جہاں ہم اپنے پیسے لگا سکتے ہیں، حلال کمپنیوں میں انویسٹ کرکےاہم جائز طریقے سے پیسہ کما سکتے اور انکم کرسکتے ہیں۔
لہذا ہم میں سے جو لوگ بھی اگرخود سے ان چیزوں میں شامل نہیں ہو سکتے اور سرمایہ کاری نہیں کرسکتے تو اس وقت حلال میوچل فنڈز زیادہ اچھا اور محفوظ طریقہ ہے اپنے پیسے انویسٹ کرکے حلال ذرائع سے پیسہ کمانے کا۔
میوچل فنڈزکیا ہے
میوچل فنڈز ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں لاکھوں لوگ ایک مشترکہ فنڈ میں سرمایہ لگاتے ہیں۔ ہر سرمایہ کار کو اس کےاپنے سرمائےپر اس کے سرمائے کی شرح سے نفع ملتا ہے۔ میوچول فنڈز میں انویسٹ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک اوسط درجے کا عام آدمی بھی جن کی کمائی یا انکم اتنی نہیں ہوتی کہ وہ مختلف قسم کے شیئر مارکیٹ کے شیئرز کو اپنے معمولی سی انکم میں خرید سکے، وہیں وہ میوچول فنڈ اسکیم کے ذریعے شئرز مارکٹ میں داخل(انٹر) ہوسکتا ہے اور عام آدمی بھی اس میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے توبآسانی سرمایہ کاری کر سکتا ہے کیونکہ میوچول فنڈز میں شامل ہونے سے وہ فنڈ کے مجموعی پورٹ فولیو میں شامل ہوکر اثاثے میں حصہ دار بن جاتاہے۔
بہت سے مسلمانوں کو میوچل فنڈزمیں پیسہ لگانے میں اس بات پر تشویش ہوتی ہے کہ ان کا پیسہ کہیں کسی غیر اسلامی سرمایہ کاری میں تو نہیں لگ رہا، انہیں تشویش ہوتی ہے کہ کہیں ہمارا پیسہ حرام کمپنیوں میں تو نہیں لگ رہا ہے، وہاں سے جو پرافٹ ہمیں مل رہا ہے وہ کہیں کسی حرام کمپنیوں کا تو نہیں ہے، جبکہ کچھ ایسیٹ مینجمنٹ کمپنیز ایسی ہیں جس نے صرف شرعیہ کمپلائنس فنڈز بھی متعارف کرائی ہیں جیسے کہ "ٹاٹا ایسٹ مینجمنٹ کے ذریعے قائم کردہ ٹاٹا میچول فنڈ کمپنی نے "ٹاٹا ایتھیکل فنڈ”کے نام سے ایک شریعہ کمپلائنس فنڈ آج سے 25 سال پہلے لانچ کیا تھا۔ یہ ٹاٹا ایتھیکل فنڈ ایک حلال اور متبادل کےطور پر ہمارے پاس موجود ہے جو شریعہ کمپلائنس ہےاور صرف حلال کمپنیوں میں ہی ہمارے پیسے کو لگاتی ہے، وہیں سے پرافٹ جنریٹ کرتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ میوچول فنڈ دوسرے میوچول فنڈ کے مقابلے میں کیوں حلال ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کیوں کہ ٹاٹا ایتھیکل فنڈ کو تاسیس شریعہ ایڈوائزری بورڈ نے شریعہ کمپلائنس میوچل فنڈ کے طور پر متعارف کرایا ہے اور اسے سرٹیفائیڈ کیا ہے۔
تاسیس شریعہ ایڈوائزری بورڈ کیا ہے؟
تاسیس شریعہ ایڈوائزری ایک ایڈوائزری ادارہ ہے جس کے پاس اسلامی مالیات اور معاملات میں مہارت رکھنے والے بھی ہیں اور ٹکنیکل ٹیم بھی موجود ہے جو شرعی اصولوں کے مطابق مالیاتی حل تلاش کرنے والے گاہکوں اور کلائنٹس کوکو مالی اور معاملاتی رہنمائی نیزمشاورتی خدمات (کنسلٹنسی)فراہم کرتی ہے۔ اس کا بنیادی مشن اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کلائنٹس یعنی لوگوں کےکے مالیاتی فیصلے اور لین دین اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں اور کسی بھی ممنوعہ عناصر (حرام)سے پاک ہوں، جیسے سود (ربا) اور ناجائز استحصال وغیرہ۔
تاسیس شریعہ ایڈوائزری بورڈ کے ایڈوائزری کونسل میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب، اور مفتی برکت اللہ صاحب قاسمی وغیرہ اور ٹیکنیکل ٹیم شامل ہیں۔
میوچل فنڈ میں بچت کا حجم (سائز)کیا ہونا چاہیے؟
بچت کے بارے میں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سوال آتا ہے کہ کم از کم کتنے پیسوں سے سرمایہ کاری کی جائے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ500 روپے میں بھی میوچوئل فنڈ کے یونٹ خرید سکتے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ چھوٹی بچت سے کیا ملے گا۔ ہر مہینے کے آغاز میں چھوٹی سی رقم نکال کر منظم سرمایہ کارانہ پلان میں لگائیے اور پھر باقاعدہ بچت کا آغاز کرکے، دیکھئیے ، انشاء اللہ پیسے بڑھتے ہی رہیں گے۔ بچت چاہے روزانہ کی ہو یا ماہانہ بنیادوں پر، رقم چھوٹی بڑی ہونے کی پروا کیے بغیر بچت کا آغاز فورآ کردینا چاہئے۔اور ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم ایک لمبے عرصے تک انویسٹ کرنے کی پلاننگ کریں اپنا ایل لمبا گول اور مقصد متعین کریں اور پھر انویسٹ کریں تاکہ لمبے عرصے تک منافع بھی زیادہ ملے جس کا ہم فیوچر میں استعمال یا اس سےکوئی کاروبار کر سکیں کیونکہ میوچول فنڈ کا کانسیپٹ ہی یہ ہے کہ جتنا لمبا عرصہ اس میں ہم اپنے پیسے کو رکھیں گے اتنا اچھا اور زیادہ منافع بھی ملے گا، کیوں کہ سرمایہ کاری پر قلیل مدتی فائدہ کم ملتا ہے ، اس لئے اگر کوئی شخص 25 سال کی عمر سے میوچوئل فنڈز، اسٹاکس، یا ریئل اسٹیٹ میں کم تر سرمایہ کاری سے آغاز کرے تو وہ 10 سے 15سال یا 20 سال میں خطیر رقم کا مالک بن سکتا ہے۔
باقی اس سلسلے میں مزید کوئی ہیلپ چاہئے جیسے کہ میوچول فنڈ میں انویسٹ کرنے کے لئے "کے وائی سی” کی ضرورت ہوتی ہے لہذا کے وائی سی پروسس میں کوئی راہنمائی چاہئے یا مزید معلومات کے لیے مدد چاہیے جیسے اس میں انویسٹ کیسے کرنا ہے یا کاس میں انویسٹمنٹ کیسے اسٹارٹ کریں وغیرہ اس طرح کے سوالات جاننا ہو یا کوئی ہیلپ چاہئے تو آپ کسی وقت بھی ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ہماری آرگنائزیشن ” انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس” بھی پوری طرح مدد کے لئے تیار ہے، کیوں کہ ہماری آرگنائزیشن صرف اسی کام کے لیے خاص ہے کہ لوگوں کے درمیان فائنانشیل لٹریسی پیدا کرے اس کی کمپین چلائے، حلال وحرام سود کے تعلق سے لوگوں کو آگاہ کرے، نیز حلال متبادل کے کےبارے میں لوگوں کو بتائے۔
انڈین سینٹر فار اسلامک فائنانس کیا ہے
انڈین سینٹر فار اسلامک فائنانس ایک نان پرافٹ آرگنائزیشن(این جی او)ہے اس ادارے کا مقصد اسلامی معیشت اور مالیاتی نظام کو مروجہ معاشی نظام کے متبادل کے طور پرلوگوں کے سامنے پیش کرنا اور اس کے لئے عوام میں بیداری اورائے عامہ کو اسلامی معیشت و مالیات و بنکاری کے لیے ہموار کرنا ،نیز رزق حلال کی طلب اور اس کی ضرورت پر زور دینا، سود کی حرمت و کراہیت اور غیر سودی نظام کی افادیت کو لوگوں کے سامنے اجاگر کرنا شامل ہے۔
اسی طرح سیاسی مالیاتی اور بینکاری کے حلقوں میں قانون میں ترمیم و تبدیلی کی کوشش اور اس کے لیے اہم شخصیت مثلا وزیراعظم، وزیر خزانہ پارلیمنٹ کے ممبرز، پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین اور ممتاز بنکروں سے ملاقاتیں اور دستاویزات کا تبادلہ شامل ہے۔
دوسری طرف ملک کے مختلف شہروں میں سیمینار، سمپوزیم اور ملکی سطح پر دوسرے اداروں اور کانفرنسوں میں شرکت کر کے اسلامی نظام معیشت و مالیات کو تمام انسانوں کے لیے فائدہ مند ہونے کی حیثیت سے پیش کرنا، غریب اور حاشیہ پر زندگی گزارنے والے طبقے کے لیے اسی نظام میں حصہ داری، اسلامک مائکرو فائنانس اوردوسرے بڑے پروجیکٹس وغیرہ کا تعارف بھی شامل ہے۔
نوٹ
واضح رہے کہ میوچل فنڈز کے بارے میں اس تحریر میں اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ورنہ میوچل فنڈز کیا ہے کیسے کام کرتا ہے، نیز اس میں کتنا رزق ہے یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر جلد ہی ہم اپنی تحریر آپ سے شئیر کریں گے۔
شکرا
07-16-2024
مفتی شہباز عالم ندوی
ریسرچ اسکالر ان اسلامک فائنانس
8287135063
Comments are closed.