مدارس اسلامیہ کے تحفظ کے لئے ارباب مدارس کی خدمت میں چند اہم تجاویز: ان قلعوں کی حفاظت کرنا دینی و دستوری فریضہ ہے

مفتی اسامہ ادریس ندوی ایڈوکیٹ
محترم حضرات!
بھارت کی سرزمین ہمیشہ سے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا سنگم رہی ہے۔ یہاں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے پیروکار صدیوں سے اپنے مذہبی اور ثقافتی حقوق کو برقرار رکھتے ہوئے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ بھارت کے آئین نے بھی ہر شہری کو اس بات کی مکمل آزادی دی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کرے، اس کی تبلیغ کرے اور اپنی مذہبی روایات کے مطابق زندگی بسر کرے۔
بھارت میں مسلمانوں کی تعلیمی اور ثقافتی ورثے کا ایک اہم جزو مدارس ہیں۔ یہ مدارس نہ صرف دینی تعلیم فراہم کرتے ہیں بلکہ بہت سے مدارس عصری علوم بھی پڑھاتے ہیں جو کہ مسلمانوں کی معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مدارس مسلمانوں کے لئے ایک قلعہ کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں نہ صرف دین کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو بھی پروان چڑھایا جاتا ہے۔ مدارس بھارت ملک کی تعمیر وترقی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں کہ وہ بغیر کسی سرکاری امداد کے ملک کی ایک بڑی آبادی کو تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں، مدارس کی یہ خصوصیات انہیں ملک کی تعلیمی نظام میں ایک مضبوط ستون بناتی ہیں۔
اترپردیش میں مسلمانوں کے خلاف جاری امتیازی سلوک کی صورت حال نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ گزشتہ سات سالوں میں صوبائی حکومت نے مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا ہے، اور اب یہ امتیازانہ سلوک مدارس تک پہنچ چکا ہے۔
1**حکومتی اقدامات** :اتر پردیش سرکار میں چیف سیکرٹری نے تمام ضلعوں کے ڈی ،ایم کو ایک حکم کے تحت 4204 کو غیر منظور شدہ مدارس کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے،ڈی ایم نے اس حکم پر عمل کرنے میں سختی برتنی شروع کردی ہے اور مدرسوں کی لسٹ بناکر قانونی کارروائی کی دھمکیاں مدرسے والوں کو دی جانے لگی ہے۔
*اس مسئلے کا تناظر*:
یہ صورتحال مدارس کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے کیونکہ یہ نہ صرف ان اداروں کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہی ہے بلکہ لاکھوں طلباء کی تعلیم پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ نہ صرف مدارس کی بقاء کو یقینی بنایا جا سکے بلکہ ان کی اہمیت اور افادیت کو بھی برقرار رکھا جا سکے۔
بھارتی آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی اور اس کی پیروی کا مکمل حق فراہم کرتا ہے۔ *خاص طور پر، آئین کی دفعہ 25، 26، اور 30 میں درج ذیل حقوق فراہم کیے گئے ہیں:*

1. دفعہ 25: ہر شخص کو اپنے مذہب کی پیروی، اس کی تبلیغ، اور مذہبی عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی بھی فرد اپنے مذہبی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکے۔
2. دفعہ 26: اس دفعہ کے تحت، مذہبی ادارے اپنے معاملات، عقائد، اور عبادات میں خود مختار ہوتے ہیں۔ یہ دفعات مذہبی اداروں کو اپنے قواعد و ضوابط بنانے کی آزادی فراہم کرتی ہیں۔
3. دفعہ 30: اقلیتوں کو اپنے مذہبی، لسانی، اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، جس میں مذہبی ادارے قائم کرنے اور ان کی تعلیمات کو فروغ دینے کا حق شامل ہے۔یعنی کہ وہ اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنا اور ان کا انتظام اور انصرام کرنا بنیادی حق ہے ۔
*مدارس کے آئینی حقوق*:
مدارس کو اپنے تعلیمی اور دینی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی مکمل آئینی آزادی حاصل ہے۔ اترپردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ ۲۰۰۴ میں کوئی ایسی شرط نہیں ہے جو مدارس کے لیے بورڈ سے منظوری لینا ضروری قرار دے۔ اس ایکٹ میں مدارس کی تعلیم اور ان کے انتظامات سے متعلق کوئی مخصوص شرط موجود نہیں ہے، جو کہ مدارس کے آئینی حقوق اور آزادی کے حق میں ہے۔
یہ حقوق اور آئینی تحفظ مدارس کو ان کی تعلیمی اور دینی خدمات فراہم کرنے میں مکمل آزادی دیتے ہیں، اور کسی بھی امتیازی سلوک یا قانونی رکاوٹ کے خلاف ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر حکومت مدارس کو غیر منظور شدہ مدارس بتا کر  کوئی کاروائی کررہی ہے، تو اس کی آئینی حیثیت اور تحفظ پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ مدارس کے حقوق کی مکمل پاسداری کی جا سکے۔‎
مدارس کی حفاظت اور ان کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے، ارباب مدارس کی خدمت میں کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں  جو اس موقع کی مناسبت سے بہت اہم اور ضروری ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعہ مدارس کے حقوق کو قانونی اور سیاسی سطح پر مضبوطی سے پیش کیا جا سکتا ہے۔:
1. *چیف سکریٹری کے حکم نامے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں*
*اقدامات*:
*- ماہر وکیل کی خدمات*: آئینی حقوق اور تعلیمی اداروں کے تحفظ پر مہارت رکھنے والے وکیل کی خدمات حاصل کریں تاکہ کیس کی مضبوط نمائندگی کی جا سکے۔
– *دستاویزات اور شواہد*: چیف سکریٹری کے حکم نامے، سروے رپورٹس، اور مدارس کی آئینی حیثیت سے متعلق شواہد اکٹھا کریں۔
– *پٹیشن دائر کریں*: ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کریں اور فوری سماعت کی درخواست کریں تاکہ فیصلہ جلد حاصل کیا جا سکے۔
* 2.*یوپی اسمبلی میں آواز اٹھائیں*
اقدامات
– *رکن اسمبلی سے رابطہ* : ارباب مدارس اپنے مقامی ایم،ایل ،اے یعنی رکن اسمبلی سے رابطہ کریں اور ان کو مدرسوں کے تعلق سے پیش آمد مسئلہ سے واقفیت کرائیں اور ان کو مدرسوں کی اہمیت ضرورت کے تعلق معلومات فراہم کرائیں اور یہ ہندی زبان میں ہو تاکہ وہ مدارس کے تعلق سے حمایت کرسکیں –
– *سوالات اور درخواستیں*: چند دنوں میں اترپردیش میں اسمبلی سیشن شروع ہونے جا رہا ہے ایسے میں مدارس کے مسائل پر سوال اٹھانے اور تحریری درخواستیں جمع کروانے کے لیے اپنے اپنے  ایم ایل اے یعنی رکن اسمبلی سے ملاقات کرکے ان سے ایسا کرنے کی درخواست کریں –
3. *لوک سبھا میں سوالات کروائیں*
*اقدامات*:
– *مسلم اراکین پارلیمنٹ سے رابطہ*: پارلیمنٹ کے مسلم اراکین سے رابطہ کریں جو مدارس کے حقوق کے مسائل پر سوالات اٹھا سکتے ہیں۔
– *سوالات تیار کریں*: لوک سبھا کے اجلاس میں مدارس کے مسائل پر سوالات تیار کریں اور ان کے جواب کے لیے درخواست کریں۔
-معلومات فراہم کریں اراکین پارلیمنٹ کو مکمل معلومات فراہم کریں تاکہ وہ درست سوالات اٹھا سکیں۔
4.*اپوزیشن کے لیڈر راہل گاندھی سے ملاقات کریں*
*اقدامات*
-ملاقات کا وقت طے کریں:راہل گاندھی یا دیگر اپوزیشن لیڈران سے ملاقات کا وقت طے کریں۔
– تفصیلی بریفنگ: مدارس کی صورتحال، حکومت کے اقدامات اور اس کے اثرات پر تفصیلی بریفنگ فراہم کریں۔
– درخواست:رہنماؤں سے درخواست کریں کہ وہ ایوان میں اس معاملے کو اٹھائیں اور مدارس کے حقوق کی حفاظت کریں۔
ان اقدامات کے ذریعے آپ مدارس کے حقوق کو قانونی، سیاسی، اور سماجی سطح پر مضبوطی سے پیش کر سکتے ہیں۔ یہ اقدامات مدارس کی موجودہ حالت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کو بھی یقینی بنائیں گے۔

Comments are closed.