سپریم کورٹ کا سپریم فیصلہ !

شکیل رشید
( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
سپریم کورٹ نے بالآخر نفرت کے فیصلے پر اسٹے لگا دیا ! کچھ لوگ اسے اتر پردیش ( یوپی ) کی یوگی حکومت کے لیے جھٹکا قرار دے رہے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ملک کو نفرت اور تعصب و فرقہ پرستی کے ایک بہت بڑے جھٹکے سے بچا لیا ہے ۔ کانوڑ یاترا کے روٹ پر دکانوں ، ہوٹلوں ، ڈھابوں اور تجارتی مراکز پر ، مالکان کے ناموں کی تختیاں لگانے کا یوگی سرکار کا حکمنامہ ، اس ملک کے لیے ایک جھٹکا ہی تھا ، اس معنیٰ میں کہ یہ سیدھے سیدھے ملک کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بانٹنے کی ایک انتہائی زہریلی کوشش تھی ، ایک ایسی کوشش جس کا موازنہ اگر ۱۹۴۷ء کو ملک کی تقسیم کرنے والے عناصر کی سرگرمیوں سے کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ آزادی کے فوراً بعد ملک میں جو فسادات پھوٹے تھے ، اور لاکھوں افراد کی جانیں گئی تھیں ، اس کا بنیادی سبب ہندوستانی شہریوں کو مذہب اور دھرم کی بنیاد پر بانٹنا تھا ۔ اور بانٹنے میں پیش پیش ، آج ہی کی طرح کے فرقہ پرست ہی تھے ۔ اب جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ، کہ کانوڑ روٹ پر کسی بھی دکان ، ہوٹل یا ڈھابے اور تجارتی مرکز کے مالکان کو اپنے ناموں کی تختیاں لگانے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا ، یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا فیصلہ فرقہ پرستانہ تھا ، وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دوریوں کو وسیع کرنا چاہتے تھے ، اور ان کا ایک مقصد مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ بھی تھا ، کیا وزیراعلیٰ یوگی کو نہیں چاہیے کہ وہ اخلاقی بنیاد پر گدّی چھوڑ دیں ؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب سب ہی کو پتا ہے ۔ یوگی کبھی گدّی نہیں چھوڑ سکتے ، انہوں نے یہ سارا کھیل ہی اپنی گدّی کو بچانے کے لیے کھیلا ہے ، ان کے لیے اخلاق کوئی معنی نہیں رکھتا ، ہر وہ عمل جو انہیں گدّی پر برقرار رکھے ، ان کے لیے اخلاقی ہے ! سپریم کورٹ نے جو سپریم فیصلہ دیا ہے وہ جماعت اسلامی ہند کی ایک ذیلی تنظیم ’ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سِول رائٹس ‘ ( اے پی سی آر ) کی پٹیشن کی بنیاد پر دیا ہے ۔ اس پٹیشن پر شنوائی کے دوران ’ شناخت کا بائیکاٹ ‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ۔ اس اصطلاح سے مراد کسی مخصوص فرقے کی مخصوص شناخت ہے ۔ شناخت رہن سہن کی بنیاد پر بھی ہو سکتی ہے اور کاروبار و پہناوئے کی بنیاد پر بھی ۔ اس ملک کے وزیراعظم نریندر مودی بہت پہلے کپڑوں سے پہچاننے کی بات کر چکے ہیں ۔ لوگ خوب جانتے ہیں کہ اس ملک میں فاشزم نے اس طرح سے سَر اٹھایا ہے کہ لوگوں کے گھروں کے اندر گھس کر چولہا دیکھا جاتا ہے ، ہانڈیاں جھانکی جاتی اور فریج کھولے جاتے ہیں تاکہ پتا چل سکے کہ کیا کھایا جا رہا ہے ، اور اسی بنیاد پر ماب لنچنگ کی جاتی ہے ۔ ٹرینوں اور بسوں میں یا سفر کے دوران یا راہ چلتے کپڑوں سے شناخت کرکے پِٹائی اور ماب لنچنگ کی جاتی ہے ۔ اور اب شناخت کا سب سے بہتر طریقہ ’ نام ‘ کو بنیاد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یوگی حکومت کا فیصلہ کہ ناموں کی تختیاں لگائی جائیں ’ ناموں کے ذریعے شناخت ‘ کی کوشش کرنے کی سمت ایک قدم تھا ، جس پر سپریم کورٹ نے اسٹے لگا کر اس ملک کے شہریوں کو ، جن میں ہندو اور مسلمانوں کے علاوہ دوسرے بھی شامل ہیں ، راحت اور سکون کا سانس لینے کا موقع دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنا فرض بحسن و خوبی ادا کیا ، اب اس ملک کے شہریوں کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا ، مذکورہ کوشش جیسی ہر کوشش کو ناکام بنا کر ۔ اے پی سی آر نے پٹیشن دائر کرکے اور یوگی حکومت کو چیلنج کرکے صحیح قدم اٹھایا تھا ۔ ایسے معاملات میں عام طور پر شورغل کیا جاتا ہے ، جو ضروری بھی ہے ، لیکن بنیادی کام ، یعنی قانونی کارروائی سے لوگ دور دور رہتے ہیں ، لیکن اے پی سی آر نے بغیر شور مچائے بنیادی کام کیا ، اس کا شکریہ واجب ہے ۔
Comments are closed.